Friday, 1 December 2017

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم
ہر ذی عقل یہ جانتا ہے کہ جو ذات جتنے بڑے منصب پر فائز ہوتی ہے اس کے اختیارات اتنے ہی وسیع ہوتے ہیں چنانچہ ایک وزیر اعظم کے اختیارات وزیر اعلیٰ سے اور صدر جمہوریہ کے اختیارات وزیر اعظم سے بڑھ کے ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے پیغمبر اعظم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بڑا منصب کسی کو عطا نہ فر مایا۔اس لحاظ سے پوری کائنات میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے زیادہ اختیارات بھی اللہ تعالی نے کسی کو نہ دیا۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے مگر کچھ لوگوں کو اس میں شک ہی نہیں صاف انکار ہے۔زیر نظر مضمون میں قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں اس حقیقت کو ثابت کیا گیا ہے۔پڑ ھئے اور خود فیصلہ کیجئے۔
اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ آپ جس چیز کو چاہیں حلال کر دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام قرار دیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺکی اس شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فر مایا کہ:ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ۔(یہ نبی) ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا۔(سورہ اعراف،آیت: ۱۵۷)
اور اپنے محبوب کی اس شان کو نہ ماننے والوں سے مسلمانوں کو لڑنے کا حکم دیا ۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔قاتلوا الَّذِیْنَ لایؤمنونَ باللّٰہِ ولا بالیوم الاٰخر ولایُحرِّمونَ ماحرَّ م اللہ ورسولہ۔ لڑوان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور حرام نہیں مانتے ان چیزوں کو جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ۔(سورہ توبہ،آیت:۲۹)
مزید مسلمانوں کو حکم فر مایا کہ: وما اٰتکٰم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ فانتھوا۔واتقوااللہ ان اللہ شدید العقاب۔ اور رسول جو تمہیں دیں لے لو اور جس چیز سے منع فر مائیںرک جائو،اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔(سورہ حشر،آیت:۷)
ان تمام آیات کریمہ سے صاف اور واضح طر یقے سے معلوم ہوگیا کہ حضور اکرم ﷺکو کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیا ر تھا ۔جس میں شبہہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
حدیثوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو اللہ تعالی نے یہ اختیا ر عطا فرمایا تھا ۔ یہاں پر بطور اختصار چند حد یثیں پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: قریب ہے کہ ایک شخص اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے سامنے میری حدیثوں میں سے کوئی حدیث بتائی جائے گی تو وہ یہ کہے گا :ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالی کی کتاب کافی ہے ۔ہم جو اس میں حلال پائیں گے اسے حلال مانیں گے اور جو حرام پائیں گے اسے حرام مانیں گے،(حضو ر صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا)سنو!بے شک وہ چیزیں جسے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم)نے حرام قرار دی ہیں وہ ایسے ہی حرام ہیں جسے اللہ نے حرام قرار دیا۔(ترمذی،کتاب العلم،باب مانھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم،حدیث:۲۶۶۴۔ابن ماجہ،باب تعظیم حدیث رسول اللہ ﷺ والتغلیظ علی من عارضہ، حدیث:۱۲)
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے لو گوں کو خطبہ دیا تو ارشاد فر مایا:بے شک اللہ عز وجل نے تم پر حج کرنا فرض قرار دیا ہے۔حضرت اقرع بن حابس تیمی رضی اللہ عنہ نے کہا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم!کیا ہر سال؟تو سر کار علیہ السلام خاموش رہے،تین بار سوال کرنے کے بعد،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو واجب ہو جا تا ۔(ترمذی ،کتاب الحج عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء کم فر ض الحج، حدیث :۸۱۴، ابن ماجہ،حدیث:۲۸۸۴)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّمنے فر مایا:اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا۔(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ ،باب السواک ،حدیث: ۲۵۲،ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ وسننھا،باب السواک،حدیث:۲۸۹)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ۔تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم۔(ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق،حدیث:۶۲۰)
حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فر مادی۔(جبکہ یہ کسی کے لئے جائز نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا۔)(بخاری،کتاب الاضاحی،باب الذبح بعد الصلاۃ، حدیث :۵۵۶۰۔مسلم،حدیث:۱۹۶۱)
حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دی(سنن ابوداود،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم بہ ،حدیث:۳۶۰۷)
حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے لئے جوانی میں بھی حرمت رضاعت ثابت فر مادی(مسلم،کتاب الر ضاع ،باب رضاعۃ الکبیر، حدیث : ۱۴۵۳،نسائی،حدیث:۳۳۱۹)
اس کے علاوہ اور بھی مثالیں احادیث میں مذکور ہیں۔ان سب احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اختیارات کا بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے مدینہ طیبہ کو حرم قرار دیا۔یعنی مدینہ طیبہ کے اندر خاص حد میں شکار کرنے ،درخت کاٹنے اور گھاس وغیرہ کو اکھاڑنے کو حرام قرار دیا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ :ائے اللہ! بیشک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں سنگستان یعنی کوہِ عیر سے جبل ثور کے درمیان جو کچھ ہے اسے حرم بناتا ہوں(یعنی اس کے خار دار درختوں اور گھاسوں کے کاٹنے کو حرام قرار دیتا ہوں )۔(مسلم،کتاب الحج ،باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فیھا بالبر کۃ وبیان تحر یمھا وتحریم صیدھا وشجر ھا وبیان حدود حر مھا،حدیث :۱۳۶۱،۱۳۶۲،بخاری،حدیث:۱۸۶۷،۱۸۶۹،سنن ابوداود،حدیث :۲۰۳۴،۲۰۳۵،۲۰۳۶)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:میرے لئے پوری روئے زمین کو سمیٹ دیا گیا یہاں تک کہ میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں(یعنی پورب اور پچھم کے آخری کناروں)کو دیکھ لیا ۔پھر مجھ سے کہا گیا کہ ’’ آپ کی ملکیت وہاں تک ہے جہاں تک کے زمین کو آپ کے لئے سمیٹا گیا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،حدیث:۳۹۵۲)
اس حدیث شریف سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام جہاں کی ملکیت عطا فر مائی اور بلاشبہ مالک اپنی مملوکہ چیز میں مختار بھی ہوتا ہے لہذا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا مالک کل اور مختار کل ہونا ثابت ہوا۔اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو صرف خزانوں کا مالک ہی نہیں بلکہ اس کی کنجیاں بھی آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو عطا فر مائی ۔جیسا کہ اس تعلق سے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی صاف روایتیں موجود ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ’’ مجھے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں‘‘۔(صحیح بخاری،حدیث:۲۹۷۷۔صحیح مسلم،حدیث:۵۲۳)ان سب روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کل جہاں کے مالک ہیں۔
اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو صرف جنت دینے ہی کا نہیں بلکہ ہر طرح کے اختیارات سے نوازاہے۔سارے خزانوں کا آپ کو مالک بنایاہے۔رہی بات دلیل کی۔تو حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ رات گذاری تو میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وضو اور حاجت کے لئے پانی لایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:مجھ سے مانگو،تو میں نے عرض کی کہ میں حضور سے مانگتا ہوں کہ میں جنت میں آپ کے ساتھ رہوں ۔آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فر مایا :اور کچھ ؟ تو میں نے عر ض کی میری مراد تو بس یہی ہے۔فرمایا تو میری اعانت کر اپنے اوپر کثرت ِ سجود کے ذریعے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ،باب فضل السجود والحث علیہ ، حدیث: ۴۸۹۔سنن ابو داود ،حدیث :۱۳۲۰)
اس حدیث کی تشر یح کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محد ث دہلوی تحریر کرتے ہیں کہ:سر کار ﷺ کا بغیر کسی چیز کو خاص کئے ہوئے یہ فرمانا کہ ’مانگ‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام چیزوں کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے دست قدرت میں ہے آپ جسے چاہتے ہیں اور جو چاہتے ہیں اللہ رب العزت کی عطا سے خود عطا فر ماتے ہیں ۔
کسی کی قسمت میں ایمان لانا نہیں ہو اور اس سے کوئی کلمہ پڑ ھنے کے لئے کہے مگر وہ اُس کی بات نہیں مانے اور کافر ہی ہو کر مر جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کہنے والے کو کسی چیز کا اختیار ہی نہیں ۔کیو نکہ اگر یہ مطلب مان لیا جائے تو پھر لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اختیار نہیں کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے بھی ابلیس سے فر مایا کہ آدم کو سجدہ کرو مگر اُس نے نہیں کیا اور ہمیشہ کے لئے جہنمی ہو گیا ۔ تو اب یہ نہیں کہا جائے گا کہ اگر اللہ تعالیِٰ کو اختیار ہوتا تو ابلیس سے سجدہ نہیں کروا لیتا۔[نعوذ باللہ من ذالک ] رہی بات حضور کے اختیار ہونے کی تو وہ صاف حدیثوں سے ثابت ہو چکا۔ اور ابو طالب کے بارے میں بھی جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اُن سے بھی حضور کا اختیار ثا بت ہوتا ہے شرط ہے کہ اُن حدیثوں کو ایمان کی نظر سے پڑ ھیں ۔اُن میں سے ایک حدیث یہ ہے :حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے عر ض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم! بے شک ابو طالب آپ کی بڑی حمایت کرتے تھے اور آپ کی مدد کرتے تھے۔تو کیا انہیں اس کا کچھ فائدہ ملا؟حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:ہاں!میں نے انہیں جہنم کے گہرے آگ میں پایا تو انہیں میں نے وہاں سے نکال کر ہلکے پھلکے آگ میں لے آیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب شفاعۃ النبی ﷺ لابی طالب والتخفیف عنہ بسببہ،حدیث:۲۰۹)
اِس حدیث کی تفصیل یہ ہے کہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے شروع میں اپنے رشتہ داروں کو اللہ تعالیٰ سے ڈراتے ہوئے فر مایا کہ:تم لوگ ایمان لا کر اپنی جان کو جہنم کے عذاب سے بچاءو نہیں تو قیامت کے دن میں تمہارے کچھ کام نہیں آوں گا۔اِسی حدیث میں ہے کہ یہی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی فر مایا۔[صحیح مسلم ،حدیث:206] ظاہر سی بات ہے کہ اگر وہ ایمان نہیں لاتیں تو حضور قیامت کے دن اُن کے کوئی کام نہیں آتے۔اِس سے یہ سمجھنا کہ حضور مجبور ہیں اور اُنہیں کسی چیز کا اختیار ہی نہیں جہالت اور گمراہی و بے دینی ہے۔کیو نکہ قیامت کے دن تو اللہ تعالیٰ بھی کسی کافر کے کام نہیں آئے گا تو کیا مطلب؟ رہی بات مسلمانوں کے کام آنے کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فر مایا کہ:میری شفاعت میری امت کے بڑے بڑے گنہگاروں کے لئے ہوگی ۔ [ترمذی، حدیث:2435]
اور قیامت کے دن حضور کا مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروانا تو مشہور حدیثوں سے ثا بت ہے ۔ [:193صحیح مسلم،حدیث)
اور وہ لفظ کہ”حضور نے فر مایا کہ: مجھے کسی چیز کا اختیار نہیں” یہ جھوٹے لوگوں کی طرف سے بنایا گیا جملہ ہے۔حدیث میں یہ لفظ ہے ہی نہیں۔
اعتراض : قرآن شریف ،سورہ تحریم،آیت نمبر :۱۔میں ہے۔’’ائے نبی مکرم!آپ کیوں حرام کرتے ہیں ؟اس چیز کو جسے اللہ نے آپ کے لئے حلا ل کر دیا ہے۔(کیا یوں)آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں۔اس آیت سے تو معلوم ہواکہ کسی چیز کو حرام و حلال کر نے کا آپ ﷺ کو اختیا ر نہیں۔کیو نکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کویہ اختیار ہوتا تو اللہ تعالی آپ کو حرام قرار دینے پر نہ ٹو کتا۔
جواب : اس آیت کر یمہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کے شان نزول کو سمجھیں۔صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ سورہ اس وقت ناز ل ہو ئی جب آپ ﷺکو حضرت زینب کے یہاں شہد تناول فر مانے کے سبب تا خیر ہو ئی ۔جو دوسرے ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن پر شاق گذرا ۔تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے کہا اب میں شہد نوش نہ کروں گا۔
علامہ آلوسی، ابن منیر کے حوالے سے اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔کسی حلال کو حرام کرنے کی دو صورتیں ہو تی ہیں ۔ایک یہ کہ کسی حلال چیز کو حرام اعتقاد کر لیا جائے اور یہ ممنوع بلکہ کفر ہے اور نبی معصوم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے اس کا صدور ممکن نہیں ۔دوسری صورت یہ کہ حلال کو حلال ہی سمجھا جائے لیکن اس کے استعمال سے پر ہیز کیا جائے اور ایسا کر نا جائز ہے(جیسے کہ گائے کا گو شت کھانا جائز ہے مگر بہت سارے لوگ اس کو حلال سمجھنے کے باوجود اس کے استعما ل سے پر ہیز کر تے ہیں)حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے حرام کر نے کی یہی صورت تھی ۔اوراللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی خوشی کے لئے اپنے اوپر پابندی عائد کر لی جس سے حضور کو تکلیف اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا (کیو نکہ شہد آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بہت پسند تھا)اور اللہ تعالی کو ہر گز یہ گوارہ نہیں کہ اس کے محبوب کو تکلیف پہنچے۔اس لئے فر مایا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟آپ کو اپنی ازواج کی خوشی مطلوب ہے تو مجھے آپ کا آرام اور آپ کی راحت مر غوب ہے۔ایسی پابندیوں کی اجازت میں کیسے دے سکتا ہوں۔(تلخیص ۔بحوالہ ،تفسیر ضیاء القرآن،جلد نمبر ۵/ص:۲۹۵)
سبحان اللہ : اس آیت کر یمہ سے تو معلو م ہواکہ اللہ تعالی کو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تکلیف ہر گز ہر گز گوارہ نہیں۔نیز یہ معلوم ہو ایہاں پر حرام سے مراد وہ حرام نہیں ہے جو مشہور ہے بلکہ اجتناب اور پر ہیز کر نا مراد ہے۔اس لئے اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اختیار کی ہر گز نفی نہیں ہو تی اور نفی ہو بھی کیسے سکتی ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اس اختیار کاخود اللہ نے اعلان فر مایا ۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی حرام کی ہو ئی چیزوں کو حرام نہ ماننے والوں سے جنگ کر نے کا حکم دیا ۔جیساکہ اوپر گذرا۔آپ ذرا اپنی ایمانی فکر سے سو چئے کہ اگر یہاں پر وہی بات ہوتی جو کچھ لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے سمجھتے ہیں۔تو آپ ﷺ نے تو اپنی حیات مبارکہ میں بہت ساری چیزوں کو حلال وحرام فر مایا (جیسا کہ اوپر مکمل حوالے کے ساتھ گزرا۔)مگر اللہ تعالی نے کبھی منع نہ فر مایا کہ ائے محبوب!آپ نے فلاں چیز کو کیوں حلال یا حرام کر دیا ؟ آخر اسی وقت کیوں یہ فر مایاجب کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی ازواج مطہرات کی دلجوئی کے لئے پسند ہونے کے باوجود شہد کے استعمال نہ کرنے کا عہد کر لیا ؟ ان حقیقتوں پر غور کرنے سے علامہ ابن منیر کی تفسیر کی حقانیت روز روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس آیت کا مطلب وہ نہیں جو لوگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ:اللہ تعالی کو اپنے محبوب کی تکلیف گوارا نہ ہوئی کہ میرا محبوب اپنی بیویوں کی خوشی کے لئے خود تکلیف اٹھائے اور پسند ہونے کے باوجود تناول نہ کرے۔یہ اختیار کی نفی نہیں بلکہ اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے مقام محبوبیت کا بیان ہے۔ فافھم وتدبر۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...