Sunday, 23 December 2018

نمازِ تراویح کا بیان

نمازِ تراویح کا بیان

بیس (20) رکعت تراویح اُمّت کا ایک اجماعی اور اِتفاقی مسئلہ ہے ، اِس میں 8 رکعات کا قول اختیار کرناکسی بھی اِمام کا مسلَک نہیں اور نہ ہی صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اور فقہاء و مجتہدین علیہم الرّحمہ میں کبھی اِس کا کوئی قائل رہا ہے ، لہٰذا اس مسئلہ میں 8 رکعات تَراویح کا نظریہ اختیار کرناجمہور صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین ، فقہاء ومحدّثین ،ائمہ اربعہ و مجتہدینِ امّت ، شرق و غرب کے تمام اہلِ علم کے اتفاق اور اِجماع کے سراسر خلاف ہے ، جس کی دلائل کے اعتبار سے کوئی قوّت اور حیثیت نہیں ۔ایک اَدنیٰ عقل و دانش کا حامل شخص بھی اِس حقیقت کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ جس مسئلہ پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اِجماع ہو، ائمہ اربعہ اُس مسئلہ پر متفق ہوں،اور ہر زمانے کے فقہاء و محدّثین اُس کے قائل رہے ہو ں ، اور اس میں کسی کا کبھی کوئی اختلاف نہ رہا ہو ،نیز اُس مسئلہ کو ابتداء ہی سے تَلقّی بالقبول یعنی اُمّت میں عمومی قبولیت کادرجہ حاصل رہا ہو اُس کی مُخالفت کرتے ہوئے اپنی رائے کو دین و شریعت کی حیثیت دینا سوائے ضلالت و گمراہی کے کیا ہوسکتا ہے۔ذیل میں 20 رکعات تراویح کےواضح دلائل ذکر کیے جارہے جس سے روزِ روشن کی طرح اِس مسئلہ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے :

تَراویح کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عَمل

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ۔(طبرانی کبیر:12102)(ابن ابی شیبہ:7692)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان میں 20 رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
یہ حدیثِ مَرفوع ہے ، اِس کے راویوں میں سوائے ”اِبراہیم بن عُثمان“کے تمام راوی ثقہ ہیں ، اور اِبراہیم بن عُثمان بھی متفقہ طور پر ضعیف نہیں ہیں،بلکہ بعض حضرات کی جانب سے اُن کی توثیق بھی کی گئی ہے ، لہٰذا صرف ایک مذکورہ راوی کی وجہ سے حدیث کو ناقابلِ اِعتبار نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ علاوہ اَزیں بہت سی دیگر احادیثِ صحیحہ اور آثارِ قویّہ (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے) سے اِس مذکورہ روایت کی تائید بھی ہوتی ہے جن میں صراحۃً تراویح کا 20 رکعت ہونا بیان کیا گیا ہے،اور اِس سب سے بڑھ کر جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کا 20رکعت تَراویح پر تعامل اور اِتفاق اِ س روایت کی صحت کی بہت بڑی دلیل ہے جس کے بعد اِس روایت پر کوئی کلام کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔ (اِعلاء السنن:7/82)
علّامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض حضرات نے حضرت عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عنہ کی اِس حدیث کو جو ضعیف قرار دیا ہے وہ کسی بھی طرح دُرست نہیں،اِس لئے کہ جب اِس حدیث کے مطابق حضرات صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کا اِجماع منقول ہے، حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فیصلہ اور صحابہ کرام کا بغیر کسی انکار و نکیر کے اس حدیث کو قبول کرنا منقول ہے تو حدیث کا ضعف کہاں باقی رہ سکتا ہے،اِس لئے بہر حال یہی کہا جائے گا کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع کی وجہ سے قوی ہوگئی ہے ، لہٰذا اس سے استدلال کرنا بلاشبہ درست ہے ۔ (منحۃ الخالق علی البحر الرائق:2/72،چشتی)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِی خِلاَفَۃِ أَبِی بَکْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلاَفَۃِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَاوَعَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِیِّ، أَنَّہُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، لَیْلَۃً فِی رَمَضَانَ إِلَی المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، یُصَلِّی الرَّجُلُ لِنَفْسِہِ، وَیُصَلِّی الرَّجُلُ فَیُصَلِّی بِصَلاَتِہِ الرَّہْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّی أَرَی لَوْ جَمَعْتُ ہَؤُلاَء عَلَی قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَکَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَہُمْ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَہُ لَیْلَۃً أُخْرَی، وَالنَّاسُ یُصَلُّونَ بِصَلاَۃِ قَارِئِہِمْ، قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ البِدْعَۃُ ہَذِہِ، وَالَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِی یَقُومُونَ یُرِیدُ آخِرَ اللَّیْلِ وَکَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ أَوَّلَہُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جو شخص ایمان و یقین کے ساتھ رمضان (کی را توں ) میں قیام کرے اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ ابن شہاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا سے رخصت ہو گئے تو وہی حالت تھی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی یہی حال تھا ۔ حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رمضان کی ایک رات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں گیا تو لوگوں کو الگ الگ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں انہیں ایک ہی قاری پر متفق کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ چنانچہ ان سب کو ایک امام ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء پر جمع کر دیا گیا ۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات گیا تو وہ ایک قاری کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ اچھی بدعت ہے اور فرمایا : رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اِس سے بہتر ہے جس میں کھڑے ہوتے ہیں اور لوگ ابتدائی حصے میں کھڑے ہوتے تھے ۔ (صحیح بخاری، ج1، کتاب الصوم، باب:فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، ص715، حدیث:1875)

تراویح بیس (20) رکعت ہے

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِيْ رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسَ أَرْبَعَةً وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلَاثَةٍ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان المُبارک کی ایک رات (اپنے حجرہ سے) نکلے اور لوگوں کو4 رکعت(فرض نماز)20 رکعت (تَراویح) اور 3 رکعت وِتر پڑھائی۔(أخرجہ حمزۃ السہمی الجرجانی فی تاریخہٖ :317،چشتی)

بیس (20) رکعت تراویح اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ اَنَّہٗ قَالَ کَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِیْ رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِیْنَ رَکْعَتٍ ۔
ترجمہ : حضرت یزید بن رومان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں لوگ تیئس (23)رکعتیں نماز پڑھا کرتے تھے ۔ (موطا امام مالک، کِتَابُ الصَّلوٰۃ فِیْ رَمَضَان، باب: مَاجَائَ فِیْ قَیَامِ رَمَضَان، ص122، حدیث:5)
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:کَانَ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ یُصَلِّی بِنَا فِی رَمَضَانَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً، وَیَقْرَأُ:بِحَمْدِ الْمَلَائِکَۃِ فِی رَکْعَۃٍ ۔
ترجمہ : حضرت نافع بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہمیں ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیس (20) رکعتیں پڑھاتے تھے ۔ (مُصَنّف اِبْن اَبِی شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ التَّطَوُّعِ وَاْلِامَامَۃ، باب:کُمْ یُصَلِّی فِیْ رَمَضَانَ مِنْ رَکْعَۃٍ، حدیث:7683) ، حافظ عبد الرزاق چشتی نے اپنی کتاب ’’نماز حبیب کبریا‘‘ صفحہ 350 پر اس حدیث کے متعلق بحوالہ نقل کیا ’’اسنادہ صحیح‘‘ یعنی اس کی سند صحیح ہیں ۔
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ، عَنْ عَطَاء ٍ، قَالَ: أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَعِشْرِینَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ ۔
ترجمہ : حضرت عطا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے لوگوں کو وتر کے ساتھ تیئس (23) رکعتیں پڑھتے ہوئے پایا ۔ (مُصَنّف اِبْن اَبِی شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ التَّطَوُّعِ وَاْلِامَامَۃ، باب : کُمْ یُصَلِّی فِیْ رَمَضَانَ مِنْ رَکْعَۃٍ، حدیث:7688)
حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی فِی رَمَضَانَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان میں بیس(20) رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے ۔ (مُصَنّف اِبْن اَبِی شَیْبَہ، کِتَابُ الصَّلوٰۃ التَّطَوُّعِ وَاْلِامَامَۃ، باب:کُمْ یُصَلِّی فِیْ رَمَضَانَ مِنْ رَکْعَۃٍ، حدیث:7692)
عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ،عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ:أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ يُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7688)
ترجمہ: حضرت عطاء ابن ابی رباح﷫(جوکہ ایک بہت مشہور اور بڑے تابعی ہیں اور اُن کا شمار کِبار تابعین میں ہوتا ہے،وہ )فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اِس حالت میں پایا ہے کہ وہ 23رکعتیں وتر سمیت تراویح پڑھتے تھے۔
عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ،أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔(ابن ابی شیبہ:7682،چشتی)
ترجمہ:حضرت یحیٰ بن سعید﷫فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب﷜نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 20 رکعت تَراویح پڑھائے۔
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ:كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلاَثٍة وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً فِيْ رَمَضَانَ۔(مؤطا مالک:281)
ترجمہ:حضرت یزید بن رُومان﷫ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر ﷜کے زمانہ خلافت میں رَمضان کے اندر(وتر سمیت)23رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ:كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، قَالَ:وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمَئِينِ، وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ۔(سنن بیہقی:2/698)
ترجمہ:حضرت سائب بن یزید ﷜سے مَروی ہےکہ لوگ حضرت عمر ﷜کے دور میں رمضان المبارک کے اندر20 رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان ﷜
کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : دَعَا الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/699)
ترجمہ:حضرت علی﷜نے رمضان المبارک میں قرّاء(اچھا پڑھنے والوں)کو بلایا اور اُن میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ لوگوں کو20 رکعت تراویح پڑھاؤ۔
عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِب أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/699)( ابن ابی شیبہ:7681)
ترجمہ:حضرت ابوالحسناء﷫نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ﷜نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان میں پانچ ترویحات یعنی 20رکعات پڑھایا کرے۔
صحابہ کرام﷢میں حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜کا جو مَقام و مَرتبہ ہے وہ دین کے کسی اَدنیٰ طالبِ علم سے بھی مَخفی اور پوشیدہ نہیں ، نبی کریمﷺکے سفر و حضر کے ساتھی،آپ کے انتہائی قریب رہنے والے ،آپﷺکی کئی طرح کی خدمات کی ذمّہ داری کو بحسن و خوبی نبھانے والے یہ وہ مشہور جلیل القدر صحابی ہیں جن کے تفقّہ اور دین کی سمجھ بوجھ کا یہ عالَم تھا کہ صحابہ کرام اپنے مسائل میں اِن کی جانب رجوع فرمایا کرتے تھے۔اُن کے نزدیک بھی تَراویح کی رکعات20 ہی تھیں،چنانچہ وہ خود بھی اِسی پر عمَل کرتے ہوئے رمضان کے مہینہ میں 20رکعات تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔
حضرت زید بن وھب﷫فرماتے ہیں:”كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِنَا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ“حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ہمیں رمضان کے مہینہ میں تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔اور اِس کی مِقدار اِمام اَعمَش﷫فرماتے ہیں:”كَانَ يُصَلِّي عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ“حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایا کرتے تھے۔(أخرجہ محمّد بن نصر المَروَزی فی قیام اللیل و قیامِ رَمضان:221)(عُمدۃ القاری:11/127،چشتی)
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ:كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7684)
ترجمہ:حضرت عبد العَزیز بن رُفیع﷫فرماتے ہیں کہ مدینہ منوّرہ میں حضرت اُبَی بن کعب﷜ لوگوں کو ماہِ رَمضان میں 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایا کرتے تھے۔

تَراویح کے بارے میں حضرات تابعین رضی اللہ عنہم کا عَمل

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ:كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً،قَالَ:وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمَئِينِ،وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ۔(سنن بیہقی:2/698)
ترجمہ:حضرت سائب بن یزید ﷜سے مَروی ہےکہ لوگ حضرت عمر ﷜کے دورِ خلافت میں رمضان المبارک کے اندر20رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان ﷜کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔
عَنِ الْحَارِثِ:أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً،وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ، وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ۔(ابن ابی شیبہ :7685)
ترجمہ : حضرت حارث﷫ سے مَروی ہے کہ وہ رمضان میں لوگوں کو20 تراویح
اور 3 وتر پڑھاتے تھے اور رُکوع سے قبل قنوت پڑھتے تھے۔
عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ:أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(ابن ابی شیبہ :7686)
ترجمہ:حضرت اَبو البختری﷫ جوکہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے خاص اَصحاب میں سے ہیں ،اُن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان المُبارک میں 5 تَرویحے(یعنی20 رَکعات) اور 3 رکعات وِتر پڑھایا کرتے تھے۔
عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ،أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7690)
ترجمہ:حضرت سعید بن عُبید فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ربیعہ لوگوں کو رمضان المبارک میں 5ترویحے(یعنی بیس رکعت)اور 3 رکعت وتر پڑھایا کرتے تھے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ،عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ:أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْر۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7680،چشتی)
ترجمہ:حضرت شتیر بن شکل، جو حضرت علی ﷜کے اصحاب میں سے تھے، رمضان المبارک میں لوگوں کو 20 رکعت تراویح اور وتر پڑھایا کرتے تھے۔
أَبُو الْخَصِيْبِ قَالَ:كَانَ يَؤُمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/698)
ترجمہ: حضرت ابوالخصیب کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن غفلہ ﷫ ہمیں رمضان میں
نماز پڑھاتے تھے، پس5 ترویحے یعنی 20رکعتیں پڑھاتے تھے۔
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:كَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً۔(مصنّف ابن ابی شیبہ :7683)
ترجمہ: حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابنِ ابی مُلیکہ ﷫ہمیں رَمضان میں 20 رکعت تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَاخْتَلَفَ أَہْلُ العِلْمِ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَی بَعْضُہُمْ: أَنْ یُصَلِّیَ إِحْدَی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَۃً مَعَ الوِتْرِ، وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ المَدِینَۃِ، وَالعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَہُمْ بِالمَدِینَۃِ، وَأَکْثَرُ أَہْلِ العِلْمِ عَلَی مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِیٍّ، وَغَیْرِہِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً، وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِیِّ، وَابْنِ المُبَارَکِ، وَالشَّافِعِیِّ ” وقَالَ الشَّافِعِیُّ: وَہَکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً وقَالَ أَحْمَدُ: رُوِیَ فِی ہَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ یُقْضَ فِیہِ بِشَیْء ٍ وقَالَ إِسْحَاقُ: بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَۃً عَلَی مَا رُوِیَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ۔
ترجمہ : علماء کا قیام رمضان (تراویح) میں اختلاف ہے ۔ بعض علماء کے نزدیک وتر کے ساتھ اکیس (21) رکعتیں ہیں۔ یہ اہل مدینہ کا قول و عمل ہے۔ اور اکثر علماء کے نزدیک بیس(20) رکعتیں ہیں جیسا کہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ اور کئی صحابہ کرامؓ سے مروی ہے۔ امام سفیان ثوری، ابن مبارک اور امام شافعی (امام ابو حنیفہ)اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں میں نے اسی طرح مکہ والوں کو بیس رکعتیں پڑھتے ہوئے پایا۔ امام احمد فرماتے ہیں اس بارے میں مختلف روایات ہیں انہوں نے اس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا۔ امام اسحاق فرماتے ہیں کہ ہم اکتالیس (41) رکعتیں پسند کرتے ہیں جس طرح حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے ۔ (جامع ترمذی، ابو اب الصوم، باب:مَاجَائَ فِیْ قَیَامِ شَہْرِ رَمَضَان، ص432، حدیث:785،چشتی)

مذکورہ بالا احادیث اور امام ترمذی کے قول سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بیس(20) رکعت تراویح سنتِ صحابہ و تابعین ہے۔ اختلاف اگر تھا تو وہ بیس (20) اور اکتالیس (41) رکعتوں میں تھا۔ آٹھ (8) رکعت تراویح تو کسی بھی محدث یا فقیہ کے نزدیک ہے ہی نہیں ورنہ امام ترمذی اس کا ذکر ضرور کرتے۔

نمازِ تَراویح اور فقہاء کرام اور محدّثینِ عظام علیہم الرّحمہ

حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمۃ کے حوالے سے بیس (20) رکعت تراویح پر صحابۂ کرام کا اجماع نقل کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں : اجمع الصحابۃ علیٰ ان التراویح عشرون رکعۃ ، یعنی صحابۂ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح بیس(20) رکعت ہے ۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ، ج3، ص194)
اِمام شافعی ﷫ فرماتے ہیں:”وَرَأَيْتُهُمْ بِالْمَدِينَةِ يَقُومُونَ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِينَ، وَأَحَبُّ إلَيَّ عِشْرُونَ؛ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَكَذَلِكَ يَقُومُونَ بِمَكَّةَ وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ“
ترجمہ:میں نے لوگوں کو مدینہ منوّرہ میں دیکھا ہے کہ وہ39 رکعات تَراویح پڑھتے ہیں ،جبکہ میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ20 رکعت پڑھی جائے،اِس لئے کہ یہ حضرت عُمر ﷜سے مَروی ہے، اور مکہ مکرّمہ کے رہنے والے بھی 20رکعت تَراویح اور 3رکعت وِتر پڑھتے ہیں ۔(کتاب الاُمّ:1/167)
اِمام ترمذی﷫فرماتے ہیں :وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً
ترجمہ:تراویح کے20 رکعت ہونے پر اکثر اہلِ علم کا عمل ہے ، جیسا کہ حضرت علی﷛،حضرت عمر﷛ اور دیگر صحابہ کرام﷡ سے مَروی ہے۔(ترمذی:806)
محدّثِ عظیم،شارِحِ مُسلم علّامہ نووی﷫فرماتے ہیں : مَذْهَبُنَا أَنَّهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً بِعَشْرِ تَسْلِيمَاتٍ غَيْرَ الْوِتْرِ وَذَلِكَ خَمْسُ تَرْوِيحَاتٍ وَالتَّرْوِيحَةُ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ بِتَسْلِيمَتَيْنِ هَذَا مَذْهَبُنَا وَبِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَأَحْمَدُ وَدَاوُد وَغَيْرُهُمْ وَنَقَلَهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ عَنْ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ“۔
ترجمہ:تَراویح کی رکعات کے بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ وہ وِتر کے علاوہ20 رکعات ہیں اور وہ5 ترویحات بنتی ہیں ،اِس طرح کہ ہر ایک تَرویحہ2 سلام کے ساتھ4 رکعت پر مشتمل ہے۔یہ ہمارا مسلَک ہے،اور اِمام ابوحنیفہ،اُن کے اَصحاب اور اِمام احمد اور داؤد وغیرہ سب کا مسلک بھی یہی ہے،بلکہ قاضی عیاض﷫نے تو اسے جمہور علماء کا مسلَک قرار دیا ہے۔(المجموع شرح المہذّب:4/32)
علّامہ ابن عبد البر مالکی﷫فرماتے ہیں : وَهُوَ قَوْلُ جمهُور الْعُلَمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثرُ الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ خِلَافٍ مِّنَ الصَّحَابَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ“۔(عُمدۃ القاری:11/127)
ترجمہ : 20 رکعات تَراویح جمہور علماء کا قول ہے،اور یہی کُوفیوں اور اِمام شافعی اور اکثر فقہاء کرام﷭ کا قول ہے اور یہی بات صحیح طور پر حضرت اُبیّ بن کعب﷜سے ثابت ہے جس کی صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی مُخالفت نہیں کی ۔
ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں : فَالْقِيَامُ بِعِشْرِينَ هُوَ الْأَفْضَلُ وَهُوَ الَّذِي يَعْمَلُ بِهِ أَكْثَرُ الْمُسْلِمِينَ فَإِنَّهُ وَسَطٌ بَيْنَ الْعَشْرِ وَبَيْنَ الْأَرْبَعِينَ ۔
ترجمہ : پس20 رکعات تَراویح پڑھنا ہی افضل ہے،اور یہی وہ مسلَک ہے جس پراکثر مسلمان عمل کرتے ہیں ، اِس لئے کہ یہ 10 اور 40 رکعات کے درمیان ایک معتدل اور درمیانہ قول ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:22/272،چشتی)
علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ :قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ فی رمضان و یوتر بثلث فرأی کثیر من العلماء ان ذٰلک ہو السنۃ لانہ قام بین المہاجرین و الانصار و لم ینکرہ منکر‘‘۔
ترجمہ : یہ بات متحقق ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ لوگوں کو رمضان میں بیس(20) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے اسی لئے بے شمار علماء نے اسی کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ حضرت ابن کعب ؓ نے انصار و مہاجرین کی موجودگی میں پڑھائی تھی اور کسی نے انکار نہیں کیا۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج23، ص112)
علّامہ کاسانی﷫فرماتے ہیں:وَالصَّحِيحُ قَوْلُ الْعَامَّةِ لِمَا رُوِيَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَصَلَّى بِهِمْ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَلَمْ يُنْكِرْ أَحَدٌ عَلَيْهِ فَيَكُونُ إجْمَاعًا مِنْهُمْ عَلَى ذَلِكَ
اور (تَراویح کے بارے میں)صحیح قول اکثر عُلماء کرام کا ہے(یعنی20 رکعات)اِس لئے کہ حضرت عُمر﷜کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکے صحابہ کرام کو رمضان کے مہینہ میں حضرت اُبیّ بن کعب﷜کی اقتداء پر جمع کردیا تھا، چنانچہ وہ لوگوں کو ہر رات میں20 رکعت پڑھاتے، اور اِس پر کسی صحابی نے بھی اُن پر نکیر نہیں کی ، لہٰذا یہ صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کی جانب سے 20 رکعت پر اِجماع ہوگیا۔(بدائع الصنائع:1/288)

تہجد اور تراویح الگ الگ ہے

یہاں پر حدیث کا صرف وہ حصہ درج کی جا رہی ہے جس سے تہجد اور تراویح الگ الگ ثابت ہوتے ہیں پوری حدیث، حدیث نمبر {120}میں ملاحظہ فرمائیں۔

قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ البِدْعَۃُ ہَذِہِ، وَالَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِی یَقُومُونَ یُرِیدُ آخِرَ اللَّیْلِ وَکَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ أَوَّلَہُ ۔
ترجمہ : امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ (تراویح کی جماعت) اچھی بدعت ہے اور فرمایا : رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اِس سے بہتر ہے جس میں کھڑے ہوتے ہیں اور لوگ ابتدائی حصے میں کھڑے ہوتے تھے ۔ (صحیح بخاری، ج1، کتاب الصوم، باب:فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، ص715، حدیث:1875)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم تراویح کی نماز تو بہت ذوق و شوق سے ادا کر رہے ہو لیکن تہجد بھی ادا کرو کیونکہ آخر رات کی نماز(تہجد) اس نماز(تراویح ) سے افضل ہے ۔ معلوم ہوا کہ تراویح اور تہجد دونوں الگ الگ نماز ہے۔ایسا نہیں کہ تہجد کو رمضان میں تراویح کہہ دیا جائے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے ہوتے ہوئے کوئی تہجد کو تراویح کہے تو ممکن ہے کہ وہ تصویر کو اصل کہہ دے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...