Monday 31 December 2018

ادلہ فقہ پہلا ماخذ قرآن پاک

0 comments
ادلہ فقہ پہلا ماخذ قرآن پاک

فقہ کاسب سے پہلا ماخذ قرآن پاک ہے ،جس کے حجت ہونے میں کسی کوشک ہوہی نہیں سکتا توجوچیزاس سے ثابت ہواس میں شک کس طرح ہوسکتاہے ؟ اگرکوئی آدمی قرآن پاک میں شک کرے گا تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کافرمان ہے ’’ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ ۔
ترجمہ : وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں ، اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو ۔
قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل کی ؛ چونکہ یہ سلسلہٴ ہدایت کا آخری ایڈیشن ہے؛ اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے حدود اربعہ بناکر اس کے خطوط متعین کردیے جائیں۔ قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود جامع مانع ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح احکام موجود ہیں؛ لیکن ان احکامات کی حیثیت اصول کی ہے۔ قرآن نے ایسا نہیں کیا کہ ابتداء ہی سے احکامات سے متعلق تمام جزئیات بیان کردی ہوں؛ بلکہ اس میں تدریج کا طریقہ بروئے کار لایاگیا۔ اگر بالفرض ابتداء ہی میں ساری جزئیات بیان کردی جاتیں اور عملی شکل کے سارے خاکے تیار کردیے جاتے تو ایک تو اس کی دستوری پوزیشن باقی نہ رہتی، دوسری بڑی بات یہ ہوتی کہ اس کی دوامی اور عالمگیر حیثیت ختم ہوکر ساری تعلیم خاص زمانہ تک محدود ہوجاتی اور پھر اس میں جمود و تعطل پیدا ہوکر ارتقاء پذیر معاشرے کو سمونے اور اقتضاء و مصالح کو جذب کرنے کی ساری صلاحیت ختم ہوجاتیں ۔ (فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، صفحہ نمبر 61،چشتی)
مثال کے طور پر قرآن مجید نے اس بات کی تو وضاحت کی ہے کہ حکومت اللہ کی نیابت و امانت ہوگی اور ہر مسلمان کے لیے شورائی بنیاد پر عدل و انصاف کے نظام کے قیام کو ممکن بنانا لازم ہوگا؛ لیکن یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ نظام کس نوعیت کا ہوگا اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہوگی؟ اسی طرح قرآن مجید نے ہر حرام اور حلال چیز کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حیات انسانی سے متعلق ہرجزوی معاملہ کو موضوعِ بحث بنایا؛ بلکہ اصول متعین کردیے۔ اب ان متعین اصولوں سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنا اور ان کی علت تلاش کرکے حالات و زمانہ کے مطابق ان کی عملی تطبیق پیش کرنا اہل علم پر چھوڑ دیا ۔
فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں حالات و زمانہ کے مطابق فقہی جزئیات میں تبدیلی اور اس کی ضرورت پر بڑی جامع بحث فرمائی ہے ۔ ذیل میں علامہ شامی رحمة اللہ علیہ کی اسی کتاب سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے : جاننا چاہیے کہ مسائلِ فقہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے (ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے) یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق قائم کیا تھا ۔ اس طرح کہ اگر وہ (دینی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا ۔ اسی بنا پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی شامل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو ؛ کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں ۔ بوجہ اس کے کہ رواج بدل گیا۔ یا کوئی نئی ضرورت پیدا ہوگئی یا زمانہ کے لوگ بدروش ہوگئے ۔ اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت زمانہ کے حالات کے موافق تھی ؛ کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم تھا کہ اگر آج خود مجتہد موجود ہوتا تو وہی کہتا جو انھوں کہا ۔ ( نثر العرف فی بناء بعض الاحکام العرف، صفحہ نمبر 18)

بہرحال ان فقہی احکامات کی جزئیات مرتب کرنے اور جدید مسائل کی عصری تطبیق کے حوالے سے فقہ اسلامی کے پہلے ماخذ یعنی قرآنِ کریم نے سات چیزوں کو اپنافقہی اصول قرار دیا ہے جن سے رہنمائی حاصل کرکے قرآنی منشاء کے مطابق ہر دور کے شرعی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ سات اصول ہیں : (1) عدم حرج (2) قلت تکلیف (3) تدریج (4) نسخ (5) شانِ نزول (6) حکمت و علت (6) عرب کی معاشرتی حالت ۔

اگر عمومی طور پر قرآن ِ کریم کا جائزہ لیاجائے تو اس میں امت اسلامیہ کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے درج ذیل احکامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
(1) اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیاجائے جس میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو ۔
(2) لوگوں کی رغبت اور میلان کے پیش نظر بعض ایسے احکام مقرر ہوئے جنہیں قومی عید کے طور پر منایا جائے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب و زینت کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
(3) طاعات کی ادائیگی میں طبعی رغبت اور میلان کو ملحوظ رکھا گیا اور ان تمام محرکات و دواعی کی اجازت دی گئی جو اس میں مددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو ۔
(4) طبعی طور پر جن چیزوں سے قباحت ہوتی ہے یا طبعیت بار محسوس کرتی ہے اس کو ناپسند کیاگیا ۔
(5) حق و استقامت پر قائم رہنے کے لیے تعلیم و تعلم، امربالمعروف و نہی عن المنکر کو دوامی شکل دی گئی کہ طبیعت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی ہے ۔
(6) بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے؛ تاکہ انسان اپنی سہولت کے پیشِ نظر جس کو چاہے اختیار کرے ۔
(7) بعض احکام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف قسم کے عمل مذکور ہوئے اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
(8) بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا ۔
احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھاگیا ، یعنی نہ ایک ہی وقت میں سارے احکام مسلط کیے گئے اور نہ ہی ساری برائیوں سے روکا گیا ۔
(9) تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی رعایت کی گئی ۔
(10) نیکی کے بہت سے کاموں کی پوری تفصیل بیان کی گئی ۔ اس کو انسانوں کی سمجھ پر نہیں چھوڑا گیا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی ۔
(11) بعض احکام کے نفاذ میں حالات و مصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص و مزاج کی ۔ (فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، صفحہ 92 ، 93)
چنانچہ قرآنِ کریم جو کہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے، اس سے ہمیں مندرجہ بالا اصولوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے ۔ احکامِ شرعیہ کا بنیادی مَاخَذ قرآن مجید ہے اور اس سے مراد وہ کلام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرنازل کیا گیا ، مصاحف میں لکھا گیا اور بطریق تواتر نقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا ۔ اصو ل فقہ میں قرآن پاک کی تقریبا پانچ سو آیات مبارکہ سے بحث کی جاتی ہے کیونکہ احکام شرعیہ کا تعلق انہی سے ہے یعنی ان ہی آیات سے احکام کا استنباط ہوتا ہے اور بقیہ جو آیات مبارکہ ہیں وہ قَصَصِ اُمَمِ سابقہ (گذشتہ اُمتوں کے واقعات) اور تبشیر وتنذیر پر مشتمل ہیں ۔ حلال و حرام کے احکام کوقرآنی دلائل سے جاننا قرآن کے الفاظ کی اقسام کو جاننے پر موقوف ہے ۔ اس لیئے فقہی مسائل پر بحث کےلیئے قرآنی الفاظ کی اقسام کو جاننا ضروری ہے فقہی مسائل پر بحث ہر شخص کا کام نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔