وسیلہ اور راویت دارمی پر اعتراض کا جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے دعا کا فرمایا۔مسند دارمی جلد1صفحہ 227)۔(اس روایت کے رجال ثقہ ہیں )
منکرین احادیث کے جاہلانہ اعتراض کا جواب انہی کے عالم سے۔
توسل کے متعلق سنن دارمي والی حدیث عائشہ (رضي الله عنها)کا دفاع.
زبیرعلی زئی نے مشکوٰۃ کی تحقیق میں سنن دارمی کی اس روایت کا رد کیا ہے.
حدیث : حدثنا : أبو النعمان ، حدثنا : سعيد بن زيد ، حدثنا : عمرو بن مالك النكري ، حدثنا : أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال :" قحط أهل المدينة قحطاً شديداً فشكواً إلى عائشة فقالت : إنظروا قبر النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) فإجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق".
ترجمہ:ابی الجوزاء“ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے.اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا۔(مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی)
اعتراض : وقال ابن عدی (الکامل: ۴۱۱): حدّث عنه عمرو بن مالک قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظة.
امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ ابو الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔" (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۳۶/۱)
جواب : یہ جرح مردود ہے. اسکا جواب مہشور ناصبی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتا ہے : "عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔( مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ )
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا". حوالہ : نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ - (محقق حسین سلیم الدرانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ۔ "رجاله ثقات" حوالہ : سنن دارمي- جلد ١ / صفحہ ٢٢٧ / رقم 227)
غیر مقلد حافظ زبیر علی زائی کے شاگرد شیخ غلام مصطفیٰ امن پوری نے امام نسائی کی کتاب ” وفاۃ النبی ؐ پر تحقیق کرتے ہوئے سنن دارمی کی ایک روایت کا رد کیا ہے.روایت اس طرح ہے : أبو النعمان ، حدثنا : سعيد بن زيد ، حدثنا : عمرو بن مالك النكري ، حدثنا : أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : قحط أهل المدينة قحطاً شديداً فشكواً إلى عائشة فقالت : إنظروا قبر النبي (ص) فإجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق.
ابی الجوزاء“ سے نقل ھوا ھے کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے ۔
(سنن دارمی-امام دارمی : ١ /١٥٨ / رقم ٩٣ , مشکاۃ مصابیح -امام تبریزی : ٥٩٥٠)
نیچھے غلام مصطفیٰ صاحب نے اسکو ضعیف کہا ہے وہ کہتے ہے : اسکی سند ضعیف ہے.اسکے راوی عمرو بن مالک النکری ( ثقہ حسن الحدیث ) کی روایت ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے.یہ روایت بھی ایسی ہی ہے. حافظ ابن حجر لکھتے ہے : امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ عمرو بن مالک النکری نے ابو الجوزاء سے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث نقل کی ہے – ( تہذیب التہذیب ١ /٣٣٦ ) ( وفاۃ النبی للنسائی بتحقیقی / صفحہ 235-236 / طبع پاکستان )
ان کے استاد شیخ زبیر علی زائی نے بھی مشکواۃ کی تحقیق میں اس روایت کو اسکی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔ (مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی )
لیکن ان دونون کی یہ جرح مردود ہے. اسکا جواب مہشور ناصبی سلفی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتے ہے : عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ )
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا ۔ ( نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ )
نوٹ : اسکا مقدمہ مہشور اھل الحدیث عالم ارشاد الحق الاثری نے لکھا ہے
ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں
صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء
حدثنا يحيى بن يحيى أخبرنا خالد بن عبد الله عن عبد الملك عن عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر وكان خال ولد عطاء قال أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة العلم في الثوب وميثرة الأرجوان وصوم رجب كله فقال لي عبد الله أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من العلم في الثوب
فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما يلبس الحرير من لا خلاق له فخفت أن يكون العلم منه وأما ميثرة الأرجوان فهذه ميثرة عبد الله فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها ۔
ترجمہ : حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔
(مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 : 1641، رقم : 2069)(أبوداود، السنن، کتاب اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 : 49، رقم : 4054)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 423، رقم : 4010)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں : وفي هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين وثيابهم.
ترجمہ : اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔(نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44)
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی صحابیہ بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ایک طرف، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)
کیا ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دی ا؟
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی ؟
خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ؟
انتہائی اہم اصول: ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت
اگرچہ کی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول اہلحدیث حضرات) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں : ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا ۔
عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے۔
اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
مگر اہلحدیث حضرات نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ : اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے ۔ لاحول واللہ قوۃ اللہ باللہ
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کرنے کا مطلب اُنکی شفاعت کے ذریعے مدد طلب کرنا ہے ۔
جب ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے اور باطنی نیت یہی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست ہے کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا فرما کر ہماری مدد فرمائیں۔
اہلحدیث حضرات کی دوہرے معیار (ڈبل سٹینڈرڈ)
اگرچہ کہ اہلحدیث حضرات میں انتہا درجہ کی ظاہر پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے، مگر پھر بھی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر کے معاملے میں وہ اس قابل ہیں کہ اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی ان کی باطنی نیتوں کو سمجھ سکیں۔ مگر جب ہمارا معاملہ آتا ہے اور ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مجازی معنوں میں مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفاعت/دعا کے ذریعے ہماری مدد فرمائیں(اور حقیقی معنوں میں ہم اللہ سے ہی مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں) تو یہی اہلحدیث حضرات ایسی کسی باطنی نیت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام آیات ہم پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کے لیے نازل ہوئی ہیں۔
اور اگر اب بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں، تو پھر وہ ان آیات کو جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر پر چسپاں کیوں نہیں کرتے؟ مثلاً یہ آیت کہ:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تچھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اور اسی طرح قران کو وہ تمام آیات بھی ان پر چسپاں کیوں نہیں کرتے جس میں اللہ فرما رہا ہےکہ اللہ کے سوا کوئی انہیں نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ۔ (القران 21:66) (ابراہیم نے) کہا، „تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں کسی قسم کا فائدے پہنچا سکیں اور نہ نقصان ؟ ۔ اگر یہ ڈبل سٹینڈرڈ اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment