Thursday 27 December 2018

امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقلد حنفی اساتذہ بخاری بخاری کرنے والو اب تمہارا کیا بنے گا

0 comments

امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقلد حنفی اساتذہ بخاری بخاری کرنے والو اب تمہارا کیا بنے گا

امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 256ھ کے حنفی اساتذہ

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی ۱۵۰ ھ کے وہ شاگرد جنہوں نے آپ سے علم حدیث و فقہ حاصل کیا ہے ان کی تعداد بہت ہے لیکن اس مقالے میں آپ کے چند ایسے مشہور تلامذہ کا ذکر کیا جارہا ہے جو محدث و مجتہد تھے لیکن استنباط مسائل کے اصول و ضوابط میں اپنے شیخ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقلد تھے ۔ اس لحاظ سے انہیں حنفی کہنا درست ہے ۔ جیسا کہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام زفررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام حسن بن زیاد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ محدث و مجتہد فی المذہب ہونے کے باوجود اپنے شیخ کی اکثر رائے کو اختیار کرنے کی وجہ سے حنفی کہلاتے ہیں ۔ یوں تو صحاح ستہ کے مصنفین میں سے ہر ایک بالواسطہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد ہیں لیکن ذیل میں ہم کچھ ایسے مشہور محدثین کے نام ذکر کرہے ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد ہیں اور وہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بالواسطہ یا بلا واسطہ استاذ ہیں ۔

(1۱) حماد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ : یہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد ہیں ۔ ا نہوں نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے احادیث روایت کی ہیں۔
امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے : ابوحنیفۃ روی عنہ الثوری وابن المبارک وحماد بن زید ۔ (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر ج۱ص۱۴۹)
ترجمہ : ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے راویات لینے والوں میں سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حماد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی ہیں ۔ اور یہی حماد بن زید رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد گرامی و استاذ اسماعیل بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اساتذہ میں ہیں ۔
امام عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد گرامی کے بارے میں لکھتے ہیں : روی عن حماد بن زید وابن المبارک ۔ (تہذیب التہذیب ج۱ص۲۴۰،چشتی)
امام اسماعیل بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حماد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن المبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے احادیث سنی ہیں ۔
خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان کے والد حضرت اسماعیل بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت حماد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حدیثیں سنی ہیں ۔ (التاریخ الکبیر ج۸ص۸۱) مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حصرت حماد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد تھے اور حضرت حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد اسماعیل بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور اسماعیل بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد واستاذ تھے تو معلوم ہوا کہ حماد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک واسطے سے امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا استاذ اورامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پردادا استاذ ہوئے ۔

(2) عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی ۱۸۱ ؁ھ : یہ بات محقق ہے کہ امام عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے علم فقہ و حدیث حاصل کرنے والوں میں تھے ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : نعمان بن ثابت ابوحنیفۃ الکوفی روی عنہ ابن المبارک ۔
ترجمہ: ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ابن المبارک نے احادیث روایت کی ہیں۔(التاریخ الکبیر ۸؍۸۱)
خود امام ابن المبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : کتبت کتب ابی حنیفۃ غیر مرۃ ،فکانت تقع فیہا زیادات فاکتبہا ۔
ترجمہ : متعدد بار میں نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتابیں لکھی ہیں ۔ پھر ان میں اضافہ ہوتا تو میں لکھتا تھا ۔ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصمیری ص۱۳۶)
امام عطیہ بن اسباط رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : کان ابن المبارک اذا قدم الکوفۃ تقدم علی زفر فیعیرہ کتبہ عن ابی حنیفۃ فیکتبہا ، حتی کتبہا مرارا ۔
ترجمہ : ابن المبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب کوفہ آتے تھے تو امام زفر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آتے تھے امام زفر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بطور عاریت انہیں امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مرویات کی کتابیں دیتے تھے جنہیں وہ لکھتے تھے ۔ انہوں نے کئی بار ان کتابوں کے نسخے لکھے تھے ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للصمیری ص۱۳۷،چشتی)
امام عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مرویات پر مشتمل کتابیں محفوظ تھیں اور اکثر مسائل میں وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی رائے پر ہی فتویٰ دیتے تھے اس لئے وہ اہل الرائے سے مشہور بھی ہوگئے تھے ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاذ و والد حضرت اسماعیل بن ا براہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد تھے اور امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد تھے ۔

(3) یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی ۱۹۸ ؁ھ : امام محدث ، مجتہد فقیہ تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حدیث اور فقہ کا علم حاصل کیا ۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں ان کا قول ہے : جالسنا واللہ ابا حنیفۃ وسمعنا منہ وکنت واللہ اذا نظرت الیہ عرفت فی وجہہ انہ یتقی اللہ عز وجل ۔ (تاریخ بغداد جلد ۱۳ص۳۵۲) واللہ ہم نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علمی مجلسوں میں بیٹھا اور ان سے سماعِ احادیث کیا ۔ واللہ میں ان کو دیکھتا تھا تو ان کے چہرے سے یہ محسوس ہوتا تھاکہ وہ اللہ عزوجل سے ڈرنے والے ہیں ۔
یحییٰ بن سعید قطان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول بھی ہے : قد اخذنا باکثراقوالہ (تہذیب التہذیب)
ہم نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اکثر اقوال کو اختیا ر کیا ۔ امام یحییٰ بن سعید قطان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں امام عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا : ثقۃ متقن حافظ امام قدوۃ ۔ (تقریب التہذہب ۲؍۱۰۵۲ترجمہ ۷۶۰۷) امام یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ثقہ ، کامل ،حافظہ والے ، حافظ الحدیث ، امام ، اہل علم کے سردار تھے ۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا : الحافظ الکبیر وکان راسا فی العلم والعمل ۔ (الکاشف ترجمہ ۶۱۷۵)
امام یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بڑے حافظ الحدیث تھے اور علم و عمل میں سردار تھے ۔
امام یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علاوہ ائمہ کتب صحاح ستہ کے بھی شیوخ میں سے تھے اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس علم حدیث فقہ سے استفادہ کرنے والے تھے ۔

(4) وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی ۱۹۶ ؁ھ یا ۷ ۱۹ ؁ھ : امام، محدث، فقیہ، مجتہد تھے ۔ امام ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ثقۃ حافظ عابد (التقریب ترجمہ ۸۳۴۸) ثقہ ،حافظ الحدیث اور عابد تھے ۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : احدالاعلام علم کے ایک کوہ گراں تھے ۔ (الکاشف ۶۰۵۶)امام ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ وکیع بن الجراح ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اقوال پر فتوی دیا کرتے تھے ۔ مشہور اہل حدیث عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی میں لکھا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ وکیع بن الجراح ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے ۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ ان کے اقوال ان کے اجتہاد کی بنیاد پر امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی رائے کے موافق ہوتے تھے اس لئے یہ سمجھ لیا گیا کہ وہ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول پر فتوی دیتے تھے ۔ اہل علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ فقہاء کرام علیہم الرّحمہ کے طبقات میں طبقہ اولیٰ کے فقہاء کو مجتہد مطلق کہا جاتا ہے وہ اصول وفروع میں کسی کی تقلید نہیں کرتے بلکہ خود اصول و ضوابط مقرر کرنے والے ہوتے ہیں۔ دوسرے طبقے کے فقہاء وہ ہوتے ہیں جنہیں مجتہد فی المذاہب کہا جاتا ہے وہ حضرات استخراج اصول و ضوابط میں اپنے استاذ کی تقلید کرنے والے ہوتے تھے اور کبھی بعض اصول و فروع میں بھی ان سے اختلاف کرنے والے ہوتے تھے جیساکہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ و محمد رحمۃ اللہ علیہ اکثر فروع میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول پر فتوی دیتے تھے اور کبھی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول مرجوح کو راجح سمجھتے ہوئے اختیار بھی کرتے تھے ۔ جس طرح امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ و امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ و زفر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ و حسن بن زیاد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیر ہم شاگردان امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجتہد فی المذہب تھے اور اکثر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول پر فتوی دیتے تھے ، اسی طرح امام وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی مجتہد فی المذہب تھے اور اپنے استاذ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اکثر اقوال پر فتوی دیتے تھے ۔ امام وکیع کو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے غیر مجتہد مقلدین میں کس نے شمار کیا کہ مبارکپوری صاحب کو اس بات کی تردید پیش کرنے کی ضرورت ہوئی کہ امام وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے استاذ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اصول استنباط میں مقلد تھے اور ان کے اکثر اقوال پر فتویٰ دیتے تھے ؟ مبارکپوری صاحب کی یہ بات طبقات فقہاء سے نا واقفیت پر مبنی ہوسکتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ امام وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد آپ کے اقوال پر فتوی دینے والے تھے اور امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شیوخ میں سے تھے ۔

(5) مکی بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ولادت ۱۲۶ ؁ھ وفات ۲۱۵ ؁ھ : امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ثلاثیات کے استاذ ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کے ترجمے میں تحریر فرمایا :حدث عن جعفر الصادق وابی حنیفہ وعنہ البخاری واحمد ۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۱ص۳۶۵) ، مکی بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے احادیث سنی ہیں اور ان سے امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے احادیث سنی ہیں ۔ معلوم ہوا کہ مکی بن ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاذ لہٰذا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا استاذ ہوئے ۔

(6) مسعر بن کدام ابوسلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی ۱۵۳ ؁ھ یا ۱۵۵ ؁ھ:امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ مسعر بن کدام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عبادت گزار اور خشوع وخضوع والے بندوں میں سے تھے ۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : مسعر بن کدام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قابل اعتماد ، کامل حافظہ والے فاضل تھے ۔ (کتاب الثقات لابن حبان ترجمہ ۵۳۹۵،التقریب ترجمہ ۷۴۴۳،چشتی)

(7) قاسم بن معن کوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی ۱۷۵ ؁ھ : کوفہ میں عہدۂ قضا پر مامور تھے ۔ ہارون رشید کے دور خلافت میں وفات ہوئی ۔ (کتاب الثقات ۷؍۳۳۹) امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ثقۃ فاضل تھے اور امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : وثقہ احمد و قیل کان کالشعبی فی زمانہ ۔ (التقریب ترجمہ ۶۱۷۵، الکاشف ترجمہ ۴۵۳۳) ، قاسم بن معن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ثقہ فاضل تھے ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں ثقہ فرمایا اور کہا گیا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں عامر شعبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیسے تھے ۔ (یعنی اپنے زمانے کے بے مثال محدث وفقیہ تھے)
قاسم بن معن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ان شاگردوں میں سے تھے جن کو آپ یہ فرمایا کرتے تھے ، انتم مسار قلبی وجلاء حزنی ۔ تم سب میرے دل کا سرور اورمیرے غم کا مداوا ہو ، یہ حضرت قاسم بن معن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شیوخ میں سے تھے ۔

(8) امام ابوعاصم ضحاک بن مخلد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوقی ۲۱۲ ؁ھ : امام بخاریرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ۲۲ ثلاثیات میں ۶ ثلاثیات کے شیخ ہیں ۔ صحاح ستہ کی کتابوں کے راوی ہیں ۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ابوعاصم النبیل البصری ثقۃ ثبت۔ ابوعاصم النبیل بصری ثقہ ، کامل حافظہ والے تھے ۔ (التقریب ترجمہ ۲۹۹۴)
امام حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، منری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مطابق ابوضحاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے تلامذہ میں سے اور امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اساتذہ میں سے تھے ۔ (تسمۃ من اخرجہم البخاری ومسلم، للحاکم ج۱ص۱۴۳،تہذیب الکمال ج۱۳ص۲۸۳،سیراعلاء النبلاء ج۶ص۳۹۳ ،الکاشف ج۱ص۵۰۹)

(9) خلاد بن یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی ۲۱۳ ؁ھ : امام ابن حبان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحریر فرمایا : خلاد بن یحیےٰ بن صفوان السلمی ابومحمد، من تبع الاتباع من اہل الکوفۃ، سکن مکۃ۔ مات بمکۃ سنۃ ثلاث عشرۃ ومائتین ۔ (الثقات ۸؍۲۲۹) ، ابومحمد خلاد بن یحیےٰ بن صفوان السلمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تبع تابعین میں سے تھے ۔ کوفہ سے نکل کر مکہ میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔ مکہ میں ۲۱۲ ؁ھ میں وفات ہوئی۔ امام ا بن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : صدوق رمی بالارجاء وہو من کبار شیوخ البخاری ۔ (التقریب ترجمہ ۱۹۳۵) ، سچے تھے۔ ان پر بلاوجہ مرجٹہ ہونے کا الزام تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے کبار شیوخ میں سے تھے ۔
امام ابن بزاز الکردری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام صالحی الشامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے محدثین تلامذہ میں شمار کیا ہے ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ للکردری ۲؍۲۱۹، عقود الجمان ص۱۱۰)

(10) عبداللہ بن یزید ابوعبدالرحمن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ المقری متوفی ۲۱۳ ؁ھ : امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحریر فرمایا : ثقۃ فاضل اقرأ القرآن نیفا وسبعین سنۃ وہو من کبار شیوخ البخاری (التقریب ترجمہ ۳۷۳۹)
امام عبداللہ بن یزید المقری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قابل اعتماد فاضل تھے ۔ ۷۰ سال سے زیادہ قرآن کی تعلیم دینے میں مصروف رہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اکابر اساتذہ میں سے تھے ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا کہ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد تھے ۔ (سیر اعلام النبلاء ۶؍۳۹۳،تہذیب التہذیب ۱۰؍۴۰۱) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔