Wednesday, 19 December 2018

امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصّہ اوّل

امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصّہ اوّل

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مقدس کتاب ’’قرآن عظیم‘‘ جس کی صرف ایک آیت کا انکار مسلمان کو کافر بنانے کے لئے کافی ہے، میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ترجمہ:اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔(اَلْاَعْرَاف، آیت:204)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں رقم پرداز ہیں:وقال أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلاً فی السریۃ ولا الجہریۃ بما ورد فی الحدیث: (من کان لہ إمام فقرائتہ قرائۃ لہ) ”ہذا الحدیث رواہ أحمد عن جابر مرفوعاً وہو فی الموطأ عن جابر موقوفاً قال ابن کثیر: وہذا أصح۔
ترجمہ : امام ابو حنیفہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ مقتدی پر قرأت بالکل واجب نہیں، نہ سری نمازوں میں اور نہ جہری نمازوں میں، کیونکہ حدیث میں آتا ہے : ’’جس کا امام ہو اس کی قرأت ہی اس(مقتدی) کی قرأت ہے۔‘‘یہ حدیث مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور موطا امام مالک میں موقوفاً مروی ہے (عل؛علامہ ابن کثیر لکھتے)اور یہی مذہب زیادہ صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج2، ص485)

حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی، وَیَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ، وَقُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ – قَالَ یَحْیَی بْنُ یَحْیَی: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ وَہُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ، عَنِ ابْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ عَطَاء بْنِ یَسَارٍ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاء ۃِ مَعَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: لَا، قِرَاء ۃَ مَعَ الْإِمَامِ فِی شَیْء ٍ۔
ترجمہ : حضرت عطا بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام کی اقتدا میں کوئی قرأت نہیں۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:سُجُوْدِ التِّلَاوَت، ص454، حدیث:1199)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ الْمِصِّیصِیُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ بِہَذَا الْخَبَرِ زَادَ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا۔
ترجمہ :ح ضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔(سنن ابن ماجہ، ج1کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب :اِذَا قَرَأَ الْاِمَامُ فَاَنْصِتُوْ، ص255، حدیث:892)(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:الْإِمَامِ یُصَلِّی مِنْ قُعُودٍ، ص263، حدیث:600)

فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ: فَحَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ؟ فَقَالَ: ہُوَ صَحِیحٌ یَعْنِی وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا فَقَالَ: ہُوَ عِنْدِی صَحِیحٌ فَقَالَ: لِمَ لَمْ تَضَعْہُ ہَا ہُنَا؟ قَالَ: لَیْسَ کُلُّ شَیْء ٍ عِنْدِی صَحِیحٌ وَضَعْتُہُ ہَا ہُنَا۔
ترجمہ : ابو بکر (نامی محدث) نے حضرت امام مسلم رحمۃُاللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی {حدیث 27} کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ تو امام مسلم رحمۃُاللہ علیہ نے فرمایا:وہ روایت صحیح ہے یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ یہ روایت میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ ابو بکر نے سوال کیا تو آپ نے اس روایت کو اپنی کتاب میں درج کیوں نہیں کیا؟ تو امام مسلم نے فرمایا :ایسا نہیں کہ جس حدیث کو میں صحیح سمجھتا ہوں اسے لازمی طور پر اس کتاب میں نقل کروں۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّشہُّدِ فِی الصَّلَاۃِ، ص338-39حدیث:809،چشتی)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَۃَ بْنَ أَوْفَی، یُحَدِّثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ، فَجَعَلَ رَجُلٌ یَقْرَأُ خَلْفَہُ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَیُّکُمْ قَرَأَ – أَوْ أَیُّکُمُ الْقَارِئُ – فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا، فَقَالَ: قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَکُمْ خَالَجَنِیہَا۔
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ مقتدیوں میں سے کسی نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلیٰ کی قرأت شروع کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون قرأت کر رہا تھا؟ ایک صاحب نے عرض کی :میں۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا میں نے یوں محسوس کیا کہ تم میری قرأت میں خلل پیدا کر رہے ہو۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:نَہْیِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَہْرِہِ بِالْقِرَاء ۃِ خَلْفَ إِمَامِہِ، ص332، حدیث:792)
اس حدیث پاک میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے جو سری پڑھی جاتی ہے لہٰذا نماز جہری ہو یا سری مقتدی قرأت نہیں کر سکتا۔

حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ۔
ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔(صحیح بخاری، ج1، کتاب الاذان، باب:وُجُوبِ القِرَاء ۃِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ، ص334، حدیث:717)

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِیُّ قَالَ:حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ:حَدَّثَنَا مَالِکٌ، عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ، أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ یَقُولُ:مَنْ صَلَّی رَکْعَۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ یُصَلِّ، إِلَّا أَنْ یَکُونَ وَرَاء الإِمَامِ :ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کے علاوہ جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھیا س کی نماز مکمل نہیں۔(جامع ترمذی، ج1، ابو اب الصلوٰۃ، باب:مَا جَاء فِی تَرْکِ القِرَاء ۃِ خَلْفَ الإِمَامِ، ص217، حدیث:297)(موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَاجَائَ فِیْ اُمِّ الْقُرْاَن، ص95، حدیث:38،چشتی)

حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِدًا، قَالَ سُفْیَانُ: لِمَنْ یُصَلِّی وَحْدَہُ۔
ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامت رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اس بات کی تبلیغ فرماتے کہ جو سورۃ فاتحہ یا اس سے زائد نہ پڑھے اس کی نماز مکمل نہیں۔ حضرت امام سفیان ثوری رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا یعنی جو منفرد نماز پڑھ رہا ہو۔(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَنْ تَرَکَ الْقِرَاء ۃَ فِی صَلَاتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، ص324-25، حدیث:813)

اَخْبَرْنَامُحَمَّدُ بْنُ اَبَانَ بْنِ صَالِحٍ الْقُرَشِیُّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْنَخْعِیْ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْمَا یَجْھَرُ فِیْہِ وَ فِیْمَا یُخَافَتُ فِیْہِ فِیْ الْاُوْلَیَیْنِ وَلَا فِی الْاُخْرَیَیْنِ وَاِذَا صَلّیٰ وَحْدَہٗ قَرَأَ فِی الْاُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ وَ لَمْ یَقْرَأْ فِی الْاُخْرَیَیْنِ شَیْئًا۔
ترجمہ : علقمہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے نہ جہری میں، نہ سری میں، نہ پہلی دو رکعتوں میں نہ آخری دو رکعتوں میں۔ اور جب تنہا نماز پڑھتے تو( فرض کی) پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورۃ پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے۔(موطا امام محمد، کتاب الصلوٰۃ، باب:اَلْقِرَأَۃِ فِی الصَّلوٰۃِ خَلْفَ الْاِمَام، ص95-96، حدیث:121)

اب آخر میں علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ پیش کرنا کافی ہو گا علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:ولہذا روی فی الحدیث مثل الذی یتکلم و الامام یخطب کمثل الحمار یحمل اسفارا فھٰکذا اذا کان یقرأ و الامام یقرأ علیہ۔
ترجمہ:حدیث پاک میں اس شخص کی مثال بیان کی گئی جو امام کے خطبہ دینے کے دوران کلام کرے اس کی مثال گدھے جیسی ہے جو بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ ایسے ہی جو شخص قرأت کر رہا ہو جب امام قرأت کر رہا ہو ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج23، ص279)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)








No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...