ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ اوّل
قبلہ رُخ ہوکر تکبیرِ تحریمہ کہنا
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ۔(ابن ماجہ:803)
ترجمہ: حضرت ابو حمید فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو قبلہ رُخ ہوکر ہاتھوں کو اٹھاتے اور”اَللّٰہ أکبر“کہتے تھے۔
ہاتھ کہاں تک اُٹھائے جائیں
عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْن وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكَادَ إِبْهَامَاهُ تُحَاذِي شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ۔(نسائی:882)
ترجمہ : حضرت عبد الجبار بن وائل اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ کے دونوں انگوٹھے آپ کے دونوں کانوں کی لَو کے برابر ہو جاتے ۔
ہاتھ کیسے اُٹھائے جائیں
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا اسْتَفْتَحَ أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ فَلْيَرْفَعْ يَدَيْهِ، وَلْيَسْتَقْبِلْ بِبَاطِنِهِمَا الْقِبْلَةَ، فَإِنَّ اللَّهَ أَمَامَهُ ۔(طبرانی اوسط:7801،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی تکبیر کہے تو اُسے چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور اُن کا اندرونی حصہ (یعنی ہتھیلیوں کا رُخ )قبلہ کی طرف کرے ۔
ہاتھ کیسے باندھے جائیں
عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ ۔(ابوداؤد:727)
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں:پھر آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت ، گٹے اور کلائی پر رکھا ۔
ہاتھ کہاں باندھے جائیں
عَنْ عَلقَمَةَ بنِ وِائِل بنِ حُجْرٍ،عَنْ اَبِيْهِ رَضِیَ الله عَنْهُ قَالَ: رَأيتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِيْنَهُ عَلَی شِمَالِهِ فِی الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،باب وضع الیمین علی الشمال:3/320،321،رقم:3959)
ترجمہ :حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ ﷺنے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے تھے ۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:إِنَّ مِنْ سُنَّةِ الصَّلَاةِ وَضَعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔(سنن کبریٰ بیہقی:2342)(و کذا فی ابی داؤد:756،چشتی)
ترجمہ: حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:نماز میں سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔
ثناء پڑھنا
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ قَالَ:«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ»۔(نسائی:899)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب نماز شروع کرتے تو یہ دعاء پڑھتے :«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ ۔
تعوّذ
اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے:﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾۔(النحل:98) ترجمہ: جب تم قرآ ن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔(آسان ترجمہ قرآن)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ:«أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ»۔(مصنف عبد الرزاق:2589)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں:نبی کریم ﷺ تلاوت سے پہلے ’’أَعُوذُ بِا اللہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔
تسمیہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ بِ {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}۔ (ترمذی:245)
ترجمہ: حضرت ابن عباس سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺ اپنی نماز کا افتتاح’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘سے کیا کرتے تھے۔
ثناء ، تعوذ ، تسمیہ اور آمین کا آہستہ کہنا
خَمْسٌ يُخْفِيَنَّ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَآمِينَ، وَاللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ۔ (مصنف عبد الرزاق:2597)
ترجمہ : مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء ، تعوذ ، تسمیہ ،آمین اور تحمید ۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ:قَالَ عُمَرُ:أَربَعٌ يُخْفَيْنَ عَنِ الْإِمَامِ:التَّعَوُّذُ،وَبِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحيْمِ، وَ آميْن، وَاَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ۔ (کنز العمال:22893)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعیحضرت عمرکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ چار چیزیں امام آہستہ کہے گا :تعوّذ، تسمیہ ،آمین اور اللّٰہم ربنا لک الحمد۔
فاتحہ اور سورت کا ملانا
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا»،قَالَ سُفْيَانُ: لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ۔ (ابوداؤد:822)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور اُس سے زائد نہ پڑھے ۔ حدیث کے راوی حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ یہ حکم اُس شخص کے لئے ہے جواکیلے نماز پڑھ رہا ہو۔
قرأت کے وقت مقتدیوں کا خاموش رہنا
اِرشاد باری ہے:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہوتاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ( الأعراف:204)
إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا. فَقَالَ:إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذْ قَالَ{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ}،فَقُولُوا:آمِينَ،يُجِبْكُمُ اللهُ………وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ،عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ قَتَادَةَ مِنَ الزِّيَادَةِ«وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا»“۔
ترجمہ:حضرت ابوموسی اشعریفرماتے ہیں کہ آپﷺنے ہم سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے لئے سنّت کے اُمور کو واضح فرمایا اور ہمیں ہماری نماز (باجماعت) کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا کہ : جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو،پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری اِمامت کرے ، اور جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تو تم ”آمِينَ“ کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعاء قبول فرمائیں گے۔حضرت سلیمان التیمی حضرت قتادہ سے (مذکورہ حدیث میں)یہ زیادتی نقل کرتے ہیں کہ :جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم:404)
وضاحت:مذکورہ حدیث میں جماعت کے ساتھ ہونے والی نماز میں اِمام اور مقتدی کی ذمّہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے ، یعنی: جب اِمام ”اللہ أکبر“ کہے تو تم بھی ”اللہ أکبر“کہو، جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ فاتحہ ختم کرے تو تم ”آمین “کہو۔اگر سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا مقتدی کیلئے لازم ہوتا تو جیسے تکبیر میں کہا گیا ہے کہ اِمام کے تکبیر کہنے پر تم بھی تکبیر کہو اِسی طرح قراءت کے موقع پر بھی یہ کہا جاتا کہ جب اِمام قراءت کرے تو تم بھی قراءت کرو ، لیکن اِس کے بالکل برعکس یہ کہا گیا ہے کہ:”وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا“یعنی جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔
نوٹ : واضح رہے کہ حضرت سلیمان التیمی بخاری اورمسلم کےمشہور راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ اور مُتقن ہیں لہٰذا مذکورہ بالا حدیث میں ان کی ذکر کردہ یہ زیادتی بالکل مقبول ہے ، یہی وجہ ہےاِمام مُسلم نے اپنی صحیح میں یہ زیادتی ذکر کرکے اُسے صحیح قرار دیا ہے۔علاوہ ازین یہ زیادتی نقل کرنے میں حضرت سلیمان التیمی متفرّد بھی نہیں کہ ان پر تفرّد کا اِلزام لگایا جاسکے،بلکہ اور بھی کئی راویوں نے دوسری روایات میں اِسی زیادتی کو نقل کیا ہے،چنانچہ حضرت ابوعُبیدہکی روایت کیلئے دیکھئے(مستخرج ابی عَوانہ:1698) حضرت عمر ابن عامراور حضرت سعید بن ابی عَروبہ کی روایت دیکھئے(دار قطنی:1249)
عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ:«مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ»۔«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»“۔ (ترمذی:313،چشتی)
ترجمہ:حضرت ابونُعیم وہب بن کیسان فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہسے سنا ،وہ یہ فرمارہے تھے: جس نے نماز پڑھی اور اُس میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی، ہاں ! مگر یہ کہ وہ اِمام کے پیچھے ہو(تو نماز ہوجائے گی )۔یہ حدیث ”حسن صحیح“ہے۔
وضاحت : حدیثِ مذکور جس کو اِمام ترمذینے صحیح بھی قرار دیا ہے اس میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ اِس حقیقت کو ذکر کیا گیا ہے کہ نماز سورۃ الفاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی شخص اِمام کے پیچھے جماعت میں شریک ہو تو اُس کی نماز ہوجائے گی ،اِس لئے کہ حدیث کے مطابق اِمام کی قراءت کرنے سے مقتدی کی بھی قراءت ہوجاتی ہے،لہٰذا سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کے باوجود بھی حکمی طور پر اُس کا پڑھنا معتبر ہوجاتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا۔ (ابن ماجہ:846)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:امام کو اس لئے مقرر کیا گیا ہے تاکہ اُ س کی اقتداء کی جائے ، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ تلاوت کرے تو تم خاموش رہو۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ»۔ (دار قطنی:1502)
ترجمہ: حضرت ابن عمر نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو پس امام کی قرأت ہی اُس کی قرأت ہے ۔
عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ: هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الإِمَامِ؟ يقول: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لاَ يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ۔ (مؤطاء مالک:251،چشتی)
ترجمہ: حضرت ابن عمر سے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے ، اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأ ت کرنی چاہیے۔حضرت نافعفرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اِمام کے پیچھے قرأت نہیں کیا کرتے تھے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ:«أَتَقْرَءُونَ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ» فَسَكَتُوا فَسَأَلَهُمْ ثَلَاثًا فَقَالُوا إِنَّا لَنَفْعَلَ، قَالَ:فَلَا تَفْعَلُوا۔(طحاوی:1302)
ترجمہ : ایک دفعہ نبی کریمﷺنے نماز پڑھائی پھراپنے رخِ انور سے صحابہ کرام کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا امام کے پڑھتے ہوئے تم لوگ بھی قراءت کرتے ہو؟لوگ خاموش رہے،آپﷺنے تین دفعہ یہی سوال کیا تو صحابہ کرام نے کہا :جی ہاں! ہم یہ کرتے ہیں ،آپﷺنے اِرشاد فرمایا: ایسا مت کیا کرو۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا۔ (مسند احمد:19723)
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعریفرماتے ہیں کہ ہمیں نبی کریمﷺنے نماز سکھائی اور فرمایا: جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو تم میں سے کسی ایک کو تمہاری امامت کرنی چاہیئے اور جب امام تلاوت کرے تو تم خاموش رہو۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ قَالَ:أمَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَصْرِقَالَ: فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ فَغَمَزَهُ الَّذِي يَلِيهِ، فَلَمَّا أَنْ صَلَّى قَالَ: لِمَ غَمَزْتَنِي؟قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُدّامَك، فَكَرِهْتُ أَنْ تَقْرَأَ خَلْفَهُ، فَسَمِعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: من كان لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ۔ (مؤطاء امام محمد:98)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے عصر کی نماز میں اِمامت کی،ایک شخص نے آپ ﷺ کے پیچھےقراءت کی،اُس کےساتھ میں کھڑے شخص نے اُس کو(قراءت سے منع کرنے کیلئے) چٹکی نوچی،جب نماز ہوگئی تو اُس شخص نے (چٹکی نوچنے والے سے)کہا: تم نے مجھے چٹکی کیوں نوچی تھی؟ تو اُ س نے جواب دیا : نبی کریم ﷺ تمہارے آگے قراءت کررہے تھےاِس لئے میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم حضور ﷺ کے پیچھے قراءت کرو، نبی کریم ﷺ نے یہ گفتگو سنی تو فرمایا : جس شخص کا امام ہو تو اُس امام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہے ۔
سری و جہری تمام نمازوں میں مقتدیوں کو خاموش رہنے کا حکم ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ خَافَتَ أَوْ جَهَرَ»۔ (دار قطنی:1252)
ترجمہ: حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :تمہارے لئے امام کی قرأ ت ہی کافی ہے ،خواہ امام ہلکی آواز میں پڑھے یا بلندآواز میں۔
كَتَبَ عُثْمَانُ إِلَى مُعَاوِيَةَ:إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوافَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:لِلْمُنْصِتِ الَّذِي لَا يَسْمَعُ مِثْلُ أَجْرِ السَّامِعِ الْمُنْصِتِ۔(القراءۃ خلف الامام للبیہقی:137)
ترجمہ : حضرت عطاء خراسانیفرماتے ہیں کہ حضرت عثماننے حضرت معاویہکو لکھا کہ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو اس کی طرف کان لگاکر سنو اور خاموش رہو،کیونکہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا ہے،آپ اِرشاد فرمارہے تھے:جو شخص خاموش رہے اور اُسے سنائی نہ دے اس کیلئے ایسا ہی اجر ہے جیساکہ اُس شخص کیلئے اجر ہے جو سنتے ہوئے خامو ش رہے۔
حضرت عثمانکی مذکورہ بات سے یہ اِشکال بھی دور ہوگیا جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب سری نمازوں میں اِمام کے پیچھے سنائی ہی نہ رے رہا ہو تو خاموش کھڑے رہنے کا کیا فائدہ ؟ کیا یہ فائدہ کم ہے کہ اُس کو سننے والے کے اجر ہی کی طرح اجر مل رہا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گوڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment