Wednesday, 13 December 2017

حدیث کو ضعیف کہہ کر حدیث کا انکار کرنے والوں کو جواب

حدیث کو ضعیف کہہ کر حدیث کا انکار کرنے والوں کو جواب





















اصولِ محدثین علیہم الرّحمہ کی روشنی میں ضعیف حدیث تلقی بالقبول کے سبب صحیح کا حکم رکھتی ہے ۔

مسائل کا ایک اہم مآخد (علماء کا) "اجماع یا تلقی بالقبول" اور اس پر محدثین کی تائید : قرآن و سنّت کے احکام میں "نسخ" کا احتمال ہوتا ہے کہ وہ منسوخ ہے یا نہیں ہے.
(کما قال امام الغزالی رح - المستصفى مع مسلم الثبوت: ٣/٣٩٢؛ و کما قال ابن تیمیہ مجموع الفتاویٰ: ٢٨/١١٢)

جیسے قرآن میں ارشاد ہے : مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (٢/البقرہ:١٠٦)
جو بھی کوئی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے (ذہنوں سے) بھلا دیتے ہیں، تو ہم لے آتے ہیں اس سے کوئی بہتر آیت، یا اسی جیسی، بیشک اللہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھتا ہے.(اس آیت کی تفسیر ےفسیر تبیان القرآن و دیگر تفاسیر میں ضرور پڑھیں)

مگر "اجماع" میں نسخ کا احتمال نہیں ہوتا اور وہ معصوم ہوتا ہے. [تفسیر_ابن_کثیر، سورہ نساء، آیت : ١١٥؛صحيح البخاري » كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ » بَاب قَوْلِهِ تَعَالَى وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا (البقرہ :١٤٣) وَمَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ =
ترجمہ: صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان : اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے اسی طرح تم کو بیچ کی امت بنایا۔(البقرہ:١٤٣) اور اس کے متعلق کہ رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا اور آپکی مراد جماعت سے اہل علم کی جماعت تھی.(فتح الباری، لامام ابن_حجر: ١٣/٣١٢)

اور (اسی طرح) امام نووی رح اپنے شیخ حافظ ابو عمرو سے مروی ہیں؛
"الأمة في إجماعها معصومة من الخطاء ۔ يعني امت اجماع میں خطا سے معصوم ہوا کرتی ہے. (مقدمہ صحیح مسلم: صفحه# ١٤)

اور مشھور ائمہ_محدثین علیہم الرّحمہ جیسے شافعی، بخاری، ترمذی، سیوطی، سخاوی، وغیرہ نے اس اصول کا تعین کیا ہے کہ عملی طریقوں کا انحصار (دارومدار) تعامل امت (اتفاق و اجماع سے امت کے جاری عمل پر) ہے. جب امت کا عمل کسی حدیث پر جاری ہو، اگرچہ وہ ضعیف ہو،تو اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں.یعنی جس ضعیف حدیث پر بھی تعامل_امت (اتفاق و اجماع سے امت کا جاری عمل) ہو، تو اس حدیث کو مانا جائیگا ، اگرچہ ضعیف ہو.(المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية، ٢/١٧٧-١٩٩)

صحیح روایت سے زیادہ تعامل امت قطعی (حجت) ہے

سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیع نے اسمعیل ابن ابراہیم مہاجر سے نقل کیا ہے: "کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ"۔(تاریخ ابی زرعہ الدمشقی:۱/۳۱۱)
ترجمہ: حفظ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی (یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بہ ہونے کا اس کی صحت اورمقبولیت پر بہت اثر رہا اور محدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بہ نہ رہی ہوں۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"۔(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام)
ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اوراس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے کسی خوف، سفر اوربارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اورمغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کوقتل کردو۔
یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔

قال ابن عبد البر في الاستذكار لما حكي عن الترمذي ان البخاري صحح حديث البحر "هو الطهور ماؤه" و أهل الحديث لا يصححون مثل اسناده لكن الحديث عندي صحيح لان العلماء تلقوه بالقبول.[تدريب الراوي : ٢٩]
ترجمة: علامة ابن عبد البر "الاستذكار" میں یہ بات امام ترمذی رح سے نقل کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (اس) حدیث_بحر "ھو الطھور ماوه" کو صحیح کہتے ہیں، حالانکہ محدثین اس جیسی سند (والی حدیث) کو صحیح نہیں کہتے لیکن حدیث میرے (ابن عبدالبر کے) نزدیک صحیح ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی (شافعی) رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:ومن جملة صفات القبول التي لم يعترض شيخنا الحفيظ يعنى زين الدين العراقي أين يتفق العلماء على العمل بمدلول حديث فانما يقبل حتى يعمل به وقد صرح بذلك جماعة من أئمة الأصول.
ترجمة:...منجملہ (صحت حدیث کی) صفات_قبولیت میں سے ایک وہ بھی جس کی طرف ہمارے شیخ یعنی زین الدین العراقی نے تعرض کیا ہے وہ یہ ہے کہ علماء مدلول_حدیث پر عمل کرنے میں متفق ہوجائیں، پس اس حدیث کو قبول کرلیا جائیگا، یہاں تک کہ اس پر عمل واجب ہوگا، اس بات کی تصریح کی ہے علماء_اصول کی ایک جماعت نے. (المصاح على نكت أبن الصلاح)

تقریباً 200 کتب کے مصنف مصنف محدث، فقیہ، اصولی، مؤرخ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وقال الحافظ السخاوي في شرح ألفية : إذا تلقت الأمة الضيف بالقبول يعمل به الصحيح حتى أنه ينزل منزلة المتواتر في أنه ينسخ المقطوع به، ولهذا قال الشافعي رحمة الله تعالیٰ في حديث "لا وصية الوارث" أنه لا يثبت أهل العلم بالحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به حتى جعلوه ناسخا لاية الوصية الوارث...إنتهى
ترجمہ : علامہ سخاوی رح نے "شرح الفیہ" میں کہا ہے کہ: جب امت حدیث_ضعیف کو قبول کرلے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ ، یہاں تک کہ وہ یقینی اور قطعی حدیث کو منسوخ کرنے میں ((متواتر حدیث کے رتبہ میں سمجھی جاۓ گی))، اور اسی وجہ سے امام شافعی رح نے حدیث : "لاوصية لوارث" کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس کو حدیث کے علم والے (علماۓ حدیث) ((ثابت نہیں)) کہتے ہیں لیکن عامه علماء نے اس کو قبول کرلیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آیت_وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے. (فتح المغيث بشعره ألفية الحديث: ص # ١٢٠ ؛)( المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية، ٢/١٧٩؛)(فتاویٰ علماۓ_حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)

علامة ابن مرعي ألشبرخيتي المالكي رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي]
ترجمة: اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓگا.
(المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية، ٢/١٧٩)

خلاصہ : معلوم ہوا کہ جب کسی حدیث پر امت، ائمہ اسلام علیہم الرّحمہ کی پیروی میں قبول کرتے اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہو تو وہ روایت (سنداً) غیر ثابت ہوکر بھی مقبول ہوتی ہے. تو جو روایت ثابت ہو مگر ضعیف (حفظ/عمل میں کمزور راوی) ہو تو اس کے قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں. کیونکہ امت اعمال_دین "دیکھ دیکھ کر" سیکھتی چلی آئی ہے، اور یہ حکم خود حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں ہے کہ: نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو.(بخاری)

تقریباً 600 کتب کے مصنف علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:قال بعضھم يحكم للحديث بالصحة إذا تلقاه الناس بالقبول وإن لم يكن له أسناد صحيح.[تدريب الراوي: صفحة # ٢٩]
ترجمہ: بعض محدثین فرماتے ہیں کہ حدیث پر صحت (صحیح ہونے) کا حکم لگا دیا جاۓ گا جب امت نے اسے قبول کرلیا ہو اگرچہ اس کی سند صحیح نہ بھی ہو.
المقبول ما تلقاه العلماء بالقبول وإن لم يكن له أسناد صحيح،
[شرح نظم الدرر المسمى بالبحر الذي ذخر]
ترجمہ: مقبول وہ حدیث ہے جسے علماء قبول کرلیں اگرچہ اس کی سند صحیح نہ بھی ہو.
قال ابن السمعاني وقم يدل لتضمنه تلقيهم له بالقبول.
[تدريب الراوي : ١٧٢]
ترجمة: ابن سمعاني اور ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ حدیث کے موافق اجماع کا ہونا یہ حدیث کی صحت پر دلالت کرتا ہے اس حدیث کے اس بات کو متضمن ہونے کی وجہ سے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل ہے.
وصحح الآمدي وغيره من الاصوليين إنه حكم بذلك.
[تدريب الراوي: ١٧١]
ترجمہ: (علم کا کسی حدیث پر عمل یا دلیل لیتے فتویٰ دینے کی وجہ سے) آمدی اور ان کے علاوہ دیگر اصولیین نے اس بات کو صحیح قرار دیا ہے کہ اس حدیث پر صحت کا حکم لگایا جاۓ گا.
قال (ابن عبدالبر) في التمهيد روي جابر عن النبي صلي الله عليه وسلم الدينار أربعة و عشرون قيراطا، قال وفي قول جماعة العلماء و إجماع الناس على معناه غني عن الاسناد فيه.[تدريب الراوي: ٢٩]
ترجمہ: ابن عبدالبر "التمہید" میں فرماتے ہیں کہ حضرت جابر (رضی الله عنہ) نے نبی (صلی الله علیہ وسلم) سے روایت کی "دینار چوبیس قیراط کا ہے" فرمایا: جماعت_علماء کا قول اور لوگوں کا اس کے معنا پر اجماع اس کی سند سے مستغنی کردیتا ہے.

اہل ظواہر کے پیشوا قاضی شوکانی (غیر مقلد) لکھتے ہیں:ثم حكم أبن عبدالبر مع ذلك بصحته لتقي بالعلماء له بالقبول فرده من حيث الأسناد وقبله من حيث المعنى وقد حكم بصحته جملة من الحديث لاتبلغ درجة هذا ولا تقاربه.[نيل الأوطار: ١/١٨]
ترجمہ: پھر ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے باوجود (ضعف سند کے) اس کی صحت (صحیح ہونے) کا حکم لگایا ہے، علماء کے اس کو قبول کرلینے کی وجہ سے، پس رد کیا ہے اس کو سند کے اعتبار سے اور قبول کیا ہے اس کو معنا(مضمون) کے اعتبار سے، اور حکم لگایا ہے ایسی بعض احادیث پر جو اس درجہ تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچتیں.
اتفق أهل الحديث على ضعف هذه الزيادة لكن قد وقع الإجماع على مضمونها.[الدراري المضية شرح الدرر البهية؛ الروضة الندية شرح الدرر البهية في صفحة ٥، مطبوعه دار الجليل بيروت لبنان]
ترجمہ: محدثین اس زیادتی (اضافہ) کہ ضعف (کمزوری) پر متفق ہیں لیکن اس کے مضمون (معنا) پر اجماع منعقد ہے.(فتاویٰ علماۓ_حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)

علامہ ابن تیمیہ (المتوفي ٧٤٨ھ لکھتے ہیں : هذا حديث صحيح متفق على صحته تلقته الامة بالقبول والتصديق مع انه من غرائب الصحيح.[فتاوى إبن تيمية: ١٨/٢٤٨]
ترجمہ: یہ حدیث (صحیح بخاری کی "انما الاعمال بالنیات") صحیح ہے (کیونکہ) اس کی صحت پر اتفاق ہے، امت نے اسے قبول کیا ہے اور تصدیق کی ہے، باوجود اس کے کہ وہ صحیح (بخاری) کی غریب حدیث میں سے ہے.

علامہ ابن القیم الجوزی لکھتے ہیں:على ان أهل العلم قد نقلوه واحتجوا به فوقفنا بذلك على صحته كما وفقنا على صحة قول رسول الله (صلي الله عليه وسلم) "لاوصية لوارث" وقوله في البحر "هو الطهور ماؤه و حل الميتة" وقوله "إذا إختلف المتبايعان في الثمن والسلعة قائمة فحالفا وتر ادا البيع" وقوله "الدية على العاقلة" وان كانت هذا الأحاديث لا ثبتت من جهة الإسناد ولكن لما تلقته الكافة عن الكافة غنوا بصحتها عندهم عن طلب الأسناد لها فكذلك حديث معاذ (رضي الله عنه) لما احتجوا جميعا غنوا عن طلب الإسناد له.[أعلام الموقعين:١/١٥٥، مطبوعه مكة المكرمة]
ترجمہ: مزید یہ کہ اہل_علم نے اسے نقل کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے. پس علم ہوگیا ہمیں اس بات کا کہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے. جیسا کہ ہمیں معلوم ہوا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قول "لاوصية لوارث"، اور آپ (صلی الله علیہ وسلم) کے فرمان سمندر کے بارے میں "هو الطهور ماؤه و الحل الميتة"، اور آپ (صلی الله علیہ وسلم) کے فرمان "إذا إختلف المتبايعان في الثمن والسلعة قائمة فحالفا وتر ادا البيع" اور آپ (صلی الله علیہ وسلم) کے فرمان "الدية على العاقلة" کی صحت کا. اگرچہ یہ احادیث (صحیح) سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے لیکن اس کو (ہر دور میں علماء_امت کی) جماعت نے جماعت سے قبول کیا تو مستغنی کردیا ہے اس کی صحت کو اس کی سند طلب کرنے سے، اسی طرح حدیث معاذ(رضی الله عنہ) ہے، جب دلیل پکڑی ہے تمام نے اس سے تو اس کی سند کو طلب کرنے سے مستغنی(بے-پرواہ/غیر-لازم) کردیا ہے.

علامہ جمال الدین الملطی(الحنفی) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:وخبر الواحد اذا تلقتھ ألأمة بالقبول عملا به و تصديقا له يفيد العلم (اليقيني) عند جماهير الأمة وهو أحد قسمتي المتواتر ولم يكن بين سلف الأمة في ذلك نزاع.[شرح عقيدة الطحاوية: ٣٥٥]
ترجمہ: اور خبر واحد کو جب امت قبول کرلے اس کی تصدق اور اس پر عمل کرتے ہوۓ تو جمہور علماء_امت کے نزدیک علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے اور یہ بھی متواتر کی ایک قسم ہے. اسلاف_امت میں اس بارے میں کوئی نزاع نہیں.

فقہ حنفی کے عظیم محدث محقق، فقیہ، اصولی شیخ زاہد بن الحسن الکوثری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:واحتجاج الأئمة بحديث تصحيح له منهم بل جمهور أهل العلم من جميع الطوائف على ان خبر الواحد إذا تلقته الأمة تصديقا له أو عملا به يوجب العلم.[مقالات الكوثري:٧٠]
ترجمہ: ائمہ کا بطور_دلیل کسی حدیث کو لےلینا یہ ان کی طرف سے اس حدیث کو صحیح قرار دینا ہوگا، بلکہ تمام جماعتوں کے جمہور اہل_علم اس اصول پر ہیں کہ خبر_واحد کو امت جب اس کی تصدق کرتے ہوۓ قبول کرلے تو یہ علم_یقینی کا فائدہ دیتی ہے.

ہماری اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ :
(١) جس حدیث کو امت قبول کرلے یا اس پر کسی مسئلہ یا عقیدہ کی بنیاد رکھ لے، وہ حدیث صحیح کے درجہ سے متواتر کے درجہ میں ہوتی ہے اس کی سند پر بحث کرنا اصول محدثین کے خلاف ہے.
(٢) اگر کئی اخبار آحاد (واحد کی جمع) ہوں، ان سے ایک معنی "مشترک" طور پر سمجھ میں آتا ہو، تو اس بات کو تواتر_معنوی حاصل ہوگا.
(٣) تواتر کی تمام اقسام یقین کا فائدہ دیتی ہیں.
(٤) اگر اخبار آحاد پر فردا فردا اعتراضات ہوں لیکن ان سے ثابت ہونے والے مفہوم پر وہ اعتراض وارد نہیں ہوگا، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات تواتر_معنوی سے ثابت ہے، ان کی بعض روایات پر جرح اس اصل مسئلہ کے ثبوت میں کوئی نقصان نہیں پہنچاۓ گی، بلکہ ایسی روایات پر جرح کرنا ہی بے ۔ فائدہ اور بے-کار ہوگا اور ایک اتفاقی مسئلہ کو مشکوک بنانے کی سعی لاحاصل ہوگی.
(٥) اجماع اسناد سے قوی ہے یعنی جس بات پر اجماع ہوجاۓ اس کی روایات کی جانچ پرکھ کی ضرورت نہیں.
موجودہ زمانہ میں اکثر حضرات ان اصولوں سے ناواقف ہیں، اس لئے وہ ہر حدیث کو سند کے اعتبار سے پرکھنا شروع کردیتے ہیں اور (مسلمانوں کی جماعت سے دور) گمراہی کے گڑھے میں جاگرتے ہیں. منکرین حیات انبیاء (علیہم السلام) نے مسئلہ حیات کا انکار اسی وجہ سے کیا ہے، حالانکہ احادیث حیات تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں.
إن من جملة ما تواتر عن النبي صلي الله عليه وسلم حياة الانبياء في قبورهم".[نظم المتناثر من أحاديث المتواتر]
ترجمہ: جو روایات نبی (صلی الله علیہ وسلم) سے متواتر ہیں ان میں انبیاء (علیھم السلام) کا قبروں میں زندہ ہونا بھی ہے.

٦٠٠ کے قریب کتب کے مصنف علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:حياة النبي (صل الله عليه وسلم) في قبره هو وسائر الانبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت له الأخبار الدالة على ذلك.[الحاوي للفتاوى: ٢/١٣٩]
ترجمہ: نبی اقدس (صلی الله علیہ وسلم) کی اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کی قبر میں حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.

اور علامہ ابن القیم نے "کتاب الروح" میں ابو عبدالله قرطبی سے بھی اسی طرح کی بات نقل کی ہے کہ ان کے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.

چونکہ احادیث حیات الانبیاء (علیھم السلام) کو تواتر حاصل ہے، اس لئے اس کا انکار کرنے والا اہل سنّت و جماعت سے خارج (بدعتی) ہے، اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے.(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...