امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصّہ چہارم
اِمام کے پیچھے قراءت نہ کرنا خلفاءِ راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا عمل :
اِمام کے پیچھے قراءت نہ کرنے پر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا عمل تھا ،حتی کہ خلفاِراشدین جیسی عظیم اور جلیل القدر شخصیات بھی اِسی پر عمل پیرا تھیں۔چنانچہ ذیل میں حضرات صحابہ کرام کے اقوال اور اُن کا عمل ملاحظہ فرمائیں، جس سے مسئلہ کو بہت اچھی طرح سمجھاجاسکتا ہے ،اِس لئے کہ حضرات صحابہ کرام سے زیادہ نبی کریم ﷺکی دین شناسی اور حدیث فہمی کا کوئی دَعویدار نہیں ہوسکتا ، لہٰذا حضرات صحابہ کرام کا عمل اِس بارے میں مضبوط اور ٹھوس دلیل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے اِرشاداتِ نبویہ علی صاحبہا التحیۃ و السلام کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ:«نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ» قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَشْيَاخُنَا أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: «مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ»قَالَ:وَأَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ،كَانُوا يَنْهَوْنَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ»۔ (مصنف عبد الرزاق:2810)
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن زید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ
نےامام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا ہے۔راوی حضرت عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مشائخ نے مجھے حضرت علیکا یہ اِرشاد سنایا ہے کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اُس کی نماز ہی نہیں ہوگی، اور حضرت موسیٰ بن عقبہ نے مجھے خبر دی ہے کہ نبی کریمﷺ،حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمر اور حضرت عثمان امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔
موطّاء امام محمد میں حضرت عمرکا یہ قول نقل کیا گیا ہے:”لَيْتَ فِي فَمِ الذي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ حَجَرًا“کاش! کہ اُس شخص کے منہ میں پتھر ڈال دیے جائیں جو امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے۔ (موطّاء امام محمد:98،چشتی)
قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:«تَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ»۔( ابن ابی شیبہ:3884)
ترجمہ:حضرت عُمر فرماتے ہیں:تمہارے لئے اِمام کی قراءت ہی کافی ہے۔
قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:لَا يُقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ جَهَرَ أَوْ لَمْ يَجْهَرْ۔ (القراءۃ خلف الامام للبیہقی:ص209)
ترجمہ:حضرت عمر بن خطابفرماتے ہیں :امام کے پیچھے قراءت نہیں کی جائے گی خواہ امام اونچی آواز سے تلاوت کرے یا نہ کرے۔
عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:«مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:3781)
ترجمہ:حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے مَروی ہے ،وہ فرماتے ہیں :جس نے اِمام کے پیچھے قراءت کی اُس نے فطرت کو کھودیا۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:مَنْ قَرَأَ مَعَ الْإِمَامِ فَلَيْسَ عَلَى الْفِطْرَةِ۔(مصنّف عبد الرزاق:2806)
ترجمہ:حضرت مُحمّد بن عجلان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا:جس نے اِمام کے ساتھ قراءت کی وہ فطرت پر نہیں ہے۔
عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ:«إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا، وَسَيَكْفِيكَ ذَاكَ الْإِمَامُ»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:3780)
ترجمہ:حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعودکی خدمت میں آیا اور یہ دریافت کیا کہ کیا میں اِمام کے پیچھےقراءت کروں؟ حضرت عبد اللہ بن مسعودنے اُس سے فرمایا:بیشک نماز میں مشغولیت ہوتی ہے اور تمہارے لئے وہی اِمام کافی ہے۔
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ:أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ لا يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ وَفِيمَا يُخَافِتُ فِيهِ فِي الأُولَيَيْن، وَلا فِي الأُخْرَيَيْن۔ (مؤطاء امام محمد:96)
ترجمہ: حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودامام کے پیچھے جہری اور سرّی کسی بھی نماز میں قراءت نہیں کیا کرتے تھے،نہ پہلی رکعتوں میں نہ آخری رکعتوں میں ۔
مصنّف عبد الرزاق میں اِمام کے پیچھے قراءت کرنے والے کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعودکایہ اِرشاد نقل کیا گیا ہے:”مُلِئَ فُوهُ تُرَابًا“اُس کا منہ مٹی سے بھردیا جائے۔ (مصنّف عبد الرزاق:2806)
حضرت ابواِسحاق فرماتے ہیں:”كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَقْرَؤُونَ خَلْفَ الْإِمَامِ“حضرت عبد اللہ بن مسعودکے اَصحاب اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے۔ (مصنّف عبد الرزاق:2806)
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الْإِمَامِ،فَقَالَ:لَا قِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ۔ (مسلم:577)
ترجمہ:حضرت عطاء بن یَسارسے مَروی ہے کہ اُنہوں نے حضرت زید بن ثابت سےاِمام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے فرمایا:اِمام کے ساتھ کسی بھی قسم کی قراءت نہیں ۔
حضرت زید بن ثابتفرماتے ہیں:”لَا قِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ“ اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کی جائے گی۔ (ابن ابی شیبہ:3783،چشتی)
حضرت موسیٰ بن سعیدحضرت زید بن ثابتکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : ”مَنْ قَرَأَ مَعَ الْإِمَامِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ“جو اِمام کے ساتھ قراءت کرے اُس کی نماز (کامل)نہیں ہوتی۔ (مصنّف عبد الرزاق:2802)
عَنِ ابْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا«كَانَا لَا يَقْرَآنِ خَلْفَ الْإِمَامِ»“۔ (مصنّف عبد الرزاق:2815)
ترجمہ:حضرت ابن ذکوانفرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن عمردونوں اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کیا کرتے تھے۔
عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مِقْسَمٍ أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ وَزَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنهُمْ ، فَقَالُوا:«لَا تَقْرَءُوا خَلْفَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ»۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی:1312)
ترجمہ: حضرت عُبید اللہ بن مِقسمفرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عُمر،حضرت زید بن ثابت اور حضرت جابر بن عبد اللہ سے (اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں)دریافت کیا،تو اِن سب نے یہی فرمایا:اِمام کے پیچھےکسی بھی نماز میں مت پڑھو۔
عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا أَقْرَأُ وَالْإِمَامُ بَيْنَ يَدَيَّ. فَقَالَ:«لَا»۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی:1316)
ترجمہ:حضرت ابوحمزہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباسسے دریافت کیا کہ کیا میں قراءت کرسکتا ہوں جبکہ اِمام میرے سامنے ہو ؟حضرت عبد اللہ بن عباسنے فرمایا: نہیں ۔
عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ:سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفِي كُلِّ صَلَاةٍ قِرَاءَةٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ».فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ:وَجَبَتْ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَكُنْتُ أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِنْهُ فَقَالَ: يَا كَثِيرُ مَا أَرَى الْإِمَامَ إِذَا أَمَّ الْقَوْمَ إِلَّا وَقَدْ كَفَاهُمْ۔(دار قطنی:1505،چشتی)
ترجمہ:حضرت ابودرداءفرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺسے دریافت کیا کہ
کیاہر نماز میں قراءت ہے،آپﷺنے فرمایا:ہاں !(ہر نماز میں قراءت ضروری ہے)۔اَنصار میں سے ایک شخص نے کہا: یہ(قراءت)تو واجب ہوگئی۔حدیث کے راوی حضرت کثیر بن مُرّہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابودرداء(اِس حدیث کو سنانے کے بعد)میری جانب متوجّہ ہوئے اور میں لوگوں میں اُن کے سب سے زیادہ قریب تھا،پس اُنہوں نے فرمایا:اے کثیر !میں تو صرف یہی سمجھتا ہوں کہ اِمام جب کسی قوم کی اِمامت کرےتووہ(قراءت کرنے میں) سب کی طرف سے کافی ہے۔
عَنْ نَافِعٍ وَأَنَسِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُمَا حَدَّثَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا أَنَّهُ قَالَ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ:«تَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ»۔(دار قطنی:1503)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عُمرسے مَروی ہے،وہ اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تمہارے لئےاِمام کی قراءت ہی کافی ہے۔
عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ: هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الإِمَامِ؟ يقول: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لاَ يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ۔ (مؤطاء مالک:251)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمر سے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے ، اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأ ت کرنی چاہیے۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اِمام کے پیچھے
قرأت نہیں کیا کرتے تھے۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَنْهَى عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2814)
ترجمہ:حضرت زید بن اَسلمفرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عُمراِمام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔
عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ:«مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ»۔«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»۔ (ترمذی:313)
ترجمہ:حضرت ابونُعیم فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے سنا ،وہ یہ فرمارہے تھے: جس نے نماز پڑھی اور اُس میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی، ہاں !مگر یہ کہ وہ اِمام کے پیچھے ہو(تو نماز ہوجائے گی )۔
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ قَالَ:سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَتَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: «لَا»۔ (مصنّف عبد الرزاق:2819)
حضرت عُبید اللہ بن مِقسمفرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ ظہر اور عصرکی نماز(یعنی سری نمازوں) میں اِمام کے پیچھے قراءت کرتے ہیں؟اُنہوں نے فرمایا: نہیں ۔
حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں:”وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فُوهُ،قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: تُرَابًا أَوْ رَضْفًا“میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ شخص جو اِمام کے پیچھے قراءت کرتا ہےاُس کا مٹی یا اَنگارہ سے بھرجائے۔ (مصنّف عبد الرزاق:2808)
اِمام شعبیفرماتے ہیں :”أدْرَكْتُ سَبعِيْنَ بَدرِيّاً كُلُّهُمْ يَمْنَعُونَ الْمُقْتَدِي عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ“میں نے70 بدری صحابہ کرام کو پایا ہے کہ وہ سب مقتدی کو اِمام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (تفسیرروح المَعانی:5/142)
عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي نِجَادٍ، عَنْ سَعْدٍ قَالَ:«وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي فِيهِ جَمْرَةٌ»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:3782)
No comments:
Post a Comment