Thursday, 27 December 2018

ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ ششم

ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ ششم

ائمّہ اربعہ میں دو بڑے اور مشہور اِمام یعنی اِمام اعظم ابوحنیفہ﷫اور حضرت اِمام مالک﷫ رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے رفعِ یدین کے قائل نہیں،اور اُنہوں نے رفعِ یدین کی روایات کو اِس لئے ترجیح نہیں دی کیونکہ وہ احادیث متن کے اعتبار سےمضطرب (مختلف) ہونے کی وجہ سےقابلِ اِستدلال نہیں ، چنانچہ رفعِ یدین کی ”أصح مافی الباب “یعنی سب سے زیادہ صحیح روایت جس کو رفعِ یدین کے بارےمیں سب سے مضبوط اور ٹھوس دلیل قرار دیا جاتا ہے،یہاں تک کہ اُسے ”حجۃ اللہ علی الخلق“کادرجہ دیا گیا ہے،وہ حضرت عبد اللہ بن عمر﷠کی ایک روایت ہے ،جسے اِمام بخاری﷫ نے نقل کیا ہے،ملاحظہ فرمائیے :
”عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ۔حضرت عبد اللہ بن عمر﷠نبی کریمﷺ کی نماز کا یہ طریقہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺنماز کے شروع میں تکبیر کہتے ہوئے ،رکوع میں جاتے ہوئےاور رکوع سے سر اُٹھاکر رفعِ یدین کیا کرتے تھے۔(بخاری:735)
لیکن یہ حدیث متن کے اعتبار سےمضطرب(یعنی مختلف)ہے،یعنی اِس کے الفاظ کے اندر بڑی کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے،جس کی وجہ سے یہ حدیث قابلِ اِستدلال نہیں،اور اِس کے اضطراب کی تفصیل یہ ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر﷠کی روایت میں بکثرت یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ نماز میں رفعِ یدین یعنی ہاتھوں کے اُٹھانے کا عمل کتنی مرتبہ اور کہاں کہاں کیا جائے گا ،چنانچہ :
ایک روایت میں صرف رکوع سے اُٹھ کر رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(مؤطا مالک:210)
ایک روایت میں دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونے کے بعد بھی رفعِ یدین کاذکر ہے۔(بخاری:739)
ایک روایت میں صرف سجدہ میں جاتے ہوئے بھی رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(طبرانی اوسط:16)
ایک اور روایت میں ہر خفض و رفع یعنی نماز میں ہر اونچ نیچ کے وقت رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(شرح مشکل الآثار:5831،چشتی)
٭…ایک روایت میں صرف نماز کے شروع میں تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(نصب الرّایۃ:1/404)(مستخرج ابی عوانہ:1572)
مذکورہ بالا تمام احادیث حضرت عبد اللہ بن عمر﷠سے ہی مَروی ہیں ، اور ان سب میں
دیکھ لیجئے کہ کس قدر شدیدمتن کا اختلاف و اضطراب پایا جاتا ہے ، نیز خود حضرت عبد اللہ بن عمر﷜جوکہ اِس ”أصح مافی الباب“روایت کے راوی ہیں ،خود اُن کا عمل بھی رفعِ یدین کا نہیں تھا ، چنانچہ مشہور اور جلیل القدر تابعی حضرت مُجاہد ﷫ جنہوں نے ایک طویل زمانہ حضرت عبد اللہ بن عمر﷠کے ساتھ گزارا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر﷠ کو صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔(مصنّف ابن ابی شیبۃ:2452)(طحاوی:1357)
جبکہ ترکِ رفعِ یدین کی روایات غیر مضطرب ہیں جن میں سند اور متن کا کوئی اختلاف اور اضطراب بھی نہیں پایا جاتا ، اور نہ ہی اُن کے راوی کا عمل اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے پس ایسے میں اُنہیں کیوں اختیار نہ کیا جائے اور وہ کیوں قابلِ ترجیح نہ ہوں۔اور پھر اُس پر مزید یہ کہ وہ روایات قرآن کریم کے مُوافق اور تعاملِ صحابہ کے مطابق بھی ہیں ، چنانچہ قرآن کریم کی آیات:﴿قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾اور﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُون﴾ سے اِسی کی تائید ہوتی ہے ، نیز خلفاء راشدین سمیت کئی صحابہ کرام اور تابعین کا عمل بھی اِسی کے مطابق رہا ہے اور اِسی وجہ سے اہلِ علم کے دو بڑے مرکز مدینہ منوّرہ اور کوفہ کے فقہاء کرام نے اِسی کو اختیار کیا تھا۔

سجدہ کرنا


سجدہ میں جانے کا طریقہ

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ۔(ابن ماجہ:882)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر ﷛ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا اور سجدے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا ۔

سجدہ کرنے کا طریقہ

سجدہ میں زمین پر سات اعضاء رکھنے چاہیئے : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: عَلَى الْجَبْهَةِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَنْفِ، وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ۔(نسائی:1097)
ترجمہ: حضرت ابن عباس ﷠سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے:مجھے سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے : چہرہ پر اور یہ کہتے ہوئے آپ نےاپنے ہاتھ سے ناک کی جانب اِشارہ کیا ،اور دونوں ہاتھ ،گھٹنے اور پاؤں کے کناروں پر ۔
عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ أَطْرَافٍ: وَجْهُهُ، وَكَفَّاهُ، وَرُكْبَتَاهُ، وَقَدَمَاهُ۔(مسلم:491،چشتی)
ترجمہ: حضرت عباس ﷛سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اُس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں : اُس کا چہرہ ، دونوں ہتھیلیاں،گھٹنے اور دونوں پاؤں۔

سجدہ میں سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھنا چاہیئے

حضرت وائل بن حجر ﷛نے نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:”فَلَمَّا، سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ“۔نبی کریم ﷺنے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان سجدہ فرمایا۔(مسلم:401)

سجدہ میں ہاتھ کانوں کے برابر ہونے چاہیئے

حضرت وائل بن حجر ﷛ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکےسجدہ کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:” ثُمَّ سَجَدَ، فَكَانَتْ يَدَاهُ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ “ یعنی پھر آپﷺنے سجدہ فرمایا تو آپ کے ہاتھ آپ کے دونوں کانوں کی سیدھ میں تھے۔(مسند احمد:18859)

سجدہ میں ہاتھوں کی اُنگلیاں ملی ہوئی ہونی چاہیئے

عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا سَجَدَ ضَمَّ أَصَابِعَهُ»۔(صحیح بن خزیمہ:642)
حضرت علقمہ ابن وائل اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیوں کو ملالیتے ۔

سجدہ میں ہاتھوں اور پاؤں کی اُنگلیوں کو قبلہ رُخ رکھنا چاہیئے

حضرت ابو حمید ساعدی﷛فرماتے ہیں”وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ الْقِبْلَةَ “ آپ ﷺنے سجدہ میں اپنی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھا ۔ (صحیح ابن خزیمہ:643،چشتی)
صحیح ابن حبان کی روایت میں جوکہ پاؤں کی انگلیوں کو بھی قبلہ رُخ رکھنے کا ذکر ہے :”وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ رِجْلَيْهِ إِلَى الْقِبْلَةِ “آپﷺنے سجدہ میں اپنے پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف کیا۔(صحیح ابن حبان:1869)

سجدہ میں دونوں کُہنیاں زمین سے اُٹھی ہوئی ہونی چاہیئے

حضرت براء بن عازب ﷛آپﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:”إِذَا سَجَدْتَ فَضَعْ كَفَّيْكَ، وَارْفَعْ مِرْفَقَيْكَ“جب تم سجدہ کرو تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر اور کہنیوں کو اٹھا کر رکھو ۔ (صحیح ابن خزیمہ:656)

سجدہ میں دونوں ہاتھ پہلووں سے الگ ہونے چاہیئے

حضرت ابوحمید ساعدی ﷛نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ“ پھر نبی کریم ﷺنے(سجدہ میں جانے کیلئے) اللہ اکبر کہا اور زمین پر سجدہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھا۔ (ابوداؤد:730)

سجدہ میں ہاتھ بہت زیادہ پھیلے یا سمٹے ہوئے نہیں ہونے چاہیئے

حضرت ابو حمید ساعدی ﷛ فرماتے ہیں ”فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ، وَلَا قَابِضَهُمَا“آپ ﷺنے جب سجدہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو زمین پراِس طرح سے رکھاکہ ہاتھوں کو نہ بہت پھیلایا نہ بہت زیادہ سمیٹا۔ (صحیح ابن خزیمہ:643)

سجدہ میں سُرین اُٹھی ہوئی ہونی چاہیئے

عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ:وَصَفَ لَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ السُّجُودَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ بِالْأَرْضِ وَرَفَعَ عَجِيزَتَهُ، وَقَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ۔ (صحیح ابن خزیمہ:646)
ترجمہ: حضرت ابو اسحاق﷫ فرماتے ہیں کہ ہم سےحضرت براء بن عازب﷛نے سجدہ کا طریقہ بیان کیا ، پس آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور اپنی سُرین اٹھائی، پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺکو ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

سجدہ میں دونوں پاؤں سیدھے کھڑے ہوئے ہونے چاہیئے

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَجَعَلْتُ أَطْلُبُهُ بِيَدِي فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى قَدَمَيْهِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ سَاجِدٌ۔ (نسائی:169،چشتی)
حضرت عائشہ صدیقہ ﷝فرماتی ہیں:ایک دفعہ رات کو (میری آنکھ کھلی تو )میں نے نبی کریم ﷺکو( بستر پر) نہ پایا ، میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو ٹٹولاتو میرا ہاتھ آپ ﷺکے قدموں میں لگا ، آپ سجدے میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں سیدھے کھڑے ہوئے تھے۔

سجدہ کی تسبیحات اور اُس کی تعداد

وَإِذَا سَجَدَ، فَقَالَ فِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ سُجُودُهُ، وَذَلِكَ أَدْنَاهُ۔ (ترمذی:261)
حضرت عبد اللہ بن مسعود﷛ نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : جب تم میں سے کوئی سجدہ کر ے اور اپنے سجدہ میں تین مرتبہ یہ کہے : ”سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى“ تو اُس نے اپنا سجدہ مکمل کرلیا ، اور یہ کم سے کم مقدار ہے ۔

جلسہ میں سکون اور اطمینان کے ساتھ بیٹھنا

نبی کریم ﷺنے ایک شخص کو نماز سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :”ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا “پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو ، پھر اطمینان کے ساتھ بیٹھو ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ (بخاری:793)

دوسرا سجدہ
حدیثِ اعرابی میں نبی کریم ﷺنے اعرابی کو نماز سکھاتے ہوئے فرمایا:”ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ وَتَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا“پھر تم اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان کے ساتھ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ دوسرا سجدہ کرو ،پھر اُٹھ جاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔ (بخاری:6667)

سجدہ سے قیام میں جانے کا طریقہ

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،قَالَ:رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ۔ (ابن ماجہ:882)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر﷛ فرماتے ہیں :میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ جب آپ نے سجدہ کیا تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھے اور جب آپ سجدہ سے اٹھے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھایا ۔

جلسہ استراحت نہ کرنا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَضُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ»۔ (ترمذی:288)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ﷛فرماتے ہیں :نبی کریمﷺنماز میں اپنے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر زور دے کر کھڑے ہوجاتے تھے۔
حضرت ابو مالک اشعری﷛نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں:”ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَانْتَهَضَ قَائِمًا“یعنی آپ ﷺنے تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ فرمایا پھر تکبیر کہی اور سیدھےکھڑے ہوگئے۔ (مسند احمد:22906)
نبی کریم ﷺ نے ایک اعرابی کو نماز سکھاتے ہوئے فرمایا :”ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَا“پھر تم اطمینان کے ساتھ دوسرا سجدہ کرو ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔پھر یہی کام اپنی ساری نماز میں کرو۔ (بخاری:6667)
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ قَالَ: أَدْرَكْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،«فَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ وَالثَّالِثَةِ قَامَ كَمَا هُوَ وَلَمْ يَجْلِسْ»۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:3989)
ترجمہ : حضرت نعمان بن عیاش ﷫فرماتے ہیں:میں نے کئی صحابہ کرام﷢ کوپایا ہے ،اُن کی حالت یہ تھی کہ جب پہلی اورتیسری رکعت میں سجدہ سے سر اٹھاتے تو سیدھا کھڑے ہوجاتے اور بیٹھتے نہ تھے۔
رَمَقْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الصَّلَاةِ فَرَأَيْتُهُ يَنْهَضُ وَلَا يَجْلِسُ»۔(مصنف عبد الرزاق:2966)
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن یزید﷫ فرماتے ہیں :میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛ کو نمازمیں بڑے غور سے دیکھا ، میں نے دیکھا کہ وہ (سجدہ سے اٹھنے کے بعد سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بیٹھتے نہیں ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...