فقہ کی ضرورت اور اہمیت
اسلامی عقائد‘دینی فرائض‘شرعی واجبات‘عبادات اور معاملات سے متعلق بنیادی معلومات حاصل کرنا ہرمسلمان کے لئے لازم وضروری ہے ‘ البتہ دین میں تفقہ حاصل کرنا‘اس کی گہرائی وگیرائی میں اترنا‘خالصۃًاس کے لئے فارغ ہوجانا اور اس میں کامل عبورحاصل کرنا‘تاکہ نت نئے مسائل کاقرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیاجاسکے ‘یہ فرض کفایہ کے درجہ میں ہے، ہرشخص علم دین میں کامل تفقہ حاصل کرنے کے لئے مکمل طورپر وقت نہیں دے سکتا، مسلمانوں کے تمام افراد فقہ واستنباط کے لئے فارغ نہیں ہوسکتے، اگر سارے لوگ فقہ وبصیرت کے حصول کے لئے مصروف ہوجائیں تو معاشی معاملات میں خلل واقع ہوگا، امورمعیشت متاثر ہوں گے، جبکہ مسلمانوں کے لئے کسبِ معاش بھی لازمی وضروری ہے، اسی لئے مسلمانوں کی ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو علم دین کے تفقہ کے لئے فارغ ہوجائے، دین کی سمجھ بوجھ کے لئے اپنے آپ کو وقف کردے ، دین کی فقہ وفہم میں مہارت حاصل کرے‘ تاکہ نت نئے مسائل کاقرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے سکے۔جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَمَاکَانَ الْمُوْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا کَافَّةً . فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنْ ۔
ترجمہ : اور تمام اہل ایمان تو ایک ساتھ نکل نہیں سکتے ‘ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہر بڑی جماعت سے کچھ خاص لوگ نکل جاتے ‘تاکہ وہ دین کی فقہ وفہم کو حاصل کریں اور اپنی قوم کو ڈرائیں جب ان کی طرف واپس ہوں ‘تاکہ وہ(گناہوں کی زندگی سے) بچیں ۔ (سورۃ التوبۃ:122)
فقہ کی اصل قرآن کریم سے:۔ اللہ تعالی نے تفقّہ فی الدین حاصل کرنے کاحکم فرمایا ، اس سے فقہ کی اہمیت ووقعت عیاں وآشکار ہوتی ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
کُوْنُوْا رَبَّا نِيِّيْنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنْ .
ترجمہ : تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ تم کتاب الہی کی تعلیم دیتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو۔(سورۃ ال عمران۔79)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے:
وقال ابن عباس ’’کونوا ربانيين‘‘ حکماء فقهاءْ.
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ ’’کُوْنُوْا رَبَّانِیِّیْنَ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ تم حکمت وبصیرت والے ،فقہ واستنباط والے بن جاؤ ۔ (صحیح البخاری ‘ کتاب العلم‘ باب العلم قبل القول والعمل،چشتی)
اس تفسیر سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی فقہ واستنباط والے بننے کا حکم دے رہاہے، صحیح بخاری شریف میں اس کی تفسیر یہی بیان کی گئی ہے کہ فقہا ء بن جاؤ ،حکمت وبصیرت والے بن جاؤ، فکر وتدبر والے بن جاؤ، دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بن جاؤ۔
فقہ کی اصل حدیث شریف سے
تاجدار کائنات‘ سیدالانبیاء والمرسلین ‘حامل علوم اولین وآخرین صلی اللہ علیہ وسلم ارواحنا فداہ ارشاد فرماتے ہیں : عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه و سلم اِنَّ لِکُلِّ شَيْئٍ دِعَامَةً وَدِعَامَةَ هٰذَا الدِّيْنِ الْفِقْهُ .
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون تو فقہ ہی ہے ۔ (جامع الاحادیث‘ حدیث نمبر: 8154۔ الجامع الکبیر‘ حدیث نمبر:1504۔ کنزالعمال ،حرف العین ، حدیث نمبر:28768۔ العلل المتناہیۃ‘ باب فضل الفقہ علی العبادۃ‘ حدیث نمبر:194)
فقہ کتاب وسنت کا لب لباب
اس حدیث پاک میں اسی بات کی صراحت کی گئی کہ دین کا نچوڑ فقہ ہے ‘دین کا مدار فقہ ہے ‘دین کا سرمایہ فقہ ہے، فقہ قرآن وحدیث کے مقابل کسی چیز کانام نہیں ہے بلکہ قرآن کریم وحدیث شریف کے صحیح فہم وادراک کا نام فقہ ہے ، فقہ تو دین کا سہارا ہے ، دین کا ستون ہی موجود نہیں تو دین کہاں رہا ؟ سہارا ٹوٹ گیا تو دین کہا ں رہا ؟
فقہ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ فقہ کی طرف نہ جاؤ جب فقہ کی طرف نہ جائیں گے تو پھر فقہ سے خالی رہ کر قرآن کریم وحدیث شریف کیسے سیکھیں گے؟ کیونکہ قران وسنت سے رشد وہدایت حاصل کرنے کے لئے محض کلمات کا ترجمہ جان لینا کافی نہیں بلکہ اس کے حقیقی معنی ومفہوم کو سمجھنا ضروری ہے اور فقہ دراصل قرآن کریم وحدیث شریف کے منشا کو پانے کا نام ہے ۔
قرآن کریم اور احادیث شریفہ اسلامی قانون کی اساس وبنیاد ہیں ، جن میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا مکمل حل موجود ہے ،قرآن کریم عام فہم اور آسان ہونے کے باوجود اس میں آیات محکمات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں ، آیات قرآنیہ کو سمجھنا اور ان سے مسائل کا حل نکالنا عام انسان تو کجا ایک ماہرِ زبان کے لئے بھی آسان بات نہیں کیونکہ محض زبان پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے قانون کی نزاکتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے،جیسے انگریزی ادب (English literature) کا ماہر شخص ہندوستانی دستور (Indian constitution) یا کسی بھی ملک کے قانون کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتا، زبان کی مہارت اور تقریروتحریر پر زبردست ملکہ کے باوجود قانونی نزاکتوں کو سمجھنا‘دستوری پیچیدگیوں کو دور کرنا‘ نہایت دشوار ہوتاہے ، اس کے لئے کسی ماہر قانون سے رجوع ہونا ضروری ہے ۔
ضرورت فقہ قرآن کریم کی روشنی میں
چونکہ ہر دور کے تقاضے مختلف رہے ہیں جس کی بنا انسان کو ہر وقت نئے مسائل درپیش ہوتے رہتے ہیں ، مثلاً دور حاضر کے مسائل میں شیر بزنس(Share business ) کو دیکھ لیجئے، اس کی کونسی صورتیں جائز ہیں اور کونسی ناجائز ہیں ؟ فکسڈ ڈپازٹ (Fixed deposit )کروانا کیسا ہے؟ کسی چیز کی آن لائن خرید وفروخت ، اپنے قبضہ میں آنے سے قبل کسی چیز کو بیچ دینا ، لائف انشورنس (life insurance) کا شرعی حکم ، اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں ‘جن کو عام انسان اپنے علم ودانش ، فہم وادراک سے حل نہیں کرسکتا اور ایسے بے شمارجدید مسائل سے متعلق قرآن وحدیث میں موجود اشاروں کو اپنی ناقص عقل سے سمجھ نہیں سکتا‘ لہذا ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے امامِ مجتہد کی طرف رجوع کرے جو‘ ان مسائل کا حل قرآن کریم و حدیث شریف کی روشنی میں بیان کرتے ہوں ۔
ائمہ کرام و فقہاء عظام نے قرآن کریم اور احادیث شریفہ کی روشنی میں اصول وضوابط ، قواعد و احکام بیان کئے ہیں ونیز انسانی زندگی میں پیدائش سے موت تک پیش آنے والے تمام مسائل واحکام کو انہوں نے باب واری ’’کتاب الطھارۃ‘‘سے ’’کتاب الفرائض‘‘ تک مدون کیا ، جس کے مجموعہ کو فقہ کہا جاتا ہے ، اسی لئے ان بااعتماد ائمہ کرام ومجتہدین کی پیروی وتقلید دراصل کتاب وسنت ہی کی پیروی ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آَمَنُوا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ .
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور تم میں جو اولی الامرہیں ان کی اطاعت کرو ۔ (سورۃالنساء۔59)
امام ابو جعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی :310) نے اپنی کتاب جامع البیان فی تفسیر القرآن میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما،حضرت مجاہد ،حضرت ابن ابونجیح ،حضرت عطاء بن سائب،حضرت حسن بصری اور حضرت ابو العالیہ رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ اولی الامر سے مراد فقہاء واہل علم حضرات ہیں ۔
عن مجاهد فی قوله : ( أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولی الأمر منکم ) قال : أولی الفقه منکم ۔ ۔ ۔ عن ابن أبی نجيح : ( وأولی الأمر منکم ) قال: أولی الفقه فی الدين والعقل ۔ ۔ ۔ عن ابن عباس قوله : ( أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولی الأمر منکم ) يعنی : أهل الفقه والدين ۔ ۔ ۔ عن عطاء بن السائب فی قوله : ( أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولی الأمر منکم ) قال : أولی العلم والفقه ۔ ۔ ۔ عن عطاء : ( وأولی الأمر منکم ) قال : الفقهاء والعلماء ۔ ۔ ۔ عن الحسن فی قوله : ( وأولی الأمر منکم ) قال : هم العلماء ۔ ۔ ۔ عن أبی العالية فی قوله : ( وأولی الأمر منکم ) قال : هم أهل العلم ألا تری أنه يقول : ( ولو ردوه إلی الرسول وإلی أولی الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم ) ۔ (تفسیر الطبری‘ سورۃ النساء۔59،چشتی)
حضرت ابن ابو نجیح رحمۃ اللہ علیہ نے امام مجاہد مکی تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت نقل کی ہے : عن ابن ابی نجيح عن مجاهد فی قوله عزوجل واولی الامرمنکم يعنی اولی الفقه فی الدين والعقلْ.
ترجمہ : حضرت ابن ابو نجیح رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد دین میں تفقہ اور فہم وبصیرت رکھنے والے فقہاء کرام ہیں ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاذ ، امام عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:211) فرماتے ہیں : عبد الرزاق قال :نا معمرعن ابن ابی نجيح عن مجاهد فی قوله تعالی ’’واولی الامرمنکم ‘‘قال :هم اهل الفقه والعلم . اولی الامر سے مراد فقہاء واہل علم ہیں ۔
صاحب تفسیر کبیر علامہ فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،حضرت حسن بصری ،امام مجاہد اور امام ضحاک رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ اولی الامر سے مراد وہ علماء ہیں جوشریعت کے احکام بتاتے ہیں اورلوگوں کودین سکھاتے ہے ۔ :المراد العلماء الذين يفتون فی الاحکام الشرعية ويعلمون الناس دينهم ۔وهذه رواية الثعلبی عن ابن عباس وقول الحسن ومجاهد وضحاک . (التفسیرالکبیر۔سورۃالنساء:59)
ونیزفرماتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کی ایک جماعت نے اولی الامرسے علماء مراد لیاہے:انه لانزاع ان جماعة من الصحابة والتابعين حملوا قوله واولی الامرمنکم علی العلماء . (التفسیرالکبیر۔سورۃالنساء)
اولی الامر سے مراد فقہاء ہیں علامہ ابن کثیر کی وضاحت
علامہ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : وقال علی ابن ابی طلحة ،عن ابن عباس واولی الامرمنکم يعنی اهل الفقه والدين ، وکذا قال مجاهد وعطاء والحسن البصری وابوالعالية و اولی الامرمنکم يعنی العلماء .
ترجمہ : حضرت علی بن ابو طلحۃ ،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ واولی الامرمنکم کی تفسیر سے متعلق روایت بیان فرماتے ہیں کہ اس سے مراد متدیّن فقہاء کرام ہیں ۔اور اسی طرح امام مجاہد،حضرت عطاء ،حضرت حسن بصری اور ابوالعالیہ رحمہم اللہ نے فرمایا کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں ۔
(تفسیر ابن کثیر، ج2ص345، سورۃالنساء :59)۔)طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment