Thursday 27 December 2018

ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ دہم

0 comments
ہماری نماز احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصّہ دہم

آٹھ (8) رکعات تَراویح کے دلائل اور اُن کے جوابات

مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں ہوچکی ہے کہ تَراویح کی 20 ہی رکعات ہیں جس پر دَورِ صحابہ اور بعد کے تمام قرون کے فقہاء و محدّثین نے عمل کیا ہے اور اِسی وجہ سے اُمّت میں اس کو عُمومی قبولیت حاصل ہوئی ہے، تاہم اِس سب کے باوجود ہمارے مُعاشرے کے بعض لوگ اِ س متفقہ حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور وہ تَراویح کی آٹھ رکعت پڑھنے پر ہی مُصر ہیں۔
ذیل میں اُن کے دلائل کےمُختصراً جوابات ذکر کیے جارہے ہیں،تفصیل کیلئے اِس موضوع پر لکھی گئی طویل کتب کا مُطالعہ کیا جاسکتا ہے :

پہلی دلیل اور اُس کا جواب

”عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا“۔(بخاری:2013)
حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن﷫نے حضرت عائشہ صدیقہ ﷞سے دریافت کیا کہ رمضان المُبارک میں نبی کریمﷺکی نماز کیسی ہوتی تھی؟ حضرت عائشہ صدیقہ ﷞نے فرمایا:آپﷺرمضان اور رمضان کے علاوہ میں 11 رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے،آپﷺپہلے چار رکعت پڑھتے،اُن11 رکعتوں کے بارے میں نہ پوچھو کہ وہ کتنی حسین اور کتنی طویل ہوتی تھیں،پھر 11 رکعت پڑھتے،کچھ نہ پوچھو کہ وہ کتنی حَسین اور کتنی طَویل ہوتی تھیں،پھر 3رکعت وِتر پڑھتے تھے۔
آٹھ رکعت تَراویح کے قائلین مذکورہ بالا حدیث سے اِستدلال کرتے ہیں اور اُن کے نزدیک حدیثِ مذکور میں بیان کردہ آٹھ رکعات تَراویح کی بیان کی گئی ہیں۔
جواب:حدیثِ مذکور کے مُختلف جوابات دیے گئے ہیں ،ذیل میں بالترتیب اُن کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
(1) حدیثِ مذکور مضطرب ہونے کی وجہ سے قابلِ اِستدلال نہیں اِس لئے کہ خود
حضرت اَمّاں عائشہ صدیقہ ﷞سے سندِ صحیح کے ساتھ 13رکعات کی روایت بھی مَروی ہے،چنانچہ علّامہ ابن حجر عَسقلانی﷫فرماتے ہیں :”أَشْكَلَتْ رِوَايَاتُ عَائِشَةَ عَلَى كَثِيرٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ حَتَّى نَسَبَ بَعْضُهُمْ حَدِيثَهَا إِلَى الِاضْطِرَابِ“حضرت عائشہ صدیقہ﷞کی روایات(کے اِضطراب) نے بہت سے اہلِ علم کو مُشکل میں ڈال دیا ہے ،یہاں تک کہ اُن میں سے بعض نے حضرت عائشہ صدیقہ﷞کی حدیث کو مُضطرب قرار دیدیا ۔(فتح الباری:3/21،چشتی)
اب یا تو حدیث کو مُضطرب مانا جائے تو اِستدلال درست نہیں رہتا اور یا اِضطراب کو ختم کرنے اور تطبیق دینے کیلئے یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ صدیقہ﷞کی احادیث کا اختلاف مختلف اوقات کے اعتبار سے ہے ،اِس صورت میں 8 رکعت پر تَراویح کا اِنحصار باقی نہیں رہتا ۔
(2) حدیثِ مذکور میں تہجّد کی رکعات کو بیان کیا گیا ہے،تَراویح کو نہیں ،اِس لئے کہ اس میں رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں نبی کریمﷺکا معمول ذکر کیا گیا ہے جبکہ تَراویح صرف رمضان میں ہوتی ہے،نیز سائل کا سوال بھی اِس پر دلالت کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ حدیثِ مذکور میں سائل حضرت ابوسلمہ﷫نے نبی کریمﷺ کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تھا ،تَراویح کے بارے میں دریافت نہیں کیا تھا ، پس معلوم ہوا کہ یہ تَراویح کا نہیں تہجد کی رکعات کا بیان ہے اور تَراویح الگ چیز ہے تہجّد الگ چیز ہے۔
(3) حدیثِ مذکور میں ایک سلام سے 4,4 رکعات پڑھنے کا معمول ذکر کیا گیا ہے جبکہ تَراویح ایک سلام کے ساتھ 2,2 رکعت پڑھی جاتی ہیں ، حتی کہ وہ لوگ بھی جو 8 رکعات تَراویح کے قائل اور اُس پر عمل پیرا ہیں وہ بھی ایک سلام کے ساتھ2 رکعت ہی پڑھتے ہیں ،گویا حدیثِ مذکور سے اِستدلال کرنے والوں کا خود بھی اس پر عمل نہیں تو وہ دوسروں پر کیسے اِس حدیث کو حجت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
(4) حدیثِ مذکور میں نبی کریمﷺکا اِنفرادی طور پر 8رکعات پڑھنے کا ذکر ہے ، جبکہ تَراویح کی نماز مَساجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اِہتمام کیا جاتا ہے ،نیز نبی کریمﷺنے تین دن جو صحابہ کرام کو تَراویح پڑھائی ہے وہ بھی تو جماعت کے ساتھ ہی تھی،اِس لئے اِس حدیث کو تَراویح پر کیسے محمول کرسکتے ہیں ۔
(5) جمہور مُحدّثین کے نزدیک یہ حدیث قیامِ رمضان (تَراویح)سے متعلّق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلّق تہجّد کی نمازسے ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اِس حدیث کو اپنی کتابوں میں قیامِ رمضان کے اَبواب میں ذکر کرنے کے بجائے تہجد کے ابواب میں بیان کیا ہے۔شارِحِ بُخاری،محدّثِ کبیر ،حافظ الحدیث علّامہ ابنِ حجر عسقلانی﷫ نے بھی اِس حدیث کو تہجد ہی سے متعلّق قرار دیا ہے ۔(فتح الباری:3/21)
(6) اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حدیثِ مذکور میں تَراویح کی آٹھ رکعات کو بیان کیا گیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس واضح اور صریح روایت کے ہوتے ہوئے دورِ فاروقی میں جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم اجمعین نے 8 رکعات تَراویح کی روایت کو ترک کرکے بیس رکعت کو کیوں اختیار کیا ،اور ایسا اِتفاق کہ کسی ایک بھی صحابی کا اُس میں کوئی اختلاف منقول نہیں ،پھر یہی نہیں بلکہ تابعین ، تبعِ تابعین ،فقہاء اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی کو بھی حضرت عائشہ صدیقہ﷞کی اس واضح اور صریح روایت پر عمل کرنے کا خیال نہیں آیا ۔۔؟؟ کیا تمام صحابہ و تابعین و تبعِ تابعین اور جمہور فقہاء و محدّثین سب ہی(نعوذ باللہ) حدیثِ صریح کی مُخالفت کرنے والے اور دین کی مَن مانی تشریح کرنے والے تھے۔۔؟؟ جن لوگوں کے ذریعہ دین ہم تک پہنچا کیا وہ خود ہی(العیاذ باللہ) اُس پر عمل پیرا نہیں تھے ۔۔؟؟

دوسری دلیل اور اُس کا جواب

عَنْ عِيسَى ابْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ:صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَأَوْتَرَ فَلَمَّا كَانَتِ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ فَلَمْ نَزَلْ فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا ثُمَّ دَخَلْنَا فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ اجْتَمَعْنَا الْبَارِحَةَ فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ تُصَلِّيَ بِنَا فَقَالَ:إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ۔(طبرانی صغیر:525)
حضرت جابر﷜فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺرمضان کے مہینے میں ہمیں8 رکعات اور وتر پڑھائی،جب اگلی رات آئی تو ہم مسجد میں جمع ہوئے اور آپ کے نکلنے کی اُمید لگاکر بیٹھے،اورصبح تک بیٹھے رہےپھر گھر چلے گئے،ہم نے نبی کریمﷺسے عرض کیا یا رسول اللہ!گذشتہ شب ہم مسجد میں جمع ہوئے تھے اوریہ اُمید لگاکر بیٹھے تھے کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں گے،آپﷺنے اِرشاد فرمایا:مجھے اِس بات کا خوف تھا کہ کہیں یہ(تَراویح)تم پر فرض نہ ہوجائے۔
جواب:حدیثِ مذکور ضعیف ہے اور اِس کے ضعف پر جمہورمحدّثین کا اِتفاق ہے لہٰذا اِس حدیث سے اِستدلال کرتے ہوئے دوسری کثیر اور صحیح روایات کو ترک کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ۔اورحدیث کے ضعیف ہونےکی وجہ یہ ہے کہ اِس حدیث کے راوی”عیسیٰ بن جاریہ“ضعیف ہیں ،چنانچہ ائمّہ جرح و تعدیل نے انہیں ”مُنکر الحدیث“ اور ضعیف قرار دیاہے۔(میزان الاعتدال:3/13،چشتی)
نیز اِس حدیث کو حضرت جابر﷜سے نقل کرنے میں عیسی بن جاریہ متفرّد ہیں ،نہ کسی اور راوی نے اِس حدیث کو حضرت جابر﷜سے نقل کیا ہےاور نہ ہی کسی اور صحابی سے اِس کا کوئی شاہد منقول ہے،لہٰذا اِس کو قابلِ اِستدلال قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

تیسری دلیل اور اُس کا جواب

مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ:أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔(مؤطاء مالک280)
حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عُمر﷜ نے حضرت اُبی بن کعب﷜
اور حضرت تمیم داری ﷜کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو 11رکعات پڑھائیں۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عُمر﷜نےتَراویح کی 8 رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔
جواب:
(1 حدیثِ مذکورمیں رکعات کی تعداد کے بارے میں شدید اِضطراب پایا جاتا ہے،چنانچہ محمّد بن یوسف جو اِس حدیث کے مَدار ہیں اُن کے5 شاگرد ہیں ان میں سے تین شاگرد 11 رکعتوں کی روایت،ایک شاگرد 13 کی روایت اور ایک راوی 21 کی روایت نقل کرتے ہیں،لہٰذا یہ قابلِ اِستدلال نہیں ۔(اعلاء السنن:7/84)
(2) یہ حدیث حضرت عُمر﷜کے مشہور و معروف فیصلہ جوکہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اُس کے سراسر خلاف ہے ،لہٰذا اِس مضطرب حدیث کی وجہ سے دیگر صحیح احادیث کو ترک نہیں کیا جاسکتا،یہی تو وجہ ہے کہ خود اِمام مالک﷫جنہوں نے اپنی مؤطا میں اِس روایت کو نقل کیا ہے وہ خود اِس حدیث پر عمل پیرا نہیں ۔
(3) یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر حضرت عُمر﷜کا 8 رکعات کا فیصلہ ہوتا تو بعد میں حضرت عُثمان اور حضرت علی﷠بھی اُسی فیصلہ کی اِتباع کرتے ہوئے 8رکعات کے قائل ہوتے ،نیز صحابہ کرام کا بھی اِسی پر عمل ہوتا حالآنکہ سابقہ گزری ہوئی کثیر احادیث و روایات میں صحابہ کا عمل اِس کے بالکل خلاف یعنی بیس رکعات پر عمل کرنے کا ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ8رکعات تَراویح حضرت عُمر﷜کا فیصلہ ہرگز نہیں تھا ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔