Thursday, 20 December 2018

اعتراض : امام ابوحنیفہ نے امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع کر کے صحیح احادیث کی مخالفت کی ہے ؟

اعتراض : امام ابوحنیفہ نے امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع کر کے صحیح احادیث کی مخالفت کی ہے ؟

جواب : امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۵۰ ؁ھ) امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع کر کے صحیح احادیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ قرآن حکیم صحیح و معتبر احادیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال پر عمل کیا ہے۔

امام کے پیچھے مقتدی کے قرأت نہ کرنے پر قرآن حکیم سے دلیل یہ آیت ہے : واذا قرء القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون ۔ (الاعراف آیت ۲۰۴)
ترجمہ : جب قرآن پڑھا جائے تو اسے دھیان سے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر اللہ کی رحمت ناز ل ہو ۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر صحابی تھے انہوں نے آیت مذکورہ کو اس بات کی دلیل کے طورپر ذکر فرمایا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی قرأت نہ کرے ، نہ سورہ فاتحہ نہ ہی کوئی اور سورہ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو امام کے پیچھے کچھ لوگوں کو قرأت کرتے ہوئے سنا ۔ جب امامت سے فارغ ہوئے تو فرمایا : کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھو اور سوچو ؟ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے دھیان سے سنو اور چپ رہو پھر انہوں نے آیت مذکورہ کی تلاوت کی اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر مترجم جلد دوم صفحہ نمبر 485 مطبوعہ ضیاء القرآن)

عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔ حسن صحیح ۔ (جامع ترمذی جلد اول مترجم اردو صفحہ 212 حدیث نمبر 297،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی، علاوہ اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

اسی حدیث کی بناء پر امام ترمذ ی رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاد امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ھے کہ : لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں ۔ (جامع ترمذی شریف)

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل صلاۃ یقرا فیھما بام الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف الامام۔(کتاب القراءۃ للبیہقی ص170۔171)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔

حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا ہمارے سامنے اپنی سنت کو بیان فرمایا اور ہمیں نماز پڑھنا سکھایا ۔ فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنی صفیں درست کر لو پھر تم میں سے ایک آدمی امامت کرے جب امام اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو اور جب قرأت کرے تو تم چپ رہو (بروایت جریر عن سلیمان عن قتادۃ صحیح مسلم حدیث نمبر ۸۰۹،چشتی)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس کا امام ہو تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہے ۔ (مسند امام ابوحنیفہ حدیث نمبر ۱۰۴)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت یہ بھی ہے : ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے نماز ظہر یا عصر پڑھی اس نے قرأت کی تو اشارے سے ایک شخص نے اسے روکا۔ جب نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کرنے سے تو مجھے روکتا ہے ؟ دونوں کی تکرار بڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سنا تو فرمایا : من صلی خلف الامام فان قرأۃ الامام لہ قرأۃ ۔جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اس کے لئے کافی ہے ۔ (مسند ابوحنیفہ حدیث نمبر ۱۰۵۔حدیث نمبر ۲۷۸مصنف عبدالرزاق ج ۱ص۳۷۷ موطا امام محمد ص ۳ ۳۲۔سنن ابن ماجہ ج ۶۱ باب اذا قرء الامام فانصتوا ص ۶۱ ، شرح معانی الاثار ج ۱ص ۱۰۶ رحیمیہ دیوبند ،سسن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۱۶۰ کتاب الاثار : امام ابویوسف حدیث نمبر ۱۱۳)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جہری قرأت والی نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہو کر آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا ، کیا کسی نے میرے ساتھ نماز میں قرأت کی ؟ ایک آدمی نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے کی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا بات ہے ؟ میرے ساتھ قرآن پڑھ کرجھگڑا کیا جاتا ہے ؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس بات کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کرنا چھوڑ دیا ۔
اس حدیث پاک سے صاف معلوم ہوگیا کہ اگر کسی صحابی نے کبھی امام کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد میں اس سے منع فرمادیا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ نماز میں قرأت کرنا گویا امام سے منازعہ (جھگڑا) کرنا ہے ۔

امام کے پیچھے قرآن نہ پڑھنے کی بات تقریبا اسی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری )
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت سختی کے ساتھ امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ (1) حضرت ابوبکر صدیق ، (2) حضرت عمر فاروق ، (3) حضرت علی مرتضیٰ ، (4) حضرت عثمان ذوالنورین ، (5) حضرت عبداللہ بن مسعود ، (6) حضرت سعد بن ابی وقاص ، (7) حضرت زید بن ثابت ، (۸) حضرت جابر ، (9) حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ، (10) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ۔ (مصنف عبدالرزاق ج ۲ ص ۱۳۹ حدیث نمبر ۲۸۱۰، طبرانی کبیر ، طبرانی اوسط مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۱۰،۱۱۱ موطا امام مالک ص ۶۶ ، موطا امام محمد ص ۱۰۷،چشتی)
اِن دلائل سے ثابت ہوا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام کے پیچھے مقتدی کو قرأت کرنے سے منع کرکے قرآن و احادیث و آثار صحابہ کرام کی پیروی کی ہے نہ کہ ان کی مخالفت کی ہے۔ اعتدال کی بات : دلائل کے لحاظ سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف راجح ہونے کے باوجود یہ مسئلہ ائمہ مسلمین کے مابین اختلاف فی ہے لہٰذا امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین دوسرے ائمہ دیم مثلا امام مالک ، امام شافعی، امام احمد رحمہم اللہ اور ان کے مقلدین کو جن میں سے بعض جہری اور سری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت کرنے کو ضرورت یا جائز سمجھتے ہیں ، لعن طعن نہیں اور اس فقہی و فرعی مسئلہ کی بنیاد پر حنفی علماء و عوام مالکی، شافعی یا حنبلی کسی بھی سنی صحیح العقیدہ شخص کو بدعتی گمراہ اور حدیث کی مخالفت کرنے والا، نہیں کہتے کوئی بھی سنی صحیح العقیدہ شخص خواہ وہ مالکی ہو یا شافعی و حنبلی کسی حنفی شخص کو لعن طعن نہیں کرتا ہاں ہر ایک دوسرے کو صحیح العقیدہ سنۃ کا پیروکار کہتا ہے لیکن جماعت اہل سنت سے کٹا ہوا ایک ہی فرقہ اہل حدیث (وہابی ) ہے جو مسئلہ مذکورہ کی بنیاد پر سنی حنفی مسلمان کو بدعتی ، مخالف سنت ، حدیث کا منکر کہتا ہے۔ ان کی جرأت و بے باکی کا یہ عالم ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ جن کا شمار زمرۂ تابعین میں ہوتا ہے ۔ امام بخاری کے استاذ کے استاذ جن کی شاگردوں کی جماعت میں شامل ہیں ، جلیل القدر ائمہ احادیث مثلا عبداللہ بن مبارک ، سفیان بن عینیہ ، سفیان ثوری، حماد بن زید ،امام عبدالرزاق ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ جن کے زہد وتقویٰ حدیث دانی اور تفقہ فی الدین کے مدح خواں ہیں ، ایسے عظیم المرتبت ہستی اوررب کے محبوب بندے کی شان میں ایک معمولی اردو خواں ، انگریزی داں بلکہ ان پڑھ اہل حدیث (غیر مقلد) بھی بڑی دریدہ ذہنی کے ساتھ یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ابوحنیفہ نے حدیث کو چھوڑ کر اپنی رائے پر عمل کیا ہے ۔ اور اہل حدیث کے علماء امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے تعصب رکھنے والے ان کے بعض معاصرین کی باطل و بے بنیاد باتوں کو بنیاد بنا کر انہیں اپنے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں ۔ حالانکہ اگر وہ اپنے عناد کی عینک اتار کر اپنے مقتدا شیخ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے تاثرات امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے پڑھ لیں تو ان کی ساری غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زہد وورع اور ان کے علم وفقہ اور ان کی نقاہت و صداقت کے دل سے قائل ہوجائیں گے ۔ شیخ ابن تیمیہ نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ائمۃ الحدیث (حدیث کے اماموں ) کی جماعت میں شمار کیا ہے ۔ (منہاج السنۃ ۱؍۲۳۱) ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل سلیم اور ہدایت کی توفیق عطا فرمائیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...