Sunday 23 December 2018

عید اور نماز عیدین احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
عید اور نماز عیدین احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں جنگ بعاث کے دن کا شعر گا رہی تھیں اور ان لڑکیوں کا پیشہ گانے کا نہیں تھا ، تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ شطا نی باجہ اور رسول اللہ صلی اللہ علہا وسلم کے گھر میں ؟ اور وہ عید کا دن تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علہا وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہم لوگوں کی عید ہے ۔ (بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 903)
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس نبی صلی اللہ علہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور مر ے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے متعلق شعرگارہی تھی، آپ صلی اللہ علہب وآلہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا منہ پھیرلیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو مجھے ڈانٹا اور کہا کہ یہ شیطانی باجہ، اور وہ بھی نبی صلی اللہ علہح وآلہ وسلم کی موجودگی میں؟ تو آپ صلی اللہ علہا وآلہ وسلم نے فرمایا کہ چھوڑ دو، جب وہ (ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) دوسری طرف متوجہ ہوئے تو مں نے ان دونوں لونڈیوں کو اشارہ کیا(چلے جانے کا) تو وہ چلی گئیں ۔اور عید کے دن حبشی ڈھالوں اور برچھوئں سے کھلیتے تھے، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سے درخواست کی، توآپ صلی اللہ علہک وآلہ وسلم نے فرمایا کیاتو تماشہ دیکھنا چاہتی ہے؟ تو میں نے کہا ہاں! تو آپ صلی اللہ علہو وآلہ وسلم نے مجھے اپنے پچھے کھڑا کردیا۔ میرارخسار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے بنی ارفدہ! تماشہ دکھاؤ، یہاں تک کہ جب مں اکتا گئی تو آپ صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا “بس”؟ تو میں نے کہا جی ہاں! آپ صلی اللہ علہئ وآلہ وسلم نے فرمایا تو چلی جاؤ ۔ ( بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 901،چشتی)
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علہی وسلم عید الفطر کے دن جب تک چند چھوہارے نہ کھا لیتے، عید گاہ کی طرف نہ جاتے اور آپ صلی اللہ علہی وآلہ وسلم چھوہارے طاق عدد مںا کھاتے تھے۔( بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 904)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالضحیٰ اور عیدالفطر میں نماز پڑھتے تھے پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 908 )
سعد بن حارث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب عید کا دن ہوتا تو نبی صلی اللہ علہی وآلہ وسلم واپسی مں راستہ بدل کرتے(صححج بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 933)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علہی وآلہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھی کہ نہ تو اس سے پہلے نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد پڑھی اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تعالیٰ تھے۔ (بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 935)
نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علہی وسلم نے صدقہ فطر یا صدقہ رمضان، مرد، عورت، آزاد، غلام، ہر ایک پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا۔ تو لوگوں نے نصف صاع گیہوں اس کے برابر سمجھ لیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کھجور دیتے تھے تو ایک بار اہل مدینہ پر کھجور کا قحط ہوا تو جو دئےاور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ چھوٹے اور بڑے کی طرف سے دیتے تھے، یہاں تک کہ مرلے بٹو ں کی طرف سے دے دیتے تھے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ان کو دیتے جو قبول کرتے اور عید الفطر کے ایک یا دو دن پہلے دیتے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری) نے کہا کہ بنی سے مراد بنی نافع ہے اور کہا کہ وہ لوگ جمع کرنے کے لئے دیتے تھے نہ فقراء کو دیتے تھے۔ (بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1421)
قزعہ بیان کرتے ہں میں نے ابو سعید خدری سے سنا ہے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علہے وسلم کے ساتھ بارہ غزوہ کئے تھے۔ انہوں نے بیاں کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دنوں مںت روزہ نہ رکھے۔ اور نہ فجر کے بعد نماز پڑھے، جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہو جائے اور تند مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کے لئے سامان سفر نہ باندھے (وہ تنو مسجدیں یہ ہںئ) مسجد حرام، مسجد اقصیٰ، مسجد نبوی۔ (بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1873،چشتی)
عطاء بن ابی رباح کہتے ہںی کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قسم کھا کر بیان کیاکہ (ایک مرتبہ) عید کے موقعہ پر جب حضور صلی اللہ علہر وآلہ وسلم مردوں کی صف سے گذر کر عورتوں کی صفوں تک پہنچے (اس وقت) آپ کے ہمراہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ نے یہ گمان کا کہ (شاید) عورتوں نے خطبہ نہیں سنا تو آپ نے انہیں نصیحت فرمائی اور انہںص صدقہ (دینے) کا حکم دیا، پس کوئی عورت بالی اور انگوٹھی ڈالنے لگی (کوئی کچھ) اور بلال اپنے کپڑے کے کنارے میں لینےلگے۔ (بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 98)


عیدین کی تکبیر تین ہے

وَرُوِی عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّہُ قَالَ فِی التَّکْبِیرِ فِی العِیدَیْنِ: ” تِسْعَ تَکْبِیرَاتٍ فِی الرَّکْعَۃِ الأُولَی: خَمْسًا قَبْلَ القِرَاء ۃِ، وَفِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ یَبْدَأُ بِالقِرَاء ۃِ ثُمَّ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا مَعَ تَکْبِیرَۃِ الرُّکُوعِ ” وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوُ ہَذَا، وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الکُوفَۃِ، وَبِہِ یَقُولُ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیدین کی نو تکبیریں ہیں ۔ پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت ہے پھر چار تکبیریں ہیں ۔ ان میں رکوع کی تکبیر شامل ہے ۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اسی طرح مروی ہے، اہل کوفہ (امام اعظم رضی اللہ عنہ ) اورامام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے ۔ (جامع ترمذی، ج1، ابو اب العیدین، باب:فِی التَّکْبِیرِ فِی العِیدَیْنِ، ص318، حدیث:521)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلی رکعت میں پہلے تکبیریں بعد میں قرأت ہے اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت بعد میں تکبیریں ہیں ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاء، وَابْنُ أَبِی زِیَادٍ، الْمَعْنَی قَرِیبٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَیْدٌ یَعْنِی ابْنَ حُبَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو عَائِشَۃَ، جَلِیسٌ لِأَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ، سَأَلَ أَبَا مُوسَی الْأَشْعَرِیَّ، وَحُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ، کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ فِی الْأَضْحَی وَالْفِطْرِ؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَی: کَانَ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا تَکْبِیرَہُ عَلَی الْجَنَائِزِ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: صَدَقَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی: کَذَلِکَ کُنْتُ أُکَبِّرُ فِی الْبَصْرَۃِ، حَیْثُ کُنْتُ عَلَیْہِمْ، وَقَالَ أَبُو عائِشَۃَ: وَأَنَا حَاضِرٌ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ ۔
ترجمہ : ابوعائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید الاضحی اور عید الفطر میں تکبیر کس طرح کہتے تھے ؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چار(4) تکبیریں کہتے تھے جیسے جنازے میں چار کہی جاتی ہے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بے شک تم نے سچ کہا ۔ پھر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میں بصرہ میں اسی طرح تکبیر کہتا رہا جب میں ان پر حاکم تھا ۔ حضرت ابو عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں (اس وقت) سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا۔(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ فِی الْعِیدَیْنِ، ص428-29، حدیث:1140،چشتی)

حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، عَنْ عُقَیْلٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْفِطْرِ وَالْأَضْحَی، فِی الْأُولَی سَبْعَ تَکْبِیرَاتٍ، وَفِی الثَّانِیَۃِ خَمْسًا ۔
ترجمہ : امالمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات(7) اور دوسری رکعت میں پانچ (5) تکبیریں کہتے تھے ۔ (سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّکْبِیرِ فِی الْعِیدَیْنِ، ص428، حدیث:1136)
مذکورہ بالا تمام احادیث بظاہر ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہیں لیکن جب ان پر غور کیا جائے تو ان احادیث میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا ۔ ملاحظہ فرمائیں : جس روایت میں پہلی اور دوسری رکعتوں میں چار(4) تکبیروں کا ذکر ہے اس میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ رکوع کی تکبیر بھی شامل ہے ۔ جس حدیث میں پہلی رکعت میں پانچ (5)اور دوسری رکعت میں (4) تکبیروں کا ذکر ہے اس کی پہلی رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع بھی شامل ہے۔ جب کہ دوسری رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر رکوع شامل ہے ۔ جس روایت میں پہلی رکعت میں سات (7) اور دوسری رکعت میں پانچ (5) تکبیروں کا ذکر ہے اس کی پہلی رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ ، تکبیر رکوع ، سجدے کی تکبیر اور سجدے سے سر اٹھانے کی تکبیروں کا بھی ذکر ہے اور دوسری رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع بھی شامل ہیں ۔ اس تطبیق سے مسئلہ واضح ہو گیا کہ سب کے کہنے کا مطلب و مقصد ایک ہی ہے مگر انداز بیان الگ الگ ہے اور ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔لہٰذا تکبیرات عیدین ہر رکعت میں تین تین ہیں ۔

عورتیں عیدگاہ میں نہ جائیں

ابتدائے اسلام میں عورتوں کو دین کے بنیادی احکامات ،مسائل اور آداب سے روشناس کرنے کے لیے مختلف اجتماعات مثلاً فرض نماز ،جمعہ ،عیدین وغیرہ میں شرکت کی اجازت تھی۔ جب یہ ضرورت پوری ہوئی اور عورتیں بنیادی مسائل واحکام سے واقف ہو گئیں تو انہیں ان اجتماعات سے روک دیا گیا۔ مندجہ ذیل روایات اس پر شاہد ہیں ۔

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ لَوْاَدْرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَااَحْدَثَ النِّسَائُ لَمَنَعَھُنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ۔ (صحیح البخاری ج1ص120 باب خروج النساء الی المساجد الخ،صحیح مسلم ج1ص183 باب خروج النساء الی المساجدالخ)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انہیں کو مسجد جانے سے ضرور روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ لَا یُخْرِجُ نِسَاءَ ہٗ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیویوں کو نماز عیدین کے لیے نہیں جانے دیتے تھے۔
عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہٗ کَانَ لَایَدَعُ اِمْرَأۃً مِّنْ اَھْلِہٖ تَخْرُجُ اِلٰی فِطْرٍ وَلَااَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین،چشتی)
ترجمہ : ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر بن عوام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی کسی عورت کو عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جانے دیتے تھے ۔
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ القَاسِمِ قَالَ کَانَ الْقَاسِمُ اَشَدَّ شَیْئٍ عَلَی الْعَوَاتِقِ ، لَایَدَعُھُنَّ یَخْرُجْنَ فِی الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج4ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : حضرت عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رحمہ اللہ نوجوان عورتوں کے بارے میں بہت سخت تھے کہ انہیں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ میں نہیں جانے دیتے تھے ۔
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ یُکْرَہُ خُرُوْجُ النِّسَائِ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نمازوں کے لئے جانا مکروہ ہے ۔

فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ نمبر 74 پر ہے : لا تجب الجمعۃ علی العبید والنسوان والمسافرین والمرضٰی کذا فی محیط السر خسی۔ یعنی غلاموں، عورتوں، مسافروں اور مریضوں پر نماز جمعہ واجب نہیں اور پھر اسی کتاب کے صفحہ نمبر 77 پر ہے : تجب صلٰوۃ العید علٰی کل من تجب علیہ صلٰو ۃ الجمعۃ کذا فی الھدایہ یعنی جن لوگوں پر نماز جمعہ واجب ہے انہیں لوگوں پر نماز عید بھی واجب ہے ۔ مذکورہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر نماز عید واجب نہیں ۔ رہا جواز کا سوال تو عورتوں کے لئے عیدین کی نماز جائز بھی نہیں اس لئے کہ عید گاہ میں اختلاط مردوزن ہوگا اور عورتیں جماعت کریں تو یہ بھی ناجائز اس لئے کہ صرف عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اور فرداً فرداً پڑھیں تو بھی نماز جائز نہ ہوگی اس لئے کہ عیدین کی نماز کی لئے جماعت شرط ہے ۔ و اذا فا ت الشرط فات المشروط ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔