Monday, 11 December 2017

اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں

اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں

ام المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے : ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲ! آپ مجھے میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا، اس اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے ۔
(سيوطي، الدر المنثور، 2 : 2182)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 3523)(هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 47)(طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 5153)(سيوطي، المعجم الصغير، 1 : 653)(ابو نعيم، حلية الاولياء، 4 : 7240)(ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 125)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک اور روایت اسی موضوع پر اس طرح ہے : ایک صحابی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ سے اس قدر محبت کرتا ہوں کہ (ہر وقت) آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں۔ پس جب تک میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں تو یوں محسوس کرتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی۔ اور جب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر میں جنت میں چلا گیا تو آپ سے نچلے درجے میں ہوں گا، یہ خیال میرے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ میں جنت میں آپ کی دائمی معیت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اِطاعت کرے ۔ ۔ ۔ نازل فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے بلا کر اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی ۔
(سيوطی، الدرالمنثور، 2 : 2182)(طبرانی، المعجم الکبير، 12 : 86، رقم : 312559) (هيثمی، مجمع الزوائد، 7 : 6، 47)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 523)

حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک انصاری صحابی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے اپنی جان، والدین، اہل و عیال اور مال سے زیادہ محبوب ہیں۔ اور جب تک میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنی جاں سے گزر جاؤں گا، اور (یہ بیان کرتے ہوئے) وہ انصاری صحابی زار و قطار رو پڑے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ نالۂ غم کس لئے؟ تو وہ عرض کرنے لگے : یا رسول اﷲ! جب میں خیال کرتا ہوں کہ آپ وصال فرمائیں گے اور ہم بھی مر جائیں گے تو آپ انبیاء کرام کے ساتھ بلند درجات پر فائز ہوں گے، اور جب ہم جنت میں جائیں گے تو آپ سے نچلے درجات میں ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کوئی جواب نہ دیا، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (یہ آیت مبارکہ) نازل فرمائی : ’’ اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اِطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس صحابی کو بلایا اور) فرمایا : اے فلاں! تجھے (میری ابدی رفاقت کی) خوش خبری مبارک ہو ۔
(سيوطی، الدر المنثور، 2 : 2182)(هناد، الزهد، 1 : 118، باب منازل الانبياء سعيد بن منصور، السنن، 4 : 1307، رقم : 4661)(بيهقی، شعب الايمان، 2 : 131، رقم : 1380)

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ایک انصاری صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں غمزدہ حالت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے دریافت فرمایا : اے فلاں! تم اتنے غمگین کیوں ہو؟ اس نے عرض کیا : یا نبی اللہ! مجھے آپ سے متعلق اپنی ایک فکر کھائے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کیا ہے؟ اُس نے عرض کیا : ہم صبح و شام آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، آپ کے دیدارِ سے اپنے قلب و روح کو تسکین پہنچاتے ہیں، آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ کل (آخرت میں) آپ انبیاء کرام کے ساتھ بلند مقام پر فائز ہوں گے جبکہ ہماری آپ تک رسائی نہیں ہو گی۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی کو کوئی جواب نہ دیا۔ جب جبرئیل علیہ السلام یہ آیتِ کریمہ لے کر حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس انصاری کو پیغام بھیجا اور اسے اس (دائمی رفاقت کی) بشارت دی ۔
(سيوطی، الدر المنثور، 2 : 2182)(قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 7 : 397)(طبری ، جامع البيان فی تفسير القرآن، 5 : 4163)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 523)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) ہم جانتے ہیں کہ ہر نبی کو جنت کے درجات میں اپنے اس امتی پر فضیلت حاصل ہو گی جس نے ان کی اتباع اور تصدیق کی تو پھر جنت میں معیت و رفاقت کی کیا صورت ہو گی؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاO ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّهِ وَكَفَى بِاللّهِ عَلِيمًا ۔ (القرآن، النساء، 4 : 69، 70)
ترجمہ : اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo یہ فضلِ (خاص) اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے) آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے ارشاد فرمایا کہ اوپر کے درجے والے اپنے سے نیچے کے درجے والوں کے پاس آئیں گے، ان کے پاس بیٹھیں گے اور اپنے اوپر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں گے اور اس کی حمد و ثنا بیان کریں گے ۔

کوئی مثل نئیں ڈھولن دی
چپ کر مہر علی ایتھے جا نئیں بولن دی

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اور اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے ۔ طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...