اذان اور اقامت کے کلمات پر غیر مقلدین کے اعتراضات کے جوابات حصّہ اوّل
اعتراض : مسلم شریف نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوری اذان کی حدیث نقل کی کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنفسِ نفیس اذان کی تلقین فرمائی اس کے بعض الفاظ یہ ہیں ۔ ثُمَّ يَعُودُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ۔ دونوں شہادتوں کے بعد پھر بولو اور کہو ’’ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‘‘الخ ۔(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب صفة الاذان، جلد۲، صفحه۳،حدیث۸۶۸) اس سے معلوم ہوا کہ خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان کی شہادتین میں ترجیع سکھائی لہٰذا اذان میں ترجیع سنت ہے ۔
جوابات
جواب نمبر 1 : حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات سخت متعارض ہیں اس حدیث میں تووہ ترجیع کا ذکر فرماتے ہیں اور اُن ہی کی جو روایت ہم پہلے مضمون میں بحوالہ طبرانی پیش کرچکے ہیں اُس میں ترجیع کا ذکر بالکل نہیں ۔ طحاوی شریف نے انہی ابو محذورہ سے جو حدیث نقل کی اس میں اول اذان میں بجائے چار کے دو بار تکبیر کا ذکر ہے لہٰذا ابو محذورہ کی روایت تعارض (ایک دوسرے کے خلاف ہونے) کی وجہ سے ناقابلِ عمل ہے جیساکہ تعارض کا حکم ہے۔
جواب نمبر 2 : حضرت ابو محذورہ کی یہ ترجیع والی حدیث تمام ان مشہور حدیثوں کے خلاف ہے جو ہم پہلی فصل میں پیش کرچکے ہیں جن میں ترجیع کا ذکر نہیں لہٰذا وہ احادیثِ مشہورہ قابلِ عمل ہیں نہ کہ یہ حدیثِ واحد ۔
جواب نمبر 3 : حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور موذن حضرت بلال اور حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور بعد میں کبھی اذان میں ترجیع نہ فرمائی لہٰذا ان کا عمل زیادہ قابلِ قبول ہے ۔
جواب نمبر 4 : اس حدیث ابو محذورہ کو عام صحابہ نے ترک کردیا ان کا عمل ترجیع پر نہ تھا بلکہ ترجیع کے خلاف تھا لہٰذا وہی زیادہ قوی ہے ۔
جواب نمبر 5 : یہ حدیث ابو محذورہ قیاسِ شرعی کے بھی خلاف ہے اورہماری پیش کردہ احادیث قیاس کے مطابق لہٰذا وہ احادیث قابلِ عمل ہیں نہ کہ یہ حدیث جیساکہ تعارض کا حکم ہے ۔
جواب نمبر 6 : جو عنایہ شرح ہدایہ نے لکھا کہ سیدنا ابو محذورہ کو زمانہ کفر میں توحید ورسالت سے سخت نفرت تھی اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی سخت مخالفت کرتے اور اذانِ بلالی پر بھی پھبتیاں اُڑاتے ۔ (جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں ۔آگے مضمون میں تفصیل لکھیں گے)
خلاصہ : جب حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان دینے کا حکم دیا تو اُنہوں نے شرم کی وجہ سے ’’ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‘‘اور’’أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘ آہستہ آہستہ کہا بلند آواز سے نہ کہا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ بلند آواز سے یہ کلمات ادا کرنے کا حکم دیا ۔ یہ دوبارہ کہلوانا اس وقت تھا تعلیم کے لیئے اور شرم دور کرنے کے لیئے لہٰذا یہ حکم عارضی ہے جیسے اگر آج کوئی شخص آہستہ آہستہ اذان کہہ دے تو دوبار ہ بلند آواز سے کہلوائی جاتی ہے ۔ اس صورت میں ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہماری بیان کردہ احادیث کے خلاف نہیں ۔
جواب نمبر 7 : صاحب فتح القدیر نے لکھا کہ حضرت ابو محذورہ نے یہ دونوں شہادتیں بغیر مد کے کہہ دی تھیں اس لئے دوبارہ مد کے ساتھ کہلوائیں۔ بہرحال یہ ترجیع ایک خصوصی واقعہ تھا نہ کہ سنتِ اسلام ۔
اعتراض : ابوداؤد ، نسائی اور دارمی نے حضرت ابو محذورہ سے روایت کی
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَّمَهُ الأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً ، وَالإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً ۔ (سنن الدرامی،کتاب الصلاة، باب الترجیع فی الاذان، جلد۳، صفحه ۴۲۹،حدیث ۱۲۴۳)(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب کیف الاذان،جلد۲، صفحه۱۷۶، حدیث۵۰۲)
یعنی بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان ۱۹ کلمے اور تکبیر ۱۷ کلمے سکھائے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان کے کلمے اُنیس (۱۹)ہیں یہ ترجیع سے ہی بنتے ہیں اگر اذان میں ترجیع نہ ہوتو کُل پندرہ (۱۵) کلمے ہوئے لہٰذا ترجیع اذان میں چاہیے ۔
جواب : یہ حدیث غیر مقلدین کے بھی خلاف ہے کیونکہ اگر اس حدیث سے اذان میں ترجیع ثابت ہوتی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامت کے کلمات دو دو بار ہیں ۔ اگر غیر مقلدین کی طرح ایک ایک بار کلمات ہوتے تواس کے کلمات بجائے سترہ (۱۷) کے تیرہ (۱۳) ہوں ۔ اب ہمیں حق پہنچتا ہے کہ غیر مقلدوں کو برملا کہیں : اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۔(پارہ۱، سورۂ البقرہ،آیت ۸۵)
ترجمہ : توکیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ۔
باقی اس کے وہی جوابات ہیں جو اعتراض اول کے ماتحت گذر گئے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ کو ترجیع ایک خاص وجہ سے تعلیم دی تھی وغیرہ وغیرہ ۔
اعتراض : مسلم وبخاری نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی
قَالَ ذَكَرُوا النَّارَ وَالنَّاقُوسَ ، فَذَكَرُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى فَأُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الإِقَامَةَ ۔ یعنی فرماتے ہیں کہ صحابہ نے اعلانِ نماز کے لئے آگ اور ناقُوس (سنکھ جو بجایا جاتا ہے)کی تجویز کی تو یہود وعیسائیوں کا ذکر بھی کیا کہ وہ بھی ان چیزوں سے اعلانِ عبادت کرتے ہیں تو حضرت بلال کو حکم دیاگیا کہ اذان دودوبار کہیں اور اقامت ایک ایک بار۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب بدء الاذان، جلد۳، صفحه۲۳،حدیث۶۰۳) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہے جائیں ۔
جواب نمبر 1 : یہ حدیث تمہارے بھی خلاف ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ اقامت کے سارے کلمات ایک ایک بار ہوں مگر تم کہتے ہو کہ اقامت میں اولاً تکبیر چار بار ہو ’’ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ ‘‘دوبار ہو پھر تکبیر دوبار ہو لہٰذا جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا ۔ اگر کہو کہ دوسری حدیث میں ’’ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ ‘‘کو دوبار کہنے کا حکم ہے تو حنفی کہیں گے کہ دوسری احادیث میں یہ بھی ہے کہ اقامت کے تمام کلمات دو با ر کہے جائیں وہ احادیث قابلِ عمل کیوں نہیں ؟
جواسب نمبر 2 : اس حدیث میں حضرت عبداللہ ابن زید کے خواب کا بالکل ذکر نہیں بلکہ فرمایا گیا کہ جب صحابہ نے آگ یا ناقوس کے ذریعہ اعلانِ نماز کا مشور ہ کیا اور بعض صحابہ نے فرمایا کہ اس میں یہود ونصاریٰ سے مشابہت ہے اسلامی اعلان اُن کے خلاف چاہیے تو فوراً ہی حضرت بلال کو اذان واقامت کا حکم دیا گیا تو اس اذان واقامت سے موجودہ مروجہ شرعی اذان مراد نہیں بلکہ لغوی اذان یعنی اعلانِ نماز ہے جو محلہ میں جاکرکی جائے اور اقامت سے مراد بوقتِ جماعت مسجد والوں کو جمع کرنے کے لئے کہا جائے کہ آجاؤ جماعت کھڑی ہورہی ہے چونکہ یہ اعلان ایک ہی بار کافی تھا اس لئے ایک بار کا ذکر ہوا ۔پھر اس کے بعد عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کا واقعہ پیش آیا جس سے مروجہ اذان واقامت قائم کی گئی وہ اعلانات چھوڑدیئے گئے ۔
جواب نمبر 3 : حضرت عبداللہ ابن زید کے خواب میں فرشتے نے جو اقامت کی تعلیم دی اس میں الفاظ اقامت دودوبار ہیں اور وہ خواب ہی اذان واقامت کی اصل ہے لہٰذا وہی روایت قابلِ عمل ہے ۔ دوسری روایت جو اس کے خلاف ہیں واجب التاویل ہیں یا ناقابلِ عمل۔ خیال رہے کہ یہ خواب صرف حضرت عبداللہ کا نہیں بلکہ ان کے علاوہ سات بلکہ چودہ صحابہ نے بھی یہی خواب دیکھا گویا یہ حدیث متواتر کے حکم میں ہوگئی ۔
جواب نمبر 4 : روایات کا اسی پر اتفاق ہے کہ حضرت بلال اور ابن اُمِ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اذان میں ترجیع اپنے آخر دم تک نہ کی ۔ (سیرة حلبیه، مرقاة شرح مشکوة،چشتی)
نیز ان بزرگوں کی اقامت میں اقامت کے کلمات دو دو ہی رہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے مشہور موذن اور حضرت اِبنِ اُمِ مکتوم رضی اللہ عنہ اپنی ساری عمر نہ تو اذان میں ترجیع کریں نہ تکبیر کے کلمات ایک ایک بار کہیں حالانکہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہو لہٰذا ترجیع وغیرہ کی تمام روایات واجب التاویل نہیں ۔
ہم اَہلِ سنت کے نزدیک اجماعِ اُمت اور کثرت رائے اہلِ فضیلت قابلِ وقعت ہے ۔ غیر مقلد چونکہ شترِ بے مہار ہیں اسی لئے نہ اجماع کے قائل ہیں نہ کثرت کے پابند اسی لئے ہم نے اُن کا نام شتربے مہار رکھا ہے ۔
ہم اَہلِ سنت مدینہ طیبہ اور اُس کے والی سرکارِ عالی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیارو محبت رکھتے ہیں ا سی لئے ہمیں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان سے پیار ہے اُنہیں مدینہ طیبہ سے ضد ۔ بظاہر توحید کا دم بھرتے ہوئے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کو پسند کیا کیونکہ وہ دورِ مکہ معظمہ میں مؤذن رہے ۔
كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ 53 (پارہ۱۸، سورۂ المومنون ،آیت ۵۳)
ترجمہ: ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے ۔
بود در جہاں ہر کسے را خیال مرا از ہمہ خوشِ خیال محمد (صلی اللہ علیہ ا و آلہ وسلّم)
انہیں صرف حنفیوں کے خلاف کرنا ہے وہی کیا جو ان کی طبعِ شریر (شریر طبیعت) کو مرغوب تھا کیونکہ اگر واقعی انہیں ابو محذورہ کی روایت مستند معلوم ہوتی ہے تو پھر حضرت ابو محذورہ کی روایت کردہ اقامت کے خلاف کیوں کرتے ہیں ؟
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۔(پارہ۱، سورۂ البقرہ،آیت ۸۵)
ترجمہ : توکیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ۔
اذانِ بلالی اصلی اور اذانِ ابومحذورہ طفیلی جیسے اصلی اور طفیلی میں فرق ہے ایسے ہی یہاں سمجھیئے ۔ چنانچہ ملاحظہ ہو تاریخِ اذان حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ حنین سے فراغت کے بعد مسلمان ہوئے اور غزوۂ حنین ۸ھ میں ہوا ۔اس معنی پر ابومحذورہ کی اذان کے کلمات آٹھ سال بعد کو شروع ہوئے۔دریں اثناء اذانِ بلال دی گئی اور نہ صرف اسی سال تک بلکہ زندگی بھر جیساکہ جملہ محدثین نے کہا یہاں تک کہ مخالفین کا اقرار ہے کہ حضرت بلال تاو صال اسی طرح اذان دیتے جو احناف کی معمول بہ ہے اور وہ اسے منسوخ بھی نہیں کہہ سکتے۔ اگر ان کے ہاں کوئی ناسخ دلیل ہے تولائیں ۔
نقل کی برکت
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت بلال کی نقل اُتارتے سنا تو آپ کو نقلِ بلال سے اتنا پیار ہوگیا کہ حضرت ابو محذورہ کو نہ صرف امان بخشی بلکہ دولتِ اسلام سے نوازا اور دنیاوی دولت بھی عطا فرمائی چنانچہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرماتے ہیں : خرجت في نفر وكنا ببعض طريق حنين، فقفل رسول الله صلى الله عليه وسلم من حنين، فلبث رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض الطريق، فأذن مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصلاة، فسمعنا صوت المؤذن ونحن متنكبون» أي عن الطريق «فصرنا نحكيه ونستهزىء به، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم فأرسل إلينا إلى أن وقفنا بين يديه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيكم الذي سمعت صوته قد ارتفع؟ فأشار القوم كلهم إليّ فحبسني» أي أبقاني عنده «وأرسلهم وقال قم فأذن، فقمت ولا شيء أكره إليّ من النبي صلى الله عليه وسلم ولا مما يأمرني به، فقمت بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فألقى عليّ التأذين هو بنفسه صلى الله عليه وسلم ۔(السیرة الحلبیة، باب بدء الاذان ومشروعیته، جلد۲، صفحه۱۳۸)
یعنی تومیں ایک جماعت کے ساتھ نکلا اور ہم حنین کی راہ پر چل رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حنین سے واپس تشریف لے جارہے تھے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ قیام فرمایا اور آپ کے موذن نے اذان پڑھی تو ہم نے اذان سن کر پھبتیاں اُڑائیں لیکن ہم راستہ سے ہٹ کر تنہا جارہے تھے اس کے باوجود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری باتیں سن لی اور کسی کو ہمارے بلانے کا حکم فرمایا ہم حاضر ہوگئے آپ نے فرمایا تم میں کون ہے جس نے اذان سن کر ایسے ایسے کہا ہے سب نے میری طرف اشارہ کیا آپ نے سب کو اجاز ت دے دی اور مجھے اپنے پا س ٹھہرا کر فرمایا کھڑا ہوجا میں کھڑا ہوگیالیکن اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام اشیاء سے مکروہ ترین (معاذاللہ) محسوس ہورہے تھے اور ان کا ہر حکم مجھے مکروہ محسوس ہوتا تاہم حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھڑا ہوگیا ۔ اس پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان کے کلمات پڑھائے اس کے بعد فرمایا کہ : ثم دعاني حين قضيت التأذين فأعطاني صرة فيها شيء من فضة، ثم وضع يده على ناصيتي ومر بها على وجهي، ثم بين يدي، ثم على كبدي حتى بلغت يده سرتي، ثم قال: بارك الله فيك، وبارك عليك، فقلت: يا رسول الله مرني بالتأذين بمكة، فقال صلى الله عليه وسلم: قد أمرتك به» وذهب كل شيء كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم من كراهته وعاد ذلك كله محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدمت على عتاب بن أسيد رضي الله تعالى عنه عامل رسول الله صلى الله عليه وسلم على مكة فأذنت بالصلاة عن أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔(السیرة الحلبیة، باب بدء الاذان ومشروعیته، جلد۲، صفحه۱۳۸،چشتی)
یعنی اس کے بعد مجھے اپنے قریب بلاکر مجھے ایک اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلی عطا فرمائی پھر آپ نے اپنا (رحمت بھرا)ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھا اور اسے میرے چہرے پر پھیرا میرے دل سے جگر اور نافہ تک لے گئے اور کہا تجھے اللہ برکت بخشے اس پر میں نے عرض کی یار سول اللہ مجھے مکہ معظمہ کا موذن مقرر فرمایئے آپ نے فرمایا آج کے بعد تم مکہ کے موذن ہو(اللہ شاہدہے )آپ کے ہاتھ کی برکت سے میرے دل کا تمام بغض و کینہ نکل گیا اس کے بجائے اب میرے دل میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجزن ہوگیا میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت لے کر عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حاکمِ مکہ کے ہاں واپس آیا اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ سلم کا حکم سنایا کہ مجھے مکہ کا موذن بنایا گیا ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ : وقيل علمه صلى الله عليه وسلم ذلك يوم فتح مكة لما أذن بلال رضي الله تعالى عنه للظهر على ظهر الكعبة، وصار فتية من قريش يستهزئون ببلال ويحكون صوته، وكان من جملتهم أبو محذورة، فأعجبه صلى الله عليه وسلم صوته فدعاه وعلمه الأذان ۔ (السیرة الحلبیة، باب بدء الاذان ومشروعیته، جلد۲، صفحه۱۳۸)
یعنی اس کے بعد میں بعض نے کہا کہ یہ واقعہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعبہ کی چھت پر اذان دی تو مکہ کے نوجوان ان پر اِسْتِہزاء(مذاق اُرایا) کرتے تھے ان میں ابو محذورہ بھی تھے باوجویکہ انہوں نے ٹھٹھا کے طور پر اذان کہی مگر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند آئی ۔
حضرت ابو محذورہ مکہ معظمہ میں رہے اور وہ کلمات دہراتے رہے اور یہ کوئی عقائد واُصول کے مسائل نہیں ہیں جب ہی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کم وبیش الفاظ سے اُلجھن میں نہیں پڑتے تھے ۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کا ثبوت ہے کہ ابو محذورہ کے دل سے بغض و عداوت نکال کر محبت وعشقِ اسلام سے اُن کے قلب کو بھردیا ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت ابو محذورہ کی اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معمول بہ نہیں اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان نہ صرف معمول بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت بلال کی اذان سے پیار اور عشق تھا جیساکہ ہم آگے چل کر عرض کریں گے ۔
اسی لئے وہ اذان عمل میں لائی جائے جو اذانِ بلالی کہلاتی ہے او ر وہی ہم میں ہے اور غیر مقلدین برعکس ہیں وہ اس لئے کہ وہ عشق سے خالی ہیں ۔ (بقیہ جوابات حصّہ دوم میں ان شاء اللہ العزیز)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment