قیام اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا (حصّہ دوم)
احناف قیام میں دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے کیوں باندھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں احادیث کریمہ پہلے حصّے میں ہم ذکر کر چکے ہیں مزید کچھ احادیث اس حصّہ دوم میں پیش کرینگے ۔ اصل قیام تو خود دلیل قطعی نصِ قرآن عظیم سے ثابت ہے ارشاد ربانی ہے : وقومو اﷲ قانتین ۔ ترجمہ : اور ﷲ کے حضور عاجزی سے کھڑے ہو جاؤ (البقرہ آیت 238)
اب مسئلہ یہ ہے کہ مطلق قیام تو امر الٰہی کے تحت فرض ہوا مگر اس میں دونوں ہاتھوں کی پوزیشن واضح نہ ہوئی کہ آیا دونوں کھلے رکھیں یا باندھیں۔ داہنا اوپر ہو یا بایاں ہاتھ اوپر ہو۔ سینے پر باندھیں یا ناف پر، یا دونوں کے بیچ میں پیٹ پر یا ناف کے نیچے تک لے جائیں ۔ احوط ہمارے نزدیک زیر ناف ہاتھوں کا باندھنا ہے۔ اس طرح کے بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں ہاتھ اس کے اوپر ہو۔ احادیث کریمہ اسی کی تائید کرتی ہیں۔ دیگر روایات جن میں اس کے خلاف طریقے بیان ہوئے ہیں ان کی فنی حیثیت ان روایات سے کم ہے جو وضع الیدین تحت السرۃ کی موید ہیں۔ چنانچہ امام بخاری کے استاد الاستاذ امام عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ علیہ الرحمہ اپنی ’’مصنف‘‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان میں یوں رقم طراز ہیں۔
حدثنا وکیع عن موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رأیت النبی ﷺ وضع یمینہ علیٰ شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ ۔
امام ابن ابی شیبہ سے حضرت وکیع از موسیٰ ابن عمیر از علقمہبن وائل بن حجر روایت بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ (وائل بن حجر) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک، صاحبِ لولاکﷺ کو اپنی نماز میں دایاں دست اقدس بائیں دست اقدس پر رکھتے ہوئے دیکھا۔اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے محشیٔ کتاب الآثار یوں رقم طراز ہیں : قال الحافظ قاسم بن قطلوبنا اسنادہ جید (کتاب الاثآر جلد 7 ص 34)
امام حافظ الحدیث بن قطلوبنا فرماتے ہیں۔ اس حدیث کی راویوں کی کڑی بڑی عمدہ ہے۔
امام الاولیاء، مولائے کائنات، علی المرتضیٰ، شیر خدا کرم اﷲ وجہ للاسنیٰ اس ہاتھ باندھنے کی کیفیت کے بارے میں واضح ترین لفظوں میں ارشاد فرماتے ہیں۔
ان من سنۃ الصلوٰۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ ۔
یعنی نماز کی سنتوں میں سے یہ بھی کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر زیر ناف رکھنا (ناف کے نیچے رکھنا)
احناف کے مشہور محدث شارح بخاری علامہ بدر الدین محمود العینی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف لطیف عمدۃ القاری بشرح صحیح بخاری میں یوں رقم طراز ہیں :وقول علی ان من السنۃ ہذا اللفظ یدخل فی المرفوع عندہم وقال ابو عمر فی المنتقی واعلم ان الصحابی اذا اطلق اسم السنۃ فالمراد بہ سنۃ النبیﷺ ۔
یعنی حضرت علی پاک کا یہ کہنا کہ ہاتھ زیر ناف رکھنا سنت ہے، اس سے یہ حدیث مرفوع بن جاتی ہے۔ ابو عمر کہتے ہیں جب صحابی کسی بات پر سنت کا اطلاق کرے تو اس سے مراد سنت نبوی ہوتی ہے۔
ائمہ شوافع میں سے شارح صحیح مسلم امام نووی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :واما اذا قال الصحابی امرنا بکذا اونبینا عن کذا اومن السنۃ کذا فکلہ مرفوع علی المذہب الصحیح الذی قال الجمہور من اصحاب الفنون (مقدمہ شرح صحیح مسلم مطبوعہ کراچی ص 17)
اور جب صحابی یہ فرمائے کہ ہمیں فلاں چیز کا حکم دیا گیا یا ہمارے نبی کریمﷺ سے یہ بات ثابت ہے یا فلاں چیز سنت ہے تو سب مذہب صحیح پر مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ اصحاب فنون کی تحقیق یہی ہے۔
امام عینی و نووی علیہما الرحمہ کے علاوہ دیگر محققین کی بھی یہی تحقیق ہے کہ صحابی رسولﷺ جب کسی معاملے کوسنت کہے اس سے مراد سنت نبوی ہوتی ہے۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ بھی یہی رائے رکھتے تھے اور جمہور محدثین کی تصنیفات اس امر کی تحقیق سے مالا مال ہیں اور یہ طے شدہ امر ہے کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ سبھی کا اتفاق ہے اور ایسی سنت نبوی جس پر دوامی عمل ثابت ہو اور ترک نہ کیا گیا ہو، اور نہ ہی ترک کا حکم دیا گیا ہو، اس پر عمل کرنا امت کے لئے بھلائی ہی بھلائی اور برکت ہی برکت ہے۔
امام محمد بن حسن شیبانی محرر مذہب حنیفہ کتاب الآثار ص 34 مطبوعہ بیروت پر رقم طراز ہیں :قال اخبرنا الربیع عن ابی معشر عن ابراہیم (النخعی) انہ کان یضع ہدۃ الیمنی علی یدہ الیسریٰ تحت السرۃ۔
امام محمد از ربیع از ابو معشر از ابراہیم نخفی بیان کرتے ہیں کہ امام ابراہیم نخعی (امام اعظم کے استاذ الاستاذم نماز میں بحالت قیام دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے)
امام نخعی کے امام اعظم، فقیہ اضخم سیدنا نعمان بن ثابت کوفی رضی اﷲ عنہ کے استاذ الاستاذ اور اس امت کے جلیل القدر رہنما، افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الراشدہ سیدنا عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کے تلمیذ ہیں۔ اور ابن مسعود ان کے استادتھے، ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے تھے : مااخذ شیئاً و ما اعلم شیئاً الا وعقلمۃ یقرہ ویعلمہ ۔(تذکرہ الحفاظ ص 48،چشتی)
یعنی جو کچھ میں پڑھتا اور جانتا ہوں اسے علقمہ بھی پڑھتے اور جانتے ہیں۔
ابراہیم نخعی حضرت علقمہ کے بھانجے اور لائق ترین شاگرد ہیں۔ انہیں افقہ الصحابہ کا خصوصی فیضان بواسطہ علقمہ حاصل ہے۔ ان کا عمل یقینی طور پر عمل علقمہ اور عمل علقمہ یقینی طور پر عمل ابن مسعود ہے اور ابن مسعود کا عمل یقینی طور پر عمل نبوی کی پیروی ہو گا۔
امام اعظم کی مسند کے مقدمہ میں ہے : رضیت لامتی مارضی ابن ام عبد وکرہت الامتی ماکرہ ابن ام عبد ۔
یعنی حضور سرور عالمﷺ فرماتے ہیں۔ میں اپنی امت کے حق میں ہر اس بات کو پسند کرتا ہوں جسے عبداﷲ ابن مسعود پسند کرے اور ہر اس بات کو ناپسند جانتا ہوں جسے ابن مسعود ناپسند جانے۔
اسی حدیث کو امام ترمذی جیسے جلیل القدر محدث نے بھی بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود کا عمل نبی پاکﷺ کا پسند فرمودہ ہے۔ اور ان کے تلمیذ التلمیذ کا عمل دونوں ہاتھ ناف کے نیچے اس طور پر باندھنا کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہوتا تھا۔
ابو مجلز سے حالت قیام میں ہاتھوں کو باندھنے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس طرح ارشاد فرمایا:قال یضمع باطن کف یمینہ علی ظاہر کف شمالہ و یجعلہا اسفل من السرۃ ۔ (مصنف ابن شیبہ)
دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے ظاہر پر ناف کے نیچے باندھے ۔
تہذیب التہذیب ج 12ص 227 پر ابو مجلزکو ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی رسول کے راویوں میں شمار کیا گیا ہے۔
علامہ علاؤ الدین علی بن عثمان متوفی 745ھ الجوہر النقی علی البیہقی ج 2ص 31 پر یوں رقم طراز ہیں :قال ابن حزم وروینا عن ابی ہریرۃ وقال وضع الکف فی الصلوٰۃ تحت السرہ ۔
ارشاد فرمایا ابن حزم نے کہ ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھا جائے۔
اسی مذکورہ کتاب میں مرقوم ہے : عن انس قال ثلاث من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطار و تاخیر السحور وضع الید المینی علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ تحت السرہ ۔
انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں۔ افطار میں جلدی کرنا، سحری دیر سے کرنا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔
دلائل مذکورہ سے ثابت ہوا کہ آنحضورﷺ، آپ کے اجداء صحابہ اور اجداء کرامت کے نزدیک نمازی کو بحالت قیام اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے اور اسی پر عمل سنت کریمہ ہے۔ اس کے برعکس دیگر طریقے مسنون نہیں ہیں۔ اس لئے حنفیوں کا عمل اس مسنون طریقے پر جاری و ساری ہے۔
امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ اپنی مسند میں سند جیّد کے ساتھ روایت کرتے ہیں :عن علی رضی اﷲ عنہ قال ان من السنۃ فی الصلوٰۃ وضع الاکف علی الاکف تحت السرۃ ۔
یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت کریمہ یہ ہے کہ ہتھیلیوں کو ناف کے نیچے رکھا جائے۔
امام دارقطنی یوں رقم طراز ہیں : عن علی رضی اﷲ عنہ انہ کان یقول ان من سنۃ الصلوٰۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ ۔
یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت کریمہ یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
امام ابو داؤد یوں رقم طراز ہیں : عن ابی جحیفۃ ان علی ان علیاً رضی اﷲ عنہ قال من السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ ۔
ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ حضرت مولائے کائنات رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا۔ سنت کریمہ یہ ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
ہمارے برصغیر کے ناشرین نے سنن ابی داؤد کے نسخوں میں اس حدیث کو متناً شامل نہیں کیا البتہ حاشیہ میں اس حدیث پاک کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث پاک صرف ابن اعرابی کے نسخہ ابی داؤد میں موجود ہے۔ الغرض مذکورہ کتب ثلثہ کی روایت سے واضح معلوم ہوا کہ خلیفہ ارشد مولائے کائنات رضی اﷲ عنہ بھی اس طریقے کو سنت کریمہ قرار دے چکے ہیں۔ اور یہ قطعی بات ہے کہ صحابی رسول کا کس عمل کو سنت قرار دینا اس سے مراد سنت مصطفی ہی ہے اور کس کی سنت ہو گی تابعی ہے تو سمجھ میں آسکتا ہے اس سے مراد سنت صحابی ہو مگر جب صحابی کہہ دیا ہے تو مراد سنت رسول ہے۔
امیر المومنین فی الحدیث امام ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری علیہ الرحمہ اپنی ’’صحیح‘‘ کتاب الصلوٰۃ کے ’’باب الیمنی علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ‘‘ جلد اول ص 152 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ پر یوں رقم طراز ہیں۔
قال حدثنا عبداﷲ بن مسلمۃ، عن مالک، عن ابی حازم عن سہل بن سعد قال کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ قال ابو حازم لا اعلمۃ الا ینمی ذالک الی النبیﷺ قال اسماعیل و ینمیٰ ذالک ولم یقل ینمی
امام بخاری فرماتے ہیں۔ ہمیں عبداﷲ بن مسلمہ نے حدیث بیان کی از امام مالک از ابی حازم از سہل بن سعد، انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ ایک شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھے۔ ابو حازم نے کہا کہ سہل نے اس قول کو صرف نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کیا ہے اور اسماعیل نے کہا اس قول کو منسوب کیا جاتا ہے اور یہ نہیں کہا کہ سہل نے اس قول کو منسوب کیا ہے۔
نوٹ : اس حدیث مبارک کے رجال چاروں معتبر اور ثقہ ہیں۔ ان کی ثقاہت پر ناقدین کے تبصرے شاہد ہیں۔ غیر مقلدین اپنی من گھڑت سے ضعف ثابت کریں تو دھوکہ نہ سمجھا جائے ۔
اس حدیث بخاری سے واضح ہو گیا کہ قیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے۔ ابوبکر صدیق، مولا علی، امام ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحق وغیرہم کا مذہب یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھے جائیں گے۔ بعض فقہاء مائل ہیں اس بات کے کہ ہاتھ کھلے رکھے جائیں لیکن یہ بات پایہ تحقیق کو نہیں پہنچی۔ ایک قول یہ ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے میں زیادہ خشوع ہے کیونکہ اس میں نماز میں نور ایمان کی حفاظت ہے۔ لہذا یہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر شرمگاہ کی طرف اشارہ کرنے سے افضل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم کے زیادہ قریب ہے اور شرمگاہ کو چھپانے اور تہبند کو پھسل کر گرنے سے محفوظ رکھنے کا سبب ہے اور یہ ایسے ہے جیسے بادشاہوں کے سامنے لوگ ادب سے کھڑے ہوتے ہیں اور سینہ پر ہاتھ باندھنے میں عورتوں سے تشبیہ ہے۔(عمدۃ القاری ج 5، ص 408,407، شرح ابن بطال،چشتی)
اب رہا مسئلہ یہ کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایت کی توجیہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے حدیث ملاحظہ کیجئے۔
امام بیہقی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں : عن وائل رضی اﷲ عنہ انہ رایٔ النبیﷺ وضع المینہ علی شمالہ ثم وضعھما علی صدرہ ۔
حضرت وائل بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا پھر دونوں ہاتھ سینے پر رکھے۔
اس حدیث کے تحت علامہ ترکمانی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :اس حدیث کی سند میں محمد بن حجر ہے ذہبی کہتے ہیں کہ وہ اپنے چچا سعید سے منکر روایات کرتا ہے، اور ایک راوی ام جبار ہے یہ غیر معروف ہے، نیز امام بیہقی نے کہا ہے اس حدیث کو مومل نے بھی یہ روایت کیا ہے صاحب الکمال نے کہا کہ اس مومل کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی کتابیں دفن کر دی تھیں اور اپنے حافظہ سے احادیث بیان کرتا تھا۔ اور اس سے بہت خطائیں ہوتی تھیں، اور میزان میں امام بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے۔ امام ابو حاتم نے کہا کہ یہ کثیر الخطاء ہے۔
امام ابو ذرعہ نے کہا کہ اس حدیث میں بہت خطا ہے۔ پھر امام بیہقی نے حضرت مولائے کائنات سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی سند اور متن میں اضطراب ہے۔ پھر امام بیہقی نے روح بن مسیب کی سند سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے سینے پر ہاتھ باندھے، اس روح کے متعلق ابن عدی نے کہا کہ یہ ثابت اور ہزیدر قاشی سے غیر محفوظ احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن حبان نے کہا یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ اس سے روایت کرنا جائز نہیں۔ ابن عدی عمرو فکری نے کہا کہ یہ ثقافت سے منکر احادیث روایت کرتا ہے اور یہ مسارق الحدیث ہے۔ ابو یعلیٰ موصلی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ پھر امام بیہقی نے ابو مجلز سے ناف کے اوپر ہاتھ باندھے کو نقل کیا ہے۔ یہ صراحتاً غلط ہے کیونکہ ابو مجلز کا مذہب ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے۔ جیسا کہ ابو عمر نے سند جید کے ساتھ تمہید میں اور امام بخاری کے استاذ الاستاذ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ ابن معین نے بھی بیہقی پر یہ اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے بغیر سند کے ابو مجلز کی طرف سینے پر ہاتھ باندھنے والی بات منسوب کر دی ہے۔
ابن حزم نے کہا ہے کہ ہم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے یہ روایت کیا ہے کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ پر ہاتھ رکھے جائیں اور سیدنا انس بن مالک نے کہا ہے کہ تین چیزیں اخلاق نبوت سے ہیں اور وہ یہ ہیں۔
(1) افطار جلدی کرنا، (2) سحری تاخیر سے کرنا، (3) نماز میں بحالت قیام اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا ۔
حدثنامحمدبن محبوب حدثناحفص بن غیاص عن عبدالرحمن بن اسحاق عن زیادبن زیدعن ابی جحیفۃان علیارضی اللہ عنہ قال من السنۃوضع الکف علی الکف فی الصلاۃتحت السرۃ ۔
ترجمہ:(حدیث نمبر۸)حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایاکہ سنت سے یہ ہے کہ نمازمیں ہاتھ کوہاتھ پرناف سے نیچے رکھاجائے۔
اس حدیث کوامام ابوداودنے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۵۴۶)اورامام احمدبن حنبل نے اپنی مسندمیں (حدیث نمبر۳۳۸)اورامام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۷۲۴)اورامام بیھقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ص۱۳)اورامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۲۱۱۱،۳۱۱۱)اورامام ابن المنذرنے اوسط میں (حدیث نمبر۲۴۲۱)روایت فرمایا)
یونہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے:حدثناموسی بن ھرون قال حدثنایحیی بن عبدالحمیدقال حدثناعبدالواحدبن زیادعن عبدالرحمن بن اسحاق عن سیارابی الحکم عن ابی وائل عن ابی ہریرۃقال من السنۃان یضع الرجل یدہ الیمنی علی الیسری تحت السرۃفی الصلاۃ ۔
ترجمہ:(حدیث نمبر۹)یعنی ہاتھ کوہاتھ پررکھاجائے ناف کے نیچے۔
اس حدیث کوامام ابوداودنے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۷۴۶)اورامام ابن المنذرنے اوسط میں (حدیث نمبر۳۴۲۱)روایت فرمایا)
الحاصل سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی احادیث کریمہ میں سے صرف ایک حدیث کی سند کو بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ حدیث متعدد سندوں سے ثابت ہے اس لئے یہ حدیث راجح ہے۔ نیز فقہائے احناف نے دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے۔ اس طرح کہ مردوں کے حق میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیثوں پر عمل کیا ہے کہ طریقہ نبوی یہی رہا ہے اور عورتوں کے حق میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیثوں پر عمل کیا ہے کیونکہ ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہا کا طریقہ یہی رہا ہے، اس میں یہی تطبیق ممکن و بہتر ہے اور دونوں کے حق میں یہی طریقہ ادب و تواضع کے زیادہ قریب ہے اور انسانیت کے زیادہ لائق قرار دیئے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment