Wednesday, 19 December 2018

امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصّہ سوم

امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصّہ سوم

عن ابی ہریرۃ قال:قال رسول اللہ ﷺ:انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا کبّر فکبّروا واذا قرأفانصتوا۔(ابن ماجہ :رقم الحدیث :۸۴۶،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۷۲۲،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۴۱۴، سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۳،۱۲۴۴،۱۲۴۵،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۴)
تر جمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔
عن ابی ہریرۃ قال:قال رسول اللہ ﷺ:انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا کبّر فکبّروا واذا قرأ فانصتوا،واذا قال:سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا:اللھم ربنا لک الحمد۔(سنن نسائی،رقم الحدیث:۹۲۱،سنن النسائی الکبری، حدیث:۹۹۳)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو،اور جب ’سمع اللہ لمن حمدہ‘کہے تو تم ’اللھم ربنا لک الحمد ‘کہو۔
عن عمران بن حصین : ان رسول اللہ ﷺ صلی الظھر،فجعل رجل یقرأ خلفہ’سبح اسم ربک الاعلی‘فلما انصرف قال :ایکم قرأ،او ایکم القاری؟فقال رجل انا ، فقال:قد ظننت انّ بعضکم خا لجنیھا۔(الصحیح المسلم ،رقم الحدیث:۳۹۸،سنن البیہقی الکبری،حدیث :۲۷۳۳،سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۳۵،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۸۹،۹۹۰،صحیح ابن حبان،حدیث:۱۸۴۵)
تر جمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نماز ظہر پڑھائی تو ایک شخص نے آپ کے پیچھے سورہ’سبح اسم ربک الاعلی‘کی تلاوت کیا،جب حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا :تم میں سے کس نے تلاوت کیا؟تو ایک شخص نے کہا :میں ،تو حضور ﷺ نے فرمایا :مجھے معلوم ہو گیا کہ تم میں سے کو ئی اختلاج کر رہا ہے۔
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ انصرف من صلاۃ جھر فیھا بالقراۃ فقال:ھل قرأ معی احدکم آنفا؟ فقال رجل:نعم ،یارسول اللہ!قال:انی اقول مالی اُنازع القرآن؟قال:فانتھی الناس عن القرأۃ مع رسول اللہ ﷺفیما جھر فیہ النبی ﷺ من الصلوۃ حین سمعوا ذلک من رسول اللہ ﷺ۔( سنن ابی داود،رقم الحدیث:۸۲۶،سنن البیہقی الکبری،حدیث: ۲۷۱۶،۲۷۲۰،سنن الدار قطنی،حدیث: ۱۲۶۶،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۱،صحیح ابن حبان،حدیث:۱۸۴۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۱۱)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺایسی نماز سے فارغ ہوئے جس میں قرأت زور سے کی جاتی ہے،توفر مایا: کیا ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرأت کیا؟ایک شخص نے کہا:ہاں ،یارسول اللہ ﷺ!آپ ﷺ نے فرمایا:بے شک میں نے کہا کہ کیا بات ہے کہ میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیا جارہاہے؟راوی نے کہا :جب یہ بات نبی اکرم ﷺلو گوں نے سنا تو لوگ حضور ﷺکے ساتھ جہری نمازوں میں قرأت کرنا چھوڑ دیا۔
عن عبد اللہ بن شداد قال:قال رسول اللہ ﷺ :من کان لہ امام فقرأتہ لہ قرأۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۰،۳۸۲۳،شرح معانی الا ثار،حدیث:۱۲۹۴، سنن البیہقی الکبری،حدیث:۲۷۲۳،۲۷۲۴،سنن الدار قطنی،حدیث :۱۲۳۳،۱۲۳۸،۱۲۵۳،۱۲۶۴، موطا امام محمد،حدیث:۱۱۷)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:جس کے لئے امام ہو ،تو امام کی قرأت مقتدی کی بھی قرأت ہے(یعنی مقتدی کو پڑھنے کی ضرورت نہیں)
عن حطان بن عبد اللہ الرقاشی قال:صلی بنا ابو موسی،فقال ابو موسی:ان رسول اللہ ﷺکا ن یعلمنا اذا صلی بنافقال:انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذاکبر فکبرواواذاقرأ فانصتوا۔(سنن البیہقی الکبری،باب من قال یترک الماموم القرأۃ،حدیث:۲۷۱۲ ،۲۷۱۳،سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۹،۱۲۵۰،چشتی)
تر جمہ: حضرت حطان بن عبد اللہ رقاشی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو کہاکہ:بے شک رسول اللہ ﷺ جب ہمیں نماز پڑھاتے تو ہمیں یہ بات سکھاتے کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خا موش رہو۔
عن جابر بن عبد اللہ عن النبی ﷺانہ صلی وکان من خلفہ یقرأفجعل رجل من اصحاب النبی ﷺ ینھاہ عن القرأۃفی الصلوۃ فلما انصرف اقبل علیہ الرجل فقال اَ تنھانی عن القرأۃ خلف رسول اللہ ﷺفتنازعا حتی ذکرا ذلک للنبی ﷺفقال النبی ﷺ:من صلی خلف الامام فان قرأۃ الامام لہ قرأۃ۔(سنن البیہقی الکبری،باب من قال لایقرأ خلف الامام علی الاطلاق،حدیث:۲۷۲۲،سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۳۴،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۵)
تر جمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:حضور ﷺ نے نماز پڑھائی تو ایک شخص جو آپ ﷺ کے پیچھے تھا قرأت کیا ،تو حضور ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی اسے نماز میں قرأت کرنے سے منع کر نے لگے،جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا ،تو اس صحابی رسول ﷺ کی طرف متوجہ ہوا ،اور کہا :کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے قرأت کرنے سے منع کرتے ہیں،پھر ان دونوں میں بحث چھڑ گئی یہاں تک کہ اس کا تذکرہ حضور ﷺ سے کیا گیاتو آپ ﷺ نے فرمایا:جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو بے شک امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔
عن علی رضی اللہ عنہ قال:قال رجل للنبی ﷺ:اقرأ خلف الامام او انصتُ؟قال:بل انصت فانہ یکفیک۔(سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۸)
تر جمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺسے در یافت کیا کہ:میں امام کے پیچھے قرأت کروں یا خاموش رہوں؟حضور ﷺنے فر مایا:خاموش رہو،کیونکہ بے شک اس کی قرأت تمہیں کافی ہے۔
عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قال:کان النبی ﷺ یصلی بالناس ورجل یقرأ خلفہ فلما فرغ قال:من ذالذی یخالجنی سورتی ثم نھاھم عن القرأۃ خلف الامام۔(سنن الدار قطنی،ج:دوم،حدیث:۱۲۴۰،چشتی)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے،ایک شخص نے آپ ﷺکے پیچھے قرأت کیا ،جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فر مایا:کس نے مجھے میری تلاوت میں اختلاج ڈالا،پھر آپ ﷺنے ان سب کو امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرمادیا۔
عن جابر بن عبد اللہ ،ان النبی ﷺ قال:کل صلاۃلایقرأ فیھا بام الکتاب فھی خداج الاان یکون وراء الامام۔(سنن الدار قطنی،حدیث:۴۱ ۱۲)
تر جمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جاتی وہ ناقص ہوتی ہے ،ہاں مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔
عن ابن عباس عن النبی ﷺ قال:تکفیک قرأۃ الامام خافت او جھر۔(سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۵۲ ،۱۲۶۶)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیا ن کیا کہ: حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا:تم کو امام کی قرأت کافی ہے،سِرّی نماز ہو یا جہری۔
عن عبد الرحمن بن زید بن اسلم عن ابیہ قال:نھی رسول اللہ ﷺ عن القرأۃ خلف الامام۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۰)
ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:نبی کریم ﷺ نے امام کے پیچھے قرأت کر نے سے منع فر مایا۔
عن عبد الرحمن بن زید بن اسلم قال:اخبرنی موسی بن عقبۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ وابوبکر وعمر وعثمان کانوا ینھون عن القرأۃ خلف الامام۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۰)
ترجمہ: حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم کہتے ہیں کہ مجھے خبر دیا حضرت موسی بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہ:بے شک رسول اللہ ﷺ،حضرت ابو بکر،
حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فر مایا کرتے تھے۔
عن ابی نعیم وھب بن کیسان انہ سمع جابر بن عبد اللہ یقول:من صلی رکعۃلم یقرأ فیھا بام القرآن فلم یصل الا ان یکون وراء الامام۔(ترمذی،رقم الحدیث :۳۱۳،سنن البیہقی،حدیث :۲۷۲۵،موطا امام محمد، حدیث:۱۱۳،چشتی)
ترجمہ: حضرت ابو نعیم وھب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ کو یہ فر ماتے ہوئے سنا کہ:جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورہ ء فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز ہی نہ پڑھی،سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو(یعنی جب امام کے پیچھے ہو تو اس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔
عن عطاء بن یسار انہ سأل زید بن ثابت عن القرأۃ مع الامام ،فقال :لا قرأۃ مع الامام فی شئی۔(مسلم،رقم الحدیث:۵۷۷)
ترجمہ:عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا ،تو انہوں نے فرمایا:امام کے ساتھ کسی چیز میں قرأت نہیں ہے۔
عن ابی وائل قال:جاء رجل الی عبد اللہ فقال:اقرأ خلف الامام؟فقال لہ عبد اللہ:ان فی الصلوۃ شغلا ،سیکفیک ذاک الامام۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۱،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۰۷،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۳،سنن البیہقی الکبری،۲۷۲۶،موطا امام محمد، حدیث:۱۲۰)
ترجمہ: حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا،اور پوچھا کہ:کیا میں امام کے پیچھے قرأت کروں؟تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:یہ نماز میں شغل (یعنی ایسا کام ہے جو جائز نہیں)ہے ،تم کو اس امام کی قرأت کافی ہے۔
عن ابی لیلی عن علی رضی اللہ عنہ قال:من قرأ خلف الامام فقد اخطاء الفطرۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۲،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۰۶،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۱،سنن الدار قطنی،حدیث :۱۲۵۵،۱۲۵۷،۱۲۵۸،۱۲۵۹)
ترجمہ:حضرت ابو لیلی سے مروی ہے کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا:جس نے امام کے پیچھے قرأت کیا اس نے سنت میں خطائ(غلطی) کیا۔
عن ابی بِجاد عن سعد رضی اللہ عنہ قال:وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیہ جمرۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۳ ، موطا امام محمد،حدیث:۱۲۶)
ترجمہ:حضرت ابو بجاد سے مروی ہے کہ :حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا:میری خواہش ہے کہ جو لوگ امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منہ میں آگ کا شعلہ ہو۔
عن ابن ثوبان عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال:لاتقرأخلف الامام ، اِن جھر و لا ان خافت ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام، حدیث: ۳۸۰۸،چشتی)
ترجمہ: حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ :حضرت زید بن ثا بت رضی اللہ عنہ نے کہا:امام کے پیچھے قرأت نہ کر، امام زور سے قرأت کرے یا آہستہ۔
عن موسی بن سعد عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال:من قرأ خلف الامام فلا صلوۃ لہ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۹،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۲،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۸)
ترجمہ: حضرت موسی بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جس نے امام کے پیچھے قرأت کیا تو اس کی نماز ہی نہ ہوئی۔
عن ابی بشر عن سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ،قال:سألتہ عن القرأۃ خلف الامام؟قال:لیس وراء الامام قرأۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۱۳)
ترجمہ: حضرت ابو بشر کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا ،تو انہوں نے فر مایا:امام کے پیچھے قرأت کرنا جا ئز نہیں ہے۔
عن نافع ان عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کان اذا سئل ھل یقرأ احد خلف الامام؟قال:اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قرأۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرأ۔(موطا امام مالک ،باب ترک القرأۃ خلف الامام، حدیث:۲۸۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۱۲)
ترجمہ: حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب سوال کیا گیا کہ :کیا کوئی امام کے پیچھے قرأت کرے؟تو آپ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قرأ ت کافی ہے اور جب تنہا پڑھے تو چاہئے کہ وہ قرأت کرے۔
عن نافع قال:وکان عبد اللہ بن عمر لایقرأ خلف الامام۔(موطا امام مالک ،باب ترک القرأۃ خلف الامام، حدیث:۲۸۴)
ترجمہ: حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے تھے۔
عن علقمہ، عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال:لیت الذی یقرأ خلف الامام ملی فوہ ترابا۔
(شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۱۰،چشتی)
ترجمہ: حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کاش !وہ لوگ جو امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منہ مٹی سے بھر دیا جاتا۔
عن داود بن قیس ،عن محمد بن عجلان،قال:قال علی رضی اللہ عنہ :من قرأ مع الامام فلیس علی الفطرۃ،قال:وقال ابن مسعود رضی اللہ عنہ:ملی فوہ ترابا،قال:وقال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ: وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیہ حجرا۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۰۶ ،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۷)
ترجمہ:حضرت داود بن قیس سے مروی ہے کہ حضرت محمد بن عجلان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جو شخص امام کے ساتھ قرأت کرے وہ فطرت(یعنی سنت)پر نہیں،اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:کاش !اس کا منہ مٹی سے بھر دیا جاتا،اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:میری خواہش ہے کہ وہ لوگ جو امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منھ میں پتھر ہو۔
عن عبید اللہ بن مِقسم قال:سألت جابر بن عبداللہ ،اَ تقرأ خلف الامام فی الظہر والعصر شئیاََ ،فقال:لا۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۹)
ترجمہ: حضرت عبید اللہ بن مقسم کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ:کیا آپ ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں؟ فرمایا:نہیں۔
عن علقمہ بن قیس،ان عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:کان لایقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ وفیما یخافت فیہ۔(موطا امام محمد،حدیث:۱۲۱)
تر جمہ: حضرت علقمہ بن قیس سے مروی ہے کہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے تھے نہ جہری نماز میں اور نہ ہی سِرّی نماز میں۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)








No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...