Wednesday 26 December 2018

ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ پنجم

0 comments
ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ پنجم

رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع یدین نہ کرنا

اِس مسئلہ میں بھی بعض لوگ بڑی شدّت اور غُلو سے کام لیتے ہیں اور رفعِ یدین نہ کرنے والوں کی نماز کو فاسد اور ناقص قرار دیتے ہیں ، اِس لئے اِس مسئلہ کو قدرے تفصیل سے ذکر کیا جارہا ہے تاکہ حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جاسکے:
نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے ہوئے یا رکوع سے اُٹھتے ہوئے ہاتھوں کو کانوں تک نہیں اُٹھایا جاتا اور اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ:أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً۔ (نسائی:1058)(ابوداؤد:748)
ترجمہ: نبی کریم ﷺکے سفر و حضرکے ساتھی حضرت عبد اللہ بن مسعود﷛ایک دفعہ لوگوں سے فرمانے لگے:میں تمہیں نبی کریم ﷺکی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں ؟ اُس کے بعدحضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ تکبیر میں ہاتھوں کو اٹھایا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:«صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ»۔(مسند ابویعلیٰ موصلی:5039)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق﷛ او ر حضرت عمر ﷛کے ساتھ نماز پڑھی ، انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔
عَنِ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ لَا يَعُودُ۔(ابوداؤد:748)
ترجمہ:حضرت براء بن عازب﷛سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺجب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں قریب تک اُٹھاتے پھر اُس کے بعد(رکوع میں جاتے ہوئے یا رکوع سے اُٹھتے ہوئے ) دوبارہ نہیں اُٹھاتے تھے۔
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا حَتَّى انْصَرَفَ۔(ابوداؤد:752)
ترجمہ: حضرت براء بن عازب﷛فرماتے ہیں : میں نے نبی کریمﷺکو دیکھا ،آپ نے نمازکے شروع میں اپنے ہاتھ اُٹھائے پھر فارغ ہونے تک دوبارہ نہیں اُٹھائے۔
حضرت براء بن عازب اور عباد بن زبیر ﷠کی روایتوں میں بھی نبی کریم اکا یہی عمل منقول ہے کہ آپ ﷺنے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو اٹھایا اور اُس کے بعد نماز سے فارغ ہونے تک دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھائے ۔
عَن عباد بن الزبير رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ كَانَ إِذا افْتتح الصَّلَاة رفع يَدَيْهِ فِي أول الصَّلَاة ثمَّ لم يرفعها فِي شَيْء حَتَّى يفرغ۔(الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ:1/152)
ترجمہ: حضرت عبا دبن زبیر﷛سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺجب نماز شروع کرتے تو نماز کے شروع میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے پھر (نماز سے)فارغ ہونے تک کسی بھی رکن میں ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:«مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»۔(مسلم:430،چشتی)
ترجمہ:حضرت جابر بن سمرہ﷛فرماتے ہیں ایک دفعہ نبی کریمﷺہمارے پاس (حجرہ سے)نکل کر تشریف لائے اور فرمایا: مجھے کیا ہوا کہ میں تم لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ نماز میں اپنے ہاتھوں کو ایسے اُٹھارہے ہو جیسے وہ بدکے ہوئے گھوڑے کی دُمیں ہیں (ایسا نہ کیا کرو)نماز میں سکون سے رہا کرو۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:«لَا تُرْفَعُ الْأَيْدِي إِلَّا فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَيَنْظُرُ إِلَى الْبَيْتِ، وَحِينَ يَقُومُ عَلَى الصَّفَا، وَحِينَ يَقُومُ عَلَى الْمَرْوَةِ، وَحِينَ يَقِفُ مَعَ النَّاسِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ وبِجَمْعٍ، وَالْمَقامَيْنِ حِينَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ»۔(طبرانی کبیر:12072)
ترجمہ:حضرت ابن عباس﷠نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : ہاتھوں کو صرف سات مقامات پر اُٹھایا جائے گا :نماز شروع کرتے ہوئے ،جب مسجدِ حرام میں داخل ہوکر بیت اللہ پر نگاہ پڑے،جب صفاء کی پہاڑی پر چڑھے،جب مَروہ کی پہاڑی پر چڑھے،جب عرفہ کی شام لوگوں کے ساتھ وقوف کرے،اور مزدلفہ میں (وقوفِ مزدلفہ کے وقت)دونوں مقام پر جبکہ جمرہ کی رمی کرے۔

ترکِ رفعِ یدین کے مسئلہ میں خلفاءِ راشدین اور دیگر صحابہ کرام کا عمل

حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛فرماتے ہیں :”صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ“ میں نے رسول اللہﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق﷛ او ر حضرت عمر ﷛کے ساتھ نماز پڑھی،انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔(مسند ابویعلیٰ موصلی:5039)
حضرت اسود﷫فرماتے ہیں:”صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ“میں نےسیدنا حضرت عمر بن خطاب ﷛کے ساتھ نماز پڑھی،اُنہوں نےنماز کے شروع میں تکبیر کے علاوہ کسی اور جگہ ہاتھ نہیں اُٹھایا۔(مُصنّف ابن ابی شیبہ:2454)
حضرت عاصم بن کلیب﷫ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں:”أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ“حضرت علی ﷛جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک)دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2442)
اِمام مالک﷫فرماتے ہیں کہ مجھےحضرت نُعیم مُجمر اور ابو جعفر قاری﷮نے خبر دی ہے:”أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَكَانَ يُصلّي بِهِم فَكبَّر كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ“حضرت ابوہریرہ﷜اُنہیں نماز پڑھاتے تھےتو ہر اُٹھتے اور جھکتے ہوئے تکبیر(یعنی اللہ اکبر) کہتے تھے۔حضرت ابوجعفرقاری﷫ فرماتے ہیں:وَکَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِيْنَ يُکَبِّرُ وَ يَفْتَحُ الصَّلٰوةِ۔حضرت ابوہریرہ﷜صرف نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔(مؤطا امام محمد:88)
حضرت ابراہیم نخعی﷫حضرت عبد اللہ بن مسعود﷛کے بارے میں فرماتے ہیں: ”كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَا يَسْتَفْتِحُ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا“یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود﷛نماز کے شروع میں (تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے)ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر(آخر تک)نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2443،چشتی)
حضرت مُجاہد ﷫فرماتے ہیں :”مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ“میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر﷠ کو صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔(مصنّف ابن ابی شیبۃ:2452)
حضرت مُجاہد ﷫فرماتے ہیں:”صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ“میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر﷠کے پیچھے نماز پڑھی ،اُنہوں نے نماز کی صرف تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اُٹھایا۔(طحاوی:1357)

ترکِ رفعِ یدین کے مسئلہ میں کبار تابعین کا عمل

حضرت اسود﷫فرماتے ہیں:”رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ،ثُمَّ لَا يَعُودُ، قَالَ: وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلَانِ ذَلِكَ“ میں نے حضرت عمر﷛کو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیر(تکبیرِ تحریمہ)میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے پھر دوبارہ (آخر تک)نہیں اُٹھاتے،راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم نخعی اور حضرت شعبی﷮کو بھی دیکھا کہ وہ بھی اِسی طرح کرتے تھے۔(طحاوی:1364)
حضرت شعبی﷫کے بارے میں منقول ہے:”أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ،ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا“ وہ صرف پہلی تکبیر (یعنی تکبیرِ تحریمہ)میں ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک)نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2444)
حضرت ابراہیم نخعی﷫فرماتے ہیں:”لَا تَرْفَعْ يَدَيْكَ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا فِي الِافْتِتَاحَةِ الْأُولَى“ نمازکے شروع میں (تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے ) ہاتھ اُٹھاؤ اور اس کے علاوہ نماز کے کسی بھی رکن میں مت اُٹھایا کرو۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2447)
حضرت ابراہیم نخعی﷫فرماتے ہیں : ”إِذَا كبَّرْتَ فِي فَاتِحَةِ الصَّلَاةِ فَارْفَعْ يَدَيْكَ، ثُمَّ لَا تَرْفَعْهُمَا فِيمَا بَقِيَ“جب تم نماز کے شروع میں تکبیر کہو تو اپنے ہاتھوں کو اُٹھاؤ پھر بقیہ پوری نماز میں ہاتھوں کو نہ اُٹھاؤ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2445)
حضرت اسود اور حضرت علقمہ﷮کے بارے میں آتا ہے:”كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ“وہ دونوں نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھایا کرتے تھےپھر دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:2453)
حضرت ابواسحاق﷫فرماتے ہیں:”كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ،قَالَ وَكِيعٌ:،ثُمَّ لَا يَعُودُونَ“حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی ﷠کے شاگردصرف نماز کے شروع میں(تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے)ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔حضرت وکیع﷫فرماتے ہیں کہ پھر وہ دوبارہ نماز کے آخر تک دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2446،چشتی)
اِمام مالک﷫فرماتے ہیں:”لَا أَعْرِفُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي تَكْبِيرِ الصَّلَاةِ لَا شَيْءٍ مِنْ فِي خَفْضٍ وَلَا فِي رَفْعٍ“ کہ میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ (نماز کےاندر)کسی چیز
میں رفعِ یدین نہیں جانتا، نہ ہی جھکنے میں اور نہ اُٹھنے میں ۔
اِمام مالک﷫کے شاگردحضرت عبد الرحمان بن قاسم فرماتے ہیں :”كَانَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ مَالِكٍ ضَعِيفًا إلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ“ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین کرنا اِمام مالک﷫کے نزدیک ضعیف مسلَک تھا۔(المدوّنۃ الکبریٰ:1/165)
اِمام مالک﷫نےترکِ رفعِ یدین کا مسلَک اِس لئے اختیار کیا کیونکہ اُن کے نزدیک اہلِ مدینہ کا عمل ایک حجت اور دلیل کی حیثیت رکھتا ہے،چنانچہ علّامہ ابن قیم الجوزی ﷫فرماتے ہیں:”مِنْ أُصُولِ مَالِكٍ اتِّبَاعُ عَمَلِ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ وَإِنْ خَالَفَ الْحَدِيْثَ“یعنی اِمام مالک﷫کے اُصول میں سے ہے کہ وہ اہلِ مدینہ کے عمل کی اتباع کرتے ہیں اگرچہ وہ حدیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔(بدائع الفوائد للجوزی:4/32)
پس اِس سے معلوم ہوا کہ مدینہ منوّرہ جوکہ اہلِ علم اور عالَمِ اِسلام کا عظیم مرکز ہے ،نبی کریمﷺکا جائے سکونت ہے،وہاں کے رہنے والے بھی تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ کہیں رفعِ یدین نہیں کیا کرتے تھے، نیز اِسی سے یہ بھی واضح ہوا کہ آپﷺکا آخری عمل ”ترکِ رفعِ یدین“کا تھا، اِسی وجہ سے خلفاء راشدین صحابہ کرام اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے اِسی کو اختیار کیا ہے ۔
علم و عمل کا عظیم مَرکز جسے دنیا ”کوفہ“کے نام سے جانتی ہے ، اور جہاں حضرات صحابہ کرام وتابعین کی ایک بڑی جماعت رہی ہے ،وہاں کے رہنے والوں کا بھی مسلَک ”ترکِ رفعِ یدین “ہی کا تھا ، چنانچہ اِمام ترمذی ﷫ فرماتے ہیں:
”وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ،وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،وَأَهْلِ الكُوفَةِ“
یعنی بےشمار اہلِ علم اور صحابہ کرام﷢ اور تابعین ﷭اسی کے قائل ہیں اور یہی حضرت سفیان ثوری﷫ اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔(یعنی نماز میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفعِ یدین کیا جائے گا )۔(ترمذی،رقم الحدیث:257)
فقہِ حنفی کے سب سے بڑے ناقل حضرت اِمام محمّد﷫ اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مؤطاء اِمام محمد“ میں لکھتے ہیں:”فَأمَّا رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَوةِ فَاِنَّهُ يَرْفَعُ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْأُذُنَيْنِ فِي ابْتِدَاءِ الصَّلَوةِ مَرَّةً وَاحِدَةً ثُمَّ لَا يَرْفَعُ فِي شَيْء مِّنَ الصَّلَوةِ بَعْدَ ذٰلِكَ وَهٰذَا كُلُّهُ قَولُ أَبِيْ حَنِيْفَةَ رَحِمَهُ اللهُ“ اور بہرحال نماز میں رفعِ یدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ نماز کی اِبتداء میں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھائے، پھر اس کے بعد نماز میں کسی بھی جگہ ہاتھ نہ اُٹھائے۔ اور یہ سب حضرت اِمام ابوحنیفہ ﷫کا قول ہے۔(مؤطا اِمام محمّد:90 ،91،میزان)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔