بعد از وصال وسیلہ کی حدیث مع بد مذھبوں کے اعتراض کا جواب
أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ص، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْ هُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَاءِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط پڑا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ”یا رسول اللہ ! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہورہی ہے ۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لاۓ اور فرمایا: ”عمر کے پاس جاؤ ،میرا سلام کہو اور بشارت دو کے بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کے نرمی اختیار کریں“، اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی (تو) خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ۔ (علامہ ابن کثیر کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں)
اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے المصنف میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن ہجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو ان اعتراض کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ : اس حدیث کو مخالفین و موافقین سب کے نزدیک مسلم ائمہ و محدثین الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن کثیر نے اس کی سند کو " صحیح " کہا ہے، (الفتح الباری ٢/ ٤٩٥)(البداية والنهاية ٨ / ٨٤ ، البدایہ والنہایہ مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 126 ،127)، یہاں ہی حجت تمام ہو جاتی ہے، لیکن اعتراض کا تھوڑا تفصیلی جواب بھی ضروری ہے،مالک الدار رضی الله تعالی عنہ کی توثیق!آپ مشور تابعی ہیں اور آپ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے خادم اور وزیر خزانہ تھے.علّامہ ابن سعد نے مالک الدار کو تابعین میں شمار کیا ہے اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابو صالح السمّان نے اور فرمایا " کان معروفا ".(الطبقات الکبیر ، ٦ / ١٢/ ١٤٢٣،چشتی)
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الثقات میں فرمایا، مالک بن عیاض الدار ، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ اور ابو صالح السمّان سے روایت کی ہیں . (" الكتاب: الثقات جلد ٥ ص ٣٨٤")
الحافظ امام شمس الدین ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے تجريد الأسماء الصحابه میں فرمایا ، مالك الدار مولي عمر بن خطاب ٠روي عن ابي بكر٠حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں.( تجريد الأسماء الصحابه ٢ / ٤٤ ،چشتی)
الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی مالک الدار کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا اور تفصیل سے آپ کے حالات نقل کئیے.("الاصابة في تميز الصحابة ٦ / ١٦٤ ")
اسی لئے کہتے جھوٹ کے پیر نہیں کذاب البانی نے التوسل میں اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا مالک الدار کو مجہول کہ کر مگر صحیح الترغیب و الرھیب میں مالک الدار والی ایک روایت پر البانی حسن کا فتویٰ صادر کر رہے ہیں ؟ یہ البانی کا ایک دجل اور ملاحضہ فرمائیں َ (صحیح الترغیب و الرھیب ١/ ٩٢٦،چشتی)
جواب : امام اعمش کی تدلیس ، امام اعمش بخاری و مسلم کے باالجماع ثقہ راوی ہیں ، ایک اہم نقطہ، وہابیوں کا کذاب محدث و امام ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث پر امام اعمش کی ممکنہ تدلیس پرکوئی اعتراض نہیں کیا جس کا شور شرابہ آج کا جاہل وہابی کرتا پھرتا ہے ۔
تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔ مذکورہ راوی کے بارے میں تحقیق پیشِ خدمت ہے : امام اعمش مدلس ہیں مگر انکی حدیث ٢ امور کی بنا پر مقبول ہے، چاہے سماع کی تصریح کرے یا نا کرے، امام اعمش کا شمار مدلسین میں مرتبہ ثانیہ میں ہوتا ہے .
اور محدثین علیہم الرّحمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی تدلیس مضر نہیں . ( التدلیس والمدلسون للغوری ص104،)( جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32" )
امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ہیں جن کے بارے میں الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی فرماتے ہیں.من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح ، یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے( بخاری اور مسلم نے اپنی )صحیح روایت لی .
علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين ١.كالحسن البصري ٢.وأبي إسحاق السبيعي و٣.قتادة بن دعامة و٤.عمرو بن دينار٥. وسليمان الأعمش ٦.وأبي الزبير و٧.سفيان الثوري و٨.سفيان بن عيينة.("الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار")
اور اس میں یہی سليمان الأعمش بھی ہیں . اگر بالفرض وہابیوں کے اس اعتراض کو تسلیم بھی کرلیا جاے کہ اس حدیث کو سماع کی تصریح کی وجہ سے ہی قبول کریں جیسا کہ اہل مرتبہ ثالثہ اور بعد کے مدلسین کا مقام ہے پھر بھی یہ حدیث مقبول ہے کیوں کہ یہاں امام اعمش نے ابن ابی صالح سے اسکو روایت کیا ہے ، اور امام الائمہ فی الحدیث امام شمس الدین ذھبی " میزان الاعتدال" میں رقمطراز ہیں . ومتى قال: عن تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كـ إبراهيم وأبي وائل وأبي صالح السمان فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال.(ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
ترجمہ : امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جب " عن " کہیں تو تدلیس کا احتمال عارض ہوتا ہے ، مگر علاوہ ان شیوخ کے جن سے وہ اکثر روایت لیتے ہیں، جسے، ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ، ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ اور ابی صالح السمّان رحمۃ اللہ علیہ . بلا شبہ اس نوع سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے ( ال- ١تصال).(ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment