مقدمہ کتاب فیضِ نماز
یوں تو کتب احناف میں نمازکے لاتعداد مسائل مذکور ہیں اور بحمدہٖ تعالی تمامی مسائل قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ، معاذاللہ کوئی ایک بھی ایسامسئلہ نہیں ہے جسے فقہائے احناف رحمہم اللہ علیہم اجمعین نے محض اپنی مرضی سے وضع کر لیا ہو ۔ لیکن بعض کم علم حضرات یہ گمان کرتے ہیں کہ احناف جس طریقہ سے نماز ادا کرتے ہیں یہ طریقہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ، اوریہ محض ان کا گمان فاسد اور فکر کاسد ہے ۔ واضح رہے کہ جن مسائل پر جو احادیث اس کتاب میں مذکور ہیں ، ان احادیث طیبہ کے علاوہ بھی لاتعداد احادیث احناف کی تائید میں موجود ہیں لیکن اس کتاب فیضِ نماز میں اکثرمسائل پرصرف ایک ایک حدیث ہی پیش کی گئی ، سوائے چند مسائل کے کہ ان میں ایک سے زائد احادیث مذکور ہوئیں ۔ نیزاحادیث طیبہ کی سند سے بھی بحث محض اختصار کے سبب نہیں کی گئی ہاں جہاں ضروری سمجھا گیا وہاں اسناد پر بحث بھی مختصرا شامل کی گئی ہے ۔ پس جوشخص وضاحت چاہے وہ کتب مطولہ کا مطالعہ کرے ۔
ﷲ رب العزت جل مجدہ نے ارشاد فرمایا : واعتصموا بحبل ﷲ جمیعاً ولاتفرقوا ۔ (آل عمران آیت 103)
ترجمہ : اور ﷲ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا
تفاسیر میں ہے ’’حبل ﷲ‘‘ سے مراد اسلام یا بانی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہستی ہے اور اسلام کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے : ان الدین عندﷲ الاسلام ۔ (آل عمران آیت 19)
ترجمہ : بے شک ﷲ کے یہاں اسلام ہی دین ہے ۔
بانی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے : لقد کان لکم فی رسول ﷲ اسوۃ حسنہ ۔ (الاحزاب آیت 21)
ترجمہ : بے شک تمہیں رسول ﷲ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ) کی پیروی بہتر ہے ۔
ان مذکورہ ہر دو آیتوں سے معلوم ہوا کہ اسلام ہی دین حق ہے اور اس کے مدمقابل سب ادیان ، ادیان باطلہ ہیں ۔ ان میں خواہ یہودیت وعیسائیت ہو یا ہندومت و سکھ ہو سب باطل ہیں۔ اسی طرح اسلام کے اندر اعمال کا دارومدار بانی اسلام کی سیرت طیبہ پر ہے ۔ اس کو نمونہ کاملہ قرار دیا ہے، جبکہ پہلی آیت کریمہ نے یہ بھی بتا دیا کہ اسلام ہی کو تھامے رہو اور فرقوں میں مت بٹ جاؤ ۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ اسلام کا دامن تھام کر سیرت طیبہ کے مطابق عمل اختیار کرو ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے اندر فرقوں کے بنانے کی ممانعت کے باوجود لوگوں نے فرقے تو بنا لئے۔ اب اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کیسے ہو گی کہ اصل حقیقی اسلام پر عمل کرنے والے گروہ کا تعین ہم کیسے کریں ؟ اور گمراہ فرقوں کو ہم کیسے پہچانیں ؟ تو آیئے استاذ المحدثین، امام ابو عیسٰی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع ترمذی ’’ابواب الایمان عن رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)‘‘ کے باب ’’افتراق ہذہ الامۃ‘‘ کی درج ذیل حدیث پڑھیئے ۔ ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ہے : ستفترق امتی ثلثا و سبعین فرقۃً، کلہم فی النار الاواحدۃ ۔
ترجمہ : عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سوائے ایک کے سب جہنمی ہوں گے ، صحابہ رضی اللہ عنہم عرض گزار ہوئے : من ہم یارسول ﷲ
(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ، وہ نجات پانے والے لوگ کون ہوں گے یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ ارشاد فرمایا : ما انا علیہ واصحابی ۔ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ (جامع ترمذی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 92، مطبوعہ کراچی)
دوسری روایت میں ہے : ہم الجماعۃ (ابو داؤد) وہ جماعت ہو گی ۔
احیاء علوم الدین الغزالی میں ہے : ہم اہل السنۃ والجماعۃ ۔ (احیاء العلوم)
وہ اہل سنت و جماعت ہوں گے ۔
امام علی قاری حنفی مکی ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، غوث اعظم جیلانی ، مجدد الف ثانی امام زینی دحلان مکی، سید یوسف بن اسماعیل مدنی، امام شامی، امام حصکفی، امام احمد رضا حنفی رحمہم ﷲ علیہم اجمعین کا اتفاق ہے کہ نجات یافتہ گروہ ’’اہل سنت و جماعت‘‘ ہے اس کے سوا فرقے گمراہ، گمراہ گر اور ان میں بعض سرحد دین سے نکل کر اور ضروریات دین کا انکار کر کے کافر و مرتد ہو ہو چکے ہیں ۔ اب جب یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام کے تہتر فرقوں میں سے ’’اہل سنت و جماعت‘‘ ہی اہل حق اور صحیح العقیدہ راسخ مسلمان افراد ہیں ، ان کے عقائد و نظریات اسلام کے مطابق ہیں اور ان کے علاوہ دیگر فرقے خوارج و روافض وغیرہما گمراہ ہیں تو اسی نجات یافتہ گروہ کے عقائد کے مطابق عقائد اپنانا لازم ہوا ۔ اس تصحیح عقائد کے بعد فرائض میں سے اعظم فرض نماز ہے کہ کلمہ اسلام کے بعد اہم ترین رکن اسلام ہے ۔
ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے : بنی الاسلام علی خمس، شہادۃ ان لا الہ الا اﷲ وان محمد عبدہ و رسولہ، واقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوٰۃ، وصوم رمضان و حج البیت من استطاع الیہ ۔
ترجمہ : اسلام کی نورانی عمارت کی بنیاد ارکان خمسہ پر ہے۔ (1) ﷲ کی وحدانیت اور رسول کی عبدیت و رسالت کی گواہی دینا (2) نماز قائم کرنا (3) زکوٰۃ ادا کرنا (4) رمضان کے روزے رکھنا (5) استطاعت والے پر حج بیت ﷲ کرنا ۔ (بخاری و مسلم)
یاد رہے ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے اور باوجود اقرار کے اپنی شرائط کے ساتھ جب کسی پر ادائیگی فرض ہو ایک مرتبہ بے عذر ترک کبیرہ اور اس کی عادت بنانا فسق و فجور اور بربادی ایمان کا ذریعہ ہوسکتا ہے ۔ ان میں سے خاص طور پر نماز ہر مومن مرد و عورت، عاقل و بالغ، آزاد و غلام، مقیم و مسافر پر پنجگانہ فرض عین ہے کہ بغیر اس کے خود ادا کئے دوسرے کی طرف سے ادائیگی نہ ہو گی اور اسے مومن و کافر کے درمیان ’’فرق‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی ادائیگی بھی ’’اسوہ حسنہ‘‘ کی روشنی میں ہو گی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : صلوا کما رأیتمونی اصلی ۔ (بخاری شریف) ، نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھو ۔
اب قابل غور بات یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز کی ادائیگی کیسے فرمائی تو اس سلسلے میں احادیث کریمہ اور سیرت طیبہ کی کتابیں ہمارے سامنے ہیں ۔ ان سے ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ ارکان نماز کی ادائیگی کا صحیح مسنون طریقہ کون سا ہے ؟ آیا وہ کون سا عمل ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ادا کیا اور پھر ترک کر دیا۔ وہ کون سا عمل ہے جسے پہلے نہ کیا اور بعد میں اختیار کر لیا، کس عمل کے کرنے کی پہلے اجازت عطا فرمائی اور بعد میں اس کے کرنے سے سختی کے ساتھ روک دیا ۔ بلکہ اعظم ارکان نماز تکبیر تحریمہ، قیام، قرأت، رکوع، سجود کی طرف تو خود قرآن عظیم نے ہماری رہنمائی کے لئے ارشادات سے ہمیں نوازا پھر یہ جھگڑے کیوں ؟ ارشاد الٰہی ’’وربک فکبر‘‘ میں تکبیر تحریمہ ’’وقوموا الی ﷲ قانتین‘‘ میں قیام اور ’’فاقراء وما تیسر من القرآن‘‘ میں قرأت ’’وارکعوا مع الراکعین‘‘ میں رکوع اور ’’واسجد واقترب‘‘ میں سجود کا بیان واضح اور صاف ترین الفاظ میں موجود ہے ۔ اب رہا ان کی ادائیگی کا اصلی دائمی مسنون طریقہ جس کو منسوخ نہ کہہ سکیں جو حتمی ہو، جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا آخری عمر مبارک میں وصال سے پہلے تک مسلسل عمل ثابت ہو، وہ نماز کے سلسلے میں ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہو گا ۔ اس کے لئے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ارشادات سے موید طریقہ نماز ہمیں احادیث کریمہ کی معتبر کتب علی الخصوص صحاح ستہ اور مولفین صحاح کے اساتذہ کرام کی کتب سے اس کا طریقہ معلوم ہوسکتا ہے ۔ اس کو ہمارے ائمہ کبار علی الخصوص امام اعظم ابو حنیفہ سیدنا نعمان ابن ثابت رضی اﷲ عنہ سے واضح کر کے بیان کر دیا ۔ مگر بات یہ ہے کہ دور حاضر میں ایک المیہ ’’ملت اسلامیہ جو اتحاد انسانیت کی علمبردار ہے خود انتشار کا شکار ہے‘‘ پھر یہ بات بھی انتہائی افسوس ناک ہے کہ جو چیزیں بالخصوص اتحاد کا سبق سکھاتی ہیں، ان کے نام سے بھی انتشار پھیلایا جاتا ہے مثلاً یہی نماز اور پھر کتنے مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہیں ۔ نماز کے بارے میں موجودہ اختلافات محض علم و تحقیق کی بناء پر نہیں (جیسے قرون اولیٰ میں تھے) بلکہ اس میں بھی غیروں کا ہاتھ ہے۔علم و تحقیق کی بناء پر جو اختلاف کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، جیسا کہ مشہور روایت ہے کہ حضرت امام شافعی رضی اﷲ عنہ، حضرت امام اعظم رضی اﷲ عنہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوتے تو اپنی تحقیق کے بجائے ان کی تحقیق پر چلتے ہوئے نماز ادا کرتے تھے (اس کا ثبوت امام اعظم کی سیرت کی کئی ان کتابوں میں بھی موجود ہے جو شوافع نے لکھی ہیں ) برصغیر پاک و ہند میں موجودہ دور میں اختلافات کا آغاز انگریزوں کی آمد کے بعد ہوا اور انگریزوں کی شہ سے ہوا۔ اصل میں جس بات پر مسلمانوں کا اتفاق تھا، اسی کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے اور کسی بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر کمزور ہو جائیں، کون نہیں جانتا بخاری شریف پہلے پہل اس خطے میں اس وقت آئی، جب اسلام آیا، مگر بخاری شریف کے نام پر لڑائی جنگ آزادی 1857ء سے تیس چالیس سال پہلے شروع ہوئی، انگریزوں سے پہلے بڑے بڑے صوفیا،علماء اپنے اپنے دور میں جلوہ گر رہے مگر سب نے کتاب و سنت کی اس تعبیر پر عمل کیا جسے فقہ حنفی کہا جاتا ہے۔ انگریز مداری اپنا تماشا دکھا کرواپس چلا گیا مگر جن کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار پھیلایا گیا تھا، وہ یہیں رہ گئے اور اب تک حق نمک ادا کر رہے ہیں، امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا، آمین اونچی آواز سے کہنا اور رکوع و سجود میں جاتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ فروعی مسائل میں کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک دوسرے کو چیلنج کر کے مناظروں کے پوسٹرز لگا دیئے جاتے ہیں جن میں اسی قسم کی ابحاث پر زور دیا گیا ہے جبکہ ملت اسلامیہ کے از حد نازک دور ہے اور اسلام دشمن قوتوں کا ناپاک ترین منصوبہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الجھایا جائے۔
اصل بات یہ قابل غور ہے کہ آج عالمگیر سطح پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں بالعموم اور اسکول کالج کے طلبہ میں بالخصوص یہ بات ذہن نشین کرانے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے کہ جو بات ’’بخاری شریف‘‘ میں نہ ہو وہ قابل تسلیم ہی نہیں۔ اس کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ (معاذ اﷲ) بخاری شریف کا درجہ قرآن شریف سے بھی زیادہ ہو گیا حالانکہ امام اعظم رضی اﷲ عنہ امام بخاری کے چھٹے درجے میں امام مسلم کے ساتویں درجے میں اور امام ترمذی کے آٹھویں درجے میں استاذ ہیں اور یہ تینوں محدثین کرام صحاح ستہ میں اپنا علمی مقام دیگر تین محدثین ابن ماجہ، ابو داؤد و نسائی رحمہم ﷲ علہیم اجمعین سے زیادہ رکھتے ہیں۔ اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ خود ان تینوں مذکورہ محدثین، امام بخاری،مسلم و ترمذی نے اپنی اپنی اسناد صحیحہ کے ساتھ یہ حدیث بیان کی جس میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا : لوکان الایمان عند الثریا لنالہ رجل من ھٰؤلآء ۔ یعنی اگر ایمان ثریا ستارے کے نزدیک بھی ہوتا، ان (عجمیوں ) میں ایک شخص اسے ضرور پا لیتا۔ بعض دیگر روایتوں میں ایمان کی جگہ علم اور دین کے الفاظ میں مذکور ہیں۔ بہرحال اتفاقی طور پر اس کا مصداق امام اعظم رضی اﷲ عنہ کی ہستی قرار دیئے گئے ہیں۔ آپ کی ولادت 80ھ یا 70ھ میں آپ کی وجہ سے آپ نے اولین تابعین کا زمانہ گزارا۔ لگ بھگ بیس صحابہ کرام کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔ ان میں سے بعض سے روایات ہیں ابو موسیٰ اشعری ، حضرت مولا علی و ابن مسعود وغیرہم رضی اﷲ عنہما کی وجہ سے جو کہ پہلے ہی علم کا مرکز بنا ہوا تھا اور امام اعظم کی علمی نسبت فقہی شجرہ افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الراشدہ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک متصل ہونے کی وجہ سے آپ کی فقاہت دیگر فقہائے امت سے ممتاز ہے ۔ اس لئے کہ آپ نے فقہ امام حماد سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے حضرت علقمہ واسود سے انہوں نے ابن مسعود سے اور انہوں نے براہ راست معلم کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اخذ علم کیا۔ اس کے علاوہ امام اعظم نے اپنے تلامذہ کی ایک جماعت فقہاء تیار کر کے ان کی شوریٰ بنائی اور اجتماعی طور پر ان حضرات کی رائے سے طے کردہ مسائل کا مجموعہ ’’فقہ حنفی‘‘ کہلاتا ہے ۔ ان سب وجوہات کی وجہ سے ’’فقہ حنفی‘‘ کی برتری مسلّم ہے مگر کچھ ناعاقبت اندیش غیر مقلدین وہابیہ زمانہ اس اعلم العلماء امام ہمام رضی اﷲ عنہ کی فقہ حنفی کی نماز کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔ لہٰذا فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی غفرلہ نے اس کتاب فیضِ نماز میں فقہ حنفی کے مطابق پنجگانہ نماز، نماز جمعہ و عیدین، اور نماز جنازہ کا ثبوت امام بخاری، مسلم، ترمذی اور دیگر محدثین کی کتابوں کی روشنی میں پیش کرنے کی سعی کی ہے محترم جناب یوسف اقبال صاحب کی شدید خواہش و اصرار پر یہ کتاب لکھی گئی ہے اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment