اذان اور اقامت کے کلمات پر غیر مقلدین کے اعتراضات کے جوابات حصّہ دوم
سوال:جیساکہ تم نے خود اعتراف کیا ہے کہ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان بعد کو ہے اور حضرت بلال کی اذان سابق اور قاعدہ ہے کہ احکام لاحقہ سے منسوخ ہوجاتے ہیں اور صاحبِ سیرۃ حلبیہ بھی اس کے ناسخ کے قائل ہیں چنانچہ لکھتے ہیں : وإنما يؤخذ بالأحدث فالأحدث من أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي بالمتأخر عنه، لأن المتأخر ينسخ المتقدم ۔ (السیرة الحلبیة، باب بدء الاذان ومشروعیته، جلد۲، صفحه۱۳۸)
جواب : تقدم وتاخرِ زمانی میں نسخ تب ثابت ہوتاہے جب حکم ایک ہو جب حضرت ابو محذورہ کو اذان کے کلمات بحثییثِ اذان کے نہیں سکھلائے گئے بلکہ ان میں توحید ورسالت کے اثرات پیدا کرنے کے لئے اعادہ کرایا گیا اور نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں جب کہ سب کو معلوم ہے کہ حضرت بلال سفر وحضر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی طرح اذان دیتے رہے جسے ہم احناف نے اختیار کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کو ترجیح حاصل ہے اور ان کی اقامت بھی اس طرح تھی جیسے کلماتِ اذان جیساکہ امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بکثرتِ روایات اور صحیح اسناد کے ساتھ ثابت فرمایا کہ حضرت بلال کی اقامت کو اسی معروف طریقۂ احناف کے مطابق راویوں نے اختصاراً بیان کیا تو مجتہدین نے اسی اختصار کو اصل حدیث سمجھ کر عمل کرلیا ورنہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقامت کا کیا جواب ہوگا کہ وہ اقامت اس طرح کہتے جیسے احناف کا طریقہ ہے اسے ترجیح اسی لئے ہے کہ جیسے کلماتِ اذان صحیح ہے لیکن الہامی ہیں ایسے ہی اقامت کے کلمات بھی ۔ علاوہ ازیں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نائب مؤذن ہیں اور حضرت بلال اصلی۔
حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ اسلام سے سخت دشمنی رکھتے تھے اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بار بار کلمہ شہادت پڑھوایا اور انہیں بحیثیت اذان کے نہیں بلکہ بحیثیت تعلیم کے اعادہ (تکرار)کرایا۔ بطورِ ترجیع نہیں تھا اگرچہ ابو محذورہ نے اسے اذان کے کلمات سمجھا تو وہ ان کا اپنا اجتہاد تھا اور وہ اجتہاد قابلِ ستائش لیکن جمہور کے معمول کے خلاف ہو تو غیر مقبول ہے۔
فوائد
(1) اس سے حضرت بلال کی فضیلت اور بزرگی کا پتہ چلتا ہے کہ فتح کے موقع پر کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان کا اعزاز صرف انہیں نصیب ہوا۔
(2) حضورنبی پاک ، شہ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کتنا پیار تھا کہ ان کے طفیل حضرت ابو محذورہ کو دولتِ اسلام سے نوازا کیونکہ نہ وہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نقل اُتار تے نہ اُنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلاتے۔
(3) یہی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کی بڑی دلیل ہے کہ ُان کی نقل اُتارنے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انعام سے نوازا یہ ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ناقل(نقل کرنے والے) کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے لشکر سے نکال کر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کردیا اور فرمایا چونکہ یہ موسیٰ علیہ السلام کی نقل اُتارتا تھا اسی لئے مجھے محبوب ہے۔(مرقاۃ)
تعارف موذنین رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم}یہ فیصلہ موذنین کے تعارف سے بھی واضح ہوگا کہ اذان واقامت میں فوقیت اسے حاصل ہے جو ان موذنین میں مرتبہ وعہدہ میں فوقیت رکھتا ہے۔
سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ کی ذات محتاجِ تعارف نہیں۔ فقیر نے آپ کی مکمل اور ضخیم سوانح عمری لکھی ہے اس کا مطالعہ کیجئے یہاں پر چند ضروری باتیں حاضر ہیں۔
ولادتِ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تیس برس پہلے کا ذکر ہے ۔ جب حبشہ سے ایک شخص رباح اور اُس کی بیوی خمامہ کو غلام بنا کر مکہ لایا گیا۔ اُنہی دنوں ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو ا جس کا نام بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)رکھا گیا اور کنیت ابو عبداللہ مشہور ہوئی ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلامی ورثہ میں پائی تھی اُن کے والدین بھی غلامی کی چکی میں پس رہے تھے۔ ہوش سنبھالتے ہی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس چکر میں پھنس گئے ۔ سب سے پہلے قبیلہ بنو جمع کی ایک متمول(مال دار) عورت انہیں اپنی غلامی میں لے گئی لیکن یہ کسے خبر تھی کہ اس نحیف و نزار(کمزور و لاغر) غلام کی تقدیر ایک دن بامِ عروج پر پہنچ جائے گی اور اس کو بارگاۂ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا شرفِ عظیم مل جائے گا۔ قضا وقدر کی حکمتیں بھی کتنی عجیب ہیں کہ قیمتی ہیرے کو پہلے خاک میں ملایا جاتاہے اور پھر شاہوں کے تاج کی زینت بنایا جاتاہے ۔ بالکل اسی طرح کی منزل سے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوگزرنا پڑا ۔ عورت کی غلامی کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُمیہ بن خلف کے ہاتھ لگے اوریہیں سے وہ منظرِ تاریخ پر آتے ہیں۔ اُمیہ بن خلف کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی ، کاروبار دور دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ گھر میں بارہ (۱۲)کے قریب غلام تھے اُنہی غلاموں میں ایک نئے غلام کا اضافہ ہوگیا۔ شروع شروع میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھریلو کام کاج اور اُونٹ چرانے پر مامور کیاگیا ۔ کچھ عرصہ بعد اُمیہ بن خلف نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مویشی چرانے کی خدمت سے ہٹا کر اپنے گھریلو بُت کدے کا نگران مقرر کردیا تاکہ وہ اُن پتھریلے خداؤں کی گرد(مٹی)وغیرہ جھاڑ یں ، صندل سلگائیں۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خدمت پر مامور رہے مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ تقدیر نے اُنہیں ’’ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ‘‘(پارہ ۱۱، سورۂ التوبۃ، آیت۱۰۰)(ترجمہ:اورسب میں اگلے پہلے)کی صفت میں شامل ہونے کی سعادت دی جس سے اُن کے ذہن میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی۔ اُنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ پر اسلام قبول کرلیا۔ اس دوران اُمیہ بن خلف نے بھرپور خزانے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحویل میںد ے دیئے ، اُس کی تمام دولت حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھو ں آتی اور جاتی ۔ ایک کافر کو اس قدر اعتماد تھا یہ غلام بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار کی عظمت کا کھلا اعتراف تھا۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلاشبہ ہاتھ کے صاف، سیر چشم(فراخ دل) اور امانت دار تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبولِ اسلام سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار فرمایا اور اُن کے قبولِ اسلام کو حجاز سے باہر اشاعت کا پیش خیمہ قرار دیا ۔ اُمیہ بن خلف جیسے ظالم شخص کی غلامی خود ایک درد ناک مصیبت تھی اس پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبولِ اسلام کرکے خود کو آزمائشوں میں ڈال دیا۔ ویسے تو دوسرے غلام بھی اُمیہ بن خلف کی ظالمانہ روش کا نشانہ بنتے رہتے تھے لیکن اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سیلابِ عُقُوْبت (عذاب)کا رخ یکایک حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مڑگیا اوریہ واقعہ قبولِ اسلام کے وقت پیش آیا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر اپنے ربِ واحد کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔ اُمیہ بن خلف کو علم ہوگیا کہ میرا زر خرید غلام مجھ سے بغاوت کرکے حزب اللہ (اللہ کی جماعت)میں شامل ہوگیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے دل میں غم وغصہ کی لہر دو ڑ گئی ایک دن صبح سویر ے اُمیہ بن خلف نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کیا طریقہ عبادت تم نے اختیار کیا ہے۔ اس پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں رب ِمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی عبادت کرتا ہوں۔ یہ سن کر اُمیہ بن خلف آگ بگولا ہوگیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لباس نوچ ڈالا ، اُن کے بدن میں کانٹے بھر دیئے، یہ خاردار اور نوکیلے کانٹے اس بے دردی کے ساتھ چبھوئے گئے کہ گوشت سے نکل کر ہڈیوں تک اُتر گئے ۔ اُس دن اُمیہ بن خلف کے حکم سے دوسرے غلام حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باہر لے گئے اور گرم ریت پر منہ کے بل لٹا دیا ۔ آس پاس وزنی پتھر رکھ دیئے گئے تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں اور اردگرد آگ جلادی گئی۔ آگ کی گرمی سے بدن جھلس گیا مگر زبان سے برابر احد احد کی صدا بلند ہورہی تھی۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کئی کئی دن بھوکا رکھا جاتااور ان کے گلے میں رسی ڈال کر مکہ کی گلیوں میں پھرایا جاتاجس سے ان کے گلے میں زخم پڑگئے مگر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سراپا تسلیم و رضا کا پیکر بنے ہوئے تمام مظالم کو خندہ پیشانی سے (خوشی خوشی)برداشت کرتے رہے ۔ دن ڈھلے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پابہ زنجیر (پاؤں میں زنجیرڈال) کرکے ایک تنگ و تاریک حجر ے میں ڈال دیا جاتا۔ اُمیہ بن خلف اور اُس کے غلام تابڑ تو ڑ تازیانے (چابک)برساتے۔ ظالم اُمیہ کا یہ حکم تھا کہ یہ سلسلہ سحر تک جاری رہے چنانچہ یہ تشدد رات بھر اسی طرح جاری رہتا اور تازیانے (چابک)کی ہر ضرب کو احد کی آواز سے شکست دیتے اور غیب سے یہ صدا آتی (تجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی ، تیری سرشت میں ہے پاکی ودرخشانی ، تواے مسافر چراغ بن کر، اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی کر) اسی طرح دن گزرتے گئے اور راتیں گزرتی گئیں۔
ایک رات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر اُمیہ بن خلف کے کوچے سے ہوا۔ اچانک تازیانے(چابک) کی ضرب کے ساتھ احد احد کا نعرہ بلند ہوا نعرہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل ہل گیا اور اُلٹے قدموں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا عرض کیا۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اُمیہ سے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ضرورسوداکرلیا جائے اور جو رقم ادا کی جائے گی اُس کا نصف ہم ادا کریں گے ۔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُمیہ کے گھر پہنچ گئے اور اس سے کہا خدا کے قہر و غضب سے ڈرو اور بلال پر اس قدر ظلم نہ کرو۔ یہ سنتے ہی اُمیہ کے ہونٹوں پر ایک زہریلی ہنسی آئی اور کہا کہ اگر آپ کا دل اس کے لئے اتنا جلتاہے تو اسے مجھ سے خرید لو ۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا مقصد بھی یہی ہے۔ اُمیہ سے دوہزار دینار سودا طے پایا۔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو ہزار دینا ر دے دیئے ۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لے کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں حاضر ہونے کے لئے خوشی خوشی روانہ ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمراہی میں جب بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقائے مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی اور حسبِ وعدہ سرکار ﷺ نے آدھی رقم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دینی چاہی مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کردیا کہ میں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا کی راہ میں خرید کر آزاد کرچکا ۔ اس پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی غلامی میں دے دیا جائے ۔
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’امنا وصدقنا‘‘ کہا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ختم الرسل کی نایاب و قابلِ فخر غلامی کی لڑی میں پرودیئے گئے ۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ستائے جانے والے شمع توحید کے پروانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا حکم مل گیا ۔ حکم پاتے ہی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سوئے مدینہ چل دیئے ان دنوں مدینہ میں بخار پھیلا ہوا تھا۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شدید بخار ہونے لگا ۔ بخار کے اثر سے اکثر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بے ہوشی طاری رہتی۔ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے مہاجرین نے بخار سے نجات پائی۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کئی دن نقاہت (بیماری کی وجہ سے ضعفت )سے پڑے رہے حتیٰ کہ نماز بھی بیٹھ کر ادا کرتے۔ چند دن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ پہنچ گئے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علالت(بیماری) سن کر عیادت کو تشریف لے گئے اور دعا فرمائی ۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے فرض کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خانگی (گھریلو)اُمور کا انتظام وانصرام (بندوبست)بھی فرمایا کرتے تھے ۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنا خزانچی بھی بنادیا تھا دوبرس یعنی 3ھجری میں جب مسجدِ نبوی تعمیر ہوئی اور نمازِ پنج گانہ کے لئے مرکز بن گیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مقررہ وقت پر نمازیوں کے جمع کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ کیا ۔ ہر صحابی نے اپنے اپنے خیال کے مطابق رائے پیش کی کسی نے کہا کہ ناقوس اور گھڑیال بجائے جائیں ، کسی نے کہا کہ نماز کے وقت آگ روشن کی جائے مگر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی تجویز پسند نہ آئی ۔ اسی اثناء میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تجویز پیش کی کہ نماز کے وقت مدینہ کی گلیوں میں ایک شخص منادی (اعلان)کیا کرے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تجویز مان لی اور عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص اُن سے کہہ رہاہے کہ تمہیں ایسے کلمات سنائے جاتے ہیں جنہیں سن کر لوگ جمع ہوجایا کریں گے۔ اس طرح رویائے صادقہ میں اُنہیںاذان کا طریقہ تعلیم ہوا۔ وہ اسی وقت بیدار ہوکر خدمتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے اور یہ واقعہ سنایا۔ صبح صادق کا وقت تھا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی وقت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا اور یہ کلمات یاد کرانے کے بعد اذان کا حکم دیا حضرت بلال نے حجرۂ اقدس کے عین سامنے کھڑے ہوکر تاریخِ اسلام کی اولین اذان اپنے مخصوص لحن(خوش آوازی) میں کہی اور اس روز سے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذانوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ قسمت کی خوبی کہئے یا حسنِ اتفاق کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نظرِ عنایت کی یہی منزل نہیں تھی کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آگئے تھے بلکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو رہبرِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا کہ آج تک مسلمانانِ عالم کے لئے پیروی دین کی راہ میں ایک کڑی بنادیا مثلاً فجر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اذان شروع ہوتے ہی باہر تشریف لاتے گویا اذانِ بلال ہی نماز کی ایک علامت تھی۔
بلال رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا اظہارِ اسلام
وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اپنا اسلام ظاہر کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اول اظہارِ اسلام کرنے والے سات ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُن کی والدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق تعالیٰ نے آپ کے چچا ابوطالب کے غم کے سبب اظہار سے منع کردیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُن کی قوم کی وجہ سے منع کردیا لیکن دیگر حضراتِ صحابہ کو مشرکوں نے پکڑ کر توحید اور دینِ اسلام کی بناء پر اذیتیں دینا شروع کردیں ، اُن کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں بٹھاتے اور مارتے تھے اور مسلمانوں میں کوئی ایسا نہ تھا جن کو وہ پکڑ کر لاتے اور مشرکین جو چاہتے اُن سے سلوک کرتے تھے اور وہ رخصت پر عمل کرتے تھے بجز حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ اپنے آپ کو بہت کمتر سمجھتے تھے مگر اپنے دینِ حق میں مضبوطی پر قائم تھے اور راۂ خدامیں اذیتیوں کو آسان سمجھتے تھے اُمیہ بن خلف جو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مالک تھا اُن کو دوپہر کے وقت مکہ کے ریگزاروں(راستوں) پر لے جاتا اور ان کے گلے میں رسی باندھ کر لٹادیتااور بہت بڑا پتھر اُن کے سینہ پر رکھ کر اُس کو کوٹتا تھا تاکہ یا تو اس کے نیچے جان دے دیں یا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہوجائیں۔ یہ ان کو رسیوں سے باندھ کر مکہ کی گلی کوچوں میں پھراتا تھا اور وہ احد احد کہتے جاتے تھے۔
ایک روایت میں ہے’’ اللہ اللہ‘‘ لیکن تقدیرِ الٰہی اس طرح واقع ہوئی کہ معرکہ بدر میں وہ ملعون حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا تو وہ ایک دن اسی طرح اذیتیں پہنچارہاتھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزرا ن کی طرف ہوا ۔ انہوں نے ایک حبشی غلام کے بدلے اُن کو خرید لیا اور آزاد کردیا۔ مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حال میں خریدا کہ بہت بڑے پتھر کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ مروی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے اور فرمایا اگر ہمارے پاس مال ہوتا تو میں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خرید لیتا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب سے ملے اور اُن سے کہا کہ میرے لئے بلال کو خرید لیجئے اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُمیہ بن خلف کی بیوی کے پاس گئے کیونکہ وہ اس کے لے پالک(نگہبان) تھے ۔ انہوں نے فرمایا اپنے اس غلام کو جس کا نام بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے قبل اس کے کہ وہ تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے اور تم اس کی قیمت سے محروم ہوجاؤ اس کی فروختگی کی خواہشمند ہو ۔ اس نے کہا تم کیا کروگے وہ خبیث ہے(معاذاللہ) کسی کا م کا نہیں دوسری مرتبہ پھر ملے اور یہی بات دوبارہ کہی ۔ اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو خرید لیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیا یعنی ان کو دے دیا پھر انہوں نے ان کو آزاد کردیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے : أَبُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَأَعْتَقَ سَيِّدَنَا يَعْنِى بِلاَلاً ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب بلال بن رباح،جلد۱۳، صفحه۳۷،حدیث ۳۷۵۴)۔(مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الفضائل،باب ما ذکر فی ابی بکر الصدیق رضی الله عنه، جلد۶،صفحه۳۵۳، حدیث۳۱۹۶۶،چشتی)
یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے سردار ہیں اورانہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آزادی دی۔
مشہور یہ ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام چلے گئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر چند اصرار کیا کہ وہ مدینہ میں رہیں اور اُن کے لئے اذا ن کہیںیہاں تک کہ وہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر تم نے مجھے رضائے الٰہی کے لئے خرید کے آزاد کیا ہے تو اب بھی مجھے چھوڑدو گے اور آزاد ی دو گے پھر وہ شام چلے گئے۔
ابن عبدالبر استیعاب میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اذان کہی ۔ مروی ہے کہ ابوجہل ملعون نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا اور اس نے کہا تم بھی وہی کہتے ہو جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے ہیں اوران کو پکڑ کر منہ کے بل گرادیا اور دھوپ میں لٹاکران کے سینہ پر چکی کا پاٹ رکھ دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر احد احد کہتے رہے ۔اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کسی دوست کو بھیجا یہاں تک کہ اس نے ان کے لئے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خریدا اور جب فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ خلافت آیا توان سے اجازت طلب کی ۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا چیز تم کو میرے پاس رہنے اور اذان کہنے سے روکتی ہے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اذان کہی ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اذان کہی ہے کیونکہ ولی نعمت تھے ۔ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے کہ اے بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) راۂ خدا میں جہاد سے افضل کوئی عمل نہیں ہے ۔ (یہ روایت مشہور کے خلاف ہے۔)
اَہلِ سیر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خلافت کے زمانہ میں شام تشریف لے گئے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تشریف فرماتھے پھر انہوں نے ان کے لئے اذان کہی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی رونے لگے اور بیان کرتے ہیں کہ اس دن سے زیادہ کسی کو اتنا شدید روتا ہوا نہ دیکھا گیا۔
ایک اور مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ آئے اور اذان دینی شروع کی مگر تمام نہ کرسکے اس کا قصہ یہ ہے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام پہنچے تو چھ مہینہ کے بعد خواب میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا بات ہے کہ ہماری زیارت کو نہیں آتے اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وقت مدینہ طیبہ کی جانب روانہ ہوگئے ۔ جب مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو سیدہ فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے حالات پوچھے ۔ لوگوں نے بتایا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو جنت سدھار گئیں اور امام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود ہیں۔ جب مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو لوگوں نے چاہا کہ ان کے لئے اذان کی درخواست کریں مگر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بات کہہ سکے ۔ لوگوں نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے التجا کی کہ وہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اذان کہنے کی درخواست کریں اُن کے حکم کو وہ ٹال نہ سکیں گے اس کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کہنے کے لئے اس جگہ کھڑے ہوئے جہاں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اذان دیا کرتے تھے ۔ جب انہوں نے ’’اَللَّہُ أَکْبَرُ‘‘کہا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایامِ حیات کے تصور اور یاد سے لوگوں پر گریہ طاری ہوگیا اور جب ’’ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‘‘کہا تو رونے کا شور از حد بڑھ گیا اور جب ’’ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘کہاتوشہر میں زلزلہ سا پڑگیا اور گریہ وفُغاں(رونے کی آواز) سے کہرا م مچ گیا گویا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم آج ہی دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد نہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اذان کہنے کی طاقت رہی اور نہ لوگوں میں سننے کی برداشت رہی۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن الحارث بن عبدالمطلب ابن عم رسول اللہ کے درمیان مواخات فرمائی ۔ (الاستیعاب)
اصابہ میں ہے کہ ان کے اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مواخات فرمائی ہے۔
اور امام مالک کی موطا میں ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا حال ہے کہ میں جنت میں داخل ہوا تو تمہاری جوتیوں کی آواز میں نے سنی ہے مجھے بتاؤ کہ تم ایسا کون سا عمل کرتے ہو ؟عرض کیا جو نماز یں مجھ پر فرض کی گئی ہیں میں اُسے خوب طہارت کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو بیان کرتے تو رونے لگتے۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جمع الجوامع میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : السباق أربعة أنا سابق العرب وصهيب سابق الروم وسلمان سابق الفرس وبلال سابق الحبش ۔ (جمع الجوامع، جلد۱،حدیث۱۳۰۸۸،چشتی)
یعنی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں وہ گہرے سیاہ رنگ ، نحیف و طویل ( لاغر اورلمبے)، دبلے بازوؤں والے تھے۔ انہوں نے دمشق میں وفات پائی اور بابِ صغیر کے پاس مدفون ہوئے ان کی وفات ۲۰ھ یا ۱۸ھ میں ہوئی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ حلب میں فوت ہوئے اور وہیں مدفون ہوئے مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔ ان کی عمر شریف کچھ اُوپر ساٹھ یا تریسٹھ سال کی ہوئی ۔ ایک قول ہے کہ ستر سال کی ہوئی ۔ ان سے صحابہ کرام کی جماعتِ کثیرہ نے جن میں حضرت ابوبکر وعمر ، اُسامہ بن زید، عبداللہ بن عمر، کعب بن عجرہ ، براء بن عازب وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ہیں اور مدینہ وشام اور کوفہ کے کبار تابعین کی جماعت نے روایت کی ہے۔
دوسرے موذن حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ اُن کا نام عبداللہ بن عمر ایک اور قول سے عمرو بن قیس بن زائدہ ہے اور بعض عبداللہ بن صریح بن قیس بتاتے ہیںجس نے عبداللہ بن زائدہ کہا ہے اس نے ان کے جدکی طرف نسبت کی ہے وہ قرشی عامری ہیں جو بنی عامربن لوی سے ہیں اُن کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عبداللہ بن مخزومی تھا قدیم الاسلام مکی ہیں اور حضرت مصعب بن عمیر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ہجرتِ مدینہ کی ۔ واقدی نے کہا کہ بدر کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اکثر غزوات میں ان کو خلیفہ بنایا ہے بعض روایتوں میں آیا ہے کہ تیرہ مرتبہ ان کو خلیفہ بنایا اور غزوۂ تبوک میں بھی ان کو خلیفہ بنایا تھا اور امیر المومنین علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اَہلِ عیال پر چھوڑا تھا۔
حضرت اِبنِ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اذان کہا کرتے تھے ۔ انہیں کے حق میں ’’ عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ Ǻۙ ‘‘(پارہ۳۰،سورۃ عبس،آیت ۱)نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں وفات پائی ۔ بعض کہتے ہیں قادسیہ میں شہید ہوئے اُن کا تذکرہ کتبِ احادیث میں بہت ہے۔
ابومحذورہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
تیسرے موذن حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ان کا نام مغیرہ جمحی قرشی ہے ان کی کنیت ان کے نام پر غالب آگئی۔یہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مکہ مکرمہ میں اذان دیا کرتے تھے اور مکہ میں ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں ان کے بھائیوں میں سے جو بنی سلامان بن ربیعہ بن سعد بن جمح میں سے تھے وارث ہوئے۔ ابن مخیرکہتے ہیں میں نے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے سر پر بال رکھتے تھے ۔ میں نے کہا تم اپنے بال کیوں نہیں کٹواتے انہوں نے فرمایا میں وہ نہیں ہوں کہ میں اپنے ان بالوں کو کٹوادوں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا ہے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی ہے۔ وہ مکہ مکرمہ میں ۵۹ھ میں فوت ہوئے ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کے بعد فوت ہوئے انہوں نے ہجرت نہیں کی اور ہمیشہ مکہ میں ہی رہے ۔ان سے ان کے بیٹے عبدالملک اور عبداللہ محیر یز اور ابن ابی ملیکہ نے روایت کی ہے ۔ مسلم اور اربعہ نے ان سے روایت نقل کی ہے کہ ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان میں ترجیع کرتے تھے اور اقامت میں تثنیہ کرتے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان میں ترجیع نہیں کرتے تھے اور اقامت میں افراد کرتے تھے اور بعض مؤذن نہ اذان میں ترجیع کرتے تھے اورنہ اقامت میں تثنیہ کرتے تھے ۔ ہر ایک نے اس میں ایک طریقہ کو اختیار کیا ہے ۔ ہمارے مذہب میں اذان میں ترکِ ترجیع اور اقامت میں تثنیہ ہے اس کی تحقیق اپنی جگہ مذکور ہے۔
سعد قرظ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
چوتھے موذن سعد قرظ ہیں ان کو سعد قرظی بھی کہتے ہیں ان کا نام سعد بن عائذ ہے اور حضرت عمار بن یاسررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مولیٰ ہیں اور سعد قرظ کے ساتھ مشہور ہیں ۔سعد قرظی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ قرظ کی تجارت کرتے تھے اور اس سے بہت نفع کماتے تھے اس سے پہلے جس چیز کی تجارت کرتے تھے نقصان اُٹھاتے تھے ۔ پھر انہوں نے قرظ کی تجارت کو لازم کرلیا۔ ’’قرظ ‘‘ورق سلم کو کہتے ہیں جس سے چمڑے کو پکایا جاتاہے اور ایسے چمڑے کو ادیم قرظی کہتے ہیں ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد قبا شریف میں مؤذن مقرر فرمایا ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان دینی چھوڑدی تو حضرت سعد قرظی کومسجد نبوی شریف میں منتقل کردیا گیا یہاں تک کہ اپنی تما م حیات اذان دیتے رہے ان کے بعد ان کی اولاد میں اذان متوارث ہوئی یہاں تک کہ امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے زمانہ تک یہ ان کی اولاد میں رہی اور ان کے بعد بھی۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مسجد نبوی شریف میں اذان دینے کے لئے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد قرظی کو منتقل کیاتھا ۔ بعض کہتے ہیں کہ پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے وہ اذان کہتے تھے ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اور یہ اس بات پر مبنی ہوسکتا ہے جبکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ سے شام کی جانب منتقل ہوگئے یا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں یا حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جیساکہ اس طرف پہلے اشارہ گزرچکا ہے۔ حضرت سعد قرظی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجاز پر حجاج کی حکومت کے زمانہ تک یعنی ۹۴ھ تک زندہ رہے۔
چند باتیں آخر میں گزارش کردوں
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اذان کہی یا نہیں ؟ یہ ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے فقیر اُویسی غفرلہٗ نے اس پر ایک مستقل تصنیف لکھی ہے ہمارے نزدیک صحیح یہی ہے جو امام احمد رضاخان فاضل بریلوی قدس سرہٗ نے فرمایا دُرمختار میں ضیاء کے حوالہ سے ہے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دی ، اقامت فرمائی اور نماز ادا کی ۔ اس نماز میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی شریک ہوئے۔
فائدہ : امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تحفۃ الاسلام میں ہے کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سفر میں اذان دی تو شہادت میں ’’اشھدانی رسول اللّٰہ‘‘کہا علامہ ابن حجر نے اس حدیث کی صحت کا اشارہ کیا ہے اور یہ نص مفسر ہے جو قابلِ تاویل نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ)
سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سردی کے ایام میں ایک صبح کو اذان دی تو کوئی نماز پہ نہ آسکا پھر میں نے اذان کی تو بھی کوئی نہ آسکا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں کیا ہوگیا وہ نماز کے لئے حاضر نہیں ہوئے میں نے عرض کی سردی سے نہیں آسکتے ۔ آپ نے اُن کے لئے دعا فرمائی’’یااللہ ان سے سردی کا زور توڑ دے ‘‘
پھر میں نے انہیں دیکھا کہ وہ شدید سردی میں گرمی کی شدت سے پنکھے ہلاتے تھے ۔ (الوفا، جلد۱، صفحہ ۳۴۹)
یہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ آپ کے مختارِ کل ہونے کی دلیل ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے سردی کا زور توڑ دیا ۔ اس میں عبرت ہے اس قوم کو جو کہتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرح مجبور بشر ہیں ان سے برابر ی کا دم بھرتے ہیں جبکہ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے سردی کا زور توڑ دیا یہ لوگ اپنے سے سردی کا زور توڑ کر دکھائیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment