ادلہ اربعہ فقہ
ادلہ فقہ پہلا ماخذ قرآن پاک
فقہ کاسب سے پہلا ماخذ قرآن پاک ہے ،جس کے حجت ہونے میں کسی کوشک ہوہی نہیں سکتا توجوچیزاس سے ثابت ہواس میں شک کس طرح ہوسکتاہے ؟ اگرکوئی آدمی قرآن پاک میں شک کرے گا تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کافرمان ہے ’’ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ ۔
ترجمہ : وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں ، اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو ۔
قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل کی ؛ چونکہ یہ سلسلہٴ ہدایت کا آخری ایڈیشن ہے؛ اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے حدود اربعہ بناکر اس کے خطوط متعین کردیے جائیں۔ قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود جامع مانع ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح احکام موجود ہیں؛ لیکن ان احکامات کی حیثیت اصول کی ہے۔ قرآن نے ایسا نہیں کیا کہ ابتداء ہی سے احکامات سے متعلق تمام جزئیات بیان کردی ہوں؛ بلکہ اس میں تدریج کا طریقہ بروئے کار لایاگیا۔ اگر بالفرض ابتداء ہی میں ساری جزئیات بیان کردی جاتیں اور عملی شکل کے سارے خاکے تیار کردیے جاتے تو ایک تو اس کی دستوری پوزیشن باقی نہ رہتی، دوسری بڑی بات یہ ہوتی کہ اس کی دوامی اور عالمگیر حیثیت ختم ہوکر ساری تعلیم خاص زمانہ تک محدود ہوجاتی اور پھر اس میں جمود و تعطل پیدا ہوکر ارتقاء پذیر معاشرے کو سمونے اور اقتضاء و مصالح کو جذب کرنے کی ساری صلاحیت ختم ہوجاتیں ۔ (فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، صفحہ نمبر 61،چشتی)
مثال کے طور پر قرآن مجید نے اس بات کی تو وضاحت کی ہے کہ حکومت اللہ کی نیابت و امانت ہوگی اور ہر مسلمان کے لیے شورائی بنیاد پر عدل و انصاف کے نظام کے قیام کو ممکن بنانا لازم ہوگا؛ لیکن یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ نظام کس نوعیت کا ہوگا اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہوگی؟ اسی طرح قرآن مجید نے ہر حرام اور حلال چیز کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حیات انسانی سے متعلق ہرجزوی معاملہ کو موضوعِ بحث بنایا؛ بلکہ اصول متعین کردیے۔ اب ان متعین اصولوں سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنا اور ان کی علت تلاش کرکے حالات و زمانہ کے مطابق ان کی عملی تطبیق پیش کرنا اہل علم پر چھوڑ دیا ۔
فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں حالات و زمانہ کے مطابق فقہی جزئیات میں تبدیلی اور اس کی ضرورت پر بڑی جامع بحث فرمائی ہے ۔ ذیل میں علامہ شامی رحمة اللہ علیہ کی اسی کتاب سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے : جاننا چاہیے کہ مسائلِ فقہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے (ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے) یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق قائم کیا تھا ۔ اس طرح کہ اگر وہ (دینی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا ۔ اسی بنا پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی شامل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو ؛ کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں ۔ بوجہ اس کے کہ رواج بدل گیا۔ یا کوئی نئی ضرورت پیدا ہوگئی یا زمانہ کے لوگ بدروش ہوگئے ۔ اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت زمانہ کے حالات کے موافق تھی ؛ کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم تھا کہ اگر آج خود مجتہد موجود ہوتا تو وہی کہتا جو انھوں کہا ۔ ( نثر العرف فی بناء بعض الاحکام العرف، صفحہ نمبر 18)
بہرحال ان فقہی احکامات کی جزئیات مرتب کرنے اور جدید مسائل کی عصری تطبیق کے حوالے سے فقہ اسلامی کے پہلے ماخذ یعنی قرآنِ کریم نے سات چیزوں کو اپنافقہی اصول قرار دیا ہے جن سے رہنمائی حاصل کرکے قرآنی منشاء کے مطابق ہر دور کے شرعی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ سات اصول ہیں : (1) عدم حرج (2) قلت تکلیف (3) تدریج (4) نسخ (5) شانِ نزول (6) حکمت و علت (6) عرب کی معاشرتی حالت ۔
اگر عمومی طور پر قرآن ِ کریم کا جائزہ لیاجائے تو اس میں امت اسلامیہ کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے درج ذیل احکامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
(1) اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیاجائے جس میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو ۔
(2) لوگوں کی رغبت اور میلان کے پیش نظر بعض ایسے احکام مقرر ہوئے جنہیں قومی عید کے طور پر منایا جائے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب و زینت کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
(3) طاعات کی ادائیگی میں طبعی رغبت اور میلان کو ملحوظ رکھا گیا اور ان تمام محرکات و دواعی کی اجازت دی گئی جو اس میں مددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو ۔
(4) طبعی طور پر جن چیزوں سے قباحت ہوتی ہے یا طبعیت بار محسوس کرتی ہے اس کو ناپسند کیاگیا ۔
(5) حق و استقامت پر قائم رہنے کے لیے تعلیم و تعلم، امربالمعروف و نہی عن المنکر کو دوامی شکل دی گئی کہ طبیعت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی ہے ۔
(6) بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے؛ تاکہ انسان اپنی سہولت کے پیشِ نظر جس کو چاہے اختیار کرے ۔
(7) بعض احکام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف قسم کے عمل مذکور ہوئے اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
(8) بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا ۔
احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھاگیا ، یعنی نہ ایک ہی وقت میں سارے احکام مسلط کیے گئے اور نہ ہی ساری برائیوں سے روکا گیا ۔
(9) تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی رعایت کی گئی ۔
(10) نیکی کے بہت سے کاموں کی پوری تفصیل بیان کی گئی ۔ اس کو انسانوں کی سمجھ پر نہیں چھوڑا گیا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی ۔
(11) بعض احکام کے نفاذ میں حالات و مصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص و مزاج کی ۔ (فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، صفحہ 92 ، 93)
چنانچہ قرآنِ کریم جو کہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے، اس سے ہمیں مندرجہ بالا اصولوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے ۔ احکامِ شرعیہ کا بنیادی مَاخَذ قرآن مجید ہے اور اس سے مراد وہ کلام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرنازل کیا گیا ، مصاحف میں لکھا گیا اور بطریق تواتر نقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا ۔ اصو ل فقہ میں قرآن پاک کی تقریبا پانچ سو آیات مبارکہ سے بحث کی جاتی ہے کیونکہ احکام شرعیہ کا تعلق انہی سے ہے یعنی ان ہی آیات سے احکام کا استنباط ہوتا ہے اور بقیہ جو آیات مبارکہ ہیں وہ قَصَصِ اُمَمِ سابقہ (گذشتہ اُمتوں کے واقعات) اور تبشیر وتنذیر پر مشتمل ہیں ۔ حلال و حرام کے احکام کوقرآنی دلائل سے جاننا قرآن کے الفاظ کی اقسام کو جاننے پر موقوف ہے ۔ اس لیئے فقہی مسائل پر بحث کےلیئے قرآنی الفاظ کی اقسام کو جاننا ضروری ہے فقہی مسائل پر بحث ہر شخص کا کام نہیں ہے ۔
ادلہ فقہ کا دوسرا ماخذ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
فقہ کا دوسرا ماخذ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس کو خود قرآن پاک نے حجت قرار دیا ہے ، اورمتعدد آیات اس پرشاہد ہیں ۔ اس کی حجیت قرآن کریم سے ثابت ہے : و ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہوا ۔ (سور ہ حشر آیت ۷) حدیث شریف میں قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت دونوں موجود ہیں ۔ ثبوت عقیدہ کے لئے قطعی الثبوت ہونا اور وجوب عمل کے لئے ظنی الثبوت اور رجحان ظن ہونا بھی کافی ہے ۔ دو گواہوں سے قاضی کا فیصلہ ، استقبال قبلہ میں تحری سے نماز پڑھنا یہ سب رجحان ظنی ہی سے ہے ۔ شریعت کے ہر حکم و مسئلہ میں قطعی الثبوت کا التزام ایک حرج ہے اور شریعت میں حرج نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : و ماجعل علیکم فی الدین من حرج ۔ (سورہ حج آیت ۷۸) ۔ بہر حال حدیث شریف کا انکار قرآن مجید کا انکار ہے ۔
سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہٴ عمل کے ہیں ۔ اصطلاح میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال ، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال بھی سنت میں داخل ہیں ، جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے : اَلسُّنَّةُ تُطْلَقُ عَلٰی قَولِ الرَّسُولِ وَ فِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلٰی أقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَأفْعَالِہِمْ ۔ (نور الانوار)
سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال پر ہوتا ہے ۔
صاحب کشف الاسرار لکھتے ہیں : سنت کا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال و افعال نیزطریقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و صحابہ رضی اللہ عنہم کو شامل ہے ۔ (کشف الاسرار، صفحہ 359،چشتی)
ڈاکٹر محمود احمدغازی صاحب لکھتے ہیں : ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہے ، وہ حدیث ہے اور علم حدیث میں شامل ہے ۔ (محاضراتِ فقہ، صفحہ نمبر 20)
(1) فرمان باری تعالیٰ ہے : وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ، اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰوہ نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتا اس کی ہربات ایک وحی ہوتی ہے جو وحی کی جاتی ہے ۔
(2) ’’وَمَااٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘ ۔ اورنبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) تمہیں جو چیز دیں اس کو لے لو اورتمہیں جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ ۔
(3) ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْْلَ فَقَدْاَطَاعَ اللّٰہَ‘‘ ۔ جس نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ ()عز وجل) کی اطاعت کی ۔
(4) یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ ‘‘اے ایمان والو اللہ (عز وجل) کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اطاعت کرو ۔
(5) وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الذِّکْرَلِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ‘‘ ۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی طرف اس قرآن کو اتارا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) لوگوں کے لیئے اس کی وضاحت کریں ۔
(6) اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ ۔ بے شک ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی طرف کتاب کو اتارا سچائی کے ساتھ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) فیصلہ کریں لوگوں کے درمیان ۔
(7) فَلَاوَرَبِّکَ لَایُوؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَبَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْافِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجاًمِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً‘‘ ۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے رب کی قسم وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو فیصل اور حکم تسلیم نہ کرلیں اپنے جھگڑوں میں پھروہ اپنے نفسوں میں کوئی کجی نہ پائیں آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے فیصلہ کے بارے میں اور وہ اپنے آپ کو سپردنہ کردیں سپردکرنا ۔
(8) ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُوؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ‘‘ ۔ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) زیادہ قریب ہیں مومنوں کے ان کی جانوں سے ۔
ان آیات مبارکہ میں حدیث پر عمل کرنے کولازمی قراردیا گیا ہے ،اورخود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی اپنے فرامین میں سنت کو لازم پکڑنے کی تاکید فرمائی ہے :
(1) عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ‘‘ ۔ میرے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) طریقے کو لازم پکڑو اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنہ کے طریقے کو لازم پکڑو ۔
(2) فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَِ منِّیْ‘‘ ۔ جس نے میرے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) طریقے سے اعراض کیا وہ میری جماعت سے نہیں ہے ۔
(3) لَایُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعاًلِّمَاجِءْتُ بِہٖ ‘‘ ۔ کوئی آدمی تم میں سے اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جس کو میں لے کر آیا ہوں ۔
(4) اذاامرتکم بشئ من دینکم فخذوہ‘‘ ۔ جب میں تمہیں تمہارے دین میں سے کسی چیز کے بارے میں حکم دوں تواس کو لے لیاکرو ۔
یہ چند نمونے ہیں قرآن وحدیث کے جن سے سنت کا حجیت ہونا معلوم ہوتا ہے ۔
جس طرح یہ زمانہ دورنبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دور ہوتا جارہا ہے اسی طرح فتنوں کا ظہور بھی اسی تیزی سے ہو رہا ہے ، ایک نیا فرقہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جنہوں نے سنت اور حجیتِ حدیث کا انکار کیا ، اور انہوں نے کہا کہ ہدایت کے لیے رب کا قرآن ہی کافی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم توصرف قرآن پاک کوہی مانتے ہیں ، جوشخص حدیث کو چھوڑ کر یہ کہے کہ میں توبس قرآن کوہی مانتا ہوں وہ اپنے دعویٰ میں ہرگز سچا ثابت نہیں ہوسکتا ہے ، قرآن پاک تو کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات حجت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو حکم فرمائیں اس کو لے لو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت ہی اللہ عز و جل کی اطاعت ہے ، وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فیصل نہ مان لیں ، توقرآن پاک میں تو حدیث اورسنت کو ماننے کا بار بار حکم دیا گیا ہے توجو شخص حدیث اورسنت کو نہیں مانتا وہ در حقیقت قرآن پاک کو ہی نہیں مانتا ، لہٰذا وہ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹا ہے کہ میں قرآن پاک کومانتاہوں ۔ جس طرح سنت ایک دلیل ہے اور اس سے احکام ثابت ہوتے ہیں اسی طرح آثار صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ایک دلیل ہے ، ان سے بھی احکام ثابت ہوتے ہیں اور یہ دلیل اسی دوسری دلیل سنت کا ہی حصہ ہے ۔
فقہ اسلامی کو سمجھنے اور مسائل ِ حاضرہ کے استخراج کے حوالے سے سنت کوبنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ علماء و فقہاء نے تدوینِ فقہ کے حوالے سے سنت کی ان معلومات کا ہونا ضروری قرار دیا ہے : (1) ناسخ و منسوخ (2) مجمل و مفسر (3) خاص وعام (4) محکم و متشابہہ (5) احکامات کے درجے اور مراتب (6) قرآن سے استدلال (7) درایت و روایتِ حدیث کا علم ۔
ایک فقیہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے استخراج کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کی آیاتِ احکام پر جو کہ کم و بیش 500 کے قریب ہیں نظر دوڑاتا ہے ، اگر اس مسئلہ کا حل قرآنِ مجید کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا تو پھر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے تلاش کرتا ہے؛ تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے ۔ سنت میں فقہی مسائل کے استخراج کی کئی مثالیں موجود ہیں :
(1) قرآنِ کریم نے نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حج اور اسی نوع کی دیگر عبادات کا حکم دیا ہے؛ لیکن چونکہ قرآنِ کریم کی مثال Text کی ہے اور اس کی شرح سنت سے معلوم ہوسکتی ہے تو اسی لیے ہمیں نماز کی ادائیگی ، رکعت ، وقت اور اسی طرح دیگر عبادات کی کافی حد تک تشریح سنت سے معلوم ہوگی ؛ چنانچہ ان عبادات کی جزئیات تک رسائی سنت کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں ۔
(2) قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَیَحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتُ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْحَبَائِثَ ۔ (الاعراف، آیت 157) یعنی پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ناپاک چیزیں تمہارے لیے حرام ہیں۔ اب پاک و ناپاک چیزوں کی وضاحت کیسے معلوم ہوگی تو اس کے لیے سنت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور کا گوشت حرام قرار دیا جو شکار کرکے کھاتا ہے تو اس سے حرام جانور کا تعین ہوگیا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ کسی جانور کا شکار کرکے کھائے اسے بھی حرام قرار دیا اور اسی طرح پاک چیزوں کی تعیین بھی کردی ۔
(3) سنت اگر موجود نہ ہوتو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کا معنی لغت یا کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتا ۔ قرآن کریم میں اعتکاف کا تذکرہ آیا ہے ؛ لیکن اعتکاف سے کیا مراد ہے ؟ عاکف کس کو کہتے ہیں ؟ قرآنِ کریم میں اس طرح کے سیکڑوں احکامات موجود ہیں ، جن کی تعبیر و تشریح کے لیے سنت کی تعبیر و تشریح سامنے ہونا ازحد ضروری ہے ۔
(4) قرآن کریم میں تیمم کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن اس کی تفصیلات اور د یگر احکام کی فقہی تعبیر کے لیے سنت کا مطالعہ ضروری ہے ۔
(5) قرآن کریم کا اصول ہے: لاَ تَأکُلُو أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ۔ (النساء، آیت 29)،چشتی)
یعنی ایک دوسرے کا مال غلط طریقہ سے مت کھاؤ ماسوائے اس صورت میں کہ آپس کی باہمی رضامندی سے تجارت اور لین دین ہو ؛ چنانچہ اگر باہم رضامندی سے تجارت یا لین دین ہوتو وہ جائز ہے ؛ لیکن اگر یہی عمل باطل طریقوں سے کیا جائے تو اس کی ممانعت کی گئی ۔ اب یہ قرآن کا عام اصول ہے ؛ لیکن اس کا انطباق کیسے ہوگا اور کن کن صورتوں میں ہوگا ؟ اس حوالے سے بے شمار حدیثوں میں تشریحی نکات ملتے ہیں ۔ مثال کے طور پر حدیث میں اس بیع سے منع کیاگیا ہے ، جس میں کوئی ”مال“ بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو؛ تاکہ فساد سے بچا جاسکے ۔ (اس حوالہ سے بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آئی ہے کہ :”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے اسے نہ بیچے) چنانچہ اگر کوئی شخص درخت پر لگے کچے پھل کی بیع کرتا ہے یا پانی میں موجود مچھلیوں کی بیع کرتا ہے تو چونکہ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں بیع ہوئی مال اس سے زیادہ یا کم نکلے تو اس صورت میں جھگڑے کا اندیشہ ہے ۔ لہٰذا اسلام نے ایسی بیع کی اجازت نہیں دی؛ حالانکہ ظاہراً یہ بھی ایک تجارت ہے ۔
(6) قرآن حکیم میں ارشاد ہے : وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ ۔ (النساء، آیت 23) ، یعنی دو بہنوں سے ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ہے ؛ لیکن حدیث نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بھی ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ؛ اسی طرح بھانجی اور خالہ سے بھی بیک وقت نکاح نہیں ہو سکتا ۔
ان تمام مثالوں سے یہ سمجھنا کہ سنت کا کام محض یہی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی تشریح کردے تو یہ درست نہیں؛ بلکہ سنت کا کام براہِ راست احکام دینا بھی ہے اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں براہِ راست سنت سے معلوم ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر خیارِ شرط کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دی ۔ یعنی ایک شخص اگر کوئی چیز خریدتا ہے اور بیچنے والے سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو تین دن تک میں اس بیع سے رجوع کرسکتا ہوں ۔ اب یہ حکم براہِ راست قرآن کریم میں موجود نہیں ؛ لیکن یہ اسلامی اصولِ بیع کا حصہ ہے اور فقہ حنفی کے مطابق اس پر عمل لازم ہے ۔ اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے سنت کا براہِ راست ماخذِ شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے ؛ چنانچہ اس سے کئی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور کئی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں ۔
ادلہ فقہ کا تیسرا ماخذ اجماع امت
محترم قارئین : اس سے پہلے ہم ادلہ اربعہ میں سے قرآن اور سنّت کے بارے میں عرض کرچکے ہیں اب پیش خدمت ہے ادلہ فقہ کا تیسرا ماخذ اجماع امت امید ہے آپ کو یہ سلسلہ پسند آئے گا اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو اصلاح فرمائیں :
احکام کے استنباط میں قرآن وسنت کے بعد اجماع ایک اہم اور عظیم بنیاد ہے ، نظام معتزلی ، خوارج شیعہ اور غیرمقلدین کے علاوہ پوری امت کا اس پرا تفاق ہے ، اجماع امت کے منتخب اہلِ علم کے اتفاقی فیصلہ کا نام ہے ، اس لیئے اس میں خطا کا احتمال نہیں رہ جاتا ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے : إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ ۔ (ترمذی، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، حدیث نمبر:۲۰۹۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ : میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر متفق نہیں کرےگا (بلکہ اتفاق و اجتماعیت کی وجہ سے اللہ کی نصرت وتائید آتی رہے گی) ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا کہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے یعنی جماعت کے ساتھ اس کی مدد ونصرت ہوتی ہے، اجماع کی اہمیت اس بات سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اجماع اسی امت محمدیہ کی خصوصیت ہے ۔
اجماع کے لغوی معنی
لغت میں اجماع کے دومعنی ہیں :
(1) عزم اور پختہ ارادہ کرنا، جب کوئی شحص کسی کام کا عزم اور پختہ ارادہ کرلیتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے : “اِجْمَعْ فَلَان عَلَی
کَذَا“۔ (ارشاد الفحول:۱۰۹)
ترجمہ : فلاں نے اس کام کا عزم کرلیا ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ“۔ (یونس:۷۱)
ترجمہ : تم سب مل کر اپنے کام کا عزم کر لو ۔
اسی معنی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد مبارک ہے : “مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ“ ۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَا جَاءَ لَاصِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنْ اللَّيْلِ، حدیث نمبر:۶۶۲)
ترجمہ : جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کا عزم اور پختہ ارادہ نہیں کیا اس کا روزہ درست نہیں ہوگا ۔
(2) اجماع کا دوسرا معنی “اتفاق کرنا“ ہے ، اسی کا اعتبار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے : “اِجْمَعَ الْقَوْم عَلَی کَذَا“۔ (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸۰۔ ارشاد الفحول:۱۰۹)
ترجمہ : قوم نے اس کام پر اتفاق کرلیا، مذکورہ دونوں معنی کے درمیان فرق یہ ہے کہ اجماع بمعنیٰ عزم ایک شخص کی طرف سے متصور ہوجاتا ہے؛ لیکن دوسرے معنی کے لیے کم ازکم دوشخصوں کا ہونا ضروری ہے ، اس لغوی معنی کے اعتبار سے بنی نوع انسان کے ہرطبقہ اور ہرقوم میں کسی امر پر اتفاق ہوسکتا ہے؛ خواہ وہ دنیوی ہو یادینی؛ لیکن فقہ اسلامی میں ہرقوم کا اور ہرامر پر اتفاق مراد نہیں ہے؛ بلکہ لغوی معنی کی بہ نسبت اسلامی فقہ اور اس کے دائرے میں اجماع کا مفہوم اور اس کی مراد خاص ہے ۔
اجماع کی اصطلاحی تعریف
علامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : “الاجماع عبارۃ عن اتفاق جملۃ أھل الحل والعقد من امۃ محمد فی عصر من الاعصار علی حکم واقعۃ من الوقائع“۔ (الأحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۲۸،چشتی)
ترجمہ : اجماع نام ہے امت محمدیہ میں سے اہل حل وعقد کا کسی زمانہ میں کسی نئے واقعہ پر اتفاق کرنے کا ۔
تعریف کا حاصل یہ ہے کہ اجماع انہی حضرات کا معتبر ہے جومجتہد اور صالح ہوں، شرافت وکرامت اور تقویٰ وتدین کی صفت سے متصف ہوں اور فسق وفجور سے دور ہوں اور اجماع کا محل اصلاً شریعت کے فروعی یعنی عملی احکام ہیں نیزاس سے ان احکام کا بھی ثبوت ہوتا ہے جو ایمان وکفر کا مدار تو نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن وہ سنت بدعت میں امتیاز پیدا کرتے ہیں ،جیسے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت پر اتفاق کہ اس کے
خلاف رائے بدعت ہے ۔ (اصول البزدوی:۲۴۲۔ نورالانوار:۲۲۳۔ اصول الفقہ لاسعدی:۲۱۴)
وقوعِ اجماع
ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد دورِ صحابہ رضی اللہ عنہ کے صدر اوّل میں اجماع کا انعقاد وحصول آسان تھا ،اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اہل حل وعقد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ سے باہر جا کر دوسرے شہروں میں رہنے بسنے سے روک دیا تھا ؛ تاکہ امورِ سیاست اور علمی مسائل میں ان سے مشاورت کا موقع ہروقت حاصل رہے ؛ لیکن اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ سے باہر دور دراز مقامات میں پھیل گئے اور ان کی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں حجاز ، عراق ، شام اور مصر وغیرہ ممالک میں بڑے بڑے علماء وفقہاء
کی ایک عظیم تعداد پیدا ہوگئی توپھراب مجتہدین کا کسی حکم پر اجماع ممکن العمل نہ رہا ؛ کیونکہ عام علمی مشاورت کا امکان منقطع ہوگیا اور ظاہر ہے کہ کسی ایک شہر کے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہوجانے کو اصطلاح میں اجماع نہیں کہتے؛ بلکہ قابلِ حجت اجماع وہ ہے جو ایک زمانہ کے سارے مجتہدین کا کسی حکم پر متفق ہونا، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے بستے ہوں ؛ یہی وجہ ہے کہ نظری وعلمی حیثیت سے تواجماع ایک حجت ضرور ہے ؛ مگرواقعی عملی اور تاریخی حیثیت سے اجماع کا وقوع اور انعقاد صرف خلافتِ راشدہ کے عصر اوّل تک محدود رہا اور وہ بھی محض معدودے چند مسائل ہیں ۔
حقیقت اجماع
اجماع اصل میں محض رائے ہے ؛ جیسا کہ قیاس رائے ہے ؛ البتہ اجماع وقیاس کے درمیان فرق یہ ہے کہ قیاس کے تحت جورائے ہوتی ہے وہ انفرادی یازیادہ سے زیادہ چند افراد کی ہوتی ہے اور “اجماع“ ایک زمانے کے تمام مجتہدین کی متفقہ رائے کا نام ہے اسی اجتماعیت کی وجہ سے اس کوقیاس پر فوقیت حاصل ہے ۔ (المدخل:۱۹۳۔ اصول الفقہ عبیداللہ الاسعدی:۲۱۲)
بدعتی اور فاسق مجتہد کا اجماع
اجماع میں تقویٰ اور تدین بھی ضروری ہے ؛ کیونکہ ایسے شخص کی رائے اجماع میں قابلِ اعتبار نہ ہوگی جودین کا پابند نہ ہو یادین کی قطعی اور اصولی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہو اور فسق وفجور اور بدعت میں مبتلا ہو ؛ کیونکہ ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں لائق مذمت ہے، امام مالک ، امام اوزاعی ، محمد بن حسن علیہم الرّحمہ وغیرہ ایسے شخص کو اہل ہویٰ وضلال کہتے ہیں اور اس کے اجماع کو معتبر نہیں مانتے ۔ (الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۱/۲۳۷۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۳)
البتہ علامہ صیرفی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ ایسے شخص کا اجماع بھی معتبر ہے ؛ یہی قول
امام غزالی ، علامہ آمدی علیہما الرّحمہ اوردیگر اصولی حضرات کا ہے ؛ کیونکہ فاسق اور اہل بدعت بھی ارباب حل وعقد میں سے ہوتے ہیں اور لفظ “امت“ کے مصداق میں شامل ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ تقویٰ وتدین جب ہوگا تولوگوں کو اس کی رائے پر اعتماد ہوگا، جب تقویٰ کی شرط صرف رائے پر اعتماد کی خاطر ہے توظاہر ہے کہ تقویٰ اگرنہ بھی ہوتب بھی استنباط کی صلاحیت وصحت پر فی نفسہ کوئی اثر مرتب نہ ہوگا ۔ (ارشاد الفحول:۱۳۱۔ المستصفی من علم الاصول
الغزالی:۱/۱۸۳۔ البحرالمحیط:۴/۴۶۷۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۳۲۶)
عامی کی مخالفت یا موافقت کا حکم
جمہور کے نزدیک عوام کے قول کا اجماع میں اعتبار نہ ہوگا چاہے وہ قول موافق ہو یامخالف ؛ کیونکہ اس کے لیے اجتہاد اور فکر ونظر کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے ؛ لہٰذا ان کا قول انعقاد اجماع میں مسموع نہ ہوگا ۔ (ارشادالفحول:۱۳۳۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۱۵۱)
اجماع میں اکثریت واقلیت کی بحث
اجماع کے انعقاد کے لیے پوری امت کے مجتہدین کا متفق الرائے ہونا ضروری ہے، محض اکثریت کی رائے کواجماع کے لیے جمہور کافی نہیں سمجھتے ؛ لیکن ابوبکررازی رحمۃ اللہ علیہ ، ابوالحسن خیاط معتزلی اور ابنِ جریر طبری رحمۃ اللہ کا خیال ہے کہ محض ایک دو آدمی مخالفت کریں تواجماع کے انعقاد پر اس سے کوئی اثرمرتب نہیں ہوگا، بعض حضرات کی رائے ہے کہ موافقین کے مقابلہ میں اگرچہ مخالفین کی تعداد کم ہو ؛لیکن حدتواتر تک پہنچی ہوئی ہو تواجماع منعقد نہیں ہوگا؛ اگرتواتر تک نہیں پہنچی ہو تواجماع منعقد ہوجائے گا ۔ (فواتح الرحموت : ۲/۳۲۲۔ المستصفی الغزالی:۱/۱۷۴)
اقلیت و اکثریت کی اس بحث میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مخالفت اگر اخلاص واجتہاد کی بناء پر ہوتو وہ اجماع کے انعقاد وعدمِ انعقاد میں ملحوظ ہوگی؛ ورنہ اگراخلاص و اجتہاد کے بجائے حب جاہ یا کوئی دوسرا جذبہ مخالفت کے پیچھے کارفرما ہو تو ایسی مخالفت کا بالکل اعتبار نہ ہوگا ؛ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اوّل کے انتخاب کے موقعہ پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی تھی ؛ لیکن وہ معتبر نہیں مانی گئی اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع منعقد ہوئی ۔ (اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۱)
کیا اجماع کسی خطہ کے ساتھ مخصوص ہے
چونکہ “لَاتَجْتَمِعُ أُمَّتِیْ“ میں جو لفظ امت ہے اس کا عموم پوری امت کو شامل ہے اور اجماع کا دائرہ پوری امت کو محیط ہے، اس لیے نہ تومحض اہلِ مدینہ کا اجماع کافی ہے اور وہ نہ صرف اہلِ حرمین کا اور نہ تنہا اہلِ بصرہ وکوفہ کا اور نہ صرف اہلِ بیت کا ۔ (المستصفیٰ للغزالی:۱/۱۵۷،چشتی)
ڈاکٹروہبہ زحیلی نے یہ لکھا ہے کہ کسی مخصوص خطہ کااجماع معتبر نہ ہوگا؛ کیونکہ یہ پوری امت کا اجماع نہیں ہے اجماع وہی معتبر ہے جوپوری امت کا ہو ، علامہ قرافی اور ابن حاجب علیہما الرّحمہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ اجماع کسی بلدہ وخطہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ (فواتح الرحموت:۲/۲۲۲۔ المستصفی للغزالی :۱/۱۸۷)
اجماع کے اعتبار کے لیئے کیا مجتہدین کی موت ضروری ہے ؟
چونکہ زندگی میں انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اجماع کے بعد کسی مجتہد کی رائے میں تبدیلی ہوجائے، جس کی وجہ سے اتفاق باقی نہ رہ سکے، اس لیے اصولی حضرات نے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا اس احتمال سے کہ کسی مجتہد کی رائے بدل سکتی ہے ، اجماع غیرمعتبر ہوگا ؟ اس سلسلہ میں اصولی حضرات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۳۶۶۔ اصول الفقہ الاسلامی :۱/۵۲۷)
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ، اشاعرہ ، معتزلہ اور اکثرشوافع کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کرنے والے مجتہدین کی وفات اجماع کے اعتبار کے لیئے ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ جس لمحہ میں اتفاق وجود میں آتا ہے، اس لمحہ میں اجماع منعقد ہوجاتا ہے، اتفاق ہوجانے کے بعد مسئلہ نزاع سے خارج ہوجاتا ہے اور سب کے لیے لازم ہوجاتا ہے؛ اس لیے بعد میں رائے کی تبدیلی کا کوئی اثر اجماع کے انعقاد پر نہیں پڑےگا؛ یہاں تک کہ اجماع کے متصلاً بعد اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت ورحمت سے مجتہد بن جائے تواس کی بھی رائے کا اجماع کے لیے اعتبار نہیں ہوگا اور یہی موقف صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ جن نصوص سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے ان میں اطلاق ہے، مجتہدین کی وفات کی قید نہیں ہے ، اس لیئے ملا محب اللہ بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے بجا لکھا ہے : “الانقراض لامدخل لہ فی الاصابۃ ضرورۃ“۔
ترجمہ : وفات کا اجماع کی حجت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت اس موقع پر کافی وضاحت سے روشنی ڈالتی ہے ، فرماتے ہیں : “الحجۃ فی اتفاقھم لافی موتھم وقد حصل قبل الموت“ ۔
ترجمہ : اجماع تو ان کے اتفاق سے حجت بن جاتا ہے ، موت سے اس کا کیا سروکار ہے ۔ (نفائس الاصول فی شرح المحصول:۶/۲۷۸۶۔ المستصفی للغزالی :۱/۱۸۲)
حجیتِ اجماع
جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا“ ۔ (النساء:۱۱۵)
ترجمہ : جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا توہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے ۔
آیت بالا میں باری تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت اور سبیل مؤمنین کے علاوہ دوسروں کے سبیل کی اتباع پر وعید بیان فرمائی ہے اورجس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے ؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیرسبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں توان کی ضد یعنی رسول کی موافقت اور سبیل مؤمنین کی اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہوگیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تواس کا حجت ہونا بھی ثابت ہوگیا ، قاضی ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:۴۵۸ھ) اور علامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جولائقِ مطالعہ ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۷۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۱۔ ارشادالفحول:۱۱۳،چشتی)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے : “عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ“ ۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ میری امت کو (یاراوی نے کہا : کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اُمت کو) ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : “فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا
فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ“۔ (مسندِاحمد، حدیث
نمبر۳۶۰۰)
ترجمہ : جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہے ۔
ایک اور موقع سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ“ ۔ (مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ : جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی ۔
ایک جگہ ارشاد ہے : “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً“۔ (مصنف عبدالرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:۳۷۷۹)
ترجمہ : جو جماعت سے الگ ہوجائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی ۔
یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے ، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہوسکتا ہے اور جب ایسا ہوتواجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ، اختصار کی غرض سے اجماع کی حجیت پر صرف ایک آیت اور چند احادیث پیش کی گئی ہیں ؛ ورنہ اور بھی بہت سی روایات ایسی ہیں جن سے اجماع کی حجیت پر روشنی پڑتی ہے ۔
اجماع کی بنیاد
اجماع کے لیئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کسی نہ کسی اصل شرعی پر ہو ؛ کیونکہ اجماع اور قیاس خود کوئی مستقل دلیل نہیں ہیں ، اجماع کے لیئے ضروری ہے کہ اس کی اصل کتاب وسنت یا پھر قیاس میں موجود ہو ، اجماع کی اصل کی ضرورت اس لیئے ہے کہ اہل اجماع بنفسِ نفیس احکام کو بیان نہیں کرسکتے ؛ کیونکہ انشاء شریعت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حاصل ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ جن مسائل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اجماع کیا ہے ان سب میں وہ کسی نہ کسی اصل پر بحث کرتے ہو ئےانہی پر اپنی آراء کی بنیاد رکھتے اور اس طرح اجماع کا انعقاد ہوجاتاہے ، میراث جدہ کے بارے میں صحابہ کرام نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی خبر پر اعتماد کیا اور جمع بین المحارم کی حرمت کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر اعتماد کیا ، اسی طرح حقیقی بھائیوں کی عدم موجودگی میں علاتی بھائیوں کا وراثت میں اعتبار کیا گیا ، اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس تعبیر پر اعتماد کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے : “وَدخولھم فِی عموم الاخوۃ“۔ اور جمہور علماء کرام کا کتاب وسنت کو اجماع کی اصل قرار دینے پر اتفاق ہے ، جیسا کہ سطورِ بالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ، ان میں اجماع کی اساس سنت ہے ۔ (اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۵۔البحرالمحیط:۴/۴۵۰۔ الکوکب المنیر :۲/۲۲۸)
اجماع کی بنیاد قیاس پر
فقہاء کرام علیہم الرّحمہ کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ قیاس واجتہاد بھی اجماع کی اصل بن سکتے ہیں یانہیں ؟ اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں ؛ لیکن دلیل کے اعتبار سے وزنی وہ بات معلوم ہوتی ہے جوعلامہ آمدی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد وقیاس کو بھی اجماع کی اصل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی کئی مثالیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی سے ملتی ہیں ، مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق کرنا یہ محض اجتہاد اور رائے کی وجہ سےتھا ؛ حتی کہ بعض صحابہ کرام نے یہ الفاظ تک کہے : “رضیہ رسول اللہ لدیننا افلا نرضاہ لدنیانا“۔
ترجمہ : اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ جملہ کہا “ان تولوھا ابابکر تجدوہ قویا فی امراللہ ضعیفاً فی بدنہ“ ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۰)
اسی طرح مانعینِ زکاۃ سے قتال کرنے پر ان حضرات کا اجماع ہوا وہ بھی قیاس ورائے کی بناء پر تھا، خنزیر کی چربی کی حرمت پر اجماع اس کے گوشت پر قیاس کے ذریعہ کیا گیا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شراب پینے والے کی حد اسی (80) کوڑے بالاجماع مقرر کی گئی یہ بھی اجتہاد کی روشنی میں تھا ؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اس پر حدقذف جاری کرنی چاہیے ؛ کیونکہ شرب خمر کے بعد عام طور پر تہمت زنی کی باتیں سرزد ہوتی ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ اس پر حد جاری کرنی چاہیے اور اقلِ حد اسی کوڑے ہیں، ان کے علاوہ جنایت کا تاوان قریبی رشتہ داروں کا نفقہ اور ائمہ وقضاۃ کی عدالت کے متعلق جواجماع دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کیا گیا یہ سب بطریق اجتہاد وقیاس تھا ؛ لہٰذا اجتہاد اور قیاس کو بنیاد بناکر جو اجماع کیا جاتا ہے وہ بھی شرعاً قابلِ حجت ہے اور اس کی اتباع ضروری ہے ۔ (الاحکام آمدی:۱/۲۸۰۔ اصول الفقہ اسعدی:۱۶۶۔ نفائس الاصول:۶/۲۸۷۴۔ حیات ابن تیمیہؒ:۶۸۵)
اجماع کی قسمیں
اجماع کی دوصورتیں ہیں “اجماع صریحی اور اجماع سکوتی“ اجماعِ صریحی یہ ہے کہ سب کے سب مجتہدین اپنی رائے کا صراحۃ اظہار کرکے اتفاق کریں اور اجماع سکوتی یہ ہے کہ ایک مجتہد اپنی رائے کا اظہار کرے اور بقیہ حضرات انکار نہ کریں ؛بلکہ خاموش رہیں ، اجماع صریحی بالاتفاق معتبر ہے ؛ لیکن سکوتی معتبر ہے یا نہیں اس سلسلہ میں اصولی حضرات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اجماعِ سکوتی نہ توہرصورت میں معتبر ہے نہ ہرحالت میں قابلِ رد ؛ بلکہ رضا کی علامت کی شکل میں : “السکوت فی معرض البیان بیان“۔ کے اصول کے مطابق معتبر ہونا چاہیے اور اگررضا کی علامت نہ ہو یاانکار کی صراحت ہو تو قابل رد ہونا چاہیے ۔ (ارشاد الفحول:۱۲۷۔ :۱۸۹۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۷۳۔ اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵)
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم بلا اختلاف حجت ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ“۔ (آل عمران:۱۱۰)
ترجمہ : تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے ۔
ایک جگہ اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ“ ۔ (البقرۃ:۱۴۳)
ترجمہ : اور ہم نے تم کوایسی ہی ایک جماعت بنادی ہے جو (ہرپہلو سے) اعتدال پر ہے؛ تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو ۔
اِن آیات کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اور “خیرامت“ اور “امت
وسط“ کا اجماع شرعاً معتبر ہونا ہی چاہیے ؛ نیزبہت سی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف کی ہے مثلاً ایک حدیث میں فرمایا : “وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي“۔ (مسلم، بَاب بَيَانِ أَنَّ بَقَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَانٌ لِأَصْحَابِهِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِهِ أَمَانٌ لِلْأُمَّةِ ،حدیث نمبر:۴۵۹۶،چشتی)
ترجمہ : اورمیرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے نگہداشت ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے : “أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ“۔ (کشف الخفاء:۱/۱۴۷)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے ۔
ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے صدق اور حق پر ہونے کو ظاہر کرتی ہیں ؛ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عادل اور صادق ہونے کی شہادت دینا اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان حضرات کا اجماع معتبر ہوگا ۔
اہلِ مدینہ کا اجماع
جمہور کے نزدیک صرف اہلِ مدینہ کا اجماع حجت نہیں ہے ؛ البتہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ صرف اہلِ مدینہ کا اجماع معتبر ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے بارے میں مدنی آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : “الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ“۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۳۸۵۵۔ كِتَاب الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، بَاب مَاجَاءَ فِي ثَوَابِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ،حدیث نمبر:۷۳۸)
ترجمہ : مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے، مدینہ اپنے خبث کو اس طرح دور کردیتا ہے ، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ اور میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔
لہٰذا خطاء بھی ایک قسم کا خبث ہے ؛ پس جب مدینہ اور اہلِ مدینہ سے خبث منتفی ہے توان سے خطاء بھی منتفی ہوگی اور جب اہلِ مدینہ سے خطاء منتفی ہے توان کا قول صواب اور ان کی متابعت واجب ہوگی؛ لہٰذا اہلِ مدینہ کسی دینی امر پراتفاق کریں گے تووہ سب کے لیے حجت ہوگا اور ان کا اجماع اور اتفاق معتبر ہوگا ؛ نیز مدینہ طیبہ دارالھجرت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے بڑا مرکزِ علم ہے ، مدفن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے احوال سے سب سے زیادہ اہلِ مدینہ واقف ہیں ؛ پس جب مدینہ طیبہ اس قدر خصوصیات پر مشتمل ہے توحق اہلِ مدینہ کے اجماع سے باہر نہ ہوگا اور ان کے اجماع سے متجاوز نہ ہوگا ۔ (المستصفی للغزالی:۱/۱۸۷۔ حیات امام مالک:۳۵۷)
دلائل کا تنقیدی جائزہ
مگرواقعہ یہ ہے مذکورہ باتیں مدینہ اور اہلِ مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ؛ لیکن نہ تو وہ مدینہ کے علاوہ دوسرے مقامات کی فضیلت کی نفی نہیں کرتی ہیں اور نہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مدینہ کے ساتھ خاص ہے ؛ کیونکہ مکۃ المکرمۃ بھی بہت سے فضائل پر مشتمل ہے ، مثلاً بیت الحرام ، رکنِ یمانی، مقامِ ابراہیم ، زمزم ، حجرِاسود ، صفا و مروہ اور دوسرے مناسکِ حج نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مولد ہے ؛ مگریہ سب باتیں اس پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مکہ کے ساتھ خاص ہے ، وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی جگہ کے لوگوں کے اجماع کے معتبر ہونے میں اس جگہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے ؛ بلکہ علم واجتہاد کا اعتبار ہوتا ہے اور علم واجتہاد میں مکہ ، مدینہ اور شرق وغرب سب برابر ہیں ؛ پس صحیح قول کے مطابق اجماع معتبر ہونے
میں صرف علم واجتہاد کا اعتبار ہوگا ،م دنی یا غیرمدنی کا اعتبار نہ ہوگا ۔ (البحرالمحیط:۴/۴۸۳۔ الاحکام لابن حزم:۴/۳۰۳۔ ارشادالفحول:۱۲۴۔ الاحکام آمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمدبن حنبل:۳۵۰)
اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا اجماع
جمہور کے نزدیک اہلِ بیت کا انفرادی اجماع بھی قابلِ حجت نہیں ہے ؛ لیکن روافض میں سے فرقہ “زیدیہ“ اور “امامیہ“اس بات کا قائل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صرف اقرباء کا اجماع معتبر ہے اور وہ حضرات کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عقل تینوں سے استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : “إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا“۔ (الاحزاب:۳۳)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کویہ منظور ہے کہ اے گھروالو ! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہرطرح ظاہراً وباطناً) پاک صاف رکھے ۔
آیت بالا سے وہ اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ کلمہ حصر (اِنَّمَا) کے ذریعہ اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے رجس کی نفی فرمائی گئی ہے اور رجس سے مراد خطاء ہے اب مطلب یہ ہوگا کہ خطاء صرف اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام سے منتفی ہے اور جس سے خطاء منتفی ہوتی ہے وہ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے ؛ لہٰذا اہلِ بیت معصوم عن الخطاء ہوں گے اور معصوم عن الخطاء کا قول صواب اور درست ہوتا ہے اور جوقول صواب ہو وہ قابلِ حجت ہوتا ہے ؛ لہٰذا ان کا قول حجت ہوگا؛ نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دہے : “إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَاإِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي“۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۳۷۱۸،چشتی)
ترجمہ : میں تم میں دوعظیم چیزیں چھوڑوں جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھامے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے ایک “کتاب اللہ“ دوم میرے“اہلِ بیت“۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلالت سے معصوم ہونا کتاب اللہ اور عترتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں منحصر ہے ؛ لہٰذا ان کے علاوہ کوئی اور چیز میں ہدایت نہ ہوگی اور جب ایسا ہے تو ثابت ہوگیا کہ اہلِ بیت کا اتفاق واجماع حجت ہے ۔ اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اہلِ بیت شرف ونسب کے لحاظ سے دوسروں پرفوقیت رکھتے ہیں اور اسباب تنزیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقول وافعال سے یہ حضرات زیادہ واقف ہیں؛ پس اس کرامت و شرافت اور خصوصیت کی وجہ سے اہلِ بیت اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کا اجماع
معتبر ہو ۔
دلائل کا تنقیدی جائزہ
لیکن ان دلائل پر اگرغور کیا جائے توواقعہ یہ ہے کہ ان کا مدعی ثابت ہونا محل تامل ہے ؛ جہاں تک آیت سے استدلال کی بات ہے تواس کی بنیاد اس پر ہے کہ آیت میں رجس سے مراد خطاء ہے ؛ حالانکہ آیت میں رجس سے مراد خطا نہیں ہے ؛ بلکہ رجس سے تہمت مراد ہے اور اس سے باری تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے ہم تہمت دور کرنا چاہتے ہیں اور جہاں تک حدیث کی بات ہے تووہ خبرِواحد ہے اور خود روافض کے نزدیک اخبار احاد اس لائق نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے؛ پس جب اخبار احاد ان کے یہاں عمل کے لائق نہیں ہیں توان سے ان کا استدلال کرنا کیسے صحیح ہوگا؟ اور ان کی دلیل عقلی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجماع میں شرف نسب کا کوئی دخل نہیں ہے ، اس میں توعلم
واجتہاد کی صلاحیت کا اعتبار ہوتا ہے اور یہ باتیں اہلِ سنت کے علاوہ میں بھی
ہوسکتی ہیں اور رہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ مخالطت کا معاملہ تو یہ بات اہلِ بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں میں بھی پائی جاتی تھی جوسفراور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہتے تھے ؛ لہٰذا اس بنیاد پر بھی صرف اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام کا قول حجت نہ ہوگا ؛ بلکہ اہلِ
بیت علیہم السّلام کی طرح دوسرے لوگوں کا قول اور اجماع بھی حجت ہوگا گرصرف اہلِ بیت کا قول حجت ہوتا جیسا کہ روافض کہتے ہیں توجنگ “صفین“ کے موقع پر حضرت علیؓ اپنے مخالفین پرنکیرفرماتے اور یہ کہتے کہ صرف میرا قول حجت ہے اور میں معصوم ہوں؛ حالانکہ حضرت علیؓ نے یہ نہیں فرمایا اور نہ مخالفین اپنی مخالفت سے باز آئے، الحاصل یہ قول بھی درست نہیں ہے ۔ (المسودۃ فی الفقہ:۳۷۰۔ الاحکام آمدی:۱/۳۵۷۔ ارشاد الفحول:۱۲۴۔ الاحکام للآمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمد بن حنبلؒ:۳۵۰)
کن چیزوں میں اجماع کا اعتبار ہے ؟
اجماع کا تعلق خالص دینی اور شرعی امور سے ہے الفاظ کے لغوی معنی کے سلسلے میں اجماع کا اعتبار نہیں، عقلی اور دنیوی امور وتدابیر میں بھی اجماع کا اعتبار نہیں ؛ کیونکہ ایک مکلف کے افعال سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ۔ (اصول الفقہ للخضری:۲۸۱۔ فواتح الرحموت:۲/۲۴۶)
اجماع کا حکم
اجماع کا حکم یہ ہے کہ اگرکوئی اجماع قطعی کا انکار کرے تووہ کافر ہوجائیگا ، بعض اصولیین نے یہ تفریق کی ہے کہ اگرضروریاتِ دین پر اجماع ہوا ہوا اور وہ عوام وخواص کے درمیان متعارف ہوتو ان کا منکر کافر ہوگا ؛ لیکن جواجماع اس قبیل سے نہ ہوتو اس کے منکر کو کافر قرار نہیں دیا جائیگا ، جیسا کہ بعض مسائل وراثت پر اجماع ہوا ہے اور فخرالاسلام بزدوی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس مسئلہ پر اجماع ہوا ہو اس کا کوئی انکار کرے جیسے مانعینِ زکاۃ سے قتال وغیرہ تواس کو کافر شمار کریں گے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کے لوگوں کا اجماع کا کوئی منکر ہوتو وہ گمراہ اور ضال ہوگا ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲/۴۹۔ اصول البزدوی:۲۴۵۔ البحرالمحیط:۴/۵۲۴)
علامہ ابن تیمیہ اور اجماع
علامہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک حجت ہونے کے اعتبار سے کتاب وسنت کے بعد اجماع کا درجہ ہے ؛ چنانچہ لکھتے ہیں : فقہاء، صوفیہ اور عامۃ المسلمین کے نزدیک بالاتفاق اجماع حجت ہے ؛ البتہ اہلِ بدعت مثلاً معتزلہ اور شیعہ وغیرہ اس کے مخالف ہیں ۔ (الرسائل والمسائل:۵/۲۱۔ حیات ابنِ تیمیہ :۶۸۷)
اسی لیئے علامہ ابنِ تیمیہ نے کئی مسائل میں اجماع کا حوالہ دیا ہے ، مثلاً وہ ایک جگہ لکھتے ہیں حضرت امیرمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا ایمان نقل متواتر سے ثابت ہے اور اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳)
ایک جگہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی پاک بازی کے متعلق لکھتے ہیں : یہ تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سلف علیہم الرّحمہ کے اجماع سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳،چشتی)
ایک جگہ لکھتے ہیں : کئی اہل علم نے اس بات پر علماء کا اجماع ذکر کیا ہے کہ
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اعلم تھے ۔ (فتاویٰ:۴/۳۸۹)
مذکورہ عبارتوں کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ ابنِ تیمیہ دوسرے تمام اہلِ سنت و جماعت کی طرح اپنی تالیفات میں “اجماع“ سے استدلال کرتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ جس امر پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم اجماع کرلیں ان کا انکار کرنا زندقہ اور نفاق ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے ۔
غیرمقلدین اور اجماع
غیرمقلدین کی ایک گمراہی یہ ہے کہ وہ اجماع کے منکر ہیں ، ان کے نزدیک اسلامی عقیدہ کے اصول صرف کتاب وسنت ہیں ؛ حتی کہ وہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی منکر ہیں ان کا یہ عقیدہ بھی شیعوں کے ساتھ توافق اور مسلکی موافقت کا مظہر ہے ، شیعہ ، معتزلہ اورغیرمقلدین کے علاوہ کوئی فرقہ ہمارے علم میں ایسا نہیں کہ جس نے اجماع کا انکار کیا ہو وہ اجماع کہ جس کے اصول دین ہونے پر حضراتِ صحابہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور پوری امت کا اتفاق ہے ، علامہ ابنِ تیمیہ روافض پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :“اجماع روافض کے نزدیک حجت نہیں ہے“ ۔ (منہاج السنۃ:۳/۲۶۶)
بہرِحال انکار اجماع روافض کا مذہب ہے اہلِ سنت کا مذہب نہیں ؛ غیرمقلدین بھی اس مسئلہ میں شیعوں کے ساتھ ہیں، ان کے عقیدوں کی تفصیل نواب نورالحسن صاحب نے “عرف الجادی“میں کی ہے ؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : “دین اسلام کی اصل صرف دو ہیں : کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اجماع کوئی چیز نہیں ہے اور لکھتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجماع کی اس ہیئت کو دلوں سے نکال دیں جو دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے جواجماع کا دعویٰ کرتا ہے تواس کا یہ دعویٰ بہت بڑا ہے ؛ کیونکہ وہ اس کوثابت نہیں کرسکتا ۔ (عرف الجاری:۳)
ایک اور جگہ رقمطراز ہیں : “حق بات یہ ہے کہ اجماع ممنوع ہے“۔ (عرف الجادی:۳)
یہ تو تھاغیرمقلدین کا عقیدہ ؛ لیکن اس بارے میں سلفیوں کا عقیدہ غیرمقلدین
کے بالکل برخلاف ہے ، سلفی حضرات اجماع کوایک دلیلِ شرعی سمجھتے ہیں ۔ (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی،الاصل الثالث،فی الاجماع،۱/۷۳)
علامہ ابنِ تیمیہ کی کتابیں پڑھنے والوں پریہ بات مخفی نہیں ہے ۔
اجماع کی چند مثالیں
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صرف دورات تراویح با جماعت پڑھیں ، اس کے بعد یہ فرماکر تراویح پڑھنی چھوڑ دی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے (بخاری شریف:۱/۱۵۲)
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین عملاً وقولاً اختلاف رہا ؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پورے رمضان مواظبت کے ساتھ بیس رکعات باجماعت تراویح پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا ۔ (نصب الرایۃ:۲/۱۵۳،چشتی)
(2) ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو یاتین ہی واقع ہوں ، یہ مسئلہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مختلف فیہ رہا ؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا اور اس کے بعد سے جمہور اس پرمتفق چلے آرہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں ۔ (مسلم شریف:۱/۴۷۸)
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نمازِ جنازہ کی تکبیرات پانچ بھی
منقول ہیں اور سات، نو اور چار بھی ؛ اسی لیئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اس میں اختلاف رہا ہے ، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ تم صحابہ کی جماعت ہو کر اختلاف کر رہے ہو تو تمہارے بعد آنے والوں میں کتنا شدید اختلاف ہوگا ؛ پس غور و خوص کرکے چار تکبیرات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوگیا ۔ (بدائع للکاسانی:۲/۳۱۲)
(4) اگرکوئی شخص متعدد بار چوری کرے اور ایک مرتبہ میں اس کا دایاں ہاتھ اور دوسری مرتبہ میں اس کا بایاں پیرکٹ چکا ہو اور پھرتیسری اور چوتھی بار چوری کرے تواس کے ہاتھ و پیر کاٹ کر سزادیجائے یاقطع کے علاوہ دیگر کوئی سزا دی جائے اس سلسلہ میں اختلاف رہا ہے ، اس کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ایک صورت متعین فرمادی کہ تیسری چوتھی مرتبہ میں قطع نہ ہوگا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر سکوت اختیار کیا ؛ پس یہی توارث
ہوگیا ، اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (بدائع للکاسانی:۶/۴۰۔ دارِقطنی:۳/۸۰۔ السنن الکبریٰ:۸/۲۴۵)
(5) جماع بدون الانزال کے موجب غسل ہونے میں ابتداً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف تھا ؛ چنانچہ انصار وجوب غسل کے قائل نہیں تھے اور مہاجرین وجوبِ غسل کے قائل تھے ؛ لیکن جب حضرت عمر نے انصار ومہاجرین دونوں کو جمع کرکے پوری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو وجوبِ غسل پر آمادہ کیا توحضرت عمر رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ پر سب متفق ہوگئے اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی ۔ (طحاوی شریف:۱/۴۷،چشتی)
(6) امام طحاوی اور امام بیہقی علیہما الرّحمہ نے علقمہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک زمین جوبصرہ میں تھی حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کی ، کسی نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کو اس معاملہ میں خسارہ ہوگیا ہے ، یہ سن کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اختیار ہے ؛ کیونکہ میں نے بغیر دیکھے زمین خریدی ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے
کہا گیا کہ آپ کو خسارہ ہوگیا ؛ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اختیار ہے ؛ کیونکہ میں
اپنی زمین بغیر دیکھے فروخت کی ہے ، دونوں حضرات نے جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کو حکم مقرر کیا ، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ طلحہ کو خیار رؤیت حاصل ہے ، عثمان کو حاصل نہیں ہے ، یہ واقعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں پیش آیا ؛ مگر کسی نے نکیر نہیں کی ، گویا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع منعقد ہوگیا کہ خیار رویت مشتری کوحاصل ہوگا بائع کو حاصل نہ ہوگا ۔ (ہدایۃ:۳/۳۶)
کیا اجماع کی اطلاع ممکن ہے ؟
ابومسلم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد کے اجماع کی اطلاع متعذرہے ؛ کیونکہ مجتہدین کسی ایک شہر میں نہیں رہے اور نہ ہیں ؛ بلکہ شرق سے غرب تک پھیلے ہوئے ہیں ، ان سب کی آراء کوحاصل کرنا عقلاً ممکن ہونے کے باوجود واقعاتی طور پر مشکل ہے،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ ابن تیمیہ اور آپ کے شاگرد حافظ ابن القیم اور ظاہریہ کا بھی یہی خیال ہے امام احمدؒ نے تویہاں تک فرمایا ہے کہ : “مَنْ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ فَهُوَ كَاذِبٌ، لَعَلَّ النَّاسَ اخْتَلَفُوا، مَايُدْرِيهِ ، وَلَمْ يَنْتَهِ إلَيْهِ؟ فَلْيَقُلْ:لَانَعْلَمُ النَّاسَ اخْتَلَفُوا“۔ (ارشادالفحول:۱۱۱)
ترجمہ : جوکوئی اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے ،ممکن ہے کہ لوگوں کااس میں اختلاف ہو اور اس کی اطلاع اس کو نہ ملی ہو، ایسی حالت میں یہ کہنا چاہیے ہمیں لوگوں کے اختلاف کا علم نہیں ہے ۔ لیکن اکثر علماء کرام کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کی اطلاع ممکن ہے ، ہربلدہ وخطہ کا والی اپنے یہاں کے مجتہدین کو جمع کرکے ان کی رائے لے یا مراسلات کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کر کے ان کی آراء حاصل کر لے ، اس طرح اجماع کی اطلاع مل سکتی ہے ، ماضی میں جواجماع ہوئے کتابوں کے ذریعہ ان کی اطلاع تو ہے ہی ، اس زمانہ میں ذرائع ابلاغ کی بہتات ہے اور اس کی سہولتیں ہیں ، ان سے فائدہ اٹھایا جائے توحال میں ہونے والے اجماع کی بھی اطلاع بآسانی مل سکتی ہے ۔ (فقہ اسلامی خدمات و تقاضے:۱۹۰۔ البحرالمحیط:۴/۴۲۸۔ الاحکام آمدی:۱/۲۸۵۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۷۵۔ حیات امام ابن القیم:۲۹۲)
ادلہ فقہ کا چوتھا ماخذ قیاس
قیاس کالغوی معنی اندازہ لگاناہے ۔ اوراصطلاح شرع میں'' کسی منصوص علیہ مسئلہ میں پائی جانے والی علت کے ذریعے غیر منصوص علیہ مسئلہ کا حکم معلوم کرنا جبکہ وہ علت دونوں میں مشترک ہو'' قیاس کہلاتا ہے ۔
قیاس کی مثال
نص سے یہ بات ثابت ہے کہ غلاموں کو گھروں میں آنے کیلئے اجازت کی ضرورت نہیں کیونکہ انکی آمد و رفت کثرت سے ہوتی ہے لہذا بار باراجازت لینے میں حرج کے سبب ان سے حکم استئذان اٹھا لیا گیا تو اس پر قیاس کرتے ہوئے بلی کے جھوٹے سے ناپاکی کے حکم کو اٹھا لیا گیا کیونکہ اس کا بھی گھروں میں کثرت سے آنا جانا ہے اور نجاست کا حکم باقی رکھنے میں حرج ہے ۔
قیاس کا حکم
قیاس دلائلِ شرعیہ میں سے ایک دلیل شرعی ہے اور اس پر عمل واجب ہے جب تک کہ کسی مسئلے میں اس سے اوپر کی کوئی دلیل نہ پائی جائے ۔
قیاس لغت میں ”تقدیر“ یعنی اندازہ لگانے کوکہتے ہیں ۔ عربی زبان میں کہاجاتاہے : قست الثوب بالزراع، یعنی میں نےکپڑے کومیٹر سے ناپا ۔ اصطلاح میں قیاس سے مراد ہےاشتراک علت کی بناء پرحکم منصوص کوغیر منصوص میں جاری کرنا۔ یاقرآن وسنت میں صراحت سے بیان کیے ہوئے حکم کوایسی چیز میں جاری کرنا جس کاحکم صراحتاً مذکور نہیں۔ اس بناء پر کہ قرآن وسنت میں بیان کیے ہوئے حکم کی علت اس چیز میں بھی پائی جاتی ہے ۔
مزید وضاحت کیلیے قرآن وحدیث میں سے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورۃ المائدہ آیت نمبر90)
ترجمہ : اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔
اس آیت کی رو سے شراب حرام ہے ۔ اس کی حرمت کی علت نشہ پیدا کرنا ہے ۔ لہٰذا یہ علت جس میں بھی پائی جائےگی اس پرشراب کا حکم نافذ ہوگا اور وہ حرام ہے ۔
حدیث مبارک
جامع ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک حدیث شریف میں ہے : من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ۔ (جامع الترمذی رقم حدیث 1291)
ترجمہ : جو شخص خوراک خریدے اور وہ اس کواس وقت تک نہ بیچے، جب تک کہ وصول نہ کرلے ۔
اس حدیث معلوم ہوا کہ غلہ خرید کرقبضہ سے پہلے اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے ۔ اس کی علت یہ ہے کہ خریدا ہوا غلہ بھی قبضہ کے ذریعے خریدار کے قبضہ اور تصرف میں نہیں آیا ۔ اگر غلہ کے علاوہ کوئی اور چیز خریدی گئی ہو اوراس پر خریدار کا قبضہ نہ ہواہو تو خریدار کے قبضہ میں داخل نہ ہونے والی علت اس میں بھی موجود ہے ۔ لہٰذاغلہ کے علاوہ دیگر اشیاء کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے کہ خریدنے کے بعد جب تک ان کو وصول نہ کیا جائے ، آگے بیچنا جائزنہیں ہے ۔ چنانچہ کہا جائےگا کہ غلہ کے علاوہ دیگر اشیاء کا یہ حکم حدیث میں مذکورہ طعام کے حکم پرقیاس فرمانے کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمایا کرتےتھے : وأحسب كل شيء مثله ۔ (جامع الترمذی رقم حدیث 1291،چشتی)
میری رائے میں ہرچیز کا حکم طعام کی طرح ہے ۔
”قیاس“ قرآن کریم کی روشنی میں
قرآن کریم میں ہے : فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ۔ (سورہ حشر)
ترجمہ : تو عبرت لو اے نگاہ والو ۔
اس آیت میں ”اعتبار“ کا حکم ہے مفسرین نے ”اعتبار“ کی تفسیر اس طرح کی ہے:
رد الشيء إلى نظيره بأن يحكم عليه بحكمه ۔ (روح المعانی ج 28 ص 42، اصول السرخسی ج 2 ص 125)
یعنی چیز کو اس کی نظیر (مثال) کی طرف لوٹانا تاکہ نظیر کا حکم اس چیز پر بھی جاری کیا جاسکے ۔ قیاس کی حقیقت بھی یہی ہے ، لہٰذا قرآن کریم کے اس ”اعتبار“ کے حکم میں قیاس بھی شامل ہے ۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں قیاس کےبل بوتے احکام کو ظاہر کیا گیاہے ۔
حافظ ابن قیم (المتوفیٰ 751ھ) لکھتے ہیں : اس قسم کی آیات جن میں قرآن کریم قیاس کے طریقے سے دلیل پیش کررہا ہے ، چالیس سے زیادہ ہیں ۔ (اعلام الموقعین ج 1 ص 130)
مثال کے طورپر إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے ۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے کو حضرت آدم علیہ السلام کے بغیر ماں باپ پیدا ہونے پر قیاس کیا گیا ہے اور بھی کئی مثالیں موجودہیں ۔
”قیاس“ احادیث کی روشنی میں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوال کیا إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا کہ میری والدہ نے حج کی نذر (منت) مانی تھی اور اب ان کا انتقال ہوگیاہے ۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ قَالَآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ فَقَالَ اقْضُوا اللّهَ الَّذِي لَهُ فَإِنَّ اللّهَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ ۔ (بخاری شریف رقم حدیث 7315،چشتی)
ہاں ! تم والدہ کی طرف سے حج کرسکتی ہو ۔ بھلایہ بتاؤ کہ اگرتمہاری والدہ پرقرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتی ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : توپھر اللہ کا قرض بھی اداکرو اس لئیے کہ اللہ تعالیٰ ادائیگی کا زیادہ حقدارہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی بیوی نے ایک سیاہ رنگ کے بچےکو جنم دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس سے پوچھا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : ان کےرنگ کون کون سے ہیں ؟ عرض کیا : سرخ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا کیا ان اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے وہ کہاں سے آ گیا ؟ اس نے جواب دیا کہ ممکن ہے وہ کسی رگ کے فساد کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : وہی رگ کا فساد یہاں بھی پایا جا سکتا ہے ۔ (عمدۃ الاحکام ج 1 ص 118)
اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نوزائیدہ بچے کے سیاہ رنگ کو اونٹ کے خاکستری ہونے پرقیاس فرمایا اور یوں صحابی کو سمجھا دیا کہ وہ اپنی بیوی پر بدگمانی مت کرے ۔
مندرجہ بالا روایات اس بات کی طرف واضح طور پر نشاندہی کر رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زندگی مبارک میں خود قیاس فرماکر امت کے مجتہدین کے لیئے قیاس سے کام لینے کی اجازت عطافرمائی ہے ۔
”قیاس “اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں
یہ بات محتاج ثبوت نہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسائل میں قیاس فرماتے تھے اور ان کا قیاس کرنا انتہائی مشہور ہے ۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بے شمار مسائل میں قیاس کیا ۔ کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قیاس کرنے پر اعتراض کیا ہو یا اس کی تردید کی ہو ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قیاس کے شرعی دلیل ہونے پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع ہے ۔
قیاس اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء کی آیت میں جو کلالہ کا ذکر ہے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : میں اپنے قیاس سے اس کے بارے میں بتاتا ہوں کہ کلالہ سے اولاد ، باپ اور دادے کے علاوہ رشتہ دار مرادہیں ۔ (اعلام الموقعین ج 1 ص 204)
قیاس اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قاضی شریح کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : تم اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کرو۔ اگر اللہ کی کتاب کا ہرپہلو تمہارے علم میں نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق فیصلے کرو ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تمام فیصلے تمہارے علم میں نہ ہوں توہدایت یافتہ ائمہ کے جو فیصلے تمہارے علم میں ہوں ان کےمطابق فیصلے کرو اور اگر ائمہ کرام کے تمام فیصلے بھی تمہارے علم میں نہ ہوں تومسئلہ کے نظائر ڈھونڈو اور قیاس کرو ۔ (اعلام الموقعین ج 1 ص 204،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں شراب پینے کی سزا کے بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ قیاس کی روشنی میں یہ مشورہ دیا کہ شراب پینے کی سزا 80 دُرِّے (کوڑے ) مقرر کیے جائیں ۔
ان چند مثالوں کے علاوہ بے شمارمسائل ایسے ہیں جن میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قیاس کرکے مسئلہ بتایا ۔ مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو نماز کی امامت پر قیاس کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہمارے دین یعنی ہماری نماز کی امامت کےلیئے پسند فرمایا تو کیا ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پانی دنیا کےلیئے پسند نہ کریں ۔ اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کرتے وقت زکوٰۃ کو صلوٰۃ پر قیاس کیا ۔
”قیاس“ عقلی دلائل کی روشنی میں
قیاس انسان کی ایک فطرت ہے ۔ کوئی فطرت سلیمہ رکھنے والا عقلمند شخص قیاس کا انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ روزمرہ کے بے شمار واقعات ہیں ہرانسان ایک واقعہ کو دیکھ کر اس سے ملتے جلتے واقعات کا حکم سیکھتا ہے ۔ حتی کہ بچے تک قیاس سے واقف ہیں ۔ مثلاً کلاس میں استاد صاحب ایک بچے کوکسی غلطی پر ڈانٹتے ہیں تو اس کو دیکھ کر دوسرے بچے بھی سنبھل جاتے ہیں کہ یہی غلطی ہم سے ہوئی تو ہمیں بھی ڈانٹ پڑے گی ۔ یہ قیاس نہیں تو اورکیا ہے ؟
اس سے معلوم ہوا کہ قیاس ایک فطری چیزہے ۔ زندگی میں پیش آنے والے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا حکم فقہائے امت نے قیاس کے ذریعے معلوم کیا ہے اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں ۔ اگرقیاس کو بطور دلیل شرعی تسلیم نہ کیاجائے تو ان مسائل میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہیں ۔ کیونکہ ان مسائل کا حکم قرآن و سنت میں مذکور نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیاس کا انکار کرنے سے دین میں تعطل پیدا ہوتا ہے ۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ دین ایک کامل ضابطہ حیات ہے ۔
یہ بھی معلوم ہے کہ تمام مسائل کا حکم صراحتاً قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے ۔ اب یہ بات کہ دین کامل ضابطۂ حیات ہے ۔ اسی وقت درست ہوسکتی ہے جبکہ قیاس سے مسائل کا حکم معلوم کرنے کو تسلیم کرلیا جائے ۔ ورنہ جن مسائل کا حکم قرآن و سنت میں صراحتاً مذکور نہیں اور قیاس کے ذریعے ان کا حکم معلوم کرنا بھی درست نہ ہو تو ان مسائل کے سلسلے میں دین کی کوئی رہمنائی نہ رہے گی اور پھر اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات کیونکر رہ سکے گا ۔
ضروری بات : دین کے مسائل میں قیاس کرنے کی ہرشخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی ، اس کےلیئے بھی اہلیت کا ہونا ضروری ہے ۔ اور وہ اہلیت قرآن و سنت اور تاریخ اسلامی پر مضبوط دسترس کا نام ہے ۔ ورنہ ہر ایرا غیرا اگر دین کے مسائل میں قیاس شروع کر دے تو دین کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ جائے ۔ اس اہلیت کے اہل درحقیقت حضرات مجتہدین ہیں ۔ یعنی مجتہد کا قیاس دلیل شرعی ہے ۔ ہر عام آدمی کا نہیں ۔
حجت رائے و قیاس اور غیر مقلدین
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے محدث عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں : اس حدیث سے قیاس کی مشروعیت ثابت ہے ۔ (تحفۃ الاحوذی ج 2 ص 43)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں : سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کتاب اللہ پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور پھر آثار ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فیصلہ کرتے تھے اور اگر کوئی مسئلہ ان سے نہ ملتا تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرتے تھے ۔ (فتاویٰ علمیہ ص 22)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے امام شوکانی صاحب شرعی دلائل کی ترتیب میں لکھتے ہیں : سب سے پہلے قرآن اس کے بعد سنت اس کے بعد اجماع اور آخر میں قیاس ۔ (فقہ الحدیث ج1 ص 105)
دوسری طرف غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے کے مولوی نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں : اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ (عرف الجادی ص 3)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے عبد المنان نوری پوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں : اجماع و قیاس کا قانون سازی کی بنیاد ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ۔ (مکالمات نور پوری ص 85)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے کے امام العصر محمد جونا گڑھی صاحب اپنی جہلات بکھیرتے ہوئے لکھتے ہیں : تعجب ہے جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل اور حجت سمجنے لگے ۔ (طریق محمدی ص 40-41)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیرمقلد پر پوری فٹ آتی ہے وہ لکھتے ہیں : ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال منصل جو کچھ کہو زیبا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہری معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ (تاریخ اہل حدیث ص164)
یہ تمام باتیں کافی ہیں غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کا عمل بالحدیث اور صرف قرآن حدیث کے جھوٹے نعرے اور دعوے کی پول کھولنے کیلئے ۔ اور یہ لوگ ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کی تقلید سے نکال کر صرف اپنے جاہل مولویوں کی تحقیق کے
پیچھے لگاتے ہیں ۔ اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوح کروانا ہے تو آئمہ اربعہ علیہم الرّحمہ میں کیا خرابی ہے ؟ غیر مقلدین اہلحدیث عوام کو اس بات میں غور کرنا چاہئے کہ ان کے علما آئمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کی تقلید سے ہٹا کر کوئی اللہ عز وجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ اپنی اپنی تحقیق کے پیچھے آپ لوگوں کو چلا رہے ہیں ۔
مورخ اسلام علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 808 ھ) لکھتے ہیں : جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلید کرتا ہے اس کے ساتھ رہے۔اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کے مذاہب آگے نقل کیئے جائیں ۔ (مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 448 مصر) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آپکا سارا تبصرہ تو میں نہیں پڑھ پایا مگر سب سے اوپر جو حدیث مبارکہ کی فوٹو لگی ہے سنن ابنِ ماجہ میں اس نمبر پر یہ حدیث موجود نہیں ہے اس کی وضاحت فرما دیں کہ کیا حدیث کے نام پر اپنے پاس سے ہی لکھ دیا گیا ہے یا کچھ اور
ReplyDelete