Wednesday 16 January 2019

عشق کے معنی اور لفظ عشق کو گھٹیا کہنے والوں کو جواب

3 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے لفظ "عشق" استعمال کرنے کو گھٹیا اور بازاری کہنے والوں کو ہمارا مدلل و دندان شکن جواب

محترم قارئین : جب ہمارے سنی بھائی نبی پاک کیلے عشق اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان پہ کڑی تنقید کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ عشق کا لفظ بازاری لفظ ہے یہ صنف نازک کیلیئے استعمال کیا جاتا ہے کیا تم لوگ اپنی ماں بہن بیٹی کیلیئے یہ لفظ استعمال کر سکتے ہو کہ بہن کا عاشق ماں کا یا بہن کا۔ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کیلیئے کوئی لفظ استعمال کرنا ہے تو لفط پیار یا محبت اسعمال کرو۔اسکا جواب دینے سے پہلے ہم لفظَ پیار،محبت اور عشق میں فرق دیکھتے ہیں ۔

پیار۔ یہ ہمیں کسی سے بھی ہو سکتا ہے عورت کو مرد سے یا مرد کو عورت سے بھائی کو بہن سے یا بہن کو بھائی سے ماں باپ کو اولاد سے یا اولاد کو ماں باپ سے استاد کو شاگرد سے یا شاگرد کو استاد سے نیک لوگوں سے اللہ سے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے۔لیکن جب عام طور پر دو پیار کرنےوالے لڑکا لڑکی جب انگلش میں ایک جملہ استعمال کرتے ہیں آئی لو یو تو اسکا مطلب ہوتا ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں یا کرتی ہوں اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں تم سے عشق کرتا ہوں یا عشق کرتی ہوں لڑکا لڑکی عام طور پر ایک دوسرے کو یہی کہتے ہیں میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں۔عشق کا لفظ عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا دو ناسمجھ دل ایک دوسرے کو یہ کہہ کر پیغام دیتے ہیں کہ میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں معزرت کیساتھ کونسا لفظ بازاری ہوا۔پیار کا یا عشق کا۔پیار جس سے ہو وہ اسکا یار ہوتا محبت جس سے ہو وہ اسکا محبوب ہوتا ہے اور عشق جس سے ہو وہ اسکا مشتاق ہوتا ہے یعنی ملنے کیلے بے تاب ہوتا ہے۔پیار،محبت اور عشق میں کونسا لفظ بازاری ہے میں تو کہوں گا پیار کا لفظ کیونکہ دو نا سمجھ جوان دل زیادہ تر اپنی گفتگو میں پیار کا لفظ استعمال کرتے ہیں عشق کا نہیں ۔

محبت ۔ محبت کا مطلب ہے حب محبت کا معاملہ بھی یہی کہ محبت ہمیں اپنے تمام عزیزوں سے ہوسکتی ہےاپنے پیاروں سے ہو سکتی ہے اللہ رسول سے ہوسکتی ہے،ماں باپ دوست احباب بہن بھائی غرضیکہ ہر کسی سے ہو سکتی دو ناسمجھ دل اس لفظ کا استعمال بھی کرتے ہیں مجھے تم سے محبت ہے پیار ہے کبھی عشق بھی کہتے ہیں لیکن تب جب پیار اور محبت انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو حبیب کہہ کر پکارا ہے حبیب وہ ہوتا ہے جس سے حب ہو محبت ہو اور جو محبوب ہو اور جب محبت انتہا کو پہنچ جاتی تو یہ عشق بن جاتا ہے اور عشق پیار اور محبت سے پاکیزہ جزبہ ہوتا ہے۔عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتہ جبکہ جس سے پیار یا محبت ہو تو عام مرد و عورت کو کوئی نہ کوئی ہوس بھی ضرور ہوتی ہے چاہے جسموں کے ملاپ کی ہوس ہو یا روحوں کے میلاپ کی۔لیکن عشق کسیی ہوس کے جزبے سے پاک جزبہ ہے ۔

عشق ۔ عشق کی دو اقسام ہیں عشق مجازی اور عشق حقیقی۔عشق ایسا جزبہ ہے کہ جسمیں انسان بے لوث ہوتا ہے کسی کی خااطر جان لے بھی سکتا ہے اور جان دے بھی سکتا ہے جب حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے زندگی کی کوئی پروا نہ کی اور اپنی زندگی داؤ پہ لگا دی اس پروا نہ کرنیکا نام عشق ہے۔جب حضرت اسمایل پر انکے والد حجرت ابراہیم نے چھری پھیرنے کا ارادہ کی ذبح کنیکا ارادہ کیا تو بے چوں چراں ذبح ہونے کیلے اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر چپ چاپ لیٹ گئے اس پروا نہ کرنے کا نام عشق ہے۔یہ عشق حقیقی کی مثالیں ہیں ۔

عشق مجازی میں کوئی اپنے محبوب کی خاطر مجنوں بن جاتا ہے کوےئ فرہاد بن جاتا ہے کوئی رانجھا بن جاتا ہے اس مجازی عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی کوئی جسمانی ہوس کی طلب نہیں ہوتی اس طلب نہ ہونیکا نام عشق ہے لیکن یہ عشق مجازی ہے۔جبکہ عشق حقیقی میں سب کچھ اللہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خاطر قربان کترنیکا نام عشق حقیقی اللہ کی خاطر جو انبیا نے قربانیاں دیں یہ عشق حقیقی کی زندہ مثالیں ہیں ۔ جب اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے فرمایا اے حبیب اگر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بنانا مقصود نہ ہوتا تو میں کچھ بھی نہ دو جہاں میں اور تمام جہاں میں یہاں تک کہ اپنے آپکو بھی ظاہر نہ کرتا یہ عشق اللہ کا اپنے حبیب کیلے ہے کہ اللہ اپنے حبیب کی خاطر خود کوبھی ظاہر نہ کرتا اور خود کو ازل سے لیکر چھپائے رکھتا۔کسی کی خاطر اپنے آپکو دنیا سے چھپا دینا ظاہر نہ کرنیکا نام عشق ہے ۔

دوسری طرف نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جو اللہ سے عشق کیا اسکی مثال دو جہاں میں کہیں نہیں ملتی اپنی پیاری بیٹی جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حجرت فاطمہ زہرا خاتون جنت بتول رض کے اور علی رضی اللہ عنہ اور محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لاڈلے نواسے کو قربان کر دیا چھے مہینے کے حسین ع کے بیٹے علی اصغر کو قربان کر دیا حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جانتے تھے کہ حسین ع کیوں کہاں اور کیسے شہید کیے جائیں گے کیا اگر اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم چاہتے تو اپنے پیارے نواسے حسین ع کی آل اولاد کو بچانے کیلئے دعا نہیں کر سکتے تھے کیا اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی دعا کو رد کرنا تھا یہ قربانی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اللہ سے عشق ہے کہ اپنے نواسے کی پیاری آل اوکاد کی زندگی کا سوال کرنا تو دور کی بات سوچا تک نہیں یہ نہ سوچنا نہ سوال کرنا عشق ہے۔جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ سے کیا ۔

اس طرف حضرت حسین نے بھی اللہ کو انکے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا واسطہ نہیں دیا کہ انکو آل اولاد کو اللہ بچا لے اللہ کی بارگاہ میں کوئی سوال نہیں کیا اور اللہ کی راہ میں اپنی آل اولاد سمیت چپ چاپ قربان ہو گئے اس قربانی کا نام عشق ہے جو اللہ اور اسکے پیار حبیب نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے کیا ۔

اس طویل بحث کے بعد ایک بات تو روز عیاں کی طرح واضح ہو گئے ہو گی عشق پاک جزبے کا نام ہے اسمیں کوئی ہوس کوئی غرض نہیں ہوتی بس اللہ اسکے محبوب کی خوشنودی دیکھی جاتی ہے ۔

اہل اسلام جو لفظ عشق نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ بالکل شریعت کے مطابق ہے۔پیار میں ہوس ہوسکتے محبت میں بھی کوئی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی صرف الہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشنودی ہوتی ہے ۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ عشق لفظ اپنی ماں بہن بیٹی کیلے استعمال کر سکتے ہو تو جب پیار جیسا بازاری لفظ جو دو ناسمجھ جوان لوگ بات بات پہ استعمال کر سکتے ہیں محبت جیسا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یہ نا سمجھ جوان لوگ تو اپنے محبوب کیلے بھی یہی لفظ اور اپنی ماں بہن بیٹی کیلیے بھی تو عشق تو ایک پاک جزبہ ہے ۔
عشق ایسا جزبہ ہے کہ جسکی خاطر جان دی بھی جا سکتی ہے اور لی بھی جا سکتی لیکن پیار اور محبت کے جزبے میں ضروری نہیں کہ جان دی جا سکے یا لی جا سکے ماں بہن بیتی سے بھی عشق ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی ماں اور بہن کی حرمت و عزت کی خاطر کسی کی جان لے بھی سکتا ہے اور دے بیھی ستا ہے ۔
جب کتا اپنے مالک کی خاطر اپنی جان داؤ پہ لگا سکتا ہے تو یہ کتے کا مالک سے کیا ہے یہ کتے کا اپنے مالک سے صرف پیار نہیں عشق ہے کیوں جان کی بازیاں صرف عشق کی جزبے میں لگائیئ جاتی ہیں جب چڑیا اپنے سے ہزار گنا بڑے عقاب سے اپنے بچوں کی خاطر اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر عقاب پہ حملہ کر سکتی ہے تو یہ پروا نہ کرنا کیا پے صرف پیار ہے نہیں یہ اپنے بچوں کیلیئے مامتا ہے عشق ہے جو اپنی جان کی پروا نہیں کرتی۔یہ پروا نہ کرنا عشق ہے۔جب بے بے زبان جانداروں کو اپنے بچوں سے عشق ہو سکتا ہے تو ہمیں اپنی بہن بیٹی اور ماں سے عشق کیوں نہیں ہوسکتا۔پیار تو لڑکوں کو ہر دوسری لڑکی سے ہوجاتا ہے لیکن جب انہیں کسی صنف نازک سے عشق ہو گا تو ہر طرح کی ہوس نفسانی ہوس ختم ہو جائے گی۔اس ہوس کے خاتمے کا نام عشق ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان بد مذہبوں سے بچائے جو نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عشق کو نعوذ بااللہ بازاری لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اللہ انہیں سچ جھوٹ حق و باطل پہچاننے اور ان میں تمیز کرنیکی توفیق دے ۔ اللہ ہم مسلمانان اہل سنت و جماعت کو سچا عاشق رسول بنائے تاکہ ہم دشمنان رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ایسے ہی منہ توڑ جواب دیتے رہیں۔آمین یا رب العالمین ۔ جزاک اللہ ۔طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

























3 comments:

  • 17 June 2020 at 09:06

    معاف کرنا ڈاکٹرصاحب آپ نے فضول اتنی لمبی چوڑی بحث کر کے اپنی غلطی کو چھپانے کی کوشش کی ہے ۔ جبکہ ایک سادہ مسلمان جانتا ہے کہ اسکو اپنی ماں بہن یا بھاٸ سے جتنی مرضی شدید محبت ہو مگر وہ غیرت مند عشق کا لفظ نہیں استعمال کرتا۔ جبکہ قرآن شدید محبت کو ”اشدُ حب“ ہی لکھتا ہے۔
    لوگوں کو گمراہ کرنا چھوڑ دیں اور میرے پیارے رسول اللہ ﷺ کے لۓ ایسے بازاری الفاظ استعمال کرنے کے لۓ لوگوں کو نہ ہ بھڑکاٸیں

  • 5 September 2020 at 10:24

    ز قلم: محمد زبیر شیخ…. متعلم مرکز اہل الحدیث ملتان

    کسی سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے کےلیے ہمارے ہاں زیادہ تر لفظ عشق استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لفظ ہماری محبت اور عقیدت کو بالکل صحیح انداز سے واضح کردیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عشق اور محبت وعقیدت میں بہت فرق ہے۔

    آئیے اس فرق کو جاننے کےلیے مستند عربی لغات کی طرف چلتے ہیں تاکہ حق معلوم ہونے کے بعد ہم اپنی سابقہ غلطیوں سے رجوع کرکے صحیح بات کی طرف پلٹیں۔

    محبت کا معنی:

    امام اللغۃ مجد الدين أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى (المتوفى: 817ھ) اپنی کتاب القاموس المحیط میں تحریر فرماتے ہیں: «الحُبُّ: الوِدادُ، كالحِبابِ والحِبّ، بكسرهما، والمَحَبَّةِ والحُبابِ بالضم» ’حُبّ‘ کا مطلب ہے محبت۔ حِبابِ، الحِبّ، المَحَبَّةِ، الحُبابِکے بھی یہی معنی ہیں۔ جس سے محبت کی جائے، اسے محبوب کہتے ہیں۔

    (القاموس المحیط ج: ا، ص: 70، ط: الرسالة, بيروت)

    محمد بن مكرم بن على، أبو الفضل، جمال الدين ابن منظور الأنصاري الرويفعى الإفريقى (المتوفى: 711ھ) اپنی کتاب لسان العرب میں رقم طراز ہیں: ’حُبّ‘ کا متضاد بغض ہے۔ حُبّ کے معنی پیار و محبت ہیں۔ حُبّ کو حِبّ بھی کہتے ہیں ۔ محبت کرنے والے کو مُحِبّ کہا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جائے، اسےمحبوب یا مُحَبّ کہتے ہیں۔

    (لسان العرب ، ج: 1، ص: 289، ط: دار صادر – بيروت)

    أبو نصر إسماعيل بن حماد الجوهري الفارابي (المتوفى: 393ھ) نے بھی اپنی کتاب الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔

    (الصحاح للجوہری، ج: 1، ص: 105، ط: دار العلم للملايين – بيروت)

    امام أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502ھ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں محبت کی تعریف یوں کرتے ہیں: «المحبَّة: إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا» کسی چیز کو اچھا اور مفید سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا، اسے چاہنا محبت ہے۔ (ج: 1، ص: 214، ط: دار القلم، الدار الشامية – دمشق بيروت)

    عشق کا مفہوم:

    آئیے اب لفظ عشق کا معنی و مطلب دیکھتے ہیں:

    امام فیروز آبادی لکھتے ہیں: « عُجْبُ المُحِبِّ بمَحْبوبِه، أو إفْراطُ الحُبِّ، ويكونُ في عَفافٍ وفي دَعارةٍ، أو عَمَى الحِسِّ عن إدْراكِ عُيوبِهِ، أو مَرَضٌ وسْواسِيٌّ يَجْلُبُه إلى نَفْسِه بتَسْليطِ فِكْرِهِ على اسْتِحْسانِ بعضِ الصُّوَر۔»محب کا اپنے محبوب کو بہت زیادہ پسند کرنا، یا محبت میں غلو کرنا۔یہ محبت پاک بازی کی حدود میں بھی ہوسکتی ہے اور بدکاری میں بھی۔ یا پھر عشق کہتے ہیں: محبوب کے عیوب دیکھنے کی حس سے محروم ہوجانا۔ یا پھر عشق ایک مرض ہے جو عاشق کو خیالوں کی وادی میں دھکیل دیتا ہے کہ بعض صورتیں اس کو اچھی لگنے لگتی ہیں۔ (القاموس المحیط ، ج: 1، ص: 909)

    لسان العرب میں تقریباً یہی مفہوم موجود ہے۔ (ج: 10، ص: 251)

    اور یہی مفہوم امام جوہری کی الصحاح میں ہے۔ (ج: 4، ص: 1525)

    امام ابن فارس اپنی کتاب مقاییس اللغۃ میں لکھتے ہیں: عشق محبت کی حدود کو پھلانگنے کا نام ہے۔(ج: 4، ص: 321، طبع: دار الفكر)

    امام ابن ابی العز شرح عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں کہ عشق اس بڑھی ہوئی محبت کو کہتے ہیں جس میں عاشق کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس میں شہوت ہوتی ہے

  • 25 January 2021 at 07:01

    ماشاءاللہ بہت خوب مفتی صاحب

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔