Monday 31 December 2018

ادلہ فقہ کا دوسرا ماخذ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

0 comments
ادلہ فقہ کا دوسرا ماخذ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

فقہ کا دوسرا ماخذ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس کو خود قرآن پاک نے حجت قرار دیا ہے ، اورمتعدد آیات اس پرشاہد ہیں ۔ اس کی حجیت قرآن کریم سے ثابت ہے : و ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہوا ۔ (سور ہ حشر آیت ۷) حدیث شریف میں قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت دونوں موجود ہیں ۔ ثبوت عقیدہ کے لئے قطعی الثبوت ہونا اور وجوب عمل کے لئے ظنی الثبوت اور رجحان ظن ہونا بھی کافی ہے ۔ دو گواہوں سے قاضی کا فیصلہ ، استقبال قبلہ میں تحری سے نماز پڑھنا یہ سب رجحان ظنی ہی سے ہے ۔ شریعت کے ہر حکم و مسئلہ میں قطعی الثبوت کا التزام ایک حرج ہے اور شریعت میں حرج نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : و ماجعل علیکم فی الدین من حرج ۔ (سورہ حج آیت ۷۸) ۔ بہر حال حدیث شریف کا انکار قرآن مجید کا انکار ہے ۔
سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہٴ عمل کے ہیں ۔ اصطلاح میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال ، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال بھی سنت میں داخل ہیں ، جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے : اَلسُّنَّةُ تُطْلَقُ عَلٰی قَولِ الرَّسُولِ وَ فِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلٰی أقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَأفْعَالِہِمْ ۔ (نور الانوار)
سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال پر ہوتا ہے ۔
صاحب کشف الاسرار لکھتے ہیں : سنت کا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال و افعال نیزطریقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و صحابہ رضی اللہ عنہم کو شامل ہے ۔ (کشف الاسرار، صفحہ 359،چشتی)
ڈاکٹر محمود احمدغازی صاحب لکھتے ہیں : ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہے ، وہ حدیث ہے اور علم حدیث میں شامل ہے ۔ (محاضراتِ فقہ، صفحہ نمبر 20)
(1) فرمان باری تعالیٰ ہے : وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ، اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰوہ نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتا اس کی ہربات ایک وحی ہوتی ہے جو وحی کی جاتی ہے ۔
(2) ’’وَمَااٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘ ۔ اورنبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) تمہیں جو چیز دیں اس کو لے لو اورتمہیں جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ ۔
(3) ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْْلَ فَقَدْاَطَاعَ اللّٰہَ‘‘ ۔ جس نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ ()عز وجل) کی اطاعت کی ۔
(4) یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ ‘‘اے ایمان والو اللہ (عز وجل) کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اطاعت کرو ۔
(5) وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الذِّکْرَلِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ‘‘ ۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی طرف اس قرآن کو اتارا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) لوگوں کے لیئے اس کی وضاحت کریں ۔
(6) اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ ۔ بے شک ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی طرف کتاب کو اتارا سچائی کے ساتھ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) فیصلہ کریں لوگوں کے درمیان ۔
(7) فَلَاوَرَبِّکَ لَایُوؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَبَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْافِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجاًمِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً‘‘ ۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے رب کی قسم وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو فیصل اور حکم تسلیم نہ کرلیں اپنے جھگڑوں میں پھروہ اپنے نفسوں میں کوئی کجی نہ پائیں آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے فیصلہ کے بارے میں اور وہ اپنے آپ کو سپردنہ کردیں سپردکرنا ۔
(8) ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُوؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ‘‘ ۔ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) زیادہ قریب ہیں مومنوں کے ان کی جانوں سے ۔
ان آیات مبارکہ میں حدیث پر عمل کرنے کولازمی قراردیا گیا ہے ،اورخود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی اپنے فرامین میں سنت کو لازم پکڑنے کی تاکید فرمائی ہے :
(1) عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ‘‘ ۔ میرے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) طریقے کو لازم پکڑو اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنہ کے طریقے کو لازم پکڑو ۔
(2) فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَِ منِّیْ‘‘ ۔ جس نے میرے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) طریقے سے اعراض کیا وہ میری جماعت سے نہیں ہے ۔
(3) لَایُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعاًلِّمَاجِءْتُ بِہٖ ‘‘ ۔ کوئی آدمی تم میں سے اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جس کو میں لے کر آیا ہوں ۔
(4) اذاامرتکم بشئ من دینکم فخذوہ‘‘ ۔ جب میں تمہیں تمہارے دین میں سے کسی چیز کے بارے میں حکم دوں تواس کو لے لیاکرو ۔
یہ چند نمونے ہیں قرآن وحدیث کے جن سے سنت کا حجیت ہونا معلوم ہوتا ہے ۔
جس طرح یہ زمانہ دورنبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دور ہوتا جارہا ہے اسی طرح فتنوں کا ظہور بھی اسی تیزی سے ہو رہا ہے ، ایک نیا فرقہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جنہوں نے سنت اور حجیتِ حدیث کا انکار کیا ، اور انہوں نے کہا کہ ہدایت کے لیے رب کا قرآن ہی کافی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم توصرف قرآن پاک کوہی مانتے ہیں ، جوشخص حدیث کو چھوڑ کر یہ کہے کہ میں توبس قرآن کوہی مانتا ہوں وہ اپنے دعویٰ میں ہرگز سچا ثابت نہیں ہوسکتا ہے ، قرآن پاک تو کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات حجت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو حکم فرمائیں اس کو لے لو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت ہی اللہ عز و جل کی اطاعت ہے ، وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فیصل نہ مان لیں ، توقرآن پاک میں تو حدیث اورسنت کو ماننے کا بار بار حکم دیا گیا ہے توجو شخص حدیث اورسنت کو نہیں مانتا وہ در حقیقت قرآن پاک کو ہی نہیں مانتا ، لہٰذا وہ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹا ہے کہ میں قرآن پاک کومانتاہوں ۔ جس طرح سنت ایک دلیل ہے اور اس سے احکام ثابت ہوتے ہیں اسی طرح آثار صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ایک دلیل ہے ، ان سے بھی احکام ثابت ہوتے ہیں اور یہ دلیل اسی دوسری دلیل سنت کا ہی حصہ ہے ۔

فقہ اسلامی کو سمجھنے اور مسائل ِ حاضرہ کے استخراج کے حوالے سے سنت کوبنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ علماء و فقہاء نے تدوینِ فقہ کے حوالے سے سنت کی ان معلومات کا ہونا ضروری قرار دیا ہے : (1) ناسخ و منسوخ (2) مجمل و مفسر (3) خاص وعام (4) محکم و متشابہہ (5) احکامات کے درجے اور مراتب (6) قرآن سے استدلال (7) درایت و روایتِ حدیث کا علم ۔
ایک فقیہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے استخراج کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کی آیاتِ احکام پر جو کہ کم و بیش 500 کے قریب ہیں نظر دوڑاتا ہے ، اگر اس مسئلہ کا حل قرآنِ مجید کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا تو پھر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے تلاش کرتا ہے؛ تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے ۔ سنت میں فقہی مسائل کے استخراج کی کئی مثالیں موجود ہیں :
(1) قرآنِ کریم نے نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حج اور اسی نوع کی دیگر عبادات کا حکم دیا ہے؛ لیکن چونکہ قرآنِ کریم کی مثال Text کی ہے اور اس کی شرح سنت سے معلوم ہوسکتی ہے تو اسی لیے ہمیں نماز کی ادائیگی ، رکعت ، وقت اور اسی طرح دیگر عبادات کی کافی حد تک تشریح سنت سے معلوم ہوگی ؛ چنانچہ ان عبادات کی جزئیات تک رسائی سنت کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں ۔
(2) قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَیَحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتُ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْحَبَائِثَ ۔ (الاعراف، آیت 157) یعنی پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ناپاک چیزیں تمہارے لیے حرام ہیں۔ اب پاک و ناپاک چیزوں کی وضاحت کیسے معلوم ہوگی تو اس کے لیے سنت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور کا گوشت حرام قرار دیا جو شکار کرکے کھاتا ہے تو اس سے حرام جانور کا تعین ہوگیا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ کسی جانور کا شکار کرکے کھائے اسے بھی حرام قرار دیا اور اسی طرح پاک چیزوں کی تعیین بھی کردی ۔
(3) سنت اگر موجود نہ ہوتو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کا معنی لغت یا کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتا ۔ قرآن کریم میں اعتکاف کا تذکرہ آیا ہے ؛ لیکن اعتکاف سے کیا مراد ہے ؟ عاکف کس کو کہتے ہیں ؟ قرآنِ کریم میں اس طرح کے سیکڑوں احکامات موجود ہیں ، جن کی تعبیر و تشریح کے لیے سنت کی تعبیر و تشریح سامنے ہونا ازحد ضروری ہے ۔
(4) قرآن کریم میں تیمم کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن اس کی تفصیلات اور د یگر احکام کی فقہی تعبیر کے لیے سنت کا مطالعہ ضروری ہے ۔
(5) قرآن کریم کا اصول ہے: لاَ تَأکُلُو أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ۔ (النساء، آیت 29)،چشتی)
یعنی ایک دوسرے کا مال غلط طریقہ سے مت کھاؤ ماسوائے اس صورت میں کہ آپس کی باہمی رضامندی سے تجارت اور لین دین ہو ؛ چنانچہ اگر باہم رضامندی سے تجارت یا لین دین ہوتو وہ جائز ہے ؛ لیکن اگر یہی عمل باطل طریقوں سے کیا جائے تو اس کی ممانعت کی گئی ۔ اب یہ قرآن کا عام اصول ہے ؛ لیکن اس کا انطباق کیسے ہوگا اور کن کن صورتوں میں ہوگا ؟ اس حوالے سے بے شمار حدیثوں میں تشریحی نکات ملتے ہیں ۔ مثال کے طور پر حدیث میں اس بیع سے منع کیاگیا ہے ، جس میں کوئی ”مال“ بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو؛ تاکہ فساد سے بچا جاسکے ۔ (اس حوالہ سے بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آئی ہے کہ :”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے اسے نہ بیچے) چنانچہ اگر کوئی شخص درخت پر لگے کچے پھل کی بیع کرتا ہے یا پانی میں موجود مچھلیوں کی بیع کرتا ہے تو چونکہ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں بیع ہوئی مال اس سے زیادہ یا کم نکلے تو اس صورت میں جھگڑے کا اندیشہ ہے ۔ لہٰذا اسلام نے ایسی بیع کی اجازت نہیں دی؛ حالانکہ ظاہراً یہ بھی ایک تجارت ہے ۔
(6) قرآن حکیم میں ارشاد ہے : وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ ۔ (النساء، آیت 23) ، یعنی دو بہنوں سے ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ہے ؛ لیکن حدیث نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بھی ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ؛ اسی طرح بھانجی اور خالہ سے بھی بیک وقت نکاح نہیں ہو سکتا ۔
ان تمام مثالوں سے یہ سمجھنا کہ سنت کا کام محض یہی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی تشریح کردے تو یہ درست نہیں؛ بلکہ سنت کا کام براہِ راست احکام دینا بھی ہے اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں براہِ راست سنت سے معلوم ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر خیارِ شرط کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دی ۔ یعنی ایک شخص اگر کوئی چیز خریدتا ہے اور بیچنے والے سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو تین دن تک میں اس بیع سے رجوع کرسکتا ہوں ۔ اب یہ حکم براہِ راست قرآن کریم میں موجود نہیں ؛ لیکن یہ اسلامی اصولِ بیع کا حصہ ہے اور فقہ حنفی کے مطابق اس پر عمل لازم ہے ۔ اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے سنت کا براہِ راست ماخذِ شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے ؛ چنانچہ اس سے کئی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور کئی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔