کیا مکہ مدینہ کا امام ہونا یا قابض ہونا مومن و مسلم ہونے کی دلیل ہے ؟ اور گستاخوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں ہوتی ؟
تاریخ سے نا بلد انسان اپنے مذہب کی تائید و حمایت میں اکثر یہی دلیل پیش کرتا ہے کعبہ الله کا گھر ہے وہاں باطل کا قبضہ نہیں ہو سکتا، کعبے کا امام غلط نہیں ہو سکتا، امام کعبہ کا عقیدہ و عمل عین اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے ۔
یہ ایک ایسی بات ہے جسے کم پڑھا لکھا انسان اپنے کم علمی کی بنیاد پر اسے سچ مان لیتا ہے ۔
کعبہ کی تاریخ اتنی ھی پرانی ھے جتنی دنیا کی تاریخ بلکہ اس سے بھی پرانی ہے ۔
مکہ مکرمہ کا ایک نام ام القری بھی ھے-یعنی بستیوں کی ماں سب سے پہلے الله نے مقدس سرزمین مکہ مکرمہ کو پیدا فرمایا اور پھر اسی سے زمین کو پھیلا دیا،یہی وجہ ھیکہ اس کا نام ام القری ھے گویا زمین کی اصل مکہ مکرمہ باقی زمینی حصہ اس کی فرع ہے ۔
اہل حق ھو یا اھل باطل ہر فریق نے اسے مقدس جانا اور باعث نجات مانا ، صبح قیامت تک لوگ طواف کرتے رھیں گے ، البتہ اتنا ضرور ھے طواف کے طریقے مختلف تھے ۔ جو جس مذھب کا پیرو کار تھا اسی کے مطابق طواف کا عمل کیا ۔
کفار مکہ ننگے ھو کر طواف کرتے تھے، اور اسکی توضیح یہ کرتے کہ جن کپڑوں میں ھم گناہ کرتے ھیں،انہیں پہن کر ھم طواف کیسے کریں ۔
طواف بھی کرتے تھے اور بتوں کی پرستش بھی کرتے تھے ۔
اھل باطل کا مکہ پر قابض ھونا اس کی حقانیت کی دلیل ھر گز نہیں بن سکتی ۔
ایمان کا معیار قران و حدیث سے ھے نہ کہ تخت و تاج و امامت و خطابت سے ۔ اگر آپ کے نزدیک مکہ کا حاکم یا امام ھونا مومن مسلم ھونے کی دلیل ھے بلفظ دیگر صاحب ایمان ھونے کا معیار مکہ کی حکومت و سلطنت و امامت و کلید بردار کعبہ کو تسلیم کرتے ھیں تو تاریخی حقائق سے نا واقفیت کی دلیل ھے ۔ آپ کے بقول مکہ مدینہ کا حاکم یا امام ھونا،مومن و مسلم اور جنتی ھونے کی دلیل ھے تو ابو جہل و ابو لہب وکفار مکہ کو بھی جنتی اور اھل حق ماننا پڑیگا ۔
کیونکہ نبی علیہ السلام کے مکی دور میں کفار مکہ ھی مکہ مکرمہ کے حاکم و کلید بردار کعبہ تھے ، حاکم ھونے کے سبب انہیں بھی آپ جنتی مسلمان کہئیے حالانکہ ان کے جہنمی ھونے کی گواھی قران و حدیث دے رھا ھے ۔
آئیے تاریخ مکہ پر ایک نظر ڈالیں
نبی علیہ السلام کے حیات طیبہ میں مکہ میں کافروں کی حکومت تھی کفار مکہ تین سو ساٹھ بتوں کی پرستش کرتے تھے اور کعبہ کا طواف بھی کرتے تھے ۔
نبی علیہ السلام کافروں کے ظلم و ستم کو دیکھ کر اور الله کے حکم سے مدینہ منورہ ھجرت فرمایا ۔
نبی صلی الله علیہ وسلم کے اس عمل اور الله کے حکم سے یہ سبق ملا کہ مقدس سرزمین پر جب اھل باطل کا قبضہ ھو جائے اور تمہارے اندر اتنی طاقت نہیں کہ باطل مقابلہ کر سکو تو اس سرزمین کو چھوڑ دو ۔
یزید مکہ و مدینہ میں قتل و غارت کیا تین دن تک مسجد نبوی میں اذان نہیں ھوئی،صحابہ،تابعین کو شہید کیا، اپنی فوج پر مدینہ کی عورتوں کو حلال کیا،
کعبۃ الله میں آگ کے گولے برسائے،غلاف کعبہ کو جلایا ۔
تین سو ساٹھ 360 ھجری کو منکرین زکوۃ نے مکہ مدینہ پر قبضہ جمایا
اور مرتد ابوطاھر قرمتی کی وجہ سے حج بند ھوگیا حاجیوں کو شہید کیا گیا
بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے غائب رھا - (حجۃ الله علی العلمین)
654 ھجری خلیفہ معتصم بالله کے دور میں شیعہ رافضیوں نے مکہ و مدینہ پے قبضہ جمایا مکہ مدینہ کے حاکم وامام بھی شیعہ تھے ۔
ڈیڑھ صدی پہلے محمد بن عبد الوہاب نجدی ایک نیا مذھب لیکر ظاھر ھوا اہل اسلام پر کفر و شرک کا فتوی لگایا، اپنے مذھب کے پیرو کاروں کو چھوڑ کر سب کو وہ کافر مشرک کہتا تھا اور واجب القتل جانتا تھااور اس نے اپنے فتوی پر سختی سے عمل بھی کیا ھزاروں علماء و صلحاء کو شہید کر دیا ۔
1925عیسوی شاہ عبد العزیز نے محمد بن عبدالوھاب نجدی کے فتوے کے مطابق تمام مزارات کو توڑ دیا ۔ شاہ عبد العزیز اور محمد بن عبد الوھاب نجدی ایک ھی سکے کا دو رخ ھے، دونوں نے ایک دوسرے کی خوب حمایت کی آج بھی سعودی سلطنت میں دو خاندانوں کا قبضہ ھے ۔ امور شرعیہ محمد بن عبد الوھاب نجدی کے نئے دین و مسلک کے علماء کے ھاتھوں میں ھے ۔ اور امور سلطنت کی ذمہ داری ال سعود کے پاس ھے ۔
مذکورہ بالا تاریخی حقائق کے انکشاف سے یہ صاف ھو گیا کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ مکہ و مدینہ کا حاکم یا امام حق پر ھو اور مومن و مسلم ھو ۔
انکار کی صورت میں آپ کو ، کافر و مشرک ، مرتد ، شیعہ رافضی ، ابو جہل ، ابولہب ، ابو طاہر ، شیعہ امام کعبہ کو مومن مسلم ماننا پڑیگا ۔ کیونکہ مذکورہ اشخاص بھی مکہ کے حاکم تھے اور یہ قران و حدیث اور اجماع کے خلاف ھے-چلے تھے دوسرے کا دفاع کرنے خود کافر مشرک ھو گئے ۔
آخر دیابنہ اور وہابیہ کی نماز شیعہ رافظی کے پیچھے کیوں نہیں ھوتی ؟
جو جواب آپ کا ھوگا وھی جواب اھلسنت کا ھوگا ، وھابی امام کے پیچھے اہلسنت کی نماز نہیں ھوتی ھے- ان کے کفریہ عقائد کی وجہ سے ۔
زمانہ ماضی کی طرح آج بھی مکہ و مدینہ پر گستاخوں کا قبضہ ھے ۔ ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment