Friday, 28 December 2018

مسلہ رفع یدین اور غیر مقلدوں کے آپس میں اختلافات

مسلہ رفع یدین اور غیر مقلدوں کے آپس میں اختلافات

شیخ الکل غیر مقلدین مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ لکھتے ہیں کہ : رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں۔اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونو مروی ہے . اور امام ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہا اور امام ترمذی نے حسن کہا ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد اول صفحہ444)

غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ : ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا . (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)
اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں . (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608)

غیر مقلد وہابی علماء اپنے فتوے میں لکھتے ہیں : رفع یدین نہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آخری عمر مبارک کا عمل ہے اور رفع یدین نہ کرنے والے کے پیچھے نماز ناجائز کہنے والا جاہل اور اسرارِ شریعت سے محروم ہے ۔ (فتاوے علمائے حدیث جلد سوم صفحہ نمبر 306)

غیر مقلدین کے مجدد و مجتہد جناب نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں ۔ (روضہ الندیہ, صفحہ 148،چشتی)
اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے ۔

غیر مقلدین کے امام علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پرلکھتے ہیں : سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔
ترجمہ : اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں ۔

وہابیوں کے نابینا امام شیخ عبدالعزیز ابن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب لکھتے ہیں : السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته ۔
ترجمہ : تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئیے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے ۔ (مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)

نائب مفتی اعظم سعودی عرب شیخ محمد بن صالح العثیمین کا کہنا ہے : وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة ۔
ترجمہ : رفع الیدین کرنا سنت ہے ، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے ۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے ۔ (مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص 169،چشتی)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا
غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟ جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث ناصر الدین البانی لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے ۔ یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے ۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی ، صفحہ 131)
جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے ؟
یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں ۔

سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا

شیخ ناصر الدین البانی سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں : امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں ، چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے ۔ یہ رفع یدین انس ، ابن عمر ، نافع ، طاؤس ، حسن بصری ، ابن سیرین اور ایوب سختیانی رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...