وہابیوں نے جنت البقیع اور دیگر مزارات کو کیوں شہید کیا ؟ وہابیہ کے فریب کا جواب
وَعَنْ أَبِي الْهَيَّاجِ الْأَسَدِيِّ قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِن لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مشرفا إِلَّا سويته. رَوَاهُ مُسلم ۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت ابی ھیاج اسدی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا کہ تم کوئی تصویر نہ دیکھو مگر مٹادو اور نہ اونچی قبر دیکھومگر زمین کے برابرکردو (صحیح مسلم)
راوی کا تعارف : آپ کا نام حیان ابن حصین ہے،کنیت ابو الہیّاج ہے،قبیلہ بنی اسد سے ہیں،حضرت عمار ابن یاسر کے کاتب تھے،تابعی ہیں اور منصور ابن حیان مشہور تابعی کے والد ہیں۔
شرح حدیث : یعنی جس کام کے لیے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےبھیجا تھا اسی کام کے لیے میں تمہیں بھیجتا ہوں،تصویروں اور مجسموں کو مٹانا اور اونچی قبروں کو گراکر زمین کے ہموارکردینا۔
خیال رہے کہ یہاں قبروں سے یہود و نصاریٰ کی قبریں مراد ہیں نہ کہ مسلمانوں کی چند وجہ سے : ایک یہ کہ حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پاک میں صحابہ کرام کی قبریں اونچی کیسے بن گئیں جنہیں مٹانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کو علی کو بھیجا کیونکہ ان بزرگوں کا کفن دفن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور آپ کی اجازت سے ہوتا تھا۔
دوسرے یہ کہ قبر کو فوٹو و مجسمہ سے کیا نسبت،مسلمانوں کی قبروں پر نہ فوٹو ہوتے ہیں نہ مجسمہ،ہاں عیسائیوں کی قبریں بہت اونچی بھی ہوتی ہیں اور ان پر میت کا مجسمہ یا فوٹو بھی ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ مسلمان کی قبر زمین کے برابر نہیں کی جاسکتی بلکہ وہ ایک بالشت یا ایک ہاتھ اونچی رکھی جائے گی اور یہاں برابر کر دینے کا حکم ہے۔
چوتھے یہ کہ اس کی تائید بخاری شریف کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو مسجد نبوی کی تعمیرکے باب میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبریں اکھیڑنے کا حکم دیا تو اکھیڑ دی گئیں اسی کام کے لیئے علی مرتضٰی مامور ہوئے تھے۔
پانچویں یہ کہ فتح الباری شرح بخاری میں اس حدیث پرعنوان قائم کیا کہ کیا مشرکین جاہلیت کی قبریں اکھیڑی جاسکتی ہیں یعنی ان کے علاوہ نبیوں اور ان کے متبعین کی نہیں کیونکہ ان کی قبریں اکھیڑنے میں ان کی توہین ہے۔
چھٹے یہ کہ اسی فتح الباری میں تھوڑی دور جاکر فرمایاحدیث سےمعلوم ہوا کہ مملوکہ مقبرے میں تصرف جائز ہے اور پرانی قبریں اکھیڑ دینا جائز ہیں بشرطیکہ وہ قبریں حرمت والی نہ ہوں۔
ساتویں یہ کہ مسلمان کی اونچی قبر بنانا منع ہے لیکن اگر بن گئی ہے تو اسے گرانا ناجائز کہ اس میں قبر اور صاحب قبر کی اہانت ہے۔جب مسلمان کی قبر سے تکیہ لگانا،اس پر چلنا پھرنا منع ہے تو اس پر پھاؤڑے چلانا کب جائزہوگا جیسے چھوٹے سائز کے قرآن شریف و حمائلیں چھاپنا منع ہے لیکن اگر چھپ چکے ہوں تو انہیں جلانا حرام۔
آٹھویں یہ کہ بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر میں تعلیقًاہے حضرت خارجہ فرماتے کہ ہم زمانہ عثمانی میں تھے اور ہم سے بڑا بہادر وہ تھا جو عثمان ابن مظعون کی قبر کو پھلانگ جاتا۔
معلوم ہوا کہ وہ قبر اتنی اونچی بنائی گئی تھی جسے پھلانگنا دشوار تھا اوریہ قبر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنائی تھی۔
نویں یہ کہ ابھی مشکوٰۃ شریف میں حدیث آئے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان ابن مظعون کی قبر کے سرہانے کی طرف ایک اونچا پتھرلگایا جس کی شرح حضرت خارجہ کی حدیث نے کردی کہ وہ اتنا اونچا تھا جسے پھلانگنا دشوار تھا۔
بہرحال اگر یہاں مسلمانوں کی قبریں مراد ہوں تو یہ حدیث بہت احادیث کے خلاف ہوگی اور اس میں ایسی مشکلات پیدا ہوں گی جو حل نہ ہوسکیں گی ۔ افسوس نجدیوں نے اس حدیث کو آڑ بناکر حرمین طیبین میں صحابہ کبار،اہل بیت اطہار کی قبروں کو تو گرایا مگر اسی علاقہ میں امریکن تیل کمپنی جس کا ٹھیکہ نجدیوں نے امریکہ کو دیا ہے ان کے فوت شدہ انگریزوں کی بڑی بڑی اونچی ہیں مگر ہاتھ نہ لگایا یعنی جن کے لیے حدیث تھی ان پرعمل نہ کیا گیا مسلمانوں کی قبروں پر یہ ستم کیا گیا ۔ (مرآۃ المناجیح, شرح مشکوٰۃ المصابیح, جلد دوئم، صفحہ 512)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment