ادلہ فقہ کا تیسرا ماخذ اجماع امت
محترم قارئین : اس سے پہلے ہم ادلہ اربعہ میں سے قرآن اور سنّت کے بارے میں عرض کرچکے ہیں اب پیش خدمت ہے ادلہ فقہ کا تیسرا ماخذ اجماع امت امید ہے آپ کو یہ سلسلہ پسند آئے گا اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو اصلاح فرمائیں :
احکام کے استنباط میں قرآن وسنت کے بعد اجماع ایک اہم اور عظیم بنیاد ہے ، نظام معتزلی ، خوارج شیعہ اور غیرمقلدین کے علاوہ پوری امت کا اس پرا تفاق ہے ، اجماع امت کے منتخب اہلِ علم کے اتفاقی فیصلہ کا نام ہے ، اس لیئے اس میں خطا کا احتمال نہیں رہ جاتا ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے : إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ ۔ (ترمذی، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، حدیث نمبر:۲۰۹۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ : میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر متفق نہیں کرےگا (بلکہ اتفاق و اجتماعیت کی وجہ سے اللہ کی نصرت وتائید آتی رہے گی) ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا کہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے یعنی جماعت کے ساتھ اس کی مدد ونصرت ہوتی ہے، اجماع کی اہمیت اس بات سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اجماع اسی امت محمدیہ کی خصوصیت ہے ۔
اجماع کے لغوی معنی
لغت میں اجماع کے دومعنی ہیں :
(1) عزم اور پختہ ارادہ کرنا، جب کوئی شحص کسی کام کا عزم اور پختہ ارادہ کرلیتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے : “اِجْمَعْ فَلَان عَلَی
کَذَا“۔ (ارشاد الفحول:۱۰۹)
ترجمہ : فلاں نے اس کام کا عزم کرلیا ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ“۔ (یونس:۷۱)
ترجمہ : تم سب مل کر اپنے کام کا عزم کر لو ۔
اسی معنی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد مبارک ہے : “مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ“ ۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَا جَاءَ لَاصِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنْ اللَّيْلِ، حدیث نمبر:۶۶۲)
ترجمہ : جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کا عزم اور پختہ ارادہ نہیں کیا اس کا روزہ درست نہیں ہوگا ۔
(2) اجماع کا دوسرا معنی “اتفاق کرنا“ ہے ، اسی کا اعتبار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے : “اِجْمَعَ الْقَوْم عَلَی کَذَا“۔ (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸۰۔ ارشاد الفحول:۱۰۹)
ترجمہ : قوم نے اس کام پر اتفاق کرلیا، مذکورہ دونوں معنی کے درمیان فرق یہ ہے کہ اجماع بمعنیٰ عزم ایک شخص کی طرف سے متصور ہوجاتا ہے؛ لیکن دوسرے معنی کے لیے کم ازکم دوشخصوں کا ہونا ضروری ہے ، اس لغوی معنی کے اعتبار سے بنی نوع انسان کے ہرطبقہ اور ہرقوم میں کسی امر پر اتفاق ہوسکتا ہے؛ خواہ وہ دنیوی ہو یادینی؛ لیکن فقہ اسلامی میں ہرقوم کا اور ہرامر پر اتفاق مراد نہیں ہے؛ بلکہ لغوی معنی کی بہ نسبت اسلامی فقہ اور اس کے دائرے میں اجماع کا مفہوم اور اس کی مراد خاص ہے ۔
اجماع کی اصطلاحی تعریف
علامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : “الاجماع عبارۃ عن اتفاق جملۃ أھل الحل والعقد من امۃ محمد فی عصر من الاعصار علی حکم واقعۃ من الوقائع“۔ (الأحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸،چشتی)
ترجمہ : اجماع نام ہے امت محمدیہ میں سے اہل حل وعقد کا کسی زمانہ میں کسی نئے واقعہ پر اتفاق کرنے کا ۔
تعریف کا حاصل یہ ہے کہ اجماع انہی حضرات کا معتبر ہے جومجتہد اور صالح ہوں، شرافت وکرامت اور تقویٰ وتدین کی صفت سے متصف ہوں اور فسق وفجور سے دور ہوں اور اجماع کا محل اصلاً شریعت کے فروعی یعنی عملی احکام ہیں نیزاس سے ان احکام کا بھی ثبوت ہوتا ہے جو ایمان وکفر کا مدار تو نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن وہ سنت بدعت میں امتیاز پیدا کرتے ہیں ،جیسے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت پر اتفاق کہ اس کے
خلاف رائے بدعت ہے ۔ (اصول البزدوی:۲۴۲۔ نورالانوار:۲۲۳۔ اصول الفقہ لاسعدی:۲۱۴)
وقوعِ اجماع
ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد دورِ صحابہ رضی اللہ عنہ کے صدر اوّل میں اجماع کا انعقاد وحصول آسان تھا ،اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اہل حل وعقد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ سے باہر جا کر دوسرے شہروں میں رہنے بسنے سے روک دیا تھا ؛ تاکہ امورِ سیاست اور علمی مسائل میں ان سے مشاورت کا موقع ہروقت حاصل رہے ؛ لیکن اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ سے باہر دور دراز مقامات میں پھیل گئے اور ان کی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں حجاز ، عراق ، شام اور مصر وغیرہ ممالک میں بڑے بڑے علماء وفقہاء
کی ایک عظیم تعداد پیدا ہوگئی توپھراب مجتہدین کا کسی حکم پر اجماع ممکن العمل نہ رہا ؛ کیونکہ عام علمی مشاورت کا امکان منقطع ہوگیا اور ظاہر ہے کہ کسی ایک شہر کے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہوجانے کو اصطلاح میں اجماع نہیں کہتے؛ بلکہ قابلِ حجت اجماع وہ ہے جو ایک زمانہ کے سارے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہونا، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے بستے ہوں ؛ یہی وجہ ہے کہ نظری وعلمی حیثیت سے تواجماع ایک حجت ضرور ہے ؛ مگرواقعی عملی اور تاریخی حیثیت سے اجماع کا وقوع اور انعقاد صرف خلافتِ راشدہ کے عصر اوّل تک محدود رہا اور وہ بھی محض معدودے چند مسائل ہیں ۔
حقیقت اجماع
اجماع اصل میں محض رائے ہے ؛ جیسا کہ قیاس رائے ہے ؛ البتہ اجماع وقیاس کے درمیان فرق یہ ہے کہ قیاس کے تحت جورائے ہوتی ہے وہ انفرادی یازیادہ سے زیادہ چند افراد کی ہوتی ہے اور “اجماع“ ایک زمانے کے تمام مجتہدین کی متفقہ رائے کا نام ہے اسی اجتماعیت کی وجہ سے اس کوقیاس پر فوقیت حاصل ہے ۔ (المدخل:۱۹۳۔ اصول الفقہ عبیداللہ الاسعدی:۲۱۲)
بدعتی اور فاسق مجتہد کا اجماع
اجماع میں تقویٰ اور تدین بھی ضروری ہے ؛ کیونکہ ایسے شخص کی رائے اجماع میں قابلِ اعتبار نہ ہوگی جودین کا پابند نہ ہو یادین کی قطعی اور اصولی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہو اور فسق وفجور اور بدعت میں مبتلا ہو ؛ کیونکہ ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں لائق مذمت ہے، امام مالک ، امام اوزاعی ، محمد بن حسن علیہم الرّحمہ وغیرہ ایسے شخص کو اہل ہویٰ وضلال کہتے ہیں اور اس کے اجماع کو معتبر نہیں مانتے ۔ (الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۱/۲۳۷۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۳)
البتہ علامہ صیرفی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ ایسے شخص کا اجماع بھی معتبر ہے ؛ یہی قول
امام غزالی ، علامہ آمدی علیہما الرّحمہ اوردیگر اصولی حضرات کا ہے ؛ کیونکہ فاسق اور اہل بدعت بھی ارباب حل وعقد میں سے ہوتے ہیں اور لفظ “امت“ کے مصداق میں شامل ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ تقویٰ وتدین جب ہوگا تولوگوں کو اس کی رائے پر اعتماد ہوگا، جب تقویٰ کی شرط صرف رائے پر اعتماد کی خاطر ہے توظاہر ہے کہ تقویٰ اگرنہ بھی ہوتب بھی استنباط کی صلاحیت وصحت پر فی نفسہ کوئی اثر مرتب نہ ہوگا ۔ (ارشاد الفحول:۱۳۱۔ المستصفی من علم الاصول
الغزالی:۱/۱۸۳۔ البحرالمحیط:۴/۴۶۷۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۳۲۶)
عامی کی مخالفت یا موافقت کا حکم
جمہور کے نزدیک عوام کے قول کا اجماع میں اعتبار نہ ہوگا چاہے وہ قول موافق ہو یامخالف ؛ کیونکہ اس کے لیے اجتہاد اور فکر ونظر کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے ؛ لہٰذا ان کا قول انعقاد اجماع میں مسموع نہ ہوگا ۔ (ارشادالفحول:۱۳۳۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۱۵۱)
اجماع میں اکثریت واقلیت کی بحث
اجماع کے انعقاد کے لیے پوری امت کے مجتہدین کا متفق الرائے ہونا ضروری ہے، محض اکثریت کی رائے کواجماع کے لیے جمہور کافی نہیں سمجھتے ؛ لیکن ابوبکررازی رحمۃ اللہ علیہ ، ابوالحسن خیاط معتزلی اور ابنِ جریر طبری رحمۃ اللہ کا خیال ہے کہ محض ایک دو آدمی مخالفت کریں تواجماع کے انعقاد پر اس سے کوئی اثرمرتب نہیں ہوگا، بعض حضرات کی رائے ہے کہ موافقین کے مقابلہ میں اگرچہ مخالفین کی تعداد کم ہو ؛لیکن حدتواتر تک پہنچی ہوئی ہو تواجماع منعقد نہیں ہوگا؛ اگرتواتر تک نہیں پہنچی ہو تواجماع منعقد ہوجائے گا ۔ (فواتح الرحموت : ۲/۳۲۲۔ المستصفی الغزالی:۱/۱۷۴)
اقلیت و اکثریت کی اس بحث میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مخالفت اگر اخلاص واجتہاد کی بناء پر ہوتو وہ اجماع کے انعقاد وعدمِ انعقاد میں ملحوظ ہوگی؛ ورنہ اگراخلاص و اجتہاد کے بجائے حب جاہ یا کوئی دوسرا جذبہ مخالفت کے پیچھے کارفرما ہو تو ایسی مخالفت کا بالکل اعتبار نہ ہوگا ؛ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اوّل کے انتخاب کے موقعہ پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی تھی ؛ لیکن وہ معتبر نہیں مانی گئی اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع منعقد ہوئی ۔ (اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۱)
کیا اجماع کسی خطہ کے ساتھ مخصوص ہے
چونکہ “لَاتَجْتَمِعُ أُمَّتِیْ“ میں جو لفظ امت ہے اس کا عموم پوری امت کو شامل ہے اور اجماع کا دائرہ پوری امت کو محیط ہے، اس لیے نہ تومحض اہلِ مدینہ کا اجماع کافی ہے اور وہ نہ صرف اہلِ حرمین کا اور نہ تنہا اہلِ بصرہ وکوفہ کا اور نہ صرف اہلِ بیت کا ۔ (المستصفیٰ للغزالی:۱/۱۵۷،چشتی)
ڈاکٹروہبہ زحیلی نے یہ لکھا ہے کہ کسی مخصوص خطہ کااجماع معتبر نہ ہوگا؛ کیونکہ یہ پوری امت کا اجماع نہیں ہے اجماع وہی معتبر ہے جوپوری امت کا ہو ، علامہ قرافی اور ابن حاجب علیہما الرّحمہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ اجماع کسی بلدہ وخطہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ (فواتح الرحموت:۲/۲۲۲۔ المستصفی للغزالی :۱/۱۸۷)
اجماع کے اعتبار کے لیئے کیا مجتہدین کی موت ضروری ہے ؟
چونکہ زندگی میں انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اجماع کے بعد کسی مجتہد کی رائے میں تبدیلی ہوجائے، جس کی وجہ سے اتفاق باقی نہ رہ سکے، اس لیے اصولی حضرات نے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا اس احتمال سے کہ کسی مجتہد کی رائے بدل سکتی ہے ، اجماع غیرمعتبر ہوگا ؟ اس سلسلہ میں اصولی حضرات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۳۶۶۔ اصول الفقہ الاسلامی :۱/۵۲۷)
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ، اشاعرہ ، معتزلہ اور اکثرشوافع کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کرنے والے مجتہدین کی وفات اجماع کے اعتبار کے لیئے ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ جس لمحہ میں اتفاق وجود میں آتا ہے، اس لمحہ میں اجماع منعقد ہوجاتا ہے، اتفاق ہوجانے کے بعد مسئلہ نزاع سے خارج ہوجاتا ہے اور سب کے لیے لازم ہوجاتا ہے؛ اس لیے بعد میں رائے کی تبدیلی کا کوئی اثر اجماع کے انعقاد پر نہیں پڑےگا؛ یہاں تک کہ اجماع کے متصلاً بعد اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت ورحمت سے مجتہد بن جائے تواس کی بھی رائے کا اجماع کے لیے اعتبار نہیں ہوگا اور یہی موقف صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ جن نصوص سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے ان میں اطلاق ہے، مجتہدین کی وفات کی قید نہیں ہے ، اس لیئے ملا محب اللہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے بجا لکھا ہے : “الانقراض لامدخل لہ فی الاصابۃ ضرورۃ“۔
ترجمہ : وفات کا اجماع کی حجت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت اس موقع پر کافی وضاحت سے روشنی ڈالتی ہے ، فرماتے ہیں : “الحجۃ فی اتفاقھم لافی موتھم وقد حصل قبل الموت“ ۔
ترجمہ : اجماع تو ان کے اتفاق سے حجت بن جاتا ہے ، موت سے اس کا کیا سروکار ہے ۔ (نفائس الاصول فی شرح المحصول:۶/۲۷۸۶۔ المستصفی للغزالی :۱/۱۸۲)
حجیتِ اجماع
جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا“ ۔ (النساء:۱۱۵)
ترجمہ : جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا توہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے ۔
آیت بالا میں باری تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت اور سبیل مؤمنین کے علاوہ دوسروں کے سبیل کی اتباع پر وعید بیان فرمائی ہے اورجس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے ؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیرسبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں توان کی ضد یعنی رسول کی موافقت اور سبیل مؤمنین کی اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہوگیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تواس کا حجت ہونا بھی ثابت ہوگیا ، قاضی ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:۴۵۸ھ) اور علامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جولائقِ مطالعہ ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۷۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۱۔ ارشادالفحول:۱۱۳،چشتی)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے : “عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ“ ۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ میری امت کو (یاراوی نے کہا : کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اُمت کو) ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : “فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا
فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ“۔ (مسندِاحمد، حدیث
نمبر۳۶۰۰)
ترجمہ : جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہے ۔
ایک اور موقع سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ“ ۔ (مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ : جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی ۔
ایک جگہ ارشاد ہے : “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً“۔ (مصنف عبدالرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:۳۷۷۹)
ترجمہ : جو جماعت سے الگ ہوجائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی ۔
یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے ، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہوسکتا ہے اور جب ایسا ہوتواجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ، اختصار کی غرض سے اجماع کی حجیت پر صرف ایک آیت اور چند احادیث پیش کی گئی ہیں ؛ ورنہ اور بھی بہت سی روایات ایسی ہیں جن سے اجماع کی حجیت پر روشنی پڑتی ہے ۔
اجماع کی بنیاد
اجماع کے لیئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کسی نہ کسی اصل شرعی پر ہو ؛ کیونکہ اجماع اور قیاس خود کوئی مستقل دلیل نہیں ہیں ، اجماع کے لیئے ضروری ہے کہ اس کی اصل کتاب وسنت یا پھر قیاس میں موجود ہو ، اجماع کی اصل کی ضرورت اس لیئے ہے کہ اہل اجماع بنفسِ نفیس احکام کو بیان نہیں کرسکتے ؛ کیونکہ انشاء شریعت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حاصل ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ جن مسائل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اجماع کیا ہے ان سب میں وہ کسی نہ کسی اصل پر بحث کرتے ہو ئےانہی پر اپنی آراء کی بنیاد رکھتے اور اس طرح اجماع کا انعقاد ہوجاتاہے ، میراث جدہ کے بارے میں صحابہ کرام نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی خبر پر اعتماد کیا اور جمع بین المحارم کی حرمت کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر اعتماد کیا ، اسی طرح حقیقی بھائیوں کی عدم موجودگی میں علاتی بھائیوں کا وراثت میں اعتبار کیا گیا ، اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس تعبیر پر اعتماد کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے : “وَدخولھم فِی عموم الاخوۃ“۔ اور جمہور علماء کرام کا کتاب وسنت کو اجماع کی اصل قرار دینے پر اتفاق ہے ، جیسا کہ سطورِ بالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ، ان میں اجماع کی اساس سنت ہے ۔ (اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۵۔البحرالمحیط:۴/۴۵۰۔ الکوکب المنیر :۲/۲۲۸)
اجماع کی بنیاد قیاس پر
فقہاء کرام علیہم الرّحمہ کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ قیاس واجتہاد بھی اجماع کی اصل بن سکتے ہیں یانہیں ؟ اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں ؛ لیکن دلیل کے اعتبار سے وزنی وہ بات معلوم ہوتی ہے جوعلامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد وقیاس کو بھی اجماع کی اصل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی کئی مثالیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی سے ملتی ہیں ، مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق کرنا یہ محض اجتہاد اور رائے کی وجہ سےتھا ؛ حتی کہ بعض صحابہ کرام نے یہ الفاظ تک کہے : “رضیہ رسول اللہ لدیننا افلا نرضاہ لدنیانا“۔
ترجمہ : اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ جملہ کہا “ان تولوھا ابابکر تجدوہ قویا فی امراللہ ضعیفاً فی بدنہ“ ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۰)
اسی طرح مانعینِ زکاۃ سے قتال کرنے پر ان حضرات کا اجماع ہوا وہ بھی قیاس ورائے کی بناء پر تھا، خنزیر کی چربی کی حرمت پر اجماع اس کے گوشت پر قیاس کے ذریعہ کیا گیا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شراب پینے والے کی حد اسی (80) کوڑے بالاجماع مقرر کی گئی یہ بھی اجتہاد کی روشنی میں تھا ؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اس پر حدقذف جاری کرنی چاہیے ؛ کیونکہ شرب خمر کے بعد عام طور پر تہمت زنی کی باتیں سرزد ہوتی ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ اس پر حد جاری کرنی چاہیے اور اقلِ حد اسی کوڑے ہیں، ان کے علاوہ جنایت کا تاوان قریبی رشتہ داروں کا نفقہ اور ائمہ وقضاۃ کی عدالت کے متعلق جواجماع دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کیا گیا یہ سب بطریق اجتہاد وقیاس تھا ؛ لہٰذا اجتہاد اور قیاس کو بنیاد بناکر جو اجماع کیا جاتا ہے وہ بھی شرعاً قابلِ حجت ہے اور اس کی اتباع ضروری ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۰۔ اصول الفقہ اسعدی:۱۶۶۔ نفائس الاصول:۶/۲۸۷۴۔ حیات ابن تیمیہؒ:۶۸۵)
اجماع کی قسمیں
اجماع کی دوصورتیں ہیں “اجماع صریحی اور اجماع سکوتی“ اجماعِ صریحی یہ ہے کہ سب کے سب مجتہدین اپنی رائے کا صراحۃ اظہار کرکے اتفاق کریں اور اجماع سکوتی یہ ہے کہ ایک مجتہد اپنی رائے کا اظہار کرے اور بقیہ حضرات انکار نہ کریں ؛بلکہ خاموش رہیں ، اجماع صریحی بالاتفاق معتبر ہے ؛ لیکن سکوتی معتبر ہے یا نہیں اس سلسلہ میں اصولی حضرات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اجماعِ سکوتی نہ توہرصورت میں معتبر ہے نہ ہرحالت میں قابلِ رد ؛ بلکہ رضا کی علامت کی شکل میں : “السکوت فی معرض البیان بیان“۔ کے اصول کے مطابق معتبر ہونا چاہیے اور اگررضا کی علامت نہ ہو یاانکار کی صراحت ہو تو قابل رد ہونا چاہیے ۔ (ارشاد الفحول:۱۲۷۔ :۱۸۹۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۷۳۔ اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵)
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم بلا اختلاف حجت ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ“۔ (آل عمران:۱۱۰)
ترجمہ : تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے ۔
ایک جگہ اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ“ ۔ (البقرۃ:۱۴۳)
ترجمہ : اور ہم نے تم کوایسی ہی ایک جماعت بنادی ہے جو (ہرپہلو سے) اعتدال پر ہے؛ تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو ۔
اِن آیات کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اور “خیرامت“ اور “امت
وسط“ کا اجماع شرعاً معتبر ہونا ہی چاہیے ؛ نیزبہت سی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف کی ہے مثلاً ایک حدیث میں فرمایا : “وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي“۔ (مسلم، بَاب بَيَانِ أَنَّ بَقَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَانٌ لِأَصْحَابِهِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِهِ أَمَانٌ لِلْأُمَّةِ ،حدیث نمبر:۴۵۹۶،چشتی)
ترجمہ : اورمیرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے نگہداشت ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے : “أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ“۔ (کشف الخفاء:۱/۱۴۷)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے ۔
ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے صدق اور حق پر ہونے کو ظاہر کرتی ہیں ؛ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عادل اور صادق ہونے کی شہادت دینا اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان حضرات کا اجماع معتبر ہوگا ۔
اہلِ مدینہ کا اجماع
جمہور کے نزدیک صرف اہلِ مدینہ کا اجماع حجت نہیں ہے ؛ البتہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ صرف اہلِ مدینہ کا اجماع معتبر ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے بارے میں مدنی آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : “الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ“۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۳۸۵۵۔ كِتَاب الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَاجَاءَ فِي ثَوَابِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ،حدیث نمبر:۷۳۸)
ترجمہ : مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے، مدینہ اپنے خبث کو اس طرح دور کردیتا ہے ، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ اور میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔
لہٰذا خطاء بھی ایک قسم کا خبث ہے ؛ پس جب مدینہ اور اہلِ مدینہ سے خبث منتفی ہے توان سے خطاء بھی منتفی ہوگی اور جب اہلِ مدینہ سے خطاء منتفی ہے توان کا قول صواب اور ان کی متابعت واجب ہوگی؛ لہٰذا اہلِ مدینہ کسی دینی امر پراتفاق کریں گے تووہ سب کے لیے حجت ہوگا اور ان کا اجماع اور اتفاق معتبر ہوگا ؛ نیز مدینہ طیبہ دارالھجرت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے بڑا مرکزِ علم ہے ، مدفن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے احوال سے سب سے زیادہ اہلِ مدینہ واقف ہیں ؛ پس جب مدینہ طیبہ اس قدر خصوصیات پر مشتمل ہے توحق اہلِ مدینہ کے اجماع سے باہر نہ ہوگا اور ان کے اجماع سے متجاوز نہ ہوگا ۔ (المستصفی للغزالی:۱/۱۸۷۔ حیات امام مالک:۳۵۷)
دلائل کا تنقیدی جائزہ
مگرواقعہ یہ ہے مذکورہ باتیں مدینہ اور اہلِ مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ؛ لیکن نہ تو وہ مدینہ کے علاوہ دوسرے مقامات کی فضیلت کی نفی نہیں کرتی ہیں اور نہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مدینہ کے ساتھ خاص ہے ؛ کیونکہ مکۃ المکرمۃ بھی بہت سے فضائل پر مشتمل ہے ، مثلاً بیت الحرام ، رکنِ یمانی، مقامِ ابراہیم ، زمزم ، حجرِاسود ، صفا و مروہ اور دوسرے مناسکِ حج نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مولد ہے ؛ مگریہ سب باتیں اس پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مکہ کے ساتھ خاص ہے ، وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی جگہ کے لوگوں کے اجماع کے معتبر ہونے میں اس جگہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے ؛ بلکہ علم واجتہاد کا اعتبار ہوتا ہے اور علم واجتہاد میں مکہ ، مدینہ اور شرق وغرب سب برابر ہیں ؛ پس صحیح قول کے مطابق اجماع معتبر ہونے
میں صرف علم واجتہاد کا اعتبار ہوگا ،م دنی یا غیرمدنی کا اعتبار نہ ہوگا ۔ (البحرالمحیط:۴/۴۸۳۔ الاحکام لابن حزم:۴/۳۰۳۔ ارشادالفحول:۱۲۴۔ الاحکام آمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمدبن حنبل:۳۵۰)
اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا اجماع
جمہور کے نزدیک اہلِ بیت کا انفرادی اجماع بھی قابلِ حجت نہیں ہے ؛ لیکن روافض میں سے فرقہ “زیدیہ“ اور “امامیہ“اس بات کا قائل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صرف اقرباء کا اجماع معتبر ہے اور وہ حضرات کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عقل تینوں سے استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا“۔ (الاحزاب:۳۳)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کویہ منظور ہے کہ اے گھروالو ! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہرطرح ظاہراً وباطناً) پاک صاف رکھے ۔
آیت بالا سے وہ اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ کلمہ حصر (اِنَّمَا) کے ذریعہ اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے رجس کی نفی فرمائی گئی ہے اور رجس سے مراد خطاء ہے اب مطلب یہ ہوگا کہ خطاء صرف اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام سے منتفی ہے اور جس سے خطاء منتفی ہوتی ہے وہ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے ؛ لہٰذا اہلِ بیت معصوم عن الخطاء ہوں گے اور معصوم عن الخطاء کا قول صواب اور درست ہوتا ہے اور جوقول صواب ہو وہ قابلِ حجت ہوتا ہے ؛ لہٰذا ان کا قول حجت ہوگا؛ نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دہے : “إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَاإِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي“۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۳۷۱۸،چشتی)
ترجمہ : میں تم میں دوعظیم چیزیں چھوڑوں جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھامے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے ایک “کتاب اللہ“ دوم میرے“اہلِ بیت“۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلالت سے معصوم ہونا کتاب اللہ اور عترتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں منحصر ہے ؛ لہٰذا ان کے علاوہ کوئی اور چیز میں ہدایت نہ ہوگی اور جب ایسا ہے تو ثابت ہوگیا کہ اہلِ بیت کا اتفاق واجماع حجت ہے ۔ اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اہلِ بیت شرف ونسب کے لحاظ سے دوسروں پرفوقیت رکھتے ہیں اور اسباب تنزیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقول وافعال سے یہ حضرات زیادہ واقف ہیں؛ پس اس کرامت و شرافت اور خصوصیت کی وجہ سے اہلِ بیت اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کا اجماع
معتبر ہو ۔
دلائل کا تنقیدی جائزہ
لیکن ان دلائل پر اگرغور کیا جائے توواقعہ یہ ہے کہ ان کا مدعی ثابت ہونا محل تامل ہے ؛ جہاں تک آیت سے استدلال کی بات ہے تواس کی بنیاد اس پر ہے کہ آیت میں رجس سے مراد خطاء ہے ؛ حالانکہ آیت میں رجس سے مراد خطا نہیں ہے ؛ بلکہ رجس سے تہمت مراد ہے اور اس سے باری تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے ہم تہمت دور کرنا چاہتے ہیں اور جہاں تک حدیث کی بات ہے تووہ خبرِواحد ہے اور خود روافض کے نزدیک اخبار احاد اس لائق نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے؛ پس جب اخبار احاد ان کے یہاں عمل کے لائق نہیں ہیں توان سے ان کا استدلال کرنا کیسے صحیح ہوگا؟ اور ان کی دلیل عقلی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجماع میں شرف نسب کا کوئی دخل نہیں ہے ، اس میں توعلم
واجتہاد کی صلاحیت کا اعتبار ہوتا ہے اور یہ باتیں اہلِ سنت کے علاوہ میں بھی
ہوسکتی ہیں اور رہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ مخالطت کا معاملہ تو یہ بات اہلِ بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں میں بھی پائی جاتی تھی جوسفراور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہتے تھے ؛ لہٰذا اس بنیاد پر بھی صرف اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام کا قول حجت نہ ہوگا ؛ بلکہ اہلِ
بیت علیہم السّلام کی طرح دوسرے لوگوں کا قول اور اجماع بھی حجت ہوگا گرصرف اہلِ بیت کا قول حجت ہوتا جیسا کہ روافض کہتے ہیں توجنگ “صفین“ کے موقع پر حضرت علیؓ اپنے مخالفین پرنکیرفرماتے اور یہ کہتے کہ صرف میرا قول حجت ہے اور میں معصوم ہوں؛ حالانکہ حضرت علیؓ نے یہ نہیں فرمایا اور نہ مخالفین اپنی مخالفت سے باز آئے، الحاصل یہ قول بھی درست نہیں ہے ۔ (المسودۃ فی الفقہ:۳۷۰۔ الاحکام آمدی:۱/۳۵۷۔ ارشاد الفحول:۱۲۴۔ الاحکام للآمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمد بن حنبلؒ:۳۵۰)
کن چیزوں میں اجماع کا اعتبار ہے ؟
اجماع کا تعلق خالص دینی اور شرعی امور سے ہے الفاظ کے لغوی معنی کے سلسلے میں اجماع کا اعتبار نہیں، عقلی اور دنیوی امور وتدابیر میں بھی اجماع کا اعتبار نہیں ؛ کیونکہ ایک مکلف کے افعال سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ۔ (اصول الفقہ للخضری:۲۸۱۔ فواتح الرحموت:۲/۲۴۶)
اجماع کا حکم
اجماع کا حکم یہ ہے کہ اگرکوئی اجماع قطعی کا انکار کرے تووہ کافر ہوجائیگا ، بعض اصولیین نے یہ تفریق کی ہے کہ اگرضروریاتِ دین پر اجماع ہوا ہوا اور وہ عوام وخواص کے درمیان متعارف ہوتو ان کا منکر کافر ہوگا ؛ لیکن جواجماع اس قبیل سے نہ ہوتو اس کے منکر کو کافر قرار نہیں دیا جائیگا ، جیسا کہ بعض مسائل وراثت پر اجماع ہوا ہے اور فخرالاسلام بزدوی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس مسئلہ پر اجماع ہوا ہو اس کا کوئی انکار کرے جیسے مانعینِ زکاۃ سے قتال وغیرہ تواس کو کافر شمار کریں گے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کے لوگوں کا اجماع کا کوئی منکر ہوتو وہ گمراہ اور ضال ہوگا ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲/۴۹۔ اصول البزدوی:۲۴۵۔ البحرالمحیط:۴/۵۲۴)
علامہ ابن تیمیہ اور اجماع
علامہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک حجت ہونے کے اعتبار سے کتاب وسنت کے بعد اجماع کا درجہ ہے ؛ چنانچہ لکھتے ہیں : فقہاء، صوفیہ اور عامۃ المسلمین کے نزدیک بالاتفاق اجماع حجت ہے ؛ البتہ اہلِ بدعت مثلاً معتزلہ اور شیعہ وغیرہ اس کے مخالف ہیں ۔ (الرسائل والمسائل:۵/۲۱۔ حیات ابنِ تیمیہ :۶۸۷)
اسی لیئے علامہ ابنِ تیمیہ نے کئی مسائل میں اجماع کا حوالہ دیا ہے ، مثلاً وہ ایک جگہ لکھتے ہیں حضرت امیرمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا ایمان نقل متواتر سے ثابت ہے اور اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳)
ایک جگہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی پاک بازی کے متعلق لکھتے ہیں : یہ تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سلف علیہم الرّحمہ کے اجماع سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳،چشتی)
ایک جگہ لکھتے ہیں : کئی اہل علم نے اس بات پر علماء کا اجماع ذکر کیا ہے کہ
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اعلم تھے ۔ (فتاویٰ:۴/۳۸۹)
مذکورہ عبارتوں کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ ابنِ تیمیہ دوسرے تمام اہلِ سنت و جماعت کی طرح اپنی تالیفات میں “اجماع“ سے استدلال کرتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ جس امر پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم اجماع کرلیں ان کا انکار کرنا زندقہ اور نفاق ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے ۔
غیرمقلدین اور اجماع
غیرمقلدین کی ایک گمراہی یہ ہے کہ وہ اجماع کے منکر ہیں ، ان کے نزدیک اسلامی عقیدہ کے اصول صرف کتاب وسنت ہیں ؛ حتی کہ وہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی منکر ہیں ان کا یہ عقیدہ بھی شیعوں کے ساتھ توافق اور مسلکی موافقت کا مظہر ہے ، شیعہ ، معتزلہ اورغیرمقلدین کے علاوہ کوئی فرقہ ہمارے علم میں ایسا نہیں کہ جس نے اجماع کا انکار کیا ہو وہ اجماع کہ جس کے اصول دین ہونے پر حضراتِ صحابہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور پوری امت کا اتفاق ہے ، علامہ ابنِ تیمیہ روافض پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :“اجماع روافض کے نزدیک حجت نہیں ہے“ ۔ (منہاج السنۃ:۳/۲۶۶)
بہرِحال انکار اجماع روافض کا مذہب ہے اہلِ سنت کا مذہب نہیں ؛ غیرمقلدین بھی اس مسئلہ میں شیعوں کے ساتھ ہیں، ان کے عقیدوں کی تفصیل نواب نورالحسن صاحب نے “عرف الجادی“میں کی ہے ؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : “دین اسلام کی اصل صرف دو ہیں : کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اجماع کوئی چیز نہیں ہے اور لکھتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجماع کی اس ہیئت کو دلوں سے نکال دیں جو دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے جواجماع کا دعویٰ کرتا ہے تواس کا یہ دعویٰ بہت بڑا ہے ؛ کیونکہ وہ اس کوثابت نہیں کرسکتا ۔ (عرف الجاری:۳)
ایک اور جگہ رقمطراز ہیں : “حق بات یہ ہے کہ اجماع ممنوع ہے“۔ (عرف الجادی:۳)
یہ تو تھاغیرمقلدین کا عقیدہ ؛ لیکن اس بارے میں سلفیوں کا عقیدہ غیرمقلدین
کے بالکل برخلاف ہے ، سلفی حضرات اجماع کوایک دلیلِ شرعی سمجھتے ہیں ۔ (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی،الاصل الثالث،فی الاجماع،۱/۷۳)
علامہ ابنِ تیمیہ کی کتابیں پڑھنے والوں پریہ بات مخفی نہیں ہے ۔
اجماع کی چند مثالیں
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صرف دورات تراویح با جماعت پڑھیں ، اس کے بعد یہ فرماکر تراویح پڑھنی چھوڑ دی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے (بخاری شریف:۱/۱۵۲)
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین عملاً وقولاً اختلاف رہا ؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پورے رمضان مواظبت کے ساتھ بیس رکعات باجماعت تراویح پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا ۔ (نصب الرایۃ:۲/۱۵۳،چشتی)
(2) ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو یاتین ہی واقع ہوں ، یہ مسئلہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مختلف فیہ رہا ؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا اور اس کے بعد سے جمہور اس پرمتفق چلے آرہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں ۔ (مسلم شریف:۱/۴۷۸)
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نمازِ جنازہ کی تکبیرات پانچ بھی
منقول ہیں اور سات، نو اور چار بھی ؛ اسی لیئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اس میں اختلاف رہا ہے ، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ تم صحابہ کی جماعت ہو کر اختلاف کر رہے ہو تو تمہارے بعد آنے والوں میں کتنا شدید اختلاف ہوگا ؛ پس غور و خوص کرکے چار تکبیرات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوگیا ۔ (بدائع للکاسانی:۲/۳۱۲)
(4) اگرکوئی شخص متعدد بار چوری کرے اور ایک مرتبہ میں اس کا دایاں ہاتھ اور دوسری مرتبہ میں اس کا بایاں پیرکٹ چکا ہو اور پھرتیسری اور چوتھی بار چوری کرے تواس کے ہاتھ و پیر کاٹ کر سزادیجائے یاقطع کے علاوہ دیگر کوئی سزا دی جائے اس سلسلہ میں اختلاف رہا ہے ، اس کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ایک صورت متعین فرمادی کہ تیسری چوتھی مرتبہ میں قطع نہ ہوگا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر سکوت اختیار کیا ؛ پس یہی توارث
ہوگیا ، اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (بدائع للکاسانی:۶/۴۰۔ دارِقطنی:۳/۸۰۔ السنن الکبریٰ:۸/۲۴۵)
(5) جماع بدون الانزال کے موجب غسل ہونے میں ابتداً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف تھا ؛ چنانچہ انصار وجوب غسل کے قائل نہیں تھے اور مہاجرین وجوبِ غسل کے قائل تھے ؛ لیکن جب حضرت عمر نے انصار ومہاجرین دونوں کو جمع کرکے پوری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو وجوبِ غسل پر آمادہ کیا توحضرت عمر رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ پر سب متفق ہوگئے اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی ۔ (طحاوی شریف:۱/۴۷،چشتی)
(6) امام طحاوی اور امام بیہقی علیہما الرّحمہ نے علقمہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک زمین جوبصرہ میں تھی حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کی ، کسی نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کو اس معاملہ میں خسارہ ہوگیا ہے ، یہ سن کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اختیار ہے ؛ کیونکہ میں نے بغیر دیکھے زمین خریدی ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے
کہا گیا کہ آپ کو خسارہ ہوگیا ؛ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اختیار ہے ؛ کیونکہ میں
اپنی زمین بغیر دیکھے فروخت کی ہے ، دونوں حضرات نے جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کو حکم مقرر کیا ، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ طلحہ کو خیار رؤیت حاصل ہے ، عثمان کو حاصل نہیں ہے ، یہ واقعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں پیش آیا ؛ مگر کسی نے نکیر نہیں کی ، گویا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع منعقد ہوگیا کہ خیار رویت مشتری کوحاصل ہوگا بائع کو حاصل نہ ہوگا ۔ (ہدایۃ:۳/۳۶)
کیا اجماع کی اطلاع ممکن ہے ؟
ابومسلم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد کے اجماع کی اطلاع متعذرہے ؛ کیونکہ مجتہدین کسی ایک شہر میں نہیں رہے اور نہ ہیں ؛ بلکہ شرق سے غرب تک پھیلے ہوئے ہیں ، ان سب کی آراء کوحاصل کرنا عقلاً ممکن ہونے کے باوجود واقعاتی طور پر مشکل ہے،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ ابن تیمیہ اور آپ کے شاگرد حافظ ابن القیم اور ظاہریہ کا بھی یہی خیال ہے امام احمدؒ نے تویہاں تک فرمایا ہے کہ : “مَنْ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ فَهُوَ كَاذِبٌ، لَعَلَّ النَّاسَ اخْتَلَفُوا، مَايُدْرِيهِ ، وَلَمْ يَنْتَهِ إلَيْهِ؟ فَلْيَقُلْ:لَانَعْلَمُ النَّاسَ اخْتَلَفُوا“۔ (ارشادالفحول:۱۱۱)
ترجمہ : جوکوئی اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے ،ممکن ہے کہ لوگوں کااس میں اختلاف ہو اور اس کی اطلاع اس کو نہ ملی ہو، ایسی حالت میں یہ کہنا چاہیے ہمیں لوگوں کے اختلاف کا علم نہیں ہے ۔ لیکن اکثر علماء کرام کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کی اطلاع ممکن ہے ، ہربلدہ وخطہ کا والی اپنے یہاں کے مجتہدین کو جمع کرکے ان کی رائے لے یا مراسلات کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کر کے ان کی آراء حاصل کر لے ، اس طرح اجماع کی اطلاع مل سکتی ہے ، ماضی میں جواجماع ہوئے کتابوں کے ذریعہ ان کی اطلاع تو ہے ہی ، اس زمانہ میں ذرائع ابلاغ کی بہتات ہے اور اس کی سہولتیں ہیں ، ان سے فائدہ اٹھایا جائے توحال میں ہونے والے اجماع کی بھی اطلاع بآسانی مل سکتی ہے ۔ (فقہ اسلامی خدمات و تقاضے:۱۹۰۔ البحرالمحیط:۴/۴۲۸۔ الاحکام آمدی:۱/۲۸۵۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۷۵۔ حیات امام ابن القیم:۲۹۲)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
محترم قارئین : اس سے پہلے ہم ادلہ اربعہ میں سے قرآن اور سنّت کے بارے میں عرض کرچکے ہیں اب پیش خدمت ہے ادلہ فقہ کا تیسرا ماخذ اجماع امت امید ہے آپ کو یہ سلسلہ پسند آئے گا اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو اصلاح فرمائیں :
احکام کے استنباط میں قرآن وسنت کے بعد اجماع ایک اہم اور عظیم بنیاد ہے ، نظام معتزلی ، خوارج شیعہ اور غیرمقلدین کے علاوہ پوری امت کا اس پرا تفاق ہے ، اجماع امت کے منتخب اہلِ علم کے اتفاقی فیصلہ کا نام ہے ، اس لیئے اس میں خطا کا احتمال نہیں رہ جاتا ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے : إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ ۔ (ترمذی، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، حدیث نمبر:۲۰۹۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ : میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر متفق نہیں کرےگا (بلکہ اتفاق و اجتماعیت کی وجہ سے اللہ کی نصرت وتائید آتی رہے گی) ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا کہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے یعنی جماعت کے ساتھ اس کی مدد ونصرت ہوتی ہے، اجماع کی اہمیت اس بات سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اجماع اسی امت محمدیہ کی خصوصیت ہے ۔
اجماع کے لغوی معنی
لغت میں اجماع کے دومعنی ہیں :
(1) عزم اور پختہ ارادہ کرنا، جب کوئی شحص کسی کام کا عزم اور پختہ ارادہ کرلیتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے : “اِجْمَعْ فَلَان عَلَی
کَذَا“۔ (ارشاد الفحول:۱۰۹)
ترجمہ : فلاں نے اس کام کا عزم کرلیا ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ“۔ (یونس:۷۱)
ترجمہ : تم سب مل کر اپنے کام کا عزم کر لو ۔
اسی معنی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد مبارک ہے : “مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ“ ۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَا جَاءَ لَاصِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنْ اللَّيْلِ، حدیث نمبر:۶۶۲)
ترجمہ : جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کا عزم اور پختہ ارادہ نہیں کیا اس کا روزہ درست نہیں ہوگا ۔
(2) اجماع کا دوسرا معنی “اتفاق کرنا“ ہے ، اسی کا اعتبار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے : “اِجْمَعَ الْقَوْم عَلَی کَذَا“۔ (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸۰۔ ارشاد الفحول:۱۰۹)
ترجمہ : قوم نے اس کام پر اتفاق کرلیا، مذکورہ دونوں معنی کے درمیان فرق یہ ہے کہ اجماع بمعنیٰ عزم ایک شخص کی طرف سے متصور ہوجاتا ہے؛ لیکن دوسرے معنی کے لیے کم ازکم دوشخصوں کا ہونا ضروری ہے ، اس لغوی معنی کے اعتبار سے بنی نوع انسان کے ہرطبقہ اور ہرقوم میں کسی امر پر اتفاق ہوسکتا ہے؛ خواہ وہ دنیوی ہو یادینی؛ لیکن فقہ اسلامی میں ہرقوم کا اور ہرامر پر اتفاق مراد نہیں ہے؛ بلکہ لغوی معنی کی بہ نسبت اسلامی فقہ اور اس کے دائرے میں اجماع کا مفہوم اور اس کی مراد خاص ہے ۔
اجماع کی اصطلاحی تعریف
علامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : “الاجماع عبارۃ عن اتفاق جملۃ أھل الحل والعقد من امۃ محمد فی عصر من الاعصار علی حکم واقعۃ من الوقائع“۔ (الأحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸،چشتی)
ترجمہ : اجماع نام ہے امت محمدیہ میں سے اہل حل وعقد کا کسی زمانہ میں کسی نئے واقعہ پر اتفاق کرنے کا ۔
تعریف کا حاصل یہ ہے کہ اجماع انہی حضرات کا معتبر ہے جومجتہد اور صالح ہوں، شرافت وکرامت اور تقویٰ وتدین کی صفت سے متصف ہوں اور فسق وفجور سے دور ہوں اور اجماع کا محل اصلاً شریعت کے فروعی یعنی عملی احکام ہیں نیزاس سے ان احکام کا بھی ثبوت ہوتا ہے جو ایمان وکفر کا مدار تو نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن وہ سنت بدعت میں امتیاز پیدا کرتے ہیں ،جیسے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت پر اتفاق کہ اس کے
خلاف رائے بدعت ہے ۔ (اصول البزدوی:۲۴۲۔ نورالانوار:۲۲۳۔ اصول الفقہ لاسعدی:۲۱۴)
وقوعِ اجماع
ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد دورِ صحابہ رضی اللہ عنہ کے صدر اوّل میں اجماع کا انعقاد وحصول آسان تھا ،اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اہل حل وعقد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ سے باہر جا کر دوسرے شہروں میں رہنے بسنے سے روک دیا تھا ؛ تاکہ امورِ سیاست اور علمی مسائل میں ان سے مشاورت کا موقع ہروقت حاصل رہے ؛ لیکن اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ سے باہر دور دراز مقامات میں پھیل گئے اور ان کی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں حجاز ، عراق ، شام اور مصر وغیرہ ممالک میں بڑے بڑے علماء وفقہاء
کی ایک عظیم تعداد پیدا ہوگئی توپھراب مجتہدین کا کسی حکم پر اجماع ممکن العمل نہ رہا ؛ کیونکہ عام علمی مشاورت کا امکان منقطع ہوگیا اور ظاہر ہے کہ کسی ایک شہر کے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہوجانے کو اصطلاح میں اجماع نہیں کہتے؛ بلکہ قابلِ حجت اجماع وہ ہے جو ایک زمانہ کے سارے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہونا، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے بستے ہوں ؛ یہی وجہ ہے کہ نظری وعلمی حیثیت سے تواجماع ایک حجت ضرور ہے ؛ مگرواقعی عملی اور تاریخی حیثیت سے اجماع کا وقوع اور انعقاد صرف خلافتِ راشدہ کے عصر اوّل تک محدود رہا اور وہ بھی محض معدودے چند مسائل ہیں ۔
حقیقت اجماع
اجماع اصل میں محض رائے ہے ؛ جیسا کہ قیاس رائے ہے ؛ البتہ اجماع وقیاس کے درمیان فرق یہ ہے کہ قیاس کے تحت جورائے ہوتی ہے وہ انفرادی یازیادہ سے زیادہ چند افراد کی ہوتی ہے اور “اجماع“ ایک زمانے کے تمام مجتہدین کی متفقہ رائے کا نام ہے اسی اجتماعیت کی وجہ سے اس کوقیاس پر فوقیت حاصل ہے ۔ (المدخل:۱۹۳۔ اصول الفقہ عبیداللہ الاسعدی:۲۱۲)
بدعتی اور فاسق مجتہد کا اجماع
اجماع میں تقویٰ اور تدین بھی ضروری ہے ؛ کیونکہ ایسے شخص کی رائے اجماع میں قابلِ اعتبار نہ ہوگی جودین کا پابند نہ ہو یادین کی قطعی اور اصولی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہو اور فسق وفجور اور بدعت میں مبتلا ہو ؛ کیونکہ ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں لائق مذمت ہے، امام مالک ، امام اوزاعی ، محمد بن حسن علیہم الرّحمہ وغیرہ ایسے شخص کو اہل ہویٰ وضلال کہتے ہیں اور اس کے اجماع کو معتبر نہیں مانتے ۔ (الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۱/۲۳۷۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۳)
البتہ علامہ صیرفی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ ایسے شخص کا اجماع بھی معتبر ہے ؛ یہی قول
امام غزالی ، علامہ آمدی علیہما الرّحمہ اوردیگر اصولی حضرات کا ہے ؛ کیونکہ فاسق اور اہل بدعت بھی ارباب حل وعقد میں سے ہوتے ہیں اور لفظ “امت“ کے مصداق میں شامل ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ تقویٰ وتدین جب ہوگا تولوگوں کو اس کی رائے پر اعتماد ہوگا، جب تقویٰ کی شرط صرف رائے پر اعتماد کی خاطر ہے توظاہر ہے کہ تقویٰ اگرنہ بھی ہوتب بھی استنباط کی صلاحیت وصحت پر فی نفسہ کوئی اثر مرتب نہ ہوگا ۔ (ارشاد الفحول:۱۳۱۔ المستصفی من علم الاصول
الغزالی:۱/۱۸۳۔ البحرالمحیط:۴/۴۶۷۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۳۲۶)
عامی کی مخالفت یا موافقت کا حکم
جمہور کے نزدیک عوام کے قول کا اجماع میں اعتبار نہ ہوگا چاہے وہ قول موافق ہو یامخالف ؛ کیونکہ اس کے لیے اجتہاد اور فکر ونظر کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے ؛ لہٰذا ان کا قول انعقاد اجماع میں مسموع نہ ہوگا ۔ (ارشادالفحول:۱۳۳۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۱۵۱)
اجماع میں اکثریت واقلیت کی بحث
اجماع کے انعقاد کے لیے پوری امت کے مجتہدین کا متفق الرائے ہونا ضروری ہے، محض اکثریت کی رائے کواجماع کے لیے جمہور کافی نہیں سمجھتے ؛ لیکن ابوبکررازی رحمۃ اللہ علیہ ، ابوالحسن خیاط معتزلی اور ابنِ جریر طبری رحمۃ اللہ کا خیال ہے کہ محض ایک دو آدمی مخالفت کریں تواجماع کے انعقاد پر اس سے کوئی اثرمرتب نہیں ہوگا، بعض حضرات کی رائے ہے کہ موافقین کے مقابلہ میں اگرچہ مخالفین کی تعداد کم ہو ؛لیکن حدتواتر تک پہنچی ہوئی ہو تواجماع منعقد نہیں ہوگا؛ اگرتواتر تک نہیں پہنچی ہو تواجماع منعقد ہوجائے گا ۔ (فواتح الرحموت : ۲/۳۲۲۔ المستصفی الغزالی:۱/۱۷۴)
اقلیت و اکثریت کی اس بحث میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مخالفت اگر اخلاص واجتہاد کی بناء پر ہوتو وہ اجماع کے انعقاد وعدمِ انعقاد میں ملحوظ ہوگی؛ ورنہ اگراخلاص و اجتہاد کے بجائے حب جاہ یا کوئی دوسرا جذبہ مخالفت کے پیچھے کارفرما ہو تو ایسی مخالفت کا بالکل اعتبار نہ ہوگا ؛ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اوّل کے انتخاب کے موقعہ پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی تھی ؛ لیکن وہ معتبر نہیں مانی گئی اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع منعقد ہوئی ۔ (اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۱)
کیا اجماع کسی خطہ کے ساتھ مخصوص ہے
چونکہ “لَاتَجْتَمِعُ أُمَّتِیْ“ میں جو لفظ امت ہے اس کا عموم پوری امت کو شامل ہے اور اجماع کا دائرہ پوری امت کو محیط ہے، اس لیے نہ تومحض اہلِ مدینہ کا اجماع کافی ہے اور وہ نہ صرف اہلِ حرمین کا اور نہ تنہا اہلِ بصرہ وکوفہ کا اور نہ صرف اہلِ بیت کا ۔ (المستصفیٰ للغزالی:۱/۱۵۷،چشتی)
ڈاکٹروہبہ زحیلی نے یہ لکھا ہے کہ کسی مخصوص خطہ کااجماع معتبر نہ ہوگا؛ کیونکہ یہ پوری امت کا اجماع نہیں ہے اجماع وہی معتبر ہے جوپوری امت کا ہو ، علامہ قرافی اور ابن حاجب علیہما الرّحمہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ اجماع کسی بلدہ وخطہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ (فواتح الرحموت:۲/۲۲۲۔ المستصفی للغزالی :۱/۱۸۷)
اجماع کے اعتبار کے لیئے کیا مجتہدین کی موت ضروری ہے ؟
چونکہ زندگی میں انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اجماع کے بعد کسی مجتہد کی رائے میں تبدیلی ہوجائے، جس کی وجہ سے اتفاق باقی نہ رہ سکے، اس لیے اصولی حضرات نے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا اس احتمال سے کہ کسی مجتہد کی رائے بدل سکتی ہے ، اجماع غیرمعتبر ہوگا ؟ اس سلسلہ میں اصولی حضرات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۳۶۶۔ اصول الفقہ الاسلامی :۱/۵۲۷)
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ، اشاعرہ ، معتزلہ اور اکثرشوافع کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کرنے والے مجتہدین کی وفات اجماع کے اعتبار کے لیئے ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ جس لمحہ میں اتفاق وجود میں آتا ہے، اس لمحہ میں اجماع منعقد ہوجاتا ہے، اتفاق ہوجانے کے بعد مسئلہ نزاع سے خارج ہوجاتا ہے اور سب کے لیے لازم ہوجاتا ہے؛ اس لیے بعد میں رائے کی تبدیلی کا کوئی اثر اجماع کے انعقاد پر نہیں پڑےگا؛ یہاں تک کہ اجماع کے متصلاً بعد اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت ورحمت سے مجتہد بن جائے تواس کی بھی رائے کا اجماع کے لیے اعتبار نہیں ہوگا اور یہی موقف صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ جن نصوص سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے ان میں اطلاق ہے، مجتہدین کی وفات کی قید نہیں ہے ، اس لیئے ملا محب اللہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے بجا لکھا ہے : “الانقراض لامدخل لہ فی الاصابۃ ضرورۃ“۔
ترجمہ : وفات کا اجماع کی حجت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت اس موقع پر کافی وضاحت سے روشنی ڈالتی ہے ، فرماتے ہیں : “الحجۃ فی اتفاقھم لافی موتھم وقد حصل قبل الموت“ ۔
ترجمہ : اجماع تو ان کے اتفاق سے حجت بن جاتا ہے ، موت سے اس کا کیا سروکار ہے ۔ (نفائس الاصول فی شرح المحصول:۶/۲۷۸۶۔ المستصفی للغزالی :۱/۱۸۲)
حجیتِ اجماع
جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا“ ۔ (النساء:۱۱۵)
ترجمہ : جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا توہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے ۔
آیت بالا میں باری تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت اور سبیل مؤمنین کے علاوہ دوسروں کے سبیل کی اتباع پر وعید بیان فرمائی ہے اورجس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے ؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیرسبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں توان کی ضد یعنی رسول کی موافقت اور سبیل مؤمنین کی اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہوگیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تواس کا حجت ہونا بھی ثابت ہوگیا ، قاضی ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:۴۵۸ھ) اور علامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جولائقِ مطالعہ ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۷۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۱۔ ارشادالفحول:۱۱۳،چشتی)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے : “عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ“ ۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ میری امت کو (یاراوی نے کہا : کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اُمت کو) ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : “فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا
فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ“۔ (مسندِاحمد، حدیث
نمبر۳۶۰۰)
ترجمہ : جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہے ۔
ایک اور موقع سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ“ ۔ (مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ : جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی ۔
ایک جگہ ارشاد ہے : “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً“۔ (مصنف عبدالرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:۳۷۷۹)
ترجمہ : جو جماعت سے الگ ہوجائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی ۔
یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے ، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہوسکتا ہے اور جب ایسا ہوتواجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ، اختصار کی غرض سے اجماع کی حجیت پر صرف ایک آیت اور چند احادیث پیش کی گئی ہیں ؛ ورنہ اور بھی بہت سی روایات ایسی ہیں جن سے اجماع کی حجیت پر روشنی پڑتی ہے ۔
اجماع کی بنیاد
اجماع کے لیئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کسی نہ کسی اصل شرعی پر ہو ؛ کیونکہ اجماع اور قیاس خود کوئی مستقل دلیل نہیں ہیں ، اجماع کے لیئے ضروری ہے کہ اس کی اصل کتاب وسنت یا پھر قیاس میں موجود ہو ، اجماع کی اصل کی ضرورت اس لیئے ہے کہ اہل اجماع بنفسِ نفیس احکام کو بیان نہیں کرسکتے ؛ کیونکہ انشاء شریعت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حاصل ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ جن مسائل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اجماع کیا ہے ان سب میں وہ کسی نہ کسی اصل پر بحث کرتے ہو ئےانہی پر اپنی آراء کی بنیاد رکھتے اور اس طرح اجماع کا انعقاد ہوجاتاہے ، میراث جدہ کے بارے میں صحابہ کرام نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی خبر پر اعتماد کیا اور جمع بین المحارم کی حرمت کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر اعتماد کیا ، اسی طرح حقیقی بھائیوں کی عدم موجودگی میں علاتی بھائیوں کا وراثت میں اعتبار کیا گیا ، اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس تعبیر پر اعتماد کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے : “وَدخولھم فِی عموم الاخوۃ“۔ اور جمہور علماء کرام کا کتاب وسنت کو اجماع کی اصل قرار دینے پر اتفاق ہے ، جیسا کہ سطورِ بالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ، ان میں اجماع کی اساس سنت ہے ۔ (اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۵۔البحرالمحیط:۴/۴۵۰۔ الکوکب المنیر :۲/۲۲۸)
اجماع کی بنیاد قیاس پر
فقہاء کرام علیہم الرّحمہ کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ قیاس واجتہاد بھی اجماع کی اصل بن سکتے ہیں یانہیں ؟ اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں ؛ لیکن دلیل کے اعتبار سے وزنی وہ بات معلوم ہوتی ہے جوعلامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد وقیاس کو بھی اجماع کی اصل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی کئی مثالیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی سے ملتی ہیں ، مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق کرنا یہ محض اجتہاد اور رائے کی وجہ سےتھا ؛ حتی کہ بعض صحابہ کرام نے یہ الفاظ تک کہے : “رضیہ رسول اللہ لدیننا افلا نرضاہ لدنیانا“۔
ترجمہ : اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ جملہ کہا “ان تولوھا ابابکر تجدوہ قویا فی امراللہ ضعیفاً فی بدنہ“ ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۰)
اسی طرح مانعینِ زکاۃ سے قتال کرنے پر ان حضرات کا اجماع ہوا وہ بھی قیاس ورائے کی بناء پر تھا، خنزیر کی چربی کی حرمت پر اجماع اس کے گوشت پر قیاس کے ذریعہ کیا گیا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شراب پینے والے کی حد اسی (80) کوڑے بالاجماع مقرر کی گئی یہ بھی اجتہاد کی روشنی میں تھا ؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اس پر حدقذف جاری کرنی چاہیے ؛ کیونکہ شرب خمر کے بعد عام طور پر تہمت زنی کی باتیں سرزد ہوتی ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ اس پر حد جاری کرنی چاہیے اور اقلِ حد اسی کوڑے ہیں، ان کے علاوہ جنایت کا تاوان قریبی رشتہ داروں کا نفقہ اور ائمہ وقضاۃ کی عدالت کے متعلق جواجماع دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کیا گیا یہ سب بطریق اجتہاد وقیاس تھا ؛ لہٰذا اجتہاد اور قیاس کو بنیاد بناکر جو اجماع کیا جاتا ہے وہ بھی شرعاً قابلِ حجت ہے اور اس کی اتباع ضروری ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۰۔ اصول الفقہ اسعدی:۱۶۶۔ نفائس الاصول:۶/۲۸۷۴۔ حیات ابن تیمیہؒ:۶۸۵)
اجماع کی قسمیں
اجماع کی دوصورتیں ہیں “اجماع صریحی اور اجماع سکوتی“ اجماعِ صریحی یہ ہے کہ سب کے سب مجتہدین اپنی رائے کا صراحۃ اظہار کرکے اتفاق کریں اور اجماع سکوتی یہ ہے کہ ایک مجتہد اپنی رائے کا اظہار کرے اور بقیہ حضرات انکار نہ کریں ؛بلکہ خاموش رہیں ، اجماع صریحی بالاتفاق معتبر ہے ؛ لیکن سکوتی معتبر ہے یا نہیں اس سلسلہ میں اصولی حضرات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اجماعِ سکوتی نہ توہرصورت میں معتبر ہے نہ ہرحالت میں قابلِ رد ؛ بلکہ رضا کی علامت کی شکل میں : “السکوت فی معرض البیان بیان“۔ کے اصول کے مطابق معتبر ہونا چاہیے اور اگررضا کی علامت نہ ہو یاانکار کی صراحت ہو تو قابل رد ہونا چاہیے ۔ (ارشاد الفحول:۱۲۷۔ :۱۸۹۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۷۳۔ اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵)
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم بلا اختلاف حجت ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ“۔ (آل عمران:۱۱۰)
ترجمہ : تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے ۔
ایک جگہ اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ“ ۔ (البقرۃ:۱۴۳)
ترجمہ : اور ہم نے تم کوایسی ہی ایک جماعت بنادی ہے جو (ہرپہلو سے) اعتدال پر ہے؛ تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو ۔
اِن آیات کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اور “خیرامت“ اور “امت
وسط“ کا اجماع شرعاً معتبر ہونا ہی چاہیے ؛ نیزبہت سی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف کی ہے مثلاً ایک حدیث میں فرمایا : “وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي“۔ (مسلم، بَاب بَيَانِ أَنَّ بَقَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَانٌ لِأَصْحَابِهِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِهِ أَمَانٌ لِلْأُمَّةِ ،حدیث نمبر:۴۵۹۶،چشتی)
ترجمہ : اورمیرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے نگہداشت ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے : “أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ“۔ (کشف الخفاء:۱/۱۴۷)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے ۔
ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے صدق اور حق پر ہونے کو ظاہر کرتی ہیں ؛ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عادل اور صادق ہونے کی شہادت دینا اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان حضرات کا اجماع معتبر ہوگا ۔
اہلِ مدینہ کا اجماع
جمہور کے نزدیک صرف اہلِ مدینہ کا اجماع حجت نہیں ہے ؛ البتہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ صرف اہلِ مدینہ کا اجماع معتبر ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے بارے میں مدنی آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : “الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ“۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۳۸۵۵۔ كِتَاب الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَاجَاءَ فِي ثَوَابِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ،حدیث نمبر:۷۳۸)
ترجمہ : مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے، مدینہ اپنے خبث کو اس طرح دور کردیتا ہے ، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ اور میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔
لہٰذا خطاء بھی ایک قسم کا خبث ہے ؛ پس جب مدینہ اور اہلِ مدینہ سے خبث منتفی ہے توان سے خطاء بھی منتفی ہوگی اور جب اہلِ مدینہ سے خطاء منتفی ہے توان کا قول صواب اور ان کی متابعت واجب ہوگی؛ لہٰذا اہلِ مدینہ کسی دینی امر پراتفاق کریں گے تووہ سب کے لیے حجت ہوگا اور ان کا اجماع اور اتفاق معتبر ہوگا ؛ نیز مدینہ طیبہ دارالھجرت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے بڑا مرکزِ علم ہے ، مدفن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے احوال سے سب سے زیادہ اہلِ مدینہ واقف ہیں ؛ پس جب مدینہ طیبہ اس قدر خصوصیات پر مشتمل ہے توحق اہلِ مدینہ کے اجماع سے باہر نہ ہوگا اور ان کے اجماع سے متجاوز نہ ہوگا ۔ (المستصفی للغزالی:۱/۱۸۷۔ حیات امام مالک:۳۵۷)
دلائل کا تنقیدی جائزہ
مگرواقعہ یہ ہے مذکورہ باتیں مدینہ اور اہلِ مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ؛ لیکن نہ تو وہ مدینہ کے علاوہ دوسرے مقامات کی فضیلت کی نفی نہیں کرتی ہیں اور نہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مدینہ کے ساتھ خاص ہے ؛ کیونکہ مکۃ المکرمۃ بھی بہت سے فضائل پر مشتمل ہے ، مثلاً بیت الحرام ، رکنِ یمانی، مقامِ ابراہیم ، زمزم ، حجرِاسود ، صفا و مروہ اور دوسرے مناسکِ حج نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مولد ہے ؛ مگریہ سب باتیں اس پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مکہ کے ساتھ خاص ہے ، وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی جگہ کے لوگوں کے اجماع کے معتبر ہونے میں اس جگہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے ؛ بلکہ علم واجتہاد کا اعتبار ہوتا ہے اور علم واجتہاد میں مکہ ، مدینہ اور شرق وغرب سب برابر ہیں ؛ پس صحیح قول کے مطابق اجماع معتبر ہونے
میں صرف علم واجتہاد کا اعتبار ہوگا ،م دنی یا غیرمدنی کا اعتبار نہ ہوگا ۔ (البحرالمحیط:۴/۴۸۳۔ الاحکام لابن حزم:۴/۳۰۳۔ ارشادالفحول:۱۲۴۔ الاحکام آمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمدبن حنبل:۳۵۰)
اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا اجماع
جمہور کے نزدیک اہلِ بیت کا انفرادی اجماع بھی قابلِ حجت نہیں ہے ؛ لیکن روافض میں سے فرقہ “زیدیہ“ اور “امامیہ“اس بات کا قائل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صرف اقرباء کا اجماع معتبر ہے اور وہ حضرات کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عقل تینوں سے استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا“۔ (الاحزاب:۳۳)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کویہ منظور ہے کہ اے گھروالو ! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہرطرح ظاہراً وباطناً) پاک صاف رکھے ۔
آیت بالا سے وہ اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ کلمہ حصر (اِنَّمَا) کے ذریعہ اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے رجس کی نفی فرمائی گئی ہے اور رجس سے مراد خطاء ہے اب مطلب یہ ہوگا کہ خطاء صرف اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام سے منتفی ہے اور جس سے خطاء منتفی ہوتی ہے وہ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے ؛ لہٰذا اہلِ بیت معصوم عن الخطاء ہوں گے اور معصوم عن الخطاء کا قول صواب اور درست ہوتا ہے اور جوقول صواب ہو وہ قابلِ حجت ہوتا ہے ؛ لہٰذا ان کا قول حجت ہوگا؛ نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دہے : “إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَاإِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي“۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۳۷۱۸،چشتی)
ترجمہ : میں تم میں دوعظیم چیزیں چھوڑوں جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھامے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے ایک “کتاب اللہ“ دوم میرے“اہلِ بیت“۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلالت سے معصوم ہونا کتاب اللہ اور عترتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں منحصر ہے ؛ لہٰذا ان کے علاوہ کوئی اور چیز میں ہدایت نہ ہوگی اور جب ایسا ہے تو ثابت ہوگیا کہ اہلِ بیت کا اتفاق واجماع حجت ہے ۔ اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اہلِ بیت شرف ونسب کے لحاظ سے دوسروں پرفوقیت رکھتے ہیں اور اسباب تنزیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقول وافعال سے یہ حضرات زیادہ واقف ہیں؛ پس اس کرامت و شرافت اور خصوصیت کی وجہ سے اہلِ بیت اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کا اجماع
معتبر ہو ۔
دلائل کا تنقیدی جائزہ
لیکن ان دلائل پر اگرغور کیا جائے توواقعہ یہ ہے کہ ان کا مدعی ثابت ہونا محل تامل ہے ؛ جہاں تک آیت سے استدلال کی بات ہے تواس کی بنیاد اس پر ہے کہ آیت میں رجس سے مراد خطاء ہے ؛ حالانکہ آیت میں رجس سے مراد خطا نہیں ہے ؛ بلکہ رجس سے تہمت مراد ہے اور اس سے باری تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے ہم تہمت دور کرنا چاہتے ہیں اور جہاں تک حدیث کی بات ہے تووہ خبرِواحد ہے اور خود روافض کے نزدیک اخبار احاد اس لائق نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے؛ پس جب اخبار احاد ان کے یہاں عمل کے لائق نہیں ہیں توان سے ان کا استدلال کرنا کیسے صحیح ہوگا؟ اور ان کی دلیل عقلی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجماع میں شرف نسب کا کوئی دخل نہیں ہے ، اس میں توعلم
واجتہاد کی صلاحیت کا اعتبار ہوتا ہے اور یہ باتیں اہلِ سنت کے علاوہ میں بھی
ہوسکتی ہیں اور رہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ مخالطت کا معاملہ تو یہ بات اہلِ بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں میں بھی پائی جاتی تھی جوسفراور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہتے تھے ؛ لہٰذا اس بنیاد پر بھی صرف اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام کا قول حجت نہ ہوگا ؛ بلکہ اہلِ
بیت علیہم السّلام کی طرح دوسرے لوگوں کا قول اور اجماع بھی حجت ہوگا گرصرف اہلِ بیت کا قول حجت ہوتا جیسا کہ روافض کہتے ہیں توجنگ “صفین“ کے موقع پر حضرت علیؓ اپنے مخالفین پرنکیرفرماتے اور یہ کہتے کہ صرف میرا قول حجت ہے اور میں معصوم ہوں؛ حالانکہ حضرت علیؓ نے یہ نہیں فرمایا اور نہ مخالفین اپنی مخالفت سے باز آئے، الحاصل یہ قول بھی درست نہیں ہے ۔ (المسودۃ فی الفقہ:۳۷۰۔ الاحکام آمدی:۱/۳۵۷۔ ارشاد الفحول:۱۲۴۔ الاحکام للآمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمد بن حنبلؒ:۳۵۰)
کن چیزوں میں اجماع کا اعتبار ہے ؟
اجماع کا تعلق خالص دینی اور شرعی امور سے ہے الفاظ کے لغوی معنی کے سلسلے میں اجماع کا اعتبار نہیں، عقلی اور دنیوی امور وتدابیر میں بھی اجماع کا اعتبار نہیں ؛ کیونکہ ایک مکلف کے افعال سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ۔ (اصول الفقہ للخضری:۲۸۱۔ فواتح الرحموت:۲/۲۴۶)
اجماع کا حکم
اجماع کا حکم یہ ہے کہ اگرکوئی اجماع قطعی کا انکار کرے تووہ کافر ہوجائیگا ، بعض اصولیین نے یہ تفریق کی ہے کہ اگرضروریاتِ دین پر اجماع ہوا ہوا اور وہ عوام وخواص کے درمیان متعارف ہوتو ان کا منکر کافر ہوگا ؛ لیکن جواجماع اس قبیل سے نہ ہوتو اس کے منکر کو کافر قرار نہیں دیا جائیگا ، جیسا کہ بعض مسائل وراثت پر اجماع ہوا ہے اور فخرالاسلام بزدوی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس مسئلہ پر اجماع ہوا ہو اس کا کوئی انکار کرے جیسے مانعینِ زکاۃ سے قتال وغیرہ تواس کو کافر شمار کریں گے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کے لوگوں کا اجماع کا کوئی منکر ہوتو وہ گمراہ اور ضال ہوگا ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲/۴۹۔ اصول البزدوی:۲۴۵۔ البحرالمحیط:۴/۵۲۴)
علامہ ابن تیمیہ اور اجماع
علامہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک حجت ہونے کے اعتبار سے کتاب وسنت کے بعد اجماع کا درجہ ہے ؛ چنانچہ لکھتے ہیں : فقہاء، صوفیہ اور عامۃ المسلمین کے نزدیک بالاتفاق اجماع حجت ہے ؛ البتہ اہلِ بدعت مثلاً معتزلہ اور شیعہ وغیرہ اس کے مخالف ہیں ۔ (الرسائل والمسائل:۵/۲۱۔ حیات ابنِ تیمیہ :۶۸۷)
اسی لیئے علامہ ابنِ تیمیہ نے کئی مسائل میں اجماع کا حوالہ دیا ہے ، مثلاً وہ ایک جگہ لکھتے ہیں حضرت امیرمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا ایمان نقل متواتر سے ثابت ہے اور اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳)
ایک جگہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی پاک بازی کے متعلق لکھتے ہیں : یہ تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سلف علیہم الرّحمہ کے اجماع سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳،چشتی)
ایک جگہ لکھتے ہیں : کئی اہل علم نے اس بات پر علماء کا اجماع ذکر کیا ہے کہ
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اعلم تھے ۔ (فتاویٰ:۴/۳۸۹)
مذکورہ عبارتوں کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ ابنِ تیمیہ دوسرے تمام اہلِ سنت و جماعت کی طرح اپنی تالیفات میں “اجماع“ سے استدلال کرتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ جس امر پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم اجماع کرلیں ان کا انکار کرنا زندقہ اور نفاق ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے ۔
غیرمقلدین اور اجماع
غیرمقلدین کی ایک گمراہی یہ ہے کہ وہ اجماع کے منکر ہیں ، ان کے نزدیک اسلامی عقیدہ کے اصول صرف کتاب وسنت ہیں ؛ حتی کہ وہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی منکر ہیں ان کا یہ عقیدہ بھی شیعوں کے ساتھ توافق اور مسلکی موافقت کا مظہر ہے ، شیعہ ، معتزلہ اورغیرمقلدین کے علاوہ کوئی فرقہ ہمارے علم میں ایسا نہیں کہ جس نے اجماع کا انکار کیا ہو وہ اجماع کہ جس کے اصول دین ہونے پر حضراتِ صحابہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور پوری امت کا اتفاق ہے ، علامہ ابنِ تیمیہ روافض پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :“اجماع روافض کے نزدیک حجت نہیں ہے“ ۔ (منہاج السنۃ:۳/۲۶۶)
بہرِحال انکار اجماع روافض کا مذہب ہے اہلِ سنت کا مذہب نہیں ؛ غیرمقلدین بھی اس مسئلہ میں شیعوں کے ساتھ ہیں، ان کے عقیدوں کی تفصیل نواب نورالحسن صاحب نے “عرف الجادی“میں کی ہے ؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : “دین اسلام کی اصل صرف دو ہیں : کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اجماع کوئی چیز نہیں ہے اور لکھتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجماع کی اس ہیئت کو دلوں سے نکال دیں جو دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے جواجماع کا دعویٰ کرتا ہے تواس کا یہ دعویٰ بہت بڑا ہے ؛ کیونکہ وہ اس کوثابت نہیں کرسکتا ۔ (عرف الجاری:۳)
ایک اور جگہ رقمطراز ہیں : “حق بات یہ ہے کہ اجماع ممنوع ہے“۔ (عرف الجادی:۳)
یہ تو تھاغیرمقلدین کا عقیدہ ؛ لیکن اس بارے میں سلفیوں کا عقیدہ غیرمقلدین
کے بالکل برخلاف ہے ، سلفی حضرات اجماع کوایک دلیلِ شرعی سمجھتے ہیں ۔ (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی،الاصل الثالث،فی الاجماع،۱/۷۳)
علامہ ابنِ تیمیہ کی کتابیں پڑھنے والوں پریہ بات مخفی نہیں ہے ۔
اجماع کی چند مثالیں
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صرف دورات تراویح با جماعت پڑھیں ، اس کے بعد یہ فرماکر تراویح پڑھنی چھوڑ دی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے (بخاری شریف:۱/۱۵۲)
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین عملاً وقولاً اختلاف رہا ؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پورے رمضان مواظبت کے ساتھ بیس رکعات باجماعت تراویح پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا ۔ (نصب الرایۃ:۲/۱۵۳،چشتی)
(2) ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو یاتین ہی واقع ہوں ، یہ مسئلہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مختلف فیہ رہا ؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا اور اس کے بعد سے جمہور اس پرمتفق چلے آرہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں ۔ (مسلم شریف:۱/۴۷۸)
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نمازِ جنازہ کی تکبیرات پانچ بھی
منقول ہیں اور سات، نو اور چار بھی ؛ اسی لیئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اس میں اختلاف رہا ہے ، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ تم صحابہ کی جماعت ہو کر اختلاف کر رہے ہو تو تمہارے بعد آنے والوں میں کتنا شدید اختلاف ہوگا ؛ پس غور و خوص کرکے چار تکبیرات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوگیا ۔ (بدائع للکاسانی:۲/۳۱۲)
(4) اگرکوئی شخص متعدد بار چوری کرے اور ایک مرتبہ میں اس کا دایاں ہاتھ اور دوسری مرتبہ میں اس کا بایاں پیرکٹ چکا ہو اور پھرتیسری اور چوتھی بار چوری کرے تواس کے ہاتھ و پیر کاٹ کر سزادیجائے یاقطع کے علاوہ دیگر کوئی سزا دی جائے اس سلسلہ میں اختلاف رہا ہے ، اس کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ایک صورت متعین فرمادی کہ تیسری چوتھی مرتبہ میں قطع نہ ہوگا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر سکوت اختیار کیا ؛ پس یہی توارث
ہوگیا ، اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (بدائع للکاسانی:۶/۴۰۔ دارِقطنی:۳/۸۰۔ السنن الکبریٰ:۸/۲۴۵)
(5) جماع بدون الانزال کے موجب غسل ہونے میں ابتداً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف تھا ؛ چنانچہ انصار وجوب غسل کے قائل نہیں تھے اور مہاجرین وجوبِ غسل کے قائل تھے ؛ لیکن جب حضرت عمر نے انصار ومہاجرین دونوں کو جمع کرکے پوری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو وجوبِ غسل پر آمادہ کیا توحضرت عمر رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ پر سب متفق ہوگئے اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی ۔ (طحاوی شریف:۱/۴۷،چشتی)
(6) امام طحاوی اور امام بیہقی علیہما الرّحمہ نے علقمہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک زمین جوبصرہ میں تھی حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کی ، کسی نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کو اس معاملہ میں خسارہ ہوگیا ہے ، یہ سن کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اختیار ہے ؛ کیونکہ میں نے بغیر دیکھے زمین خریدی ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے
کہا گیا کہ آپ کو خسارہ ہوگیا ؛ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اختیار ہے ؛ کیونکہ میں
اپنی زمین بغیر دیکھے فروخت کی ہے ، دونوں حضرات نے جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کو حکم مقرر کیا ، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ طلحہ کو خیار رؤیت حاصل ہے ، عثمان کو حاصل نہیں ہے ، یہ واقعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں پیش آیا ؛ مگر کسی نے نکیر نہیں کی ، گویا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع منعقد ہوگیا کہ خیار رویت مشتری کوحاصل ہوگا بائع کو حاصل نہ ہوگا ۔ (ہدایۃ:۳/۳۶)
کیا اجماع کی اطلاع ممکن ہے ؟
ابومسلم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد کے اجماع کی اطلاع متعذرہے ؛ کیونکہ مجتہدین کسی ایک شہر میں نہیں رہے اور نہ ہیں ؛ بلکہ شرق سے غرب تک پھیلے ہوئے ہیں ، ان سب کی آراء کوحاصل کرنا عقلاً ممکن ہونے کے باوجود واقعاتی طور پر مشکل ہے،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ ابن تیمیہ اور آپ کے شاگرد حافظ ابن القیم اور ظاہریہ کا بھی یہی خیال ہے امام احمدؒ نے تویہاں تک فرمایا ہے کہ : “مَنْ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ فَهُوَ كَاذِبٌ، لَعَلَّ النَّاسَ اخْتَلَفُوا، مَايُدْرِيهِ ، وَلَمْ يَنْتَهِ إلَيْهِ؟ فَلْيَقُلْ:لَانَعْلَمُ النَّاسَ اخْتَلَفُوا“۔ (ارشادالفحول:۱۱۱)
ترجمہ : جوکوئی اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے ،ممکن ہے کہ لوگوں کااس میں اختلاف ہو اور اس کی اطلاع اس کو نہ ملی ہو، ایسی حالت میں یہ کہنا چاہیے ہمیں لوگوں کے اختلاف کا علم نہیں ہے ۔ لیکن اکثر علماء کرام کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کی اطلاع ممکن ہے ، ہربلدہ وخطہ کا والی اپنے یہاں کے مجتہدین کو جمع کرکے ان کی رائے لے یا مراسلات کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کر کے ان کی آراء حاصل کر لے ، اس طرح اجماع کی اطلاع مل سکتی ہے ، ماضی میں جواجماع ہوئے کتابوں کے ذریعہ ان کی اطلاع تو ہے ہی ، اس زمانہ میں ذرائع ابلاغ کی بہتات ہے اور اس کی سہولتیں ہیں ، ان سے فائدہ اٹھایا جائے توحال میں ہونے والے اجماع کی بھی اطلاع بآسانی مل سکتی ہے ۔ (فقہ اسلامی خدمات و تقاضے:۱۹۰۔ البحرالمحیط:۴/۴۲۸۔ الاحکام آمدی:۱/۲۸۵۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۷۵۔ حیات امام ابن القیم:۲۹۲)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment