ترکِ رفع پر غیر مقلدین کے گھر کی گواہیاں مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری
غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوی آیے دیکھتے ہیں کہ انکے بڑے اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
شیخ الکل غیر مقلدین جناب نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں لکھتے ہیں : رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 441)
شیخ الاسلام غیر مقلدین جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 579)
اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں . (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 608)
مجدد غیر مقلدین جناب نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی ، ان کی کتاب روضۃ الندیۃ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے ، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں : رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں ۔ (روضۃ الندیۃ صفحہ نمبر148،چشتی)
اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں : ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ نمبر 150) ۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے ۔
غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا وار نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں ، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے ، بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی گمراہی ہے ، آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو ۔
دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا
دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میںہمارے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس کو دیکھا کہ نماز فجر کی دعاء قنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ماہِ رمجان میںدعاء قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میںاپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہوکر تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل کو کہا کہ قنوت وتر میںیوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھاپنے عمر بن عبدالعزیز نے نماز صبح میںدعاء قنوت کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اتھائے اور سفیان سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اوردونوں ہاتھ اٹھائے پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے ۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن علی المقریزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مختصر قیام اللیل میں ہے اور حضرت ابو مسعود ، ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں شہید ہوئے قنوتِ وتر میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا مروی ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تحقیق میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو شہید کیا تھا ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ایسے ہی بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مسمیٰ معرفت میں ہے ۔ حررہ عبدالجبار العزنوی عفی عنہ (فتاویٰ غزنویہ ص ۵۱)۔(فتاویٰ علمائے حدیث : جلد نمبر 04 صفحہ نمبر283)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment