حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین حدیث صحیح ہے
سنن نسائی میں باب ترک ذالک یعنی رفع الیدین چھوڑنے کا باب پھر اس کے تحت فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ۔ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ‘‘۔
ترجمہ : حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا ۔ اس باب میں براء بن عازب رضی ﷲ عنہ سے بھی روایت ہے ۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ حسن صحیح ہے اور یہی قول ہے صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں اہل علم کا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (جامع ترمذی: ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶؛ مشکاۃالمصابیح علامہ ناصرالدین البانی: ج۱، باب صفة الصلاة ، الأصل، رقم الحدیث۸۰۹)
اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ امامؔ نسائی رحمۃ اللہ علیہ جانی پہچانی شخصیت ہیں اور ان کے استاد سوید بن نصر رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق محدثؔ عبد العظیم منذری رحمۃ اللہ علیہ الترغیب والترہیب ص ۳۲۸ میں اور حافظؔ حجر رحمۃ اللہ علیہ تقریب ص ۲۱۷ طبع دہلی میں فرماتے ہیں ثقتہ، حضرت عبداللہ بن المابارک رحمۃ اللہ علیہ بالا تفاق ثقہ ہیں عبدالرحمٰن صاحب مبارک پوری غیر مقلد تحفتہ الاحوذی ص ۱۲۸، ج۲ طبع دہلی میں ان کے متعلق لکھتے ہیں ۔ عبد اللّٰہ بن المبارک المروزی احد الآ ئمۃ الا علام وشیخ الاسلام قال ابن عیینۃ ابن المبارک عالم المشرق والمغرب وما یینھما وقال شعبۃ ماقدم علینا مثلۃ ثقتۃ ‘’ شبت‘’ فقیہ‘’ عالؔم‘’ جوؔاد‘’’ جمعت فیہ خصال الخیر مات سنۃ۱۸۱ احدی وثمانین ومأ سۃ‘’ آھ بلفظہ باقؔی رواۃ کی توثیق اس حدیث کے بعد والی حدیت میں بیان ہوگی اور یہ حدیث صحیح ہے جو ترک رفع الیدین میں صریح ہے علاّمہ محمد ہاشم مدنی اپنے رسالہ کشف الرین عن مُسلتہ رفع الیدین میں فرماتے ہیں ۔ ان اسنادانسائی علی شرط الشیخین بحوالہ ھامش طحاوی ص۱۱۰ ج۱ وہامش نودی ص ۱۶۸ اور آثار السنن نیموی ص۱۰۳ ج۱ اونیل الفرقدین ص۶۴ وفتح الملہم شرح المسلم ص۱۳ج۲ میں ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے ترک رفع الیدین کی کئی روایات بیان کی گئی ہیں :
(1) ایک تو یہی حدیث ہے جو زیر بحث ہے اور خود حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ کے طریق سے مروی ہے اس کے الفاظ یہ نہیں جو جرح میں مذکور ہیں بلکہ اس کے الفاظ اس طرح ہیں ۔ (الا اخبرکم بصلوۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال فقام فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد )
(2) دوسری روایت ترمذی وغیرہ میں ہے جس کی سند میں حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ نہیں ہے لیکن اس حدیث کے الفاظ بھی جرح سے نہیں ملتے اس کے الفاظ اس طرح ہیں (اَلاَ اصلّی بکم صلوۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلّٰی فلم یرفع ید یہ اِلاّ فی اول مرۃ)
(3) تیسری روایت طحاوی میں ہے (عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم انہ کان یرفع ید یہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود) اور حضرت ابن المبارک ؒ کی جرح بھی اسی حدیث کے بارے ہے اور اس کا جواب وہاں دیا جائےگا ۔
(4) چوتھی روایت دار قطنی بیہقی وغیرہ میں ہے (عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال صلّیت مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما فلم یرفعوا ایدیہم الاّ عند الا فتتاح)
(5) مسند امام اعظم کی روایت اس طرح ہے : (ان عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کان یرفع یدیہ فی اول التکبر ثم لا یعودالی شئی من ذالک ویأثر ذالک عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
محترم قارئین : ان روایات کے ملاحظہ کرنے کے بعد آپ نے معلوم کرلیا ہوگا کہ جرح کے الفاظ تیسری حدیث طحاوی والی کے الفاط حدیث سے ملتے جلتے ہیں ان باقی روایات سے اس جرح کا کوئی تعلق نہیں اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی آدمی اس حدیث پر ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی جرح چسپاں کرنے کی کوشش کرے تو اس کا نراتعصب یاکم عقلی ہے ۔
حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کی اصل وجہ ملاحظہ ہو : حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ ترک رفع الیدین کی جس روایت کے راوی ہیں اس میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نماز کا نقشہ لوگوں کو پڑھ کر دکھایا ہے ۔ لیکن طحاوی والی روایت میں نہ نقشہ کا کوئی ذکر ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ تکلّم کا ذکر ہے بلکہ اس میں ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پہلی مرتبہ کے سوا رفع الیدین نہ کرتے تھے چونکہ حضرت ابن المبارکؒ نے یہ روایت اس طرح نہ سنی تھی اس لیے انہوں نے اعتراض کر دیا کہ یہ حدیث ثابت نہیں مگر یہ ابن المبارکؒ کا خیال ہے کیونکہ جو صحابیؓ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نماز کا عملاً نقشہ بیان کرتا ہے جس میں رفع الیدین نہیں اگر کسی موقعہ پر وہ قولاً یہ فرمادے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رفع الیدین نہ کرتے تھے تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے ۔ اور ان دونوں باتوں میں کیا تعارض ہے ؟
اگر بالفرض یہ جرح اسی حدیث کے بارے ہو جس کے ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ خود راوی ہیں تو (معاذ اللہ تعا لیٰ) پھر تو حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اس وعید کے تحت داخل ہوں گے ( من کذب علّی متعمّدً افلیتبوأ مقعلدہٗ من النّار اوکما قال النبی صلی اللّہ علیہ وسلم ) حالانکہ نہ جرح اس حدیث پر ہے اور نہ ابن المبارکؒ اس وعید کے مستحق ہیں ۔
حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں کہ سندِ حدیث دین کا حصّہ ہے اگر سند نہ ہوتی تو جس کا جو خیال ہوتا وہی کہہ دیتا ۔ (مقدمہ مسلم ص ۱۲ و سنن ترمذی ص۲۳۶ ج۲ ) حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ کا خیال درست نہیں کہ طحاوی والی روایت ثابت نہیں حالانکہ سند اُس کی بھی اس حدیث کی طرح صحیح ہے جب سند صحیح ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے ۔
علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ (املتوفی۷۰۲ھ جن کو علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ان القاب سے یاد کرتے ہیں الامام الفقیہہ املجتھدؔاملحدؔث الحافؔظ العّلاؔمۃ شیخ الاسلام تقی الیدین ابوالفتح محمد بن علی بن وہب (الیٰ) المالکی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ تذکرۃ الحفاۃ ص۲۶۲ ج ۴ ) اس جرح کا جواب یوں دیتے ہیں۔ (بان عدم ثبوت الخبر عندابن المبارک لا یمنع من النظرفیہ وھدیدور علی عاصربن کلیب وقدوثقہٗ ابن معین)
بحوالہ نصب الرایہ ص۳۵۹ج۱ وفتح المہلم ص۱۳ج۲ یضی حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں حدیث کا ثابت نہ ہونا اس حدیث پر عمل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی توثیق کی ہے ۔ الحاصل ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ جس حدیث کے راوی ہیں جرح اس پر نہیں بلکہ دوسری پر ہے اللہ تعالیٰ معترضین حضرات کو صحیح سمجھ نصیب فرمادے آمین ۔
حدیث ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کو صحیح قرار دىنے والے حضرات مجتہدین ومحدثىن
تنبیہ : اصول فقہ و حدیث کا ضابطہ ہے کہ ’’اذا استدل المجتہد بحدیث الخ‘‘۔ ’’جس حدیث سے کوئی فقىہ و مجتہد ومحدث استدلال کرے وہ اس کے نزدىک صحیح ہے‘‘۔ (تدریب الراوی :ج ۱، ص ۴۸؛ تلخىص الحبیر : ج۲، ص۱۴۳؛ قواعد فی علوم الحدیث:ص۵۷)
۱۔ حضرت ابر اہیم النخعی رحمۃ ﷲ علیہ ۹۶ھ (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن: ص ۱۳؛مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛ کتاب الحجہ لامام محمد: ج۱،ص۹۶؛ مسند ابن الجعد: ص۲۹۲؛ سنن الطحاوی : ج۱،ص۱۶۱ ،۱۶۳؛ مشکل الآثار للطحاوی: ج۲،ص۱۱؛ جامع المسدنید: ج۱،ص۳۵۲؛ معجم الکبیر للطبرانی: ج۲۲،ص۲۲؛ سنن دار قطنی : ج۱،ص۳۹۴؛ سنن الکبری للبیہقی: ج۲، ص۸۱،چشتی)
۲۔ امام اعظم ابو حنیفہ التابعی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۵۰ھ (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن : ص۱۳؛ مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص ۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛ کتاب الحجہ: ج ۱،ص۹۶؛ سنن الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ جامع المسانید:ج۱،ص۳۵۳؛ الاوسط لا بن المنذر : ج۳،ص۱۴۸؛ التجريد للقدروی؛ ج۵،ص۲۷۲؛ حلیة العماءللشاشی: ج۱،ص۱۸۹؛ المحلی ابن حزم: ج۴،ص۱۱۹ ،ج۱ص۳۰۱؛ التمیہد: ج۹،ص۲۱۳؛ الاتذکار لا بن البر : ج۴،ص ۹۹؛ مناقب المکی :ج۱،ص۱۳۰؛ مغنی لابن قدامہ: ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام: ج۱،ص۲۶۳؛ شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی: ج۵،ص۱۴۶۶۔۱۴۶۷؛ عمدة القاری:ج۵،ص۲۷۲)
۳۔ امام سفیان ثوری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۶۱ھ (جز رفع الیدین :ص۴۶؛ ترمذی :ج ۱ص۵۹؛ الاوسط لابن منذر :ج۳،ص۱۴۸؛ حلیة العماءللشاشی :ج۱،ص۱۸۹؛ التجرید للقدوری :ج۱،ص۲۷۲؛ شرح البخاری لابن بطال :ج۲،ص۴۲۳؛ التمہید :ج ۹،ص۲۱۳؛الاستذکار :ج۴،ص۹۹؛ شرح النہ للبغوی :ج۲، ص۲۴؛مغنی لابن قدامہ :ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام لابن شداد :ج۱،ص۲۶۳؛ شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی :ج۵،ص۱۴۶۶؛عمدة القاری :ج۵،ص۲۷۲،چشتی)
۴۔امام ابن القاسم المصری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۹۱ھ (المدونة الکبریٰ ا لامام مالک: ج۱، ص۷۱)
۵۔ امام وکیع بن الجراح الکوفی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۹۷ھ (جزءرفع الیدىن للبخاری :ص۴۶؛ عمدة القاری ج۵،ص۲۷۲)
۶۔امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۴۶ھ (سنن دار قطنی: ج۱، ص۳۹۹،۴۰۰؛ سندصحیح)
۷۔امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ ﷲ علیہ ۲۵۶ھ (جزءرفع الیدین للبخاری: ص۲۵، للزئی: ص۱۱۲)
۸۔ امام ابو داؤد السجستانی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۷۵ھ (تاریخ بغداد الخطیب: ج۹،ص۵۹؛ تذکرة الحفاظ: ج۲ص۱۲۷؛ النکت لابن حجرص:ص۱۴۱)
۹۔امام ابو عیسی ترمذی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۷۹ھ (سنن ترمذی: ج۱،ص۵۹؛ شرح الھدایہ للعینی: ج۲،ص۲۹۴)
۱۰۔ امام احمد بن شعیب نسائی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۰۳ھ (النکت لابن حجر: ص۱۶۵؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۱۱۔ امام ابو علی الطوسی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۱۲ھ (مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی: ج۲، ص۱۰۳؛ شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)
۱۲۔ امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۲۱ ھ(الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی: ص۷۷،۷۸)
۱۳۔امام ابو محمد الحارثی البخاری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۴۰ھ (جامع المسانید: ج ۱، ص۳۵۳، مکة المکرمة،چشتی)
۱۴۔امام ابو علی النسابوری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۴۹ھ (النکت لابن حجر ؒ: ص۱۶۵؛ زہر الربی علی النسائی للسیوطی: ص۳)
۱۵۔امام ابو علی ابن السکن المصری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۵۳ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۱۶۔ امام محمد بن معاویہ االاحمر رحمۃ ﷲ علیہ ۳۵۸ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۱۷۔امام ابو بکر ابن السنی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۶۴ھ (الارشاد لامام الخلىلی: ص ۱۳۱؛ زہر الربی للسیوطی: ص ۳)
۱۸۔ امام ابن عدی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۶۵ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی ص۳)
۱۹۔امام ابو الحسن الدار قطنی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۸۵ھ (کتاب العلل: ج ۵، ص۱۷۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی: ص۳)
۲۰۔ امام ابن مندة رحمۃ ﷲ علیہ ۳۹۰ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۱۔ امام ابو عبد اﷲ الحاکم رحمۃ ﷲ علیہ ۴۰۵ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۲۔ امام عبد الغنی بن سعید رحمۃ ﷲ علیہ ۴۰۹ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۳۔ امام ابو الحسین القدوری رحمۃ ﷲ علیہ ۴۲۸ھ (التجرید للقدوری ؒ: ج۲، ص۵۱۸)
۲۴۔امام ابو یعلی الخلیلی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۴۶ھ (الارشاد للخلیلی: ص ۱۱۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۵۔ امام ابو محمد ابن حزم رحمۃ ﷲ علیہ ۴۵۶ھ (المحلی لا بن حزم: ج ۴، ص۱۲۱، مصر)
۲۶۔ امام ابوبکر الخطیب للبغدادی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۶۳ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۷۔ امام ابوبکر السرخسی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۹۰ھ (المبسوط للسرخسی: ج ۱، ص۱۴)
۲۸۔ امام موفق المکی رحمۃ ﷲ علیہ ۵۶۸ ھ (مناقب موفق المکی: ج۱، ص۱۳۰، ۱۳۱،چشتی)
۲۹۔ ابو طاہر السلفی ۵۷۶ھ (النکت لا بن حجر: ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۳۰۔ امام ابوبکر کاسانی رحمۃ ﷲ علیہ ۵۸۷ھ (بدائع الصنائع للکاسانیؒ: ج۱، ص۴۰)
۳۱۔امام ابن القطان الفاسی رحمہ اﷲ ۶۲۸ھ (بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی: ج۳، ص۳۶۷)
۳۲۔ امام محمد الخوارزمی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۵۵ھ (جامع المسانید)
۳۳۔امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۸۶ھ (اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب: ج۱، ص۲۵۶)
۳۴۔ امام ابن الترکمانی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۴۵ھ (الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی: ج۲، ص۷۷، ۷۸)
۳۵۔امام حافظ مغلطائی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۶۲ھ (شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)
۳۶۔ امام حافظ زیلعی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۷۲ھ (نصب الرایہ للزیلعی: ج۱، ص۳۹۶؛ وفی نسخة: ج۱، ص۴۷۴)
۳۷۔امام حافظ عبد القادر القرشی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۷۵ھ (الحاوی علی الطحاوی: ج ۱، ص۵۳۰)
۳۸۔ امام فقیہ محمد البابرقی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۸۶ھ (العنایہ شرح الھدایہ: ج۱، ص۲۶۹)
۳۹۔ امام فقیہ محمد الکردری رحمۃ ﷲ علیہ ۸۲۶ ھ (مناقب کردری: ج۱، ص۱۷۴)
۴۰۔محدث احمد بن ابی بکر البوصیری رحمۃ ﷲ علیہ ۸۴۰ھ (اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری: ج۱۰، ص۳۵۵، ۳۵۶)
۴۱۔ محدث محمود العینی رحمۃ ﷲ علیہ ۸۵۵ھ (شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ : ج ۳، ص۳۴۱، ۳۴۲؛ شرح الھدایہ عینی: ج۲، ص۲۹۴)
۴۲۔امام ابن الھمام رحمۃ ﷲ علیہ ۸۶۱ھ (فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام: ج۱، ص۲۶۹، ۲۷۰)
۴۳۔ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۰۱۴ھ (مرقات: ج۲،ص۲۶۹؛ شرح الفقایہ: ج۱، ص۲۵۷، ۲۵۸؛ شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری: ص۳۸)
۴۴۔ امام محمد ھاشم السندھی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۱۵۴ھ (کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی: ص۱۵، ۱۶)
۴۵۔امام حافظ محدث محمد الزبیدی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۲۰۵ھ (عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی)
۴۶۔ امام محمد بن علی النیموی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۳۴۴ھ (آثار السنن مع التعلیق للنمیوی : ص۱۳۲)
۵۱۔ غیر مقلد عالم محمد زہیر الشاویش (تعلیق علی شرح السنة للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)
غیر مقلد عالم احمد محمد الشاکر المصری (الشرح علی الترمذی لا حمد شاکر المصری: ج۲، ص۴۱، دارالعمران بیروت)
علامہ شعیب الارناؤط (تعلیق علی شرح السنہ للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)
غیرمقلدعالم عطاء اﷲ حنیف (تعلقات سلفیہ علی سنن النسائی: ص۱۲۳)
الشیخ حسین سلیم اسد (تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد: ج۸،ص۴۵۴۔ ج۹، ص۲۰۹، دمشق بیروت)
غیر مقلد عالم ابراہیم سیالکوٹی (واضح البیان، ص۳۹۹)
غیر مقلد محدث ناصر الدین البانی (مشکوة بتحقیق الالبانی :ج۱، ص۲۵۴، بیروت؛ سنن الترمذی: ج ۱، ص۷۱) . حدیث حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اﷲعنہ کے تمام راوی ثقہ ہیں اور سند بالکل صحیح ہے جیسا کہ محدثین کی تصحیح اوپر پیش کی جاچکی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment