Thursday 27 December 2018

ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ یازدہم آخری حصّہ

0 comments
ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ یازدہم آخری حصّہ

مرد اور عورت کی نماز کا فرق

بہت سے لوگ یہ غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ مردوعورت کی نماز کا فرق احادیث سے ثابت نہیں ، دونوں کی نماز کا طریقہ کار ایک ہی ہے ، حالآنکہ یہ حقیقت اورواقعہ کے سراسر خلاف ہے ، نبی کریمﷺسے نے مردو عورت کی نماز میں فرق بیان کیا ہے ، حضرات صحابہ کرام ﷡بھی اِس فرق کا لحاظ رکھا کرتےاور بیان کیا کرتے تھے اور یہی تابعین ، تبعِ تابعین ، اَسلاف اور اُمّت کے ائمہ مجتہدین کا مَسلَک تھا جیسا کہ آگےآنے والی احادیث سے یہ واضح ہوجائے گا ۔

مرد و عورت کی نماز میں عمومی فرق پر مشتمل احادیث

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، صَاحِبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الْأَوَّلُ، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الْآخِرُ ،وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافَوْا فِي سُجُودِهِمْ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِهِنَّ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِي التَّشَهُّدِ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ وَقَالَ:يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ لَا تَرْفَعْنَ أَبْصَارَكُنَّ فِي صَلَاتِكُنَّ تَنْظُرْنَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَالِ۔(سنن کبریٰ بیہقی:3198)
ترجمہ: صحابیِ رسول حضرت ابوسعید خدری﷜سے مَروی ہے کہ آپﷺنے اِرشاد فرمایا: مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی اور عورتوں کی سب سے بہترین آخری ہے، آپﷺمردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں، اور آپﷺمردوں کو اِس بات کا حکم دیاکرتے تھےکہ وہ تشہد کی حالت میں اپنے بائیں پاؤں کو بچھاکر دایاں پاؤں کھڑا کریں، اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر(یعنی تورّک کےساتھ زمین پر سرین رکھ کر)بیٹھیں، اور فرماتے : اے عورتو! تم لوگ نماز اپنی آنکھوں کو اٹھایا مت کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نگاہ مردوں کے ستر پر پڑجائے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ، فَقَالَ: «تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2778)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس ﷠سے ایک مرتبہ عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : ” تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ “ خوب اچھی طرح اکٹھے ہوکر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: تَجْتَمِعُ الْمَرْأَةُ إِذَا رَكَعَتْ تَرْفَعُ يَدَيْهَا إِلَى بَطْنِهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ، فَإِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ يَدَيْهَا إِلَيْهَا، وَتَضُمَّ بَطْنَهَا وَصَدْرَهَا إِلَى فَخِذَيْهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ۔(عبد الرزاق:5069،چشتی)
ترجمہ:حضرت ابن جریج﷫حضرت عطاء﷫سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی چنانچہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، اور جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی، پھر جب سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے (جسم کے)ساتھ ملالے گی، اور اپنے پیٹ اور سینہ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالے گی اور اور جتنا ہوسکے سمٹ کر سجدہ کرے گی۔
اِس حدیث سے عورت کی نماز کا اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی پوری نماز میں شروع شروع سے آخر تک اِس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ نماز میں زیادہ سے زیادہ سمٹ کر ارکان کی ادائیگی کرے، چنانچہ حدیثِ مذکور میں بار بار ” وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ “ کے الفاظ اِسی ضابطہ کو بیان کررہے ہیں ۔

عورت ہاتھ کیسے اور کہاں تک اُٹھائے گی

حضرت وائل بن حجر ﷜فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نےمجھ سے ارشاد فرمایا:”يَا وَائِلُ بْنَ حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا“اے وائل ! جب تم نماز پڑھنے لگو تو دونوں ہاتھ کانوں کے برابر اٹھاؤ،اورعورتیں اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں تک اٹھائیں۔(طبرانی کبیر:22/19)
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَتُشِيرُ الْمَرْأَةُ بِيَدَيْهَا كَالرِّجَالِ بِالتَّكْبِيرِ قَالَ:«لَا تَرْفَعُ بِذَلِكَ يَدَيْهَا كَالرِّجَالِ، وَأَشَارَ فَخَفَضَ يَدَيْهِ جِدًّا وَجَمَعَهُمَا إِلَيْهِ» وَقَالَ:«إِنَّ لِلْمَرْأَةِ هَيْئَةً لَيْسَتْ لِلرَّجُلِ»۔(مصنّف عبد الرزاق:5066)
ترجمہ:حضرت ابن جریج ﷫فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء ﷫سے پوچھا کہ کیا عورت تکبیر کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو مردوں کی طرح اٹھائے گی ؟ تو حضرت عطاء﷫نے فرمایا : نہیں، عورت اپنے ہاتھوں کو مردوں کی طرح نہیں اٹھائے گی۔اس کے بعد انہوں نے(سکھلانے کے لئے )بہت پست انداز میں اپنے ہاتھوں سے(تکبیر کا) اشارہ کیا اور ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹ کررکھا، اور فرمایا : إِنَّ لِلْمَرْأَةِ هَيْئَةً لَيْسَتْ لِلرَّجُلِ۔ عورت کی حالت(نماز کے بہت سے افعال میں ) مرد کی طرح نہیں ہے ۔
عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ زَيْتُونٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، تَرْفَعُ كَفَّيْهَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2470)
ترجمہ:حضرت امِّ درداء﷝کے بارے میں آتا ہے کہ وہ نماز کو شروع کرتے ہوئے (یعنی تکبیر تحریمہ کہتے وقت)اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اُٹھایا کرتی تھیں ۔
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ:أنا شَيْخٌ لَنَا،قَالَ:سَمِعْتُ عَطَاءً،سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ: كَيْفَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلَاةِ؟قَالَ:«حَذْوَ ثَدْيَيْهَا»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2471،چشتی)
ترجمہ:حضرت عطاء﷫سے عورت کے بارے میں دریافت کیاگیا کہ وہ نماز میں کہاں تک اپنے ہاتھ اُٹھائے گی؟ آپ نے اِرشاد فرمایا:اپنی چھاتیوں تک۔
اِمام اوزاعی﷫حضرت ابن شہاب زھری﷫کا بھی یہی قول نقل فرماتے ہیں : ”تَرْفَعُ يَدَيْهَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا“یعنی عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اُٹھائے گی۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2471)
عَنْ حَمَّادٍ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي الْمَرْأَةِ إِذَا اسْتَفْتَحَتِ الصَّلَاةَ:«تَرْفَعُ يَدَيْهَا إِلَى ثَدْيَيْهَا»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2473)
ترجمہ:حضرت حمّاد﷫بھی یہی فرماتے ہیں کہ عورت نماز کو شروع کرتے ہوئے
اپنے ہاتھ اپنی چھاتی تک اُٹھائے گی۔
عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، قَالَ: «رَأَيْتُ حَفْصَةَ بِنْتَ سِيرِينَ، كَبَّرَتْ فِي الصَّلَاةِ، وَأَوْمَأَتْ حَذْوَ ثَدْيَيْهَا»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2475)
ترجمہ:حضرت عاصم احول﷫فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ بنتِ سیرین کو دیکھا کہ اُنہوں نماز کی تکبیر کہتے ہوئے اپنے ہاتھ چھاتی تک اُٹھائے۔

عورت اپنے ہاتھ قیام کی حالت میں کیسے رکھے گی

عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ:تَجْمَعُ الْمَرْأَةُ يَدَيْهَا فِي قِيَامِهَا مَا اسْتَطَاعَتْ۔(مصنّف عبد الرزاق:5067)
ترجمہ:حضرت ابن جریج حضرت عطاء کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ عورت بحالت قیام اپنے ہاتھوں کو جتنا سمیٹ سکتی ہے سمیٹے گی۔

عورت رکوع کیسے کرےگی

عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: تَجْتَمِعُ الْمَرْأَةُ إِذَا رَكَعَتْ تَرْفَعُ يَدَيْهَا إِلَى بَطْنِهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ۔(مصنّف عبد الرزاق:5069،چشتی)
ترجمہ:حضرت ابن جریج﷫حضرت عطاء﷫سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی چنانچہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، اور جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی۔

عورت سجدہ کیسے کرےگی

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الْأُخْرَى،وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا، وَإِنَّ اللهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَيَقُولُ:يَا مَلَائِكَتِي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا۔(سنن کبریٰ بیہقی:3199)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر﷠ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی (دائیں ) ران کو دوسری (بائیں ) ران پر رکھے یعنی سمٹ جائے اور سجدہ میں جائے تواپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے اس طرح ملائے کہ پردہ کا لحاظ زیادہ سے زیادہ ہوسکے ۔اللہ تعالی اس عورت کی طرف دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ : اے فرشتو!تم گواہ بن جاؤ ، میں نے اس عورت کی مغفرت کردی ۔
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺمَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ:«إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الْأَرْضِ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ»۔(سنن کبریٰ بیہقی:3201)
ترجمہ:حضرت یزید بن حبیب ﷜سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں ، آپ ﷺ نے ان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا : جب تم سجدہ کرو تو جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹادو، اس لئے کہ اس (سجدہ کرنے )میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔
وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافَوْا فِي سُجُودِهِمْ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِهِنَّ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِي التَّشَهُّدِ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ۔(سنن کبریٰ بیہقی:3198)
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری﷜فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ مردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَحْتَفِزْ، وَلْتُلْصِقْ فَخِذَيْهَا بِبَطْنِهَا»۔(مصنّف عبد الرزاق:5072)
ترجمہ:حضرت علی ﷜سے موقوفاً مروی ہے کہ عورت جب سجدہ کرے تو اسے چاہیے کہ سمٹ کر کرے اور اپنی رانوں کو پیٹ کے ساتھ ملاکر کر سجدہ کرے ۔
حضرت حسن ﷫فرماتے ہیں:”اَلْمَرْأَةُ تَضْطَمُّ فِي السُّجُودِ“ کہ عورت سجدے میں اپنے آپ کو سمیٹے گی ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2781)
عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ، قَالَا:«إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَإِنَّهَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ، وَلَا تَتَجَافَى لِكَيْ لَا تَرْفَعَ عَجِيزَتَهَا»۔(مصنّف عبد الرزاق:5068،چشتی)
ترجمہ:حضرت معمر ﷫ سےحضرت حسن اورحضرت قتادہ ﷮کا یہ قول منقول ہے کہ : جب عورت سجدہ کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے آپ کو سمیٹے ، اور اپنے پیٹ کو رانوں سے جدا نہ کرے،کہیں اس کی سرین نہ اٹھ جائیں۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ:«إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا»۔( ابن ابی شیبہ:2777)
ترجمہ:حضرت علی ﷜سے مروی ہے: جب عورت سجدہ کرے توسرین کے بل بیٹھے اور اپنی دونوں رانوں کو ملاکر رکھے۔
عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَضَعُ الْمَرْأَةُ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2780)
ترجمہ: حضرت مُجاہد﷫سے مَروی ہے کہ وہ اِس بات کو ناپسند کیا کرتے تھے کہ کوئی مرد سجدہ کرتے ہوئے عورت کی طرح اپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ:«إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا، وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2779)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی﷫ سے مروی ہے : جب عورت سجدہ کرے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اپنی رانوں کو ملالے اور اپنے پیٹ کو اُن دونوں رانوں پر رکھ دے۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَهَا بِفَخِذَيْهَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِيزَتَهَا، وَلَا تُجَافِي كَمَا يُجَافِي الرَّجُلُ»۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2782)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی ﷫سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چپکا دے ، اور اپنی سرین کو اُٹھاکر نہ رکھےاور مَردوں کی طرح کھل کر سجدہ نہ کرے(یعنی اپنے جسم کو الگ الگ کرکے نہ رکھے)۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ:«كَانَتْ تُؤْمَرُ الْمَرْأَةُ أَنْ تَضَعَ ذِرَاعَهَا وَبَطْنَهَا عَلَى فَخِذَيْهَا إِذَا سَجَدَتْ، وَلَا تَتَجَافَى كَمَا يَتَجَافَى الرَّجُلُ، لِكَيْ لَا تَرْفَعْ عَجِيزَتَهَا»۔(مصنّف عبد الرزاق:5071)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی ﷫سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : عورت کو حکم دیاجاتا تھا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں اور پیٹ کو اپنی ران پر رکھے اور مَردوں کی طرح کھل کر (الگ الگ ہوکر) سجدہ نہ کرے تاکہ اُس کی سُرین (مردوں کی طرح)نہ اُٹھ جائے۔

عورت نماز میں کیسے بیٹھےگی

عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ:تَجْلِسُ الْمَرْأَةُ مِنْ جَانِبٍ فِي الصَّلَاةِ۔( ابن ابی شیبہ:2792)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی﷫سے مَروی ہے، فرماتے ہیں : عورت نماز میں(جلسہ
اور قعدہ میں) ایک جانب ہوکر(یعنی بائیں سرین پر تورّک کے ساتھ)بیٹھے۔
عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَتْ صَفِيَّةُ بِنْتُ أَبِي عُبَيْدٍ «إِذَا جَلَسَتْ فِي مَثْنًى أَوْ أَرْبَعٍ تَرَبَّعَتْ»۔(مصنّف عبد الرزاق:5074)
ترجمہ:حضرت نافع﷫ فرماتے ہیں کہ حضرت صفیّہ بنت ابی عُبید﷝ جب نماز میں پہلے یا دوسرے قعدہ میں بیٹھتیں تو سمٹ کر (تورّک کے ساتھ)بیٹھا کرتی تھیں۔
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ:«جُلُوسُ الْمَرْأَةِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ كَجُلُوسِهَا مَثْنًى»۔(مصنّف عبد الرزاق:5076،چشتی)
ترجمہ:حضرت ابن جریج حضرت عطاءسے نقل فرماتے ہیں کہ عورت کا دونوں سجدوں کے درمیان(جلسہ میں) بیٹھنا اُسی طرح ہوگا جیسے وہ قعدہ میں بیٹھتی ہے۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: «تُؤْمَرُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ فِي مَثْنًى أَنْ تَضُمَّ فَخِذَيْهَا مِنْ جَانِبٍ»۔(مصنّف عبد الرزاق:5077)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی﷫فرماتے ہیں : عورت کو حکم دیا جائے گا کہ وہ نماز میں دو کعت پر(یعنی قعدہ میں ) اِس طرح بیٹھے کہ وہ اپنی رانوں کو ایک جانب ملالے(یعنی تورّک کے ساتھ بیٹھے)۔
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: «تَجْلِسُ الْمَرْأَةُ فِي مَثْنًى كَيْفَ شَاءَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ»۔(مصنّف عبد الرزاق:5078)
ترجمہ: حضرت ابن جریج حضرت عطاء کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : عورت قعدہ میں جس طرح چاہے بیٹھے بشرطیکہ وہ سمٹ کر بیٹھے۔

نماز میں عورتوں کی مخصوص صورتیں

عورتوں کی نماز کے وہ خصوصی مسائل جس میں وہ مَردوں سے ممتاز ہیں ،وہ یہ ہیں :
(1) عورتوں کو قیام کی حالت میں دونوں پاؤں ملے ہوئے رکھنے چاہئیں، اِس طرح کہ اُن میں فاصلہ نہ ہو ،اسی طرح رکوع و سجود میں بھی ٹخنے ملاکر رکھنے چاہیئے۔
(2) عورتوں کو خواہ سردی وغیرہ کا عذر ہو یا نہ ہو ہر حال میں چادر یا دوپٹہ وغیرہ کے اندر ہی سے ہاتھ اٹھانے چاہیئے ، ہاتھوں کو باہر نہیں نکالنا چاہیئے۔
(3) عورتوں کو تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئےصرف اپنے کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانے چاہیئے۔
(4) عورت کو تکبیر تحریمہ کے بعد سینہ پر چھاتی کے نیچے یا اوپر ہاتھ رکھنے چاہئیں۔
(5) عورت کو اپنی داہنی ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ دینا چاہئے۔
(6) عورت کو رکوع میں زیادہ جھکنا نہیں چاہئے بلکہ اتنا جھکے کہ اس کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔
(7) عورت کو رکوع میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گھٹنوں پر کشادہ کیے بغیر ملاکر رکھنی چاہئیں۔
(8) عورت رکوع میں اپنے ہاتھوں پر سہارا نہ دے،اُسے چاہیئے کہ رکوع میں ہاتھ صرف گھٹنوں پر رکھے ،گھٹنوں کو پکڑنا نہیں چاہیئے۔
(9) عورت رکوع میں اپنے گھٹنوں کو جھکائے رکھے۔
(10) عورت کو رکوع میں اپنی کہنیاں اپنے پہلوؤں سے ملی ہوئی رکھنی چاہئیں یعنی سمٹی ہوئی رہیں۔
(11) عورت کو سجدے میں کہنیاں زمین پر بچھی ہوئی رکھنی چاہئیں۔
(12) سجدے میں دونوں پاؤں انگلیوں کے بل کھڑے نہیں رکھنے چاہئیں بلکہ دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے اور خوب سمٹ کر اور سکڑ کر سجدہ کرے یعنی سرین نہ اٹھائے۔
(13) سجدے میں پیٹ رانوں سے ملا ہوا ہونا چاہئے یعنی پیٹ کو رانوں پر بچھا دے۔
(14) بازو پہلوؤں سے ملے ہوئے ہوں، غرضیکہ عورتوں کو چاہیئے کہ سجدے میں بھی سمٹی ہوئی رہیں۔
(15) قعدہ میں بیٹھتے وقت مردوں کے برخلاف دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھنا چاہئے یعنی سرین زمین پر رہے ،پاؤں پر نہ رکھے۔
(16) عورتوں کو قعدہ میں ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی رکھنی چاہیئے۔
(17) جب کوئی امر نماز میں پیش آئے مثلاً عورت کی نماز کے آگے سے کوئی گزرے تو ”تصفیق “ کرے،اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مارے اور مَردوں کی طرح سبحان اللہ نہ کہے۔
(18) مَردوں کی امامت نہ کرے۔
(19) نماز میں صرف عورتوں کی جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے( مردوں کے لئے جماعت واجب ہے)
(20) عورتیں اگر جماعت کریں تو جو عورت امام ہو وہ صف کے بیچ میں کھڑی ہو،مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑا ہونا درست نہیں۔
(21) عورتوں کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے۔
(22) مردوں کی جماعت میں عورت مردوں سے پیچھے کھڑی ہو۔
(23) عورتوں پر جمعہ فرض نہیں لیکن اگر پڑھ لیں تو صحیح ہو جائے گا اور ظہر کی نمازساقط ہوجائے گی ۔
(24) عورت پر عیدین کی نمازواجب نہیں۔
(25) عورتوں پر ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد تکبیر واجب نہیں۔(لیکن راجح یہ ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی واجب ہے ، البتہ مردوں کی طرح جہر نہ کرے ، آہستہ آواز میں کہے۔از مرتب)
(26) عورت کیلئے نمازِ فجر مردوں کی طرح اجالا ہونے کے بعد پڑھنا مستحب نہیں ، بلکہ جلدی اندھیرے میں پڑھ لینا مستحب ہے۔
(27) عورتوں کو نماز میں کسی بھی وقت بلند آواز سے قرآت کرنے کا اختیار نہیں بلکہ ہر جہری نماز میں بھی آہستہ قرآت کرنا واجب ہے بلکہ جن فقہا کے نزدیک عورت کی آواز داخلِ ستر ہے اُن کے نزدیک جہر کے ساتھ قرآت کرنے سے عورت کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
(28)عورت اذان نہ دے ۔ (ماخوذ : فتاویٰ رضویہ ، بہارِ شریعت ،سنی بہشتی زیور ، جنّتی زیور) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔