ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ سوم
آمین آہستہ کہنا
اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے:﴿اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ترجمہ:تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو،یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(الأعراف:55،)
وضاحت:مذکورہ آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آہستہ دُعاء کرنے کا حکم دیا ہے
اور آمین کہنا بھی ایک دُعاء ہے ، چنانچہ :
(1)حضرت عطاء فرماتے ہیں: آمین کہنا دُعاء ہے۔(بخاری:1/156)
(2)حضرت ہاروننےحضرت موسیٰکی دُعاء پر جو آمین کہا تھا اُس کو بھی قرآن کریم میں ”دُعاء“قرار دیا گیاہے۔(یونس:89)(تفسیر بغوی)
(3)آمین کامعنی ہی دُعاء کے ہیں،چنانچہ اس کےمعنی”اِسْمَعْ وَاسْتَجِبْ“کے ہیں، یعنی اے اللہ! سن لیجئے اور قبول فرمالیجئے۔
لہٰذا مذکورہ بالا وجوہات کی بنیاد آمین بھی قرآن کریم کے مطابق آہستہ اور خفیہ کہنا چاہیئے تاکہ دُعاء کے اَدب کا لحاظ اور اُس کی رِعایت کی جاسکے۔
لفظِ آمین کو اللہ کے ناموں میں سے ایک نام بھی کہا گیا ہے ،چنانچہ کئی روایات میں ہے:”آمِينَ:اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ“یعنی آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7971)پس گویا آمین کہنے والا اللہ کا ذکر کرتا ہے اورذکر میں اصل ”اِخفاء“ یعنی ہلکے ذکر کرناہے،چنانچہ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آہستہ ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ،پس اِس سے معلوم ہواکہ آمین آہستہ کہنا چاہیئے تاکہ ذکرکے اَدب کا لحاظ اور اُس کی رِعایت کی جاسکے۔
علّامہ فخر الدّین رازیجوکہ شافعی المسلک ہیں ،اُنہوں نے آمین کے بارے میں اِسی مذکورہ بالا تحقیق کو بڑے اچھے اور عُمدہ انداز میں پیش کیا ہے ،جواُن ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
”فِي قَوْلِهِ:«آمِينَ»وَجْهَانِ:أَحَدُهُمَا: أَنَّهُ دُعَاءٌ. وَالثَّانِي: أَنَّهُ مِنْ أسماء اللَّهِ، فَإِنْ كَانَ دُعَاءً وَجَبَ إِخْفَاؤُهُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً وَإِنْ كَانَ اسْمًا مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى وَجَبَ إِخْفَاؤُهُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً﴾فَإِنْ لَمْ يَثْبُتِ الْوُجُوبُ فَلَا أَقَلَّ مِنَ النَّدْبِيَّةِ وَنَحْنُ بِهَذَا الْقَوْلِ نَقُولُ“۔(تفسیر کبیر للرازی:14/282،چشتی)
ترجمہ:آمین کے بارے میں دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ یہ دُعاء ہے اور دوسرا یہ کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے،پس اگر یہ دُعاء ہے تو اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہےاِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:”تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو“اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہےتب بھی اس کو ہلکی آواز میں پڑھنا واجب ہے، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اوراپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتا ہوا اور ڈرتاہوا یاد کرتا رہ“۔پس اگر(آمین کو آہستہ کہنے کا)وجوب ثابت نہ بھی ہو تب بھی یہ مستحب ہونے سے کم تو نہیں ہوگا ، اور ہم بھی یہی کہتے ہیں۔
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَرَأَ:{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}قَالَ: "آمِينَ " وَأَخْفَى بِهَا صَوْتَهُ۔ (مسند احمد:18854)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺنے ہمیں نماز پڑھائی اور جب سورہ فاتحہ ختم کی تو آہستہ آواز میں آمین کہی۔
عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ:كَانَ عُمَرُ وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا لَا يَجْهَرَانِ بِ{بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}وَلَا بِالتَّعَوُّذِ,وَلَا بِالتَّأْمِينِ۔ (شرح معانی الآثار:1208)
ترجمہ:حضرت عمر اور علی تسمیہ ، تعوذ اور آمین بلند آواز میں نہیں کہا کرتے تھے ۔
خَمْسٌ يُخْفِيَنَّ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَآمِينَ، وَاللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ۔ (مصنف عبد الرزاق:2597)
ترجمہ : مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء ، تعوذ ، تسمیہ ،آمین اور تحمید ۔
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،قَالَ:أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ،قَالَ:سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ قَالَ:سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ، يُحَدِّثُ عَنْ وَائِلٍ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَرَأَ{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}قَالَ:«آمِينَ»خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ۔(مسند ابوداؤد الطیالسی:1117،چشتی)
ترجمہ:حضرت شُعبہ سے مَروی ہے کہ سلمہ بن کُہیل فرماتے ہیں کہ میں نے حُجر ابو العنبَس سے سنا ہے وہ فرمارہے تھے کہ میں نے علقمہ بن وائل سے سنا ،وہ(اپنے والد) حضرت وائل بن حُجر سے نقل کرتے ہیں جبکہ(حضرت حُجر ابو العنبَس کے قول کے مطابق) میں نے خود بھی حضرت وائل بن حُجر سے سنا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکے ساتھ نماز پڑھی،جب آپﷺنے(سورۃا لفاتحہ کے اختتام پر) ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾پڑھاتوآہستہ آواز میں آمین کہا ۔
سفیان ثوریاورشُعبہکی روایت کا تعارض :
حضرت وائل بن حُجرکی مذکورہ بالا روایت حدیث کی کئی معتبرکتابوں میں موجود ہے، اِس کو حضرت سُفیان ثوریاوراِمام شُعبہدونوں ہی نے نقل کیا ہے، حضرت شُعبہ کی روایت میں آمین آہستہ کہنے کا تذکرہ ہے جبکہ حضرت سُفیان ثوریزور سے آمین کہنا نقل کرتے ہیں،اور دونوں ہی کی روایت کردہ حدیث صحیح ہے ،اس میں صحت و ضعف کا کوئی فرق نہیں ،لہٰذاروایات کے اِس تعارض کو دور کرنے کیلئے ترجیح کے طریقے پر عمل کیا گیا ہے ،آمین بالجہر کے قائلین نے حضرت سفیان ثوریکی روایت کو ترجیح دی ہے جبکہ آمین بالسّر کے مسلَک کو اختیار کرنے والے اِمام شُعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔
﴿آمین بالسّر کی روایت کے راجح ہونے کی وجوہات﴾
حضرت شُعبہ کی روایت جس میں آمین کا سراً ہونا مذکور ہے،اُس کے راجح ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
(1)آمین کے آہستہ کہنے کی روایت اَوفَق بالقرآن یعنی قرآن کریم کے زیادہ مطابق ہے،اِس لئے کہ ”آمین“بالاتفاق ایک دُعائیہ کلمہ ہے اور دُعاء کے بارے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے کہ اُسے آہستہ مانگنا چاہیئے ،پس اِسی لئے آمین کا کلمہ بھی آہستہ ہی کہنا چاہیئے ۔
(2)آمین کے آہستہ کہنے پربہت سے صحابہ کرام حتی کہ خلفاء راشدین اورحضرت عبد اللہ بن مسعود اور تابعین کا بھی عمل ہے جو خود ایک بہت بڑی وجہ ترجیح ہے جس سے حضرت شُعبہکی آمین بالسّر کی روایت کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے۔
(3)نبی کریمﷺکازورسے آمین کہنا تعلیم و تلقین کیلئے یعنی سکھانے کیلئے تھا ،مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،چنانچہ خود صحابی رسول حضرت ابووائل بن حجر نےاس کی صراحت کی ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں:”فَقَالَ:«آمِينَ»يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا“یعنی آپ ﷺنے(سورۃ الفاتحہ کے بعد)بلند آواز سے آمین کہا ،جس کے بارے میں میرا خیال یہی ہے کہ آپ ﷺنےہمیں سکھانے کیلئے زور سے آمین کہا تھا۔( الکنیٰ و الاسماء للدولابی:1090،چشتی)
اِسی طرح حضرت وائل بن حُجر ہی کی ایک روایت میں ہے:”فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ:«آمِينَ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ“کے الفاظ مَروی ہیں،یعنی جب آپ
ﷺسورۃا لفاتحہ سے فارغ ہوئےتو تین مرتبہ آمین کہا ۔(طبرانی کبیر:22/22)
غور کیجئے !مذکورہ روایت کا اِس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ یہ تین مرتبہ آمین کہنالوگوں کو تعلیم دینے اوراُنہیں سکھانے کیلئے تھا ،پس جس طرح آپﷺکاخلافِ معمول ایک سے زائد مرتبہ آمین کہنا لوگوں کو سکھانے کیلئے تھا اِسی طرح خلافِ معمول آواز سے آمین کہنا بھی تعلیم و تلقین کیلئے تھا،کوئی مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،ورنہ ان روایاتِ جہریہ کے ہوتے ہوئے حضرت عُمر ،حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے سراً آمین کہنے کا کیا مطلب ہوگا۔
(4)آمین کے زور سے کہنے کا مطلب بہت زیادہ اونچی آواز کے ساتھ آمین کہنا نہیں بلکہ اس سے”جہرِ خفیف“یعنی ہلکی آواز سے آمین کہنا مراد ہےجو سراً آمین کہنے کے خلاف نہیں ،اور اس کی تائید کئی روایات سے ہوتی ہے ،چنانچہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہےجس میں نبی کریمﷺکے آمین کہنے کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے: ”حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ“یعنی آپﷺنے سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اتنی آواز سے آمین کہا یہاں تک کہ آپ ﷺسے متصل پہلی صف کے کچھ لوگوں نے سنا۔(ابواداؤد:934)
روایتِ مذکورہ میں”مِنْ“ تبعیضیہ یعنی بعضیت کو بیان کرنے کیلئے ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ”پہلی صف کےکچھ لوگوں نے سنا“پوری صف کے لوگوں کا سننا مراد نہیں ، کیونکہ اگر یہ تبعیض کیلئے نہ ہو اور مطلب یہ لیا جائے کہ پہلی صف کے تمام لوگوں نے سن لیا تو یہ درست نہ ہوگا کیونکہ یہ کیسے مُمکن ہوسکتا ہے کہ پہلی صف میں دور تک دائیں بائیں جانب کےتمام لوگوں نے تو سن لیا ہو لیکن اِمام کے بالکل پیچھے قریب کے
دوسری صف میں کھڑے ہوئےلوگوں تک بھی آواز نہ پہنچی ہو ۔اِسی طرح ایک روایت میں ہے:”حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ يَلِيهِ“یعنی آپﷺاِتنی آواز سے آمین کہتے کہ اپنے سے متصل لوگوں کوسنادیا کرتے تھے۔(مصنّف عبد الرزاق:2632)
پس اِن روایات کی روشنی میں روایاتِ جہریہ کا مطلب بھی ”جہرِ خفیف“ہی لیا جائے گا اوریہ نبی کریمﷺکایہ عمل بھی لوگوں کو تعلیم دینے اور سکھانے کیلئےتھا ۔پس اِس طرح روایات کا باہمی تضاد بھی باقی نہ رہے گا ،حضرات صحابہ کرام کے عمل کی اتباع بھی ہوجائے گی اور دُعاء کا جو اصل ادب ہے اُس کی رعایت بھی ہوسکے گی ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment