Thursday 27 December 2018

ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ نہم

0 comments
ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ نہم

سنن و نوافل

پانچوں نماز کے آگے پیچھے کچھ سنن و نوافل مقرر کیے گئے ہیں ، ذیل میں احادیثِ طیبہ کی روشنی میں اُن کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں :

سننِ مؤکّدہ کا ثبوت

مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الفَجْرِ۔(ترمذی: 414)
ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ ﷝ سے نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد مَروی ہے: جس نےبارہ رکعات سنت پر پابندی اختیار کی اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنّت میں محل بنادیں گے(اور وہ بارہ رکعات یہ ہیں ) چار رکعت ظہر سے پہلے ، دو رکعت ظہر کے بعد ، دو رکعت مغرب کے بعد ،دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے ۔

سننِ غیر مؤکّدہ اور نوافل کا ثبوت

أُمُّ حَبِيبَةَ زَوْج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:«مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ»۔(ترمذی:428)
حضرت امُ المؤمنین حضرت اُمِّ حبیبہ ﷝نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل کرتی ہیں جس نے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اُس کو جہنم کی آگ پر حرام کردیں گے۔
اِس سے ظہر کے بعد کی دو نفل ثابت ہوتی ہے۔
مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ وَفِي رِوَايَةٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ رُفِعَتْ صَلَاتُهُ فِي عِلِّيِّينَ۔(مشکوۃ : 1184،چشتی)
ترجمہ:حضرت مکحول﷫نبی کریمﷺسے مُرسلاً نقل فرماتے ہیں :جس نے مغرب کے بعد بات کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھی اور ایک روایت میں چار پڑھنے کا ذکر ہے،اُس کی نماز علّیین میں اُٹھالی جاتی ہے۔
فائدہ : اِس سے مغرب کے بعد کی دو نفل ثابت ہوتی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ المُزَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، ثَلاَثًا لِمَنْ شَاءَ۔(بخاری:624)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مغفل﷛سے مروی ہے، نبی کریمﷺنے تین مرتبہ یہ اِرشاد فرمایا: ہر دو اذانوں(یعنی اذان و اِقامت)کے درمیان نماز ہے،جو پڑھنا چاہے۔
مسند البزار میں حضرت بریدہ کی روایت ذکر کی گئی ہے جس میں اِس اصول سے مغرب کو مستثنیٰ کیا گیا ہے ،چنانچہ فرمایا: ”بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاةٌ إلاَّ الَمْغَرِبَ“مغرب کے علاوہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔(مسند البزار:7434)
اِس سے عشاء سے پہلے کی سنت ِ غیر مؤکدہ ثابت ہوتی ہے۔
أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ كَعِدْلِهِنَّ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَأَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ كَعِدْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔(طبرانی اوسط: 2733)
ترجمہ: حضرت انس ﷜نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں عشاء کے بعد کی چار رکعت کی طرح ہیں اور عشاء کے بعد کی چار رکعتیں ایسی ہیں جیسے اتنی ہی(یعنی چار رکعتیں ) لیلۃ القدر میں پڑھی جائیں۔
مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّا صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتَّ رَكَعَاتٍ۔(ابوداؤد:1303)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ ﷝فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺنے کبھی عشاء کی نماز پڑھ کرچار یا چھ رکعات پڑھے بغیر میرے پاس داخل نہیں ہوئے ۔
اِس سے عشاء کے بعد کی نفل ثابت ہوتی ہے۔

بیس رکعت تَراویح

بیس (20) رکعت تراویح اُمّت کا ایک اجماعی اور اِتفاقی مسئلہ ہے ، اِس میں 8 رکعات کا قول اختیار کرناکسی بھی اِمام کا مسلَک نہیں اور نہ ہی صحابہ و تابعین اور فقہاء و مجتہدین ﷭ میں کبھی اِس کا کوئی قائل رہا ہے ،لہٰذا اس مسئلہ میں 8 رکعات تَراویح کا نظریہ اختیار کرناجمہور صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین ، فقہاء ومحدّثین ،ائمہ اربعہ و مجتہدینِ امّت ، شرق و غرب کے تمام اہلِ علم کے اتفاق اور اِجماع کے سراسر خلاف ہے ، جس کی دلائل کے اعتبار سے کوئی قوّت اور حیثیت نہیں ۔ایک اَدنیٰ عقل و دانش کا حامل شخص بھی اِس حقیقت کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ جس مسئلہ پر حضرات صحابہ کرام ﷡کا اِجماع ہو، ائمہ اربعہ اُس مسئلہ پر متفق ہوں،اور ہر زمانے کے فقہاء و محدّثین اُس کے قائل رہے ہو ں، اور اس میں کسی کا کبھی کوئی اختلاف نہ رہا ہو ،نیز اُس مسئلہ کو ابتداء ہی سے تَلقّی بالقبول یعنی اُمّت میں عمومی قبولیت کادرجہ حاصل رہا ہو اُس کی مُخالفت کرتے ہوئے اپنی رائے کو دین و شریعت کی حیثیت دینا سوائے ضلالت و گمراہی کے کیا ہوسکتا ہے۔ذیل میں 20 رکعات تراویح کےواضح دلائل ذکر کیے جارہے جس سے روزِ روشن کی طرح اِس مسئلہ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے :

تَراویح کے بارے میں نبی کریمﷺکا عَمل

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ۔(طبرانی کبیر:12102)(ابن ابی شیبہ:7692)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس ﷠سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺرمضان میں 20 رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
یہ حدیثِ مَرفوع ہے، اِس کے راویوں میں سوائے ”اِبراہیم بن عُثمان“کے تمام راوی ثقہ ہیں ، اور اِبراہیم بن عُثمان بھی متفقہ طور پر ضعیف نہیں ہیں،بلکہ بعض حضرات کی جانب سے اُن کی توثیق بھی کی گئی ہے ، لہٰذا صرف ایک مذکورہ راوی کی وجہ سے حدیث کو ناقابلِ اِعتبار نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ علاوہ اَزیں بہت سی دیگر احادیثِ صحیحہ اور آثارِ قویّہ (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے) سے اِس مذکورہ روایت کی تائید بھی ہوتی ہے جن میں صراحۃً تراویح کا 20 رکعت ہونا بیان کیا گیا ہے،اور اِس سب سے بڑھ کر جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کا 20رکعت تَراویح پر تعامل اور اِتفاق اِ س روایت کی صحت کی بہت بڑی دلیل ہے جس کے بعد اِس روایت پر کوئی کلام کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔(اِعلاء السنن:7/82،چشتی)
علّامہ شامی﷫فرماتے ہیں : بعض حضرات نے حضرت عبد اللہ بن عباس﷠کی اِس حدیث کو جو ضعیف قرار دیا ہے وہ کسی بھی طرح دُرست نہیں،اِس لئے کہ جب اِس حدیث کے مطابق حضرات صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کا اِجماع منقول ہے، حضرت عمر﷜کا فیصلہ اور صحابہ کرام کا بغیر کسی انکار و نکیر کے اس حدیث کو قبول کرنا منقول ہے تو حدیث کا ضعف کہاں باقی رہ سکتا ہے،اِس لئے بہر حال یہی کہا جائے گا کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود حضرات صحابہ کرام﷢ کے اِجماع کی وجہ سے قوی ہوگئی ہے ، لہٰذا اس سے استدلال کرنا بلاشبہ درست ہے۔(منحۃ الخالق علی البحر الرائق:2/72)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِيْ رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسَ أَرْبَعَةً وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلَاثَةٍ۔
ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ ﷜ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ رمضان المُبارک کی ایک رات (اپنے حجرہ سے)نکلے اور لوگوں کو4 رکعت(فرض نماز)20 رکعت (تَراویح) اور 3 رکعت وِتر پڑھائی۔(أخرجہ حمزۃ السہمی الجرجانی فی تاریخہٖ:317)
تَراویح کے بارے میں حضرات صحابہ کرام﷢کا عَمل:
عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ،عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ:أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ يُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7688)
ترجمہ: حضرت عطاء ابن ابی رباح﷫(جوکہ ایک بہت مشہور اور بڑے تابعی ہیں اور اُن کا شمار کِبار تابعین میں ہوتا ہے،وہ )فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اِس حالت میں پایا ہے کہ وہ 23رکعتیں وتر سمیت تراویح پڑھتے تھے۔
عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ،أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔(ابن ابی شیبہ:7682)
ترجمہ:حضرت یحیٰ بن سعید﷫فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب﷜نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 20 رکعت تَراویح پڑھائے۔
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ:كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلاَثٍة وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً فِيْ رَمَضَانَ۔(مؤطا مالک:281،چشتی)
ترجمہ:حضرت یزید بن رُومان﷫ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر ﷜کے زمانہ خلافت میں رَمضان کے اندر(وتر سمیت)23رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ:كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، قَالَ:وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمَئِينِ، وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ۔(سنن بیہقی:2/698)
ترجمہ:حضرت سائب بن یزید ﷜سے مَروی ہےکہ لوگ حضرت عمر ﷜کے دور میں رمضان المبارک کے اندر20 رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان ﷜
کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : دَعَا الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/699)
ترجمہ:حضرت علی﷜نے رمضان المبارک میں قرّاء(اچھا پڑھنے والوں)کو بلایا اور اُن میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ لوگوں کو20 رکعت تراویح پڑھاؤ۔
عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِب أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/699)( ابن ابی شیبہ:7681)
ترجمہ:حضرت ابوالحسناء﷫نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ﷜نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان میں پانچ ترویحات یعنی 20رکعات پڑھایا کرے۔
صحابہ کرام﷢میں حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜کا جو مَقام و مَرتبہ ہے وہ دین کے کسی اَدنیٰ طالبِ علم سے بھی مَخفی اور پوشیدہ نہیں ، نبی کریمﷺکے سفر و حضر کے ساتھی،آپ کے انتہائی قریب رہنے والے ،آپﷺکی کئی طرح کی خدمات کی ذمّہ داری کو بحسن و خوبی نبھانے والے یہ وہ مشہور جلیل القدر صحابی ہیں جن کے تفقّہ اور دین کی سمجھ بوجھ کا یہ عالَم تھا کہ صحابہ کرام اپنے مسائل میں اِن کی جانب رجوع فرمایا کرتے تھے۔اُن کے نزدیک بھی تَراویح کی رکعات20 ہی تھیں،چنانچہ وہ خود بھی اِسی پر عمَل کرتے ہوئے رمضان کے مہینہ میں 20رکعات تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔
حضرت زید بن وھب﷫فرماتے ہیں:”كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِنَا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ“حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ہمیں رمضان کے مہینہ میں تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔اور اِس کی مِقدار اِمام اَعمَش﷫فرماتے ہیں:”كَانَ يُصَلِّي عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ“حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایا کرتے تھے۔(أخرجہ محمّد بن نصر المَروَزی فی قیام اللیل و قیامِ رَمضان:221)(عُمدۃ القاری:11/127،چشتی)
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ:كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7684)
ترجمہ:حضرت عبد العَزیز بن رُفیع﷫فرماتے ہیں کہ مدینہ منوّرہ میں حضرت اُبَی بن کعب﷜ لوگوں کو ماہِ رَمضان میں 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایا کرتے تھے۔

تَراویح کے بارے میں حضرات تابعین﷭کا عَمل

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ:كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً،قَالَ:وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمَئِينِ،وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ۔(سنن بیہقی:2/698)
ترجمہ:حضرت سائب بن یزید ﷜سے مَروی ہےکہ لوگ حضرت عمر ﷜کے دورِ خلافت میں رمضان المبارک کے اندر20رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان ﷜کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔
عَنِ الْحَارِثِ:أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً،وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ، وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ۔(ابن ابی شیبہ :7685)
ترجمہ : حضرت حارث﷫ سے مَروی ہے کہ وہ رمضان میں لوگوں کو20 تراویح
اور 3 وتر پڑھاتے تھے اور رُکوع سے قبل قنوت پڑھتے تھے۔
عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ:أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(ابن ابی شیبہ :7686)
ترجمہ:حضرت اَبو البختری﷫ جوکہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے خاص اَصحاب میں سے ہیں ،اُن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان المُبارک میں 5 تَرویحے(یعنی20 رَکعات) اور 3 رکعات وِتر پڑھایا کرتے تھے۔
عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ،أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7690)
ترجمہ:حضرت سعید بن عُبید فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ربیعہ لوگوں کو رمضان المبارک میں 5ترویحے(یعنی بیس رکعت)اور 3 رکعت وتر پڑھایا کرتے تھے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ،عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ:أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْر۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7680)
ترجمہ:حضرت شتیر بن شکل، جو حضرت علی ﷜کے اصحاب میں سے تھے، رمضان المبارک میں لوگوں کو 20 رکعت تراویح اور وتر پڑھایا کرتے تھے۔
أَبُو الْخَصِيْبِ قَالَ:كَانَ يَؤُمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/698)
ترجمہ: حضرت ابوالخصیب کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن غفلہ ﷫ ہمیں رمضان میں
نماز پڑھاتے تھے، پس5 ترویحے یعنی 20رکعتیں پڑھاتے تھے۔
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:كَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً۔(مصنّف ابن ابی شیبہ :7683)
ترجمہ: حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابنِ ابی مُلیکہ ﷫ہمیں رَمضان میں 20 رکعت تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔

تَراویح کے بارے میں فقہاء کرام اور محدّثینِ عظام کے فتاویٰ

اِمام شافعی ﷫ فرماتے ہیں:”وَرَأَيْتُهُمْ بِالْمَدِينَةِ يَقُومُونَ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِينَ، وَأَحَبُّ إلَيَّ عِشْرُونَ؛ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَكَذَلِكَ يَقُومُونَ بِمَكَّةَ وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ“
ترجمہ:میں نے لوگوں کو مدینہ منوّرہ میں دیکھا ہے کہ وہ39 رکعات تَراویح پڑھتے ہیں ،جبکہ میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ20 رکعت پڑھی جائے،اِس لئے کہ یہ حضرت عُمر ﷜سے مَروی ہے، اور مکہ مکرّمہ کے رہنے والے بھی 20رکعت تَراویح اور 3رکعت وِتر پڑھتے ہیں ۔(کتاب الاُمّ:1/167،چشتی)
اِمام ترمذی﷫فرماتے ہیں : وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً
ترجمہ:تراویح کے20 رکعت ہونے پر اکثر اہلِ علم کا عمل ہے ، جیسا کہ حضرت علی﷛،حضرت عمر﷛ اور دیگر صحابہ کرام﷡ سے مَروی ہے۔(ترمذی:806)
محدّثِ عظیم،شارِحِ مُسلم علّامہ نووی﷫فرماتے ہیں :
”مَذْهَبُنَا أَنَّهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً بِعَشْرِ تَسْلِيمَاتٍ غَيْرَ الْوِتْرِ وَذَلِكَ خَمْسُ تَرْوِيحَاتٍ وَالتَّرْوِيحَةُ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ بِتَسْلِيمَتَيْنِ هَذَا مَذْهَبُنَا وَبِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَأَحْمَدُ وَدَاوُد وَغَيْرُهُمْ وَنَقَلَهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ عَنْ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ“
ترجمہ:تَراویح کی رکعات کے بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ وہ وِتر کے علاوہ20 رکعات ہیں اور وہ5 ترویحات بنتی ہیں ،اِس طرح کہ ہر ایک تَرویحہ2 سلام کے ساتھ4 رکعت پر مشتمل ہے۔یہ ہمارا مسلَک ہے،اور اِمام ابوحنیفہ،اُن کے اَصحاب اور اِمام احمد اور داؤد وغیرہ سب کا مسلک بھی یہی ہے،بلکہ قاضی عیاض﷫نے تو اسے جمہور علماء کا مسلَک قرار دیا ہے۔(المجموع شرح المہذّب:4/32)
علّامہ ابن عبد البر مالکی﷫فرماتے ہیں :”وَهُوَ قَوْلُ جمهُور الْعُلَمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثرُ الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ خِلَافٍ مِّنَ الصَّحَابَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ“۔(عُمدۃ القاری:11/127)
ترجمہ: 20 رکعات تَراویح جمہور علماء کا قول ہے،اور یہی کُوفیوں اور اِمام شافعی اور اکثر فقہاء کرام﷭ کا قول ہے اور یہی بات صحیح طور پر حضرت اُبیّ بن کعب﷜سے ثابت ہے جس کی صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی مُخالفت نہیں کی ۔
علّامہ ابنِ تیمیہ ﷫فرماتے ہیں :فَالْقِيَامُ بِعِشْرِينَ هُوَ الْأَفْضَلُ وَهُوَ الَّذِي يَعْمَلُ بِهِ أَكْثَرُ الْمُسْلِمِينَ فَإِنَّهُ وَسَطٌ بَيْنَ الْعَشْرِ وَبَيْنَ الْأَرْبَعِينَ
ترجمہ:پس20 رکعات تَراویح پڑھنا ہی افضل ہے،اور یہی وہ مسلَک ہے جس پراکثر مسلمان عمل کرتے ہیں ، اِس لئے کہ یہ 10 اور 40 رکعات کے درمیان ایک معتدل اور درمیانہ قول ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:22/272)
علّامہ انور شاہ کشمیری﷫فرماتے ہیں :
لَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِّنَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ بِأَقَلَّ مِنْ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً فِي التَّرَاوِيْحِ، وَإِلَيْهِ جَمْهُورُ الصَّحَابَةِ، وَقَالَ مَالِكُ بنُ أَنَسٍ بِسِتَّةِ وَّثَلَاثِيْنَ رَكْعَةً فَإِنَّ تَعَامُلَ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَرْكَعُونَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ اِنْفِرَاداً فِي التَّرْوِيْحَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ فَكَانُوا يَطُوْفُونَ بِالْبَيْتِ فِي التَّرْوِيْحَاتِ
ترجمہ:ائمہ اَربعہ میں سے کوئی بھی 20 رکعت تَراویح سے کم کا قائل نہیں، اور یہی جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم اجمعین کا مسلَک ہے۔اِمام مالک بن انَس ﷫ فرماتے ہیں کہ تَراویح کی36 رکعت رکعتیں ہیں ،اِس لئے کہ مدینہ منوّرہ کے لوگوں کا عمل یہ تھا کہ وہ ہر تَرویحہ(یعنی چار رکعات) کے بعد اِنفرادی طور پر4 رکعت پڑھا کرتے تھے،اور مکہ مکرّمہ کے لوگ تَرویحات میں بیت اللہ شریف کا طَواف کیا کرتے تھے۔(العَرف الشذی:2/208)
علّامہ کاسانی﷫فرماتے ہیں:
وَالصَّحِيحُ قَوْلُ الْعَامَّةِ لِمَا رُوِيَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَصَلَّى بِهِمْ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَلَمْ يُنْكِرْ أَحَدٌ عَلَيْهِ فَيَكُونُ إجْمَاعًا مِنْهُمْ عَلَى ذَلِكَ
اور (تَراویح کے بارے میں) صحیح قول اکثر عُلماء کرام کا ہے(یعنی20 رکعات)اِس لئے کہ حضرت عُمر﷜کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکے صحابہ کرام کو رمضان کے مہینہ میں حضرت اُبیّ بن کعب﷜کی اقتداء پر جمع کردیا تھا، چنانچہ وہ لوگوں کو ہر رات میں20 رکعت پڑھاتے، اور اِس پر کسی صحابی نے بھی اُن پر نکیر نہیں کی ، لہٰذا یہ صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کی جانب سے 20 رکعت پر اِجماع ہوگیا۔(بدائع الصنائع:1/288)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔