مغرب کی اذان کے بعد نفل پڑھنا
مغرب کی نماز سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھنا سنت نہیں ہے اور اُن کو سنت سمجھ کر پڑھنا مکروہ ہے ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُن کو سنت سمجھ کر پڑھنے کو ناپسند فرمایا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے : عن عبد اللّٰہ بن بریدۃؓ قال: حدثنی عبد اللّٰہ المزنیؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلُّوا قبل صلاۃ المغرب ، قال فی الثالثۃ: لمن شاء ، کراہیۃَ أن یتخذہا الناس سنۃً ۔‘‘ (کتاب التہجد، باب الصلاۃ قبل المغرب،ج:۱، ص:۱۵۸، ۱۵۷، ط:قدیمی)
حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِی شُعَیْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ، عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، فَقَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیہِمَا ۔
ترجمہ : حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں کسی کو پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ (سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:الصَّلَاۃِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، ص478، حدیث: 127)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم سے مغرب سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھنا ثابت نہیں ۔ سنن ابوداؤد میں ہے : عن طاؤسؒ قال: سئل ابن عمرؓ عن الرکعتین قبل المغرب ، فقال: ما رأیتُ أحداً علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلیہما، ورخص فی الرکعتین بعد العصر۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ قبل المغرب، ج:۱، ص:۱۹۰، ط: رحمانیہ)
’’کتاب الآثار بروایۃ الإمام محمدؒ‘‘ میں ہے:عن حمادؒ قال: سألت إبراہیم عن الصلاۃ قبل المغرب ، فنہانی عنہا وقال: إن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأبابکرؓ وعمرؓ لم یصلوہا ، قال محمدؒ: وبہٖ نأخذ، إذا غابت الشمس فلا صلاۃ علٰی جنازۃ ولاغیرہا قبل صلاۃ المغرب، وہو قول أبی حنیفۃ رضی اللّٰہ عنہ۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، باب مایعاد من الصلاۃ وما یکرہ منہا، ج:۱،ص:۳۷۴، بتحقیق الشیخ ابی الوفاء الأفغانی رحمۃ اللہ علیہ ، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،چشتی)
’’کشف الأستار عن زوائد البزّار للہیثمی‘‘ میں ہے:عن عبد اللّٰہ بن بریدۃؓ عن أبیہ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ إلا المغرب۔‘‘ (ابواب صلاۃ التطوع، باب بین کل أذانین صلاۃ ، ج:۱،ص:۳۳۴، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
’’الدرالمختار‘‘ میں ہے:وکرہ نفل… وقبل ) صلاۃ (المغرب) لکراہۃ تاخیرہٖ إلا یسیراً۔ وفی الرد: (قولہ: وقبل صلاۃ المغرب) علیہ أکثر أہل العلم، منہم أصحابنا ومالکؒ، وأحد الوجہین وغیرہما مما یفید أنہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یواظب علی صلاۃ المغرب بأصحابہٖ عقب الغروب … روی عن محمدؒ عن أبی حنیفۃؒ عن حمادؒ :أنہٗ سأل إبراہیم النخعیؒ عن الصلاۃ قبل المغرب ، قال: فنہی عنہا، وقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبابکرؓ وعمرؓ لم یکونوا یصلُّونہا۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج:۱، ص:۳۷۴،۳۷۶، ط:سعید)
باقی رہی وہ روایات جن میں مغرب سے قبل دورکعت کا ذکر ہے تو مذکورہ بالا روایات کی بنا پر ان پر عمل جائز نہیں، اس لیے کہ اصولیین کے ہاں یہ ضابطہ ہے کہ جب حدیثِ مرفوع پر عمل نہ کرنے پر اتفاق ہوجائے تو یہ اس کے ضعف کی علامت ہوتی ہے ، (خصوصاً جبکہ اس کے بالمقابل صحیح روایات بھی موجود ہیں) یا پھر یہ روایات نمازِ مغرب میں جلدی کرنے کے حکم سے پہلے پر محمول کی جائیںگی۔’’رد المحتار‘‘ میں ہے:’’وقال القاضی أبوبکر بن العربیؒ: اختلف الصحابۃؓ فی ذٰلک ولم یفعلہ أحد بعدہم، فہٰذا یعارض ما روی من فعل الصحابۃؓ ومن أمرہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصلاتہما، لأنہٗ إذا اتفق الناس علی ترک العمل بالحدیث المرفوع لایجوز العمل بہٖ ، لأنہٗ دلیل ضعفہ علٰی ما عرف فی موضعہٖ، ولو کان ذٰلک مشتہراً بین الصحابۃؓ لما خفی علی ابن عمرؓ، أو یحمل ذٰلک علٰی أنہٗ کان قبل الأمر بتعجیل المغرب، وتمامہٗ فی شرح المنیۃ۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج:۱، ص:۳۷۶، ط:سعید)
اذان کے بعد تاخیرِ مغرب کے تین درجات ہیں
(1) دورکعت سے کم تاخیر ، یہ مکروہ نہیں ۔
(2) دورکعت کے بقدر یا اس سے زائد تاخیر کرنا، لیکن ستاروں کے طلوع وظہور سے قبل نماز پڑھنا ، اتنی تاخیر مکروہِ تنزیہی ہے ۔
(3) اتنی تاخیر کرنا کے ستارے ظاہر ہوجائیں، یہ مکروہِ تحریمی ہے ۔ الدر المختار‘‘ میں ہے :’’(و) تعجیل (مغرب مطلقًا) وتاخیرہٗ قدرَ رکعتین یکرہ تنزیہاً۔ وفی الرد: (قولہ: یکرہ تنزیہاً) أفاد أن المراد بالتعجیل أن لایفصل بین الأذان والإقامۃ بغیر جلسۃ أو سکتۃ علی الخلاف، وأن ما فی القنیۃ من استثناء التاخیر القلیل محمول علٰی ما دون الرکعتین، وأن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیہاً، وما بعدہٗ تحریماً إلا بعذر، قال فی شرح المنیۃ: والذی اقتضتہ الأخبارُ کراہۃَ التاخیر إلی ظہور النجم، وما قبلہٗ مسکوت عنہ، فہو علی الإباحۃ وإن کان المستحبُ التعجیلَ۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، مطلب: فی طلوع الشمس من مغربہا، ج:۱، ص:۳۷۰،۳۶۱،ط: سعید،چشتی)
نیز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر فصل کیا جاسکتا ہے ، جبکہ امام ابو یوسف وامام محمد علیہما الڑّحمہ کے نزدیک اتنی دیر ٹھہرا جاسکتا ہے جتنا دونوں خطبوں کے درمیان خطیب بیٹھتا ہے ۔’’البحر الرائق‘‘ میں ہے : ’’(قولہ: ویجلس بینہما إلا فی المغرب) أی ویجلس المؤذن بین الأذان والإقامۃ علی وجہ السنّیۃ إلا فی المغرب فلا یسنّ الجلوس بل السکوت مقدارَ ثلاث خطوات، وہٰذا عند أبی حنیفۃؒ، وقالا: یفصل فی المغرب بجلسۃ خفیفۃ قدرَ جلوس الخطیب بین الخطبتین، وہی مقدار أن تتمکن مقعدتہٗ من الأرض بحیث یستقر کل عضو منہ فی موضعہٖ۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، باب الأذان،ج: ۱،ص:۲۶۱،ط:سعید)
’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:’’واختلفوا فی مقدار الفصل فعند أبی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: المستحب أن یفصل بینہما بسکتۃ یسکت قائماً ساعۃً ثم یقیم ومقدار السکتۃ قدر ما یتمکن فیہ من قراء ۃ ثلٰث آیات قصار أو أٰیۃ طویلۃ، وعندہما یفصل بینہما بجلسۃ خفیفۃ مقدار الجلسۃ بین الخطبتین۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، الباب الثانی فی الأذان، الفصل الثانی فی کلمات الأذان، ج:۱، ص:۵۷، ط: رشیدیہ)
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ سے کم کے فصل کی گنجائش ملتی ہے، اس سے زیادہ مکروہ ہے ۔ اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ فقہائے حنفیہ کے نزدیک مغرب کی فرض نماز سے قبل نوافل پڑھنا مکروہ ہے۔ اگر کسی مسجد میں دو تین منٹ یا زیادہ تاخیر ہوتی ہو، تب بھی حنفی مقلد کے لیے وہاں نوافل پڑھنا مکروہ ہوگا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment