اذان اور اقامت نماز کے کلمات دہرے کہے جائیں
مسلمانان اہلسنت احناف کا مذہب یہ ہے کہ اقامت کے کلمات دوہرے کہے جائیں اس بارے میں علامہ امام عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے : کان عبداللہ بن زید الانصاری موذن النبی صلی اللہ علیہ وسلم یشفع الاذان والاقامۃ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے موذن تھے وہ اذان اور اقامت کے الفاظ دہرے دہرے ادا کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص321رقم 2151)
حافظ ابن حزم اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : ہذا اسناد فی غایۃ الصحۃ۔
ترجمہ : یہ سند انتہائی درجہ کی صحیح ہے ۔ (المحلیٰ بالآثار ج2ص191)
مگر غیرمقلدین کے نامور عالم عبدالرحمان مبارکپوری اس صحیح سند والی روایت کے بارے میں یوں لکھتے ہیں : قلت لاشک ان رجالہ رجال الصحیح لکن فی صحۃ اسنادہ نظر وان زعم ابن حزم انہ فی غایۃ الصحۃ لان فیہ الاعمش وہو المدلس۔
ترجمہ : یعنی میں کہتا ہوں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کے رواۃ ؛ صحیح (صحیح سے مراد بخاری شریف ہے ۔ از راقم ) کے رواۃ ہیں ۔ اگرچہ ابن حزم نے اس کو انتہائی صحیح حدیث قرار دیا ہے مگر اس کی صحت محل نظر ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی اعمش ہے اور وہ مدلس ہے ۔ (ابکار المنن صفحہ 292)
جناب اگر ذرا دیر کے لیئے یہ بات تسلیم بھی کرلیں کہ حضرت امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ راوی مدلس ہیں اس لیئے ان کی یہ صحیح حدیث بھی صحیح نہیں ہے ۔ مگر یہ تو بتایا جائے کہ اس کا احساس امام بخاری وامام مسلم علیہما الرّحمہ کو کیوں نہیں ہوا ؟ آخر انہوں نے اسی اعمش (جو کہ آپ کے نزدیک مدلس ہیں) کی روایات کو کثیر تعداد میں اپنی اپنی کتابوں میں کیوں ذکر کیا ہے ؟
اقامت اور اذان کے کلمات
جب جمیع ائمہ اُمت متفق ہیں کہ اسلام کے پہلے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور اُن کے ادا کردہ الفاظ وحی الٰہی سے ہیں تو پھر اس کے خلاف کرکے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلمات کو لینا اسلام سے روگردانی ہے اور حضرت محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تو ہیں لیکن ان کا اذان کے کلمات کی ادائیگی کا مرتبہ وہ نہیں جو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیب ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کلمات بتائے گئے وہ تعلیم کے طور پر تھے ۔
(1) اسلام میں اذان و اقامت (تکبیر) کے الفاظ اور احکام قریباً یکساں ہیں۔جوالفاظ اذان کے ہیں وہی تکبیر کے ہیں صرف’’حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ ‘‘کے بعد ’’ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ ‘‘ دوبار زیادہ ہے ۔
(2) بہارِ شریعت میں لکھا ہے کہ ’’اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ‘‘یہ ایک کلمہ ہے لہٰذا اس رُو سے اذان میں بارہ کلمات ہیں اور اقامت میں پندرہ کلمت ہوئے ۔
(3) غیر مقلدین کی اذان بھی اس اذان سے علیحدہ ہے اور اقامت بھی اس امامۃ کے سوا ہے وہ اذان کی دونوں شہادتوں کو دوبار کے بجائے چار چار بار کہتے ہیں اولاً دوبار آہستہ کہتے ہیں پھر چیخ کر ایسے ہی ’’ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ‘‘کو ۔ اس حساب سے ان کے نزدیک اذان کے کلمات پندرہ کے بجائے اُنیس (19) ہیں اور اقامت(تکبیر) کے کلمات ایک ایک بار کہتے ہیں ۔ اس طرح کہ دونوں شہادتیں اور’’حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ ‘‘ایک ایک بار اُن کے نزدیک اقامت کے کلمات بجائے سترہ (17) کے تیرہ (13) ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلامی اذان واقامت وہی ہے جو ہم کہتے ہیں ۔
حتمی فیصلہ : غیر مقلدین حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کے پابند ہیں وہ ابو محذورہ جن کا مؤذنین میں تیسرا یا چوتھا نمبر ہے اور دلائل کی اُدھار غیر مقلدین نے امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے لی اور ہمارے ہاں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان مروّج ہے جو نہ صر ف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتخب کردہ ہیں بلکہ درگاۂ خداوندی کے منظورِ نظر ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر وحضر اورآخر عمر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن ہیں فلہذا حق یہ ہے کہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو ہیں نہ اذان میں ترجیع ہے نہ اقامت (تکبیر) کے کلمات ایک ایک ۔ پہلی تکبیر چار بار آخر میں ’’ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‘‘ایک بار باقی تمام الفاظ دودوبار۔ دلائل حسبِ ذیل ہیں :
مسلمانان اہلسنت احناف کے دلائل
سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ : إِنَّمَا كَانَ الأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ وَالإِقَامَةُ مَرَّةً مَرَّةً غَيْرَ أَنَّهُ يَقُولُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار تھے اور تکبیر ایک ایک بار اس کے سواء کہ تکبیر میں ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ ‘‘بھی کہتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب فی الاقامة، جلد۲، صفحه۱۸۵، حدیث۵۱۰)۔(صحیح ابن حبان ، کتاب الصلاة، جلد۴، صفحه ۵۲۷،چشتی)
اس حدیث کے متعلق ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ جیسے ناقد کہتے ہیں : ھذا اسناد صحیح المقبری وثقہ ابن حبان ۔ (بھاری) یعنی یہ اسناد صحیح ہے سعید المقبری کی ابن حبان نے توثیق کی ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان میں ترجیع نہیں ورنہ اذان کے کلمات دو دو نہ ہوتے شہادتیں چار چاربار ہوتیں ۔ اقامت کے ایک ہونے کا جواب ہم آگے چل کر عرض کرینگے ۔
طبرانی نے معجم اوسط میں حضرت ابراہیم بن اسماعیل ابن عبدالمالک ابن ابی محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ : قَالَ سَمِعْتُ جَدِّي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ يَقُولُ إنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ أَبَا مَحْذُورَةَ يَقُولُ { أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ حَرْفًا حَرْفًا : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ إلَى آخِرِهِ } وَلَمْ يَذْكُرْ تَرْجِيعًا ۔
ترجمہ : فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا عبدالملک ابن ابی محذورہ کو سنا وہ فرماتے تھے کہ ُانہوں نے اپنے والد ابو محذورہ کو فرماتے سنا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان کا ایک ایک لفظ بتایا ’’اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ‘‘ آخرتک اس میں ترجیع کا ذکر نہ فرمایا ۔ (ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب الاذان، جلد۳، صفحه۱۹۱) ۔ (فتح القدیر، کتاب الصلاة، باب الاذان، جلد۱، صفحه ۴۵۷)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اذان میں ترجیع کا حکم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دیا فلہذا ترجیع سنت کے خلاف ہے ۔ اس روایت کے راوی ابو محذورہ کے پوتے ہیں ۔
ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن ابی لیلی تابعی سے کچھ اختلافِ الفاظ سے روایت کی
قال كان عبد الله بن زيد الأنصاري مؤذن النبي صلى الله عليه و سلم يشفع الأذان والإقامة ۔
ترجمہ : یعنی فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن زید انصاری رضی اللہ عنہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن اذان اور تکبیر دو دو بار کہتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الاذان والاقامة، باب من کان یشفع الإقامة ویری أن یثنیها جلد۱، صفحه ۱۸۷، حدیث۲۱۳۹)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اذان میں ترجیع نہیں نیز اقامت یعنی تکبیر کے کلمات دو دو بار کہے جائیں نہ کہ ایک ایک بار ۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا : أنه كان يقول الأذان مثنى مثنى والإقامة مثنى مثنى ومر برجل يقيم مرة مرة فقال : اجعلها مثنى مثنى لا أم للاخر ۔ یعنی آپ فرماتے تھے کہ اذان بھی دودوبارہے تکبیر بھی دودوبار اور آپ (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ایک شخص پر گزرے جو اقامت ایک ایک کہہ رہاتھا تو آپ نے فرمایا اسے دو دو بار کر تیری ماں نہ رہے ۔ (کنزالعمال،کتاب الصلاة، تتمة فضل الأذان وأحكامه وآدابه ، جلد۸ ،صفحه۵۸۰، حدیث ۲۳۲۲۷،چشتی)
امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک طویل حدیث بیان فرمائی جس میں عبداللہ ابن زید انصاری کے خواب کا واقعہ مذکورہے جو اُنہوں نے اذان کے متعلق دیکھا تھا اُنہوں نے حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں نے فرشتے کو خواب میں دیکھا جس نے قبلہ کی طرف منہ کرکے ’’ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‘‘الخ کہا۔ پھر کچھ ٹھہر کر اذان کی طرح تکبیر بھی کہی الخ ۔ حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں : قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَقِّنْهَا بِلاَ لاً فَأَذَّنَ بِهَا بِلاَلٌ ۔ یعنی راوی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبداللہ سے فرمایا کہ یہ اذان حضرت بلال پر تلقین کرو ۔ پس حضرت بلال نے اذان انہی کلمات سے دی ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ تو خواب والے فرشتے نے اذان میں ترجیع کی تعلیم دی نہ اسلام کی پہلی اذان میں ترجیع تھی جو حضرت بلال نے حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی میں عبداللہ ابن زید کی تعلیم سے کہی ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اقامت بھی اذان کی طرح دودو بار ہے اور اُس میں ’’ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ ‘‘ بھی ہے ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب کیف الاذان، جلد۲، صفحه۱۸۱، حدیث ۵۰۷)
ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے عبدالرحمن ابن ابی لیلی سے روایت کیا : قال حدثنا أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم أن عبد الله بن زيد الأنصاري جاء إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال يا رسول الله رأيت في المنام كأن رجلا قام وعليه بردان أخضران على جذمة حائط فأذن مثنى وأقام مثنى ۔
ترجمہ : یعنی فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے بہت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے خبر دی کہ عبداللہ ابن زید انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا جیسے ایک مرد کھڑا ہوا اس پر دوسبز کپڑے ہیں وہ دیوار پر کھڑا ہوا اور اذان بھی دودوباردی ،تکبیر بھی دو دوبار کہی ۔ (مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الاذان، باب ما جاء فی الأذان والإقامة کیف هو ،جلد۱،صفحه۱۸۵، حدیث۲۱۱۸)
خیال رہے کہ اذان کی تعلیم ربِ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خواب میں فرشتہ کے ذریعہ دی اس خواب میں نہ تو اذان میں ترجیع ہے نہ اقامت ایک ایک بار۔ معلوم ہوا کہ حنفی اذان و تکبیر وہ ہے جس کی رب نے تعلیم دی اور وہابی غیر مقلد چونکہ نفس کے بندے اور شرارت کے پھندے ہیں ۔ اسی لئے اگر وہ احادیثِ صحیحہ کے مقابلہ میں غیر مرضیہ روایات پیش کریں تو وہ معذور ہیں ۔ ان معذوروں کو یا تو لگام دی جائے یا پھر پاگل خانوں میں رکھا جائے تاکہ ملک وملت فتنہ و فساد سے محفوظ ہو ۔
اذانِ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بذریعہ وحی ہے اور آسمانوں پر بھی یہی کلمات شبِ اسراء حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو سنائے گئے اور یہی کلمات بارگاۂ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں ہمیشہ پڑھے گئے ۔ نزول حکمِ اذان سے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آٹھ سال کے بعد مسلمان ہوئے اور وہ کلماتِ اذان حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ تعلیم سکھائے یہ نہیں فرمایا کہ یہی کلمات اذان میں پڑھا کرو اور ان کلمات میں کلماتِ شہادتین کی تکرار ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل کی کدورت وغیرہ کے لئے تھی جیساکہ ان کے مسلمان ہونے کے واقعہ سے واضح ہے ان کا مفصل قصہ آتا ہے ۔ ہاں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجتہاد سے یہ کلمات اذان میں پڑھتے تھے ۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف سکھانے کے لئے کلماتِ شہادتین کا تکرار فرمایا اسے سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان سمجھ لیا اوراسے ہمیشہ پڑھتے رہے چونکہ شہادتین کی تکرار ایک اچھا امر ہے اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہ روکا یہ ایسے ہے جیسے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلبیہ (لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ) میں چند کلمات بڑھائے تویہی کہا جاسکتاہے کہ جواز کا توانکار نہیں لیکن سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہی ہے جو حضرت بلال کے اذان کے کلمات ہیں ۔
ہماراسوال : غیر مقلدین سے سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دائمی سنت کو ترک کرکے ایک صحابی کے اجتہاد کی تقلید کیوں ادھر بیس تراویح میں کہتے ہو کہ یہ سنتِ عمری ہے ہم صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرینگے اور یہاں تم اپنا قاعدہ بھول گئے ۔ اذان میں تقلیدِ صحابی اور ترکِ سنت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم میں آخر کیا راز ہے ۔
فقیر کی ایک غیر مقلد سے اذان و اقامت کے متعلق گفتگو ہوئی میں نے اُسے دلائل سے منوالیا کہ واقعی سنت اذان وہی ہے جو دائمی اذانِ بلالی ہے ۔ اس نے مجھ پر حملہ کرکے کہا کہ : اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۔ (پارہ۱، سورۂ البقرہ،آیت ۸۵)
ترجمہ : توکیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ۔
میں نے کہا وہ کیسے اُس نے کہا اذان بلال والی اور تکبیر (اقامت) ہماری ۔ میں نے کہا اقامت بھی ہم سنت کے مطابق کہتے ہیں جس کے دلائل اُوپر مذکور ہوئے ۔ اب بتایئے بقول اقامت اس طرح ہے جیسے غیر مقلدین کہتے ہیں تو پھر تم نے اذانِ بلال کے کلمات چھوڑ دیئے اس معنی پر”اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ “(پارہ۱، سورۂ البقرہ،آیت ۸۵) ۔ ترجمہ : توکیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو) تم پر فٹ آئی یا نہیں ۔ یہ سن کر کھسیانہ ہوکر کھمبا نوچنے لگا ۔
اقامت کے اختلاف کے جوابات
چونکہ غیر مقلدین نے انگریز کی طرح قسم کھائی ہے کہ ہر مسئلے میں حنفیوں کے خلاف کیا جائے جیسے انگریز کا خیال ہے کہ ہر بات میں اسلام کے اُلٹ کرو کیونکہ یہ ٹولہ انگریز کا تیار کردہ ہے اسی لئے وہ ہماری اقامت کے خلاف اقامت کہتے ہیں ہم ان کے مفصل جوابات آگے چل کر دیں گے ۔
مجمل جوابات
اقامت اذان ہی کی طرح ہے حتیٰ کہ بعض احادیث میں اسے اذان کا نام دیاگیا چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ ۔
ترجمہ : دواذانوں کے درمیان نماز ہے ۔ (صحیح البخاری ، کتاب الاذان، باب کم بین الاذان والاقامة ومن ینتظر الاقامة،جلد۳،صفحه۵۸،حدیث۶۲۴) ( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین ، باب بین کل اذانین صلاة، جلد۲،صفحه۲۱۲،حدیث۱۹۷۷)
یعنی اذان واقامت کے درمیاں ہاں فرق صرف الفاظ ’’ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ ‘‘ کا ہے کہ اقامت میں ہے اذان میں نہیں توچاہیے کہ اقامت کے الفاظ بھی اذان کی طرح دودوبار ہوں ۔
اذان میں بعض الفاظ مکرر آئے ہیں کہ اول میں بھی ہیں آخر میں بھی جیسے تکبیر اور کلمہ اور بعض الفاظ غیر مکرر ہیںکہ صرف ایک جگہ آئے جیسے الصلوٰۃ اور الفلاح جو الفاظ مکرر ہیں وہ پہلی بار دوگنے ہیں دوسری باراس کے نصف تکبیر پہلی بار چار دفعہ ہے اور پچھلی بار دودفعہ ، شہادتِ توحید پہلی بار دو دفعہ ہے توآخر بار ایک دفعہ تو چاہیے کہ تکبیر میں بھی ایسا ہی ہو ۔ فلہٰذا حنفی اذان واقامت جو آج عام مسلمانوں میں رائج ہے بالکل صحیح اور سنت کے مطابق ہے اس پر طعن (اعتراض) کرنا جہالت و حماقت ہے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment