Tuesday, 25 December 2018

نماز جنازہ کے دلائل احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

نماز جنازہ کے دلائل احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

نماز جنازہ میں صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کریں

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ عَلَی الْجَنَازۃِ فِیْ اَوّلِ تَکْبِیْرَۃٍ ثمَّ لَایَعُوْدُ ۔ (سنن دار قطنی ج2 ص314)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے ۔

نماز جنازہ میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھیں

عَنْ اَبیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کَبَّرَ علَی الْجَنَازَۃِ فَرَفَعَ یَدیْہِ فِیْ اوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ وَوَضَعَ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ ۔(ترمذی ج1 ص206،دار قطنی ج2 ص314)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :’’رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ جب نماز جنازہ پڑھتے تو پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیتے ۔

نماز جنازہ میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھیں

عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ اَبُوْ ہُرَیْرَۃَ اَخْذُ الْکَفِّ عَلَی الْاَکُفِّ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ ۔ (سنن ابی داؤد ج 1ص118)
ترجمہ : حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔

نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں

اَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْعَاصِ سَأَلَ اَبَامُوْسٰی الْاَ شْعَرِی وَحُذَیْفَۃَ کَیْفَ کَانَ یُکَبِّرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاَضْحٰی وَالْفِطْرِ فَقَالَ اَبُوْ مُوْسٰی کَانَ یُکَبِّرُ اَرْبَعًا تَکْبِیْرَۃً عَلَی الْجَنَائِزِ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ صَدَقَ ۔ (سنن ابی داؤد ج1ص170،چشتی)
ترجمہ : حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ عید الاضحیٰ اور عید الفطر میں کتنی تکبیریں کہتے تھے ؟ تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا چار تکبیریں نماز جنازہ کی تکبیروں کی طرح۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا ۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ )یَقُوْلُ اَلتَّکْبِیْرُفِی الْعِیْدَیْنِ اَرْبَعٌ کَالصَّلٰوۃِ عَلَی الْمَیِّتِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَلتَّکْبِیْرُ عَلَی الْجَنَائِزِ اَرْبَعٌ کَالتَّکْبِیْرِ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (سنن طحاوی ج1 ص320 التکبیر علی الجنائز کم ھو؟)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیدین کی چار تکبیریں ہیں نماز جنازہ کی طرح اور ایک روایت میں ہے کہ نماز جنازہ کی چار تکبیریں ہیں نماز عیدین کی تکبیروں کی طرح

پہلی تکبیر میں یہ دعا پڑھیں

سُبْحَانَکَ الّٰلھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ ۔ (سنن نسائی ج1 ص143 )

دوسری تکبیر میں یہ درود شریف پڑھیں

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَجِیْدٌ ۔ (صحیح بخاری ج1 ص477 )

تیسری تکبیر میں بالغ مرد وعورت کے لئے یہ دعا پڑھیں

اَلّٰلھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِناَ وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثٰنَا اَلّٰلھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ ۔ (مستدرک حاکم ج1ص684،مصنف عبدالرزاق ج3 ص313،چشتی)

تیسری تکبیر میں نا بالغ لڑکے کے لئے یہ دعا پڑھیں
اَلّٰلھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج4 ص10،الہدایہ مع نصب الرایہ ج2 ص279)

تیسری تکبیر میں نابالغ لڑکی کے لئے یہ دعا پڑھیں
اَلّٰلھُمَّ اجْعَلْہَا لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْہَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعۃً۔

نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور دوسری سورۃ کی قراء ۃ نہ کریں

عَنْ نَافِعٍ اَنَّ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ لَا یَقْرَاُ فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ ۔ (موطا امام مالک ج1ص210،مصنف ابن ابی شیبۃ ج7 ص258)
ترجمہ : حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز جنازہ میں قرأت نہیں کرتے تھے ۔

قَالَ اِبْنُ وَھْبٍ عَنْ رِجَالٍ مِّنْ اَھْلِ الْعِلْمِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ وَعَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَوَعُبَیْدِ بْنِ فُضَالَۃَ وَاَبِیْ ہُرَیْرَۃَوَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ وَوَاثِلَۃَ بْنِ الْاَسْقَعِ وَالْقَاسِمِ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ وَابْنِ الْمُسَیِّبِ وَرَبِیْعِۃَوَعَطَائٍ وَیَحْییٰ بْنِ سَعِیْدٍ اَنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَقْرَؤُنَ فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی الْمَیِّتِ ۔ (المدونۃ الکبریٰ ج1ص251)
ترجمہ : حضرت ابن و ہب رضی اللہ عنہ بہت سے اہل علم حضرات سے نقل کرتے ہیں کہ مثلاً حضرت عمر بن خطاب ،حضرت علی بن ابی طالب،حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبید بن فضال، حضرت ابو ہریرہ ،حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہم اورحضرت قاسم،حضرت سالم بن عبداللہ،حضرت سعید بن مسیب ، حضرت عطاء،حضرت یحییٰ بن سعید رحمہم اللہ نماز جنازہ میں قرأت نہیں کرتے تھے۔

نماز جنازہ میں دعائیں آہستہ آوازسے پڑھیں

قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ :اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً…الایۃ
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’ پکارو اپنے رب کو گڑگڑاکر اور چپکے چپکے۔

مبشر ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں :’’نمازجنازہ میں قرائت جہراً وسراً دونوں درست ہے،البتہ دلائل کی رو سے سراً پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے۔‘‘ نیز لکھتے ہے:’’بہر کیف! سری پڑھنا حدیث سے صراحتاً اور جہری پڑھنا استدلالاً ثابت ہے ۔اس لیے آہستہ پڑھنا زیادہ قوی وبہتر ہے ۔ (آپ کے مسائل ج1ص244)

ڈاکٹر شفیق الرحمٰن غیرمقلد لکھتے ہیں :’’سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں۔۔۔ دعائیں آہستہ پڑھی جائیں ۔ (نماز نبوی از شفیق الرحمٰن ص294 ایڈیشن 2002)

نماز جنازہ بغیر کسی عذر کے مسجد میں نہ پڑھیں

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی عَلیٰ جَنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَیْسَ لَہٗ شَیْئیٌ ۔ (سنن ابی داود ج2ص98،ابن ماجہ ص109)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’جس نے مسجد میں نمازجنازہ پڑھی اس کے لیے کوئی کچھ بھی نہیں ہے (یعنی نہ نما ز ہوئی نہ اجروثواب ملا)

عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا ھَلَکَ الْھَالِکُ شَھِدَہٗ یُصَلِّی عَلَیْہِ حَیْثُ یُدْفَنُ فَلَمَّا ثَقُلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَدَّنَ نَقَلَ اِلَیْہِ الْمُؤمِنُوْنَ مَوْتَاھُمْ فَصَلّٰی عَلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْجَنَائِزِ عَنْدَ بَیْتِہٖ فِیْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ اَلْیَوْمَ وَلَمْ یَزَلْ ذٰلِٰکَ جَارِیاً ۔ (تاریخ مدینۃ منورہ ج1ص1،چشتی)
ترجمہ : جلیل القدر تابعی حضرت ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’جب کسی کی وفات ہوجاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بموقع د فن نماز (جنازہ ) پڑھانے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجسم مبارک ذرا بھاری ہوگیا(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جانا دشوار ہوگیا تو ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنے موتیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے قریب لے آتے ۔ رسول اللہ اپنے مکان کے قریب موضع جنائز (جنازہ گاہ)میں نماز جنازہ پڑھتے ۔ یہی دستور آج تک چلا آ رہا ہے ۔

قَالَ الْاِمَامُ ابْنُ الْقَیِّمِ الْجَوْزِیُ وَالصَّوَابُ مَا ذَکَرْنَاہُ اَوَّلاً وَاِنَّ سُنَّتَہٗ وَھَدْیَہٗ الصَّلٰوۃُ عَلَی الْجَنَازَۃِ خَارِجَ الْمَسْجِدِ اِلَّا لِعُذْرٍ ۔ (زاد المعاد ج1ص206)
ترجمہ : علامہ ابن قیم جوزی لکھتے ہیں :’’درست بات وہی ہے جو ہم پہلے ذکرکر چکے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز جنازہ مسجد سے باہر پڑھنا ہے الا یہ کہ کوئی عذر پیش آ جائے۔ ‘‘

غائبانہ نمازجنازہ نہیں پڑھنی چاہیے

عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ …قَالَ أنْبَأنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَخَاکُمُ النَّجَاشِیَّ تُوُفِّیَ فَقُوْمُوْا فَصَلُّوْا عَلَیْہِ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَفُّوْا خَلْفَہٗ وَکَبَّراَرْبَعًا وَھُمْ لَا یَظُنُّوْنَ اِلَّا اَنَّ جَنَازَتَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ ۔ (صحیح ابن حبان ج5ص40حدیث 3102)
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہارا بھائی نجاشی ( رضی اللہ عنہ ) وفات پا گیا ہے ، کھڑے ہوجاؤ اور اس پر تم نماز (جنازہ) پڑھو! چنانچہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کھڑے ہوئے اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کے پیچھے کھڑے ہوئے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے چار تکبیریں کہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی گمان کررہے تھے کہ جنازہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کے سامنے ہے ۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ نَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَی النَّبِی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَاتَ مُعَاوِیَۃُ بْنُ الَّلیْثِیُّ فَتُحِبُّ اَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِ قَالَ نَعَمْ…فَرُفِعَ سَرِیْرُہٗ فَنَظَرَاِلَیْہِ فَکَبَّرَعَلَیْہِ ۔ (مسند ابی یعلٰی موصلی ص799 حدیث 4268)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جبرائیل علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (اور ) فرمایا معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے ہیں کیا آپ ان کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں ؟ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’ جی ہاں!۔۔پس ان کی چارپائی کو اٹھا لیا گیا ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف دیکھا اور اس پر تکبیر کہی ۔“ (یعنی ان کی نماز جنازہ پڑھی)
نوٹ : بعض حضرات غائبانہ نماز جنازہ کو ثابت کرنے کے لیے حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ اورحضرت معاویہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے جنازوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی تھی ۔
ہم کہتے ہیں کہ ان حضرات کے جنازے غائب نہ تھے بلکہ بطور معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے گئے تھے اور پردوں کو ہٹا دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی ۔
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن غیر مقلد لکھتے ہیں :’’غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے پر نجاشی رضی اللہ عنہ کے قصہ سے دلیل لی جاتی ہے یہ قصہ صحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں موجود ہے مگر اس سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرناصحیح نہیں ہے ۔ (نماز نبوی ص296 ایڈیشن جون 2002،چشتی)
فَلاَ تَجُوْزُالصَّلٰوۃُ عَلَی الْغَائِبِ…بِاَتِّفِاقِ الْحَنْفِیَّۃِ وَالْمَالِکِیَّۃِ ۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ج1 ص474)
ترجمہ : غائبانہ نمازجنازہ کے جائز نہ ہونے پر حنفیوں اور مالکیوں کا اتفاق ہے
قَدْ قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ تُرْکَمَانَیُّ قُلْتُ وَلَوْ جَازَتِ الصَّلٰوۃُ عَلٰی غَائِبٍ لَصَلّٰی عَلَیْہِ عَلٰی مَنْ مَّاتَ مِنْ اَصْحَابِہٖ وَیُصَلّی الْمُسْلِمُوْنَ شَرْقًا وَغَرْبًا عَلَی الْخُلَفَائِ الْاَرْبَعَۃِ وَغَیْرِھِمْ وَلَمْ یُنْقَلْ ذَالِکَ ۔ (الجوہر النقی علی سنن الکبریٰ بیہقی ج4ص51)
ترجمہ : امام ابن ترکمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر غائب پر نماز جنازہ جائز ہوتی توآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے جو بھی (دور دراز کے علاقوں میں) فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ ضرور پڑھتے اور حضرات خلفاء اربعہ وغیرہ پر مسلمان مشرق و مغرب میں (غائبانہ)جنازے پڑھتے، لیکن یہ بات منقول نہیں ۔
زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں :’’ (غائبانہ نماز جنازہ) دلیل کے عموم کی وجہ سے اور نجاشی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تخصیص کی صریح دلیل نہ ہونے کی بناء پر جائز ہے لیکن چونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ ،خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ ودیگر سلف کا عام معمول یہ نہیں تھا ۔ لہذا نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کے عام معمول کو اپنانا ہی افضل وبہتر ہے با لخصوص جب کہ غائبانہ نماز کو حصول شہرت اور دیگر نام نہاد سیاسی و مالی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہو ۔ (نماز نبوی تحقیق و تخریج زیبر علی زئی ص370)
نوٹ : حضرت ابو ہریرہ ،حضرت عمران بن حصین ،حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت ابو سعید خدری اور حضرت حذیفہ بن اسیدالغفاری رضی اللہ عنہم ان حضرات سے نجاشی رضی اللہ عنہ کے واقعہ اور جنازہ کی روایات منقول ہیں جن سے بعض حضرات نے غائبانہ نماز جنازہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن باوجودروایات کو بیان کرنے کے ان حضرات میں سے کسی ایک نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کی وفات کے بعد اپنی وفات تک کسی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی یا پڑھائی ہو ایسی کوئی صحیح صریح حدیث موجود نہیں جس میں لفظ غائب ہو روایت مفسر ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم بھی ثابت ہو کہ آیا وہ سنت ہے یا واجب ؟

چوتھی تکبیر کے بعد دونوں طرف نماز کی طرح سلام پھیریں

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ ثَلاَثُ خِلاَلٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُھُنَّ تَرَکَھُنَّ النَّاسُ اِحْدَاھُنَّ اَلتَّسْلِیْمُ عَلَی الْجَنَازَۃِ مِثْلَ التَّسْلِیْمِ فِی الصَّلٰوۃِ ۔ (سنن کبریٰ بیہقی ج4 ص43)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ تین کام رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کیا کرتے تھے جنہیں لوگوں نے ترک کردیا۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ نماز جنازہ پر اس طرح سلام پھیرنا جس طرح نماز میں سلام پھیرا جاتا ہے (یعنی نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنا )

تدفین کے وقت یہ دعاپڑھیں

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْعَلَائِ بْنِ اللَّجْلَاجِ قَالَ قَالَ لِیْ اَبِیْ یَا بُنَیَّ اِذَا مِتُّ فَاَلْحِدْ لِیْ لَحْدًا فَاِذَاوَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِیْ فَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ شَنَّ التُّرَابَ عَلَیَّ شَنّاً ۔ (مجمع الزوائد ج3ص162 حدیث4243،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبدالرحمن بن العلاء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فرمایا مجھے میرے باپ (العلاء رضی اللہ عنہ )نے اے میرے بیٹے! جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے لئے لحد (یعنی بغلی قبر ) بنانا ۔ جب مجھے قبر میں رکھنے لگو توبسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کہنا ، پھر میرے اوپر مٹی ڈالنا ۔

تدفین کے بعد سراور پا ؤ ں کی جانب کھڑے ہوکیا پڑھا جائے ؟

عَنِ ابْنِ عُمَرَیَقُوْلُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا مَاتَ اَحَدُکُمْ فَلاَ تَجَسُّوْہُ وَاسْرَعُوْابِہٖ اِلٰی قَبْرِہٖ وَلْیُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِہٖ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَعِنْدَرِجْلَیْہِ بِخَاتِمَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ قَبْرِہٖ ۔ (معجم کبیرطبرانی ج6 ص255 )
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ سے سنا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : جب کوئی فوت ہوجائے تو تم اس کو روکے نہ رکھو اور جلدی لے چلو اس کو اس کی قبر کی طرف اور اس کے سر کی جانب سورہ فاتحہ اورپاؤں کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائے ۔

تدفین کے بعد کی دعا

عَنْ عُثْمَانَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ اِسْتَغْفِرُوْا لِاَخِیْکُمْ ثُمَّ سَلُوْا لَہٗ بِالتَّثْبِیْتِ فَاِنَّہٗ اَلْاٰنَ یُسْأَلُ ۔ (سنن ابی داؤد ج2ص103 )
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ دفن میت سے فارغ ہوکر قبر پرکھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش کی دعا کرو اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ثابت قدمی کی درخواست کرو اس سے اس وقت سوال کیا جاتا ہے ۔ (ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...