کیا نااہل کو تحقیق و استنباط کی اجازت ہے؟
نااہل کا معاملہ مجتہد کے معاملہ سے بالکل برعکس ہے، مجتہد جو کہ اہل ہے سے خطا بھی ہوجائے تو اُسے اجر ملتا ہے اور نا اہل جیسے غیر مقلدین صحیح بات بھی پالے تو اُسے اجر کے بجائے گناہ ہوگا ، آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ارشاد ہے : عن ابن عباس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قال: اتقوا الحدیث عنی الا ما علمتم فمن کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار و من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار ۔ (ترمذی:۲/۱۲۳)
ترجمہ : بی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: مجھ سے صرف وہی باتیں نقل کیا کرو جو تمہیں یقینی طور پر معلوم ہوں، اس لئے کہ جس نے قصداً میری طرف جھوٹی بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا اور جو قرآن کریم میں اپنی رائے چلائے گا اس نے بھی اپنے لئے ٹھکانہ جہنم میں بنالیا ۔
عن جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم : من قال فی القرآن برأیہ فاصاب فقد اخطا ۔ (ترمذی:۲/۱۲۳)
ترجمہ : یعنی جس نے قرآن میں اپنی رائے لگائی اور درست بات بھی پالی تو بھی وہ گناہگار ہوگا ۔
امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مجتہد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے، اگر ا سکا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے، ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اصابت کا اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر ملے گا، ہاں! جو نااہل ہو اس کو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں، بلکہ وہ گناہگار ہے، اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا اگرچہ اس کا حکم حق کے موافق ہو یا مخالف، کیونکہ اس کا حق کو پالینا محض اتفاقی ہے، کسی اصلِ شرعی پر مبنی نہیں، پس وہ تمام احکام میں گناہگار ہے، حق کے موافق ہو یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں، اس کا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں ۔ (شرح نووی علی بہامش صحیح مسلم:۲/۷۶)
افسوس ہے کہ منکرینِ حدیث اور غیر مقلدین نے اس گناہ کبیرہ جس کا ٹھکانہ دوزخ کے سوا کہیں نہیں کا نام تحقیق رکھا ہے اور اس کو عمل بالقرآن اور عمل بالحدیث کہتے ہیں ۔ ( طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
No comments:
Post a Comment