Saturday, 15 December 2018

نماز کی نیت و مسائل

نماز کی نیت و مسائل

نماز کی شرائط متقدمہ پوری کرنے کے بعد جب نماز کے لیے کھڑا ہوتوسب سے پہلے نمازکی نیت کرے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کاارشاد گرامی ہے : حدثنا الحمیدی عبداللہ بن الزبیرقال حدثنا سفیان قال حدثنا یحیی بن سعیدالانصاری قال اخبرنی محمدبن ابراہیم التمیمی انہ سمع علقمۃ بن وقاص اللیثی یقول سمعت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ علی المنرقال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول انماالاعمال بالنیات ۔
ترجمہ : اعمال کی صحت نیت پرموقوف ہے ۔
اس حدیث کوامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں (حدیث نمبر۱،۵۹۱۶ ،۹۳۴۶) اورامام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں (حدیث نمبر۰۳۵۳)اورامام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۲۸۸۱) اورترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع میں (حدیث نمبر۱۷۵۱) اورنسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۴۷،۴۸۳۳،۷۳۴۳) اورامام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۷۱۲۴) روایت فرمایا ۔ (الفاظ و سند صحیح بخاری کی ذکرکی گئی ہے)

بخاری و مسلم نے امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” انما الاعمال بالنیات و لکل امرء مانوی” یعنی ” اعمال کا مدار نیت پر ہی ہے اور ہر شخص کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی ” ۔

نیت کے تعلق سے اہم مسائل

مسئلہ : نیت دل کے پکے ارادے کو کہتے ہیں ۔ محض جاننا نیت نہیں تاوقتیکہ ارادہ نہ ہو (تنویرالابصار)

مسئلہ : زبان سے نیت کرنا مستحب ہے ۔ نماز کی نیت کے لئے عربی زبان میں نیت کرنے کی تخصیص نہیں کسی بھی زبان میں نیت کرسکتا ہے ۔ البتہ عربی زبان میں نیت کرنا افضل ہے ۔ ( درمختار)

مسئلہ : احوط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ ( اللہ اکبر) کہتے وقت نیت حاضر ہو ( منیۃ المصلی)

مسئلہ : نیت میں زبان کا اعتبار نہیں بلکہ دل کے ارادہ کا اعتبار ہے ۔ مثلاً ظہر کی نماز کا قصد کیا اور زبان سے لفظ عصر نکلاتو بھی ظہرکی ہی نماز ادا ہوگی ( رد المحتار، درمختار)

مسئلہ : نیت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اگر اس وقت کوئی پوچھے کہ کون سی نماز پڑھتا ہے تو فوراً بلا تامل بتادے کہ فلاں نماز پڑھتا ہوں اور اگر ایسا کوئی جواب دے کہ سوچ کر بتاؤںگا تو نماز نہ ہوئی ۔(درمختار)

مسئلہ : نفل نماز کے لئے مطلق نماز کی نیت کافی ہے ۔اگرچہ نفل نیت میں نہ کہے ۔ (درمختار)

مسئلہ : فرض نماز میں نیت فرض ضروری ہے ۔ مطلق نماز کی نیت کافی نہیں ۔ ( در مختار)

مسئلہ : فرض نماز میں یہ بھی ضروری ہے کہ اس خاص نماز کی نیت کرے ۔ مثلاً آج کی ظہر یا فلاں وقت کی فرض نماز پڑھتا ہوں ۔ ( تنویرا لابصار)

مسئلہ : فرض نماز میں صرف اتنی نیت کرنا کہ آج کی فرض پڑھتا ہوں کافی نہیں بلکہ نماز کو متعین کرنا ہوگا ۔ مثلاً آج کی ظہر یا آج کی عشاء وغیرہ ۔ ( ردالمحتار)

مسئلہ : واجب نماز میں واجب کی نیت کرے اور اسے متعین بھی کرے ۔ مثلاً نماز عید الفطر، عیدالاضحیٰ ، وتر ، نذر ، نماز بعد طواف وغیرہ ۔ ( در مختار ، ردا لمحتار)

مسئلہ : سنت ، نفل اور تراویح میں اصح یہ ہے کہ مطلق نماز کی نیت کافی ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ تراویح میں تراویح کی یاسنتِ وقت کی یا قیام اللیل کی نیت کرے ۔ تراویح کے علاوہ باقی سنتو ں میں بھی سنت یانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی نیت کرے ۔ ( منیۃ المصلی،چشتی)

مسئلہ : نیت میں تعدادِ رکعت کی ضرورت نہیں البتہ افضل ہے ۔ اگر تعداد رکعت میں غلطی واقع ہوئی مثلاً تین رکعت ظہر کی یا چار رکعت مغرب کی نیت کی اور ظہر کی چار پڑھی اور مغرب کی تین پڑھی تو نماز ہوجائے گی ۔ ( درمختار ، ردالمحتار)

مسئلہ : یہ نیت کرنا کہ منہ میرا قبلہ کی طرف ہے ، شرط نہیں ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ قبلہ سے انحراف و اعراض کی نیت نہ ہو (درمختار، رد المحتار )

مسئلہ : مقتدی کو امام کی اقتداء کی نیت بھی ضروری ہے ۔( عالمگیری)

مسئلہ : مقتدی نے بہ نیتِ اقتدا یہ نیت کی کہ جوا مام کی نماز ہے وہی میری نماز تو جائز ہے۔(عالمگیری )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مسئلہ : مقتدی نے اگر صرف نمازِ امام یا فرض امام کی نیت کی اور اقتدا کا قصد نہ کیا اس کی نماز نہ ہوئی۔ ( عالمگیری)

مسئلہ : نیت اقتدا میں یہ علم ہونا ضروری نہیں کہ امام کون ہے ؟ زید ہے یا عمرو ہے ۔ صرف یہ نیت کافی ہے کہ اس امام کے پیچھے ۔ ( غنیہ )

مسئلہ : اگر مقتدی نے یہ نیت کی کہ زید کی اقتداکرتاہوں اور بعد کو معلوم ہوا کہ امام زید نہیں بلکہ عمرو ہے تو اقتدا صحیح نہیں ۔ ( عالمگیری ، غنیہ )

مسئلہ : امام کو مقتدی کی امامت کرنے کی نیت ضروری نہیں یہاں تک کہ اگر امام نے یہ قصد کیا کہ میں فلاں کا امام نہیں ہوں اور اس شخص نے اس امام کی اقتدا کی تو نماز ہوجائے گی۔ (درمختار)

مسئلہ : اگر کسی کی فرض نماز قضا ہوگئی ہو اور وہ قضا پڑھتا ہو تو قضا نماز پڑھتے وقت دن اور نماز کا تعین کرنا ضروری ہے ۔ مثلاً فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا کی نیت ہونا ضروری ہے ۔ اگر مطلقاً کسی وقت کی قضا نماز کی نیت کی اور دن کاتعین نہ کیا یا صرف مطلقاً قضا نماز کی نیت کی تو کافی نہیں ۔ ( در مختار)

مسئلہ : اگر کسی کے ذمہ بہت سی نمازیں باقی ہیں اور دن و تاریخ بھی یاد نہ ہو اور ان نمازوں کی قضا پڑھنی ہے تو اس کے لئے نیت کا آسان طریقہ یہ ہے کہ سب میں پہلی یا سب میں پچھلی فلاں نماز جو میرے ذمے ہے اس کی قضا پڑھتا ہوں ۔ ( درمختار ، فتاوٰی رضویہ جلد ٣ ، ص ٦٢٤)۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comment:

  1. بہت اعلی ڈاکٹر صاحب
    حسن نظامی صدر پنجاب پریس کلب پھول نگر
    03334375844

    ReplyDelete

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...