عقیدہ علم غیب اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا سر مبارک میری گود میں تھا اور رات روشن تھی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ جی ہاں ! وہ عمر ہیں ، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں ۔‘‘حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :’’میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پھر میرے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نیکیاں کس درجہ میں ہیں ؟‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے برابر ہیں ۔ (مشکوٰۃالمصابیح، کتاب المناقب، الفصل الثالث، الحدیث:۶۰۶۸، ج۳، ص۳۴۹)
منکرین کیا کہتے ہیں اب اگر بقول تمہارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں جس نے یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں وہ جھوٹا ھے تو خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال کیوں کیا ؟
حدیث بخاری کا جواب : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تینوں باتیں اپنی ظاہری معنٰی پر نہیں ہیں آپ کے یہ قول اپنی رائے سے ہیں ۔ اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں رب تعالٰی کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت پیش فرمائی ۔ اور اب تک جمہور اہل اسلام اس کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دیکھو اس کی تحقیق مدارج اور نسیم الریاض وغیرہ میں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن سوری النجم میں اسی طرح صدیقہ کا فرمانا کہ حضور علیہ السلام نے کوئی چیز نہ چھپائی۔ اس سے مراد احکام شرعیہ تبلیغیہ ہیں۔ ورنہ بہت سے اسرار الہیہ پر لوگوں کع مطلع نہ فرمایا ۔
مشکوٰۃ کتاب العلم دوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضور علیہ السلام سے دو قسم کے علوم ملے ۔ ایک وہ جن کی تبلیغ کر دی۔ دوسرے وہ کہ تم کو بتاؤ تو تم میرا گلا گھونٹ دو ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسرار الہیہ نا محرم سے چھپائے گئے۔ اسی طرح صدیقہ کا یہ فرمانا کہ کل کی بات حضور علیہ السلام نہیں جانتے تھے۔ اس سے مراد ہے بالذات نہ جاننا اور صدہا احادیث اور قرآنی آیات کی مخالفت لازک آوے گی۔ حضور علیہ السلام نے قیامت کی، دجال کی، امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت بلکہ امام حسین کی شہادت کی، جنگ بدر ہونے سے پیشتر کفار کے قتل کی، اور جگہ قتل کی خبر دی ۔ نیز اگر صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے ظاہری معنٰے کئے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کہ وہ بہت سے غیوب کا علم مانتے ہیں اور اس میں بالکل نفی ہے۔ مجھے آج یقین ہے کہ کل پیچشنبہ ہوگا۔ سورج نکلے گا، رات آوے گی۔ یہ بھی تو کل کی بات کا علم ہوا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معراج جسمانی کا بھی انکار فرمایا ۔ مگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ واقعہ معراج انکے نکاح میں آنے سے پیشتر کا ہے۔ جو اب تک ان کے علم میں نہ آیا تھا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم : صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب وهو يقول ( لا تدرکه الابصار )
ترجمہ :مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکه الابصار۔
آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر:7380 )
اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔
جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے : عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدرکه الابصار و هو يدرک الابصار قال و يحک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔ ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے ۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767) ۔ ( طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
No comments:
Post a Comment