گیارہویں شریف اکابرین امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں
اﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں۔
انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں نذرونیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی۔
نذرونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
القرآن: انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر اﷲ O (سورۂ بقرہ، رکوع 5، پارہ 2 ، آیت 173)
ترجمہ: درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر اﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو۔
حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر اﷲ بہ O (سورۂ مائدہ، رکوع 5، پارہ 6، آیت 3)
ترجمہ: حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔
ان آیات میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے کیا مراد ہے:
1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
2۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرمہ نے ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔
5۔ تفسیر جلالین میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیر اﷲکے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔
ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے۔
مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا
مسلمان اﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم اﷲ اﷲ اکبر‘‘ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکواکر اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے۔
ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا
الحدیث: سیدنا حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اﷲﷺ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں۔ آپﷺ نے فرمایا!ہاں کیجئے، حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے دریافت فرمایا۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی اﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے
(بحوالہ: سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698،ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور)
محمد بن یحیی، عبدالرزاق ثوری، عبداﷲ بن محمد بن عقیل، ابوسلمہ، حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا اور ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ حضورﷺ جب قربانی کا ارادہ کرتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں دار کالے اور سیاہ رنگ دار ہوتے۔ ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح کرتے جو بھی اﷲ تعالیٰ کو ایک مانتا ہو اور رسول اﷲﷺ کی رسالت کا قائل ہو، اور دوسرا محمدﷺ اور آل محمدﷺ کی جانب سے ذبح فرماتے
(بحوالہ: سنن ماجہ جلد دوم، ابواب الاضاحی، باب اضاحی رسول اﷲﷺ، رقم الحدیث 907، ص 263، مطبوعہ فرید بک لاہور)
سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی کریمﷺ نے ایسا مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی ٹانگیں، پشت اور آنکھیں سیاہ ہوں، اسے پیش کیا گیا تاکہ آپﷺ اس کی قربانی کریں۔ نبی اکرمﷺ نے سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا، اے عائشہ! چھری لائو، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرلو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ آپﷺ نے چھری پکڑی، مینڈھے کو پکڑ کر اسے لٹایا اور پھر اسے ذبح کردیا اور پڑھا بسم اﷲ! (پھر دعا کی) اے اﷲ! محمدﷺ آل محمدﷺ اور محمدﷺ کی امت کی جانب سے اسے قبول کر (سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں) پھر آپﷺ نے اس کی قربانی کردی
(بحوالہ مسلم شریف جلد دوم، کتاب الاضاحی، رقم الحدیث 4976، ص 814، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا، یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضورﷺ کی طرف سے پیش کررہا ہوں۔
(بحوالہ: ابو داؤد جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1017، ص 391، مطبوعہ فرید بک لاہور)
فائدہ: ایصال ثواب دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو بزرگان دین کے لئے کیا جاتا ہے، دوسرا عام مسلمانوں کے لئے کیا جائے کہ دعائوں اور ایصال ثواب کے ذریعے ان کی نیکیوں میں اضافہ ہو اور ان کی اخروی زندگی سنور جائے۔ جبکہ بزرگان دین کے لئے ایصال ثواب کرنے کا یہ مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس بزرگ سے اپنی نسبت ثابت کرنا زیادہ مقصود ہوتا ہے کیونکہ وہ دوسروں کی طرح اس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ کوئی دعا اور ایصال ثواب کرکے ان کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرے۔ نبی کریمﷺ کا حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو قربانی کی وصیت کرنا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا نبی کریمﷺ کی طرف سے بھی قربانی کیا کرنا ایصال ثواب کی اسی پہلی قسم سے ہے۔ بعض حضرات جن کے دل مقربین بارگاہ الٰہیہ کی کدورت سے بھرے رہتے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ بزرگوں کے لئے ایصال ثواب کرنے والے ان کو ’’اربابا من دون اﷲ‘‘ بنائے بیٹھے ہیں۔ ورنہ بزرگوں کو تو ثواب کی ضرورت نہیں اور یہ آئے دن بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ ایصال ثواب کے پردے میں بزرگوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ ایسی ذہنیت رکھنے والے خارجیت زدہ حضرات کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت کیوں فرمائی تھی؟
حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں۔ پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔ فرمایا کہ اے عائشہ! چھری تو لائو، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا۔ اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اﷲ تعالیٰ! اسے قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے آل محمدﷺ کی طرف سے اور امت محمدﷺ کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی
(بحوالہ: ابوداؤد جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019، ص 392، مطبوعہ فرید بک لاہور)
فائدہ: نبی کریمﷺ جانور کو ذبح کرتے وقت بھی آل محمدﷺ کی جانب منسوب فرمادیا کرتے تھے اور اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کرتے۔ معلوم ہوا کہ جو جانور اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اﷲ والوں کی جانب منسوب کردینے سے یا ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ میں شمار نہیں ہوتا۔ جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیا جائے کہ ان کے لئے ایصال ثواب کرنا ہے اور اسے اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو اسے حرام اور مردار ٹھہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
الغرض کہ نام نذرونیاز کا ہے مگر درحقیقت ایصال ثواب ہی بنیاد ہے لہذا بدگمان لوگ اپنی بدگمانی دور کریں اور شریعت مطہرہ کو سمجھیں کیونکہ یہی اسلامی عقیدہ ہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا فتویٰ
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنے فتاویٰ کی جلد اول کے صفحہ نمبر 71 پر فرماتے ہیں کہ
نیاز کا وہ کھانا جس کا ثواب حضرت امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہم کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ، قل شریف اور درود شریف پڑھا جائے تو وہ کھانا برکت والا ہوجاتا ہے اور اس کا تناول کرنا بہت اچھا ہے۔
معلوم ہوا کہ ایصال ثواب کرنے سے نہ صرف میت کو ثواب پہنچتا ہے بلکہ اس کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔
گیارہویں شریف صالحین کی نذر میں
1۔ سراج الہند محدث اعظم ہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ گیارہویں کے متعلق فرماتے ہیں:
’’حضرت غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کے روضہ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے، نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اردگرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر ذکر جہر کرتے، اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی، اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی، تقسیم کی جاتی اور نماز عشاء پڑھ کر لوگ رخصت ہوجاتے ۔ (ملفوظات عزیزی، فارسی، مطبوعہ میرٹھ، یوپی بھارت ص 62)
2: گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ گیارہویں شریف کے متعلق فرماتے ہیں : آپ اپنی کتاب ’’ماثبت من السنہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : میرے پیرومرشد حضرت شیخ عبدالوہاب متقی مہاجر مکی علیہ الرحمہ 9 ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کو عرس کرتے تھے، بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ میں متعارف ہے ۔ (ماثبت من السنہ از: شاہ عبدالحق محدث دہلوی، عربی، اردو مطبوعہ دہلی ص 167)
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی دوسری کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : حضرت شیخ امان اﷲ پانی پتی علیہ الرحمہ (المتوفی 997ھ) گیارہ ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم رضی اﷲعنہ کا عرس کرتے تھے ۔ (اخبار الاخیار، از: محدث شاہ عبدالحق دہلوی علیہ الرحمہ ص 498(اردو ترجمہ) مطبوعہ کراچی)
حضرت شیخ عبدالوہاب متقی مکی علیہ الرحمہ، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ، حضرت شیخ امان اﷲ پانی پتی علیہ الرحمہ اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ یہ تمام بزرگ دین اسلام کے عالم فاضل تھے اور ان کا شمار صالحین میں ہوتا ہے، ان بزرگوں نے گیارہویں شریف کا ذکر کرکے کسی قسم کا شرک و بدعت کافتویٰ نہیں دیا۔
تمام دلائل و براہین سے معلوم ہوا کہ گیارہویں شریف کا انعقاد کرنا سلف وصالحین کا طریقہ ہے جوکہ باعث اجروثواب ہے۔
گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’ماثبت من السنہ‘‘ کے صفحہ نمبر 312 پر لکھتے ہیں کہ : غوث اعظم علیہ الرحمہ کی اولاد و مشائخ عظام مقیم ہند (وپاک) گیارہویں شریف کو غوث اعظم علیہ الرحمہ کا عرس مناتے تھے ۔ (شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی کتاب عربی زبان میں ہے جوکہ دیوبندیوں کے ادارے دارالاشاعت کراچی سے شائع ہوئی)
گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’ماثبت من السنہ‘‘ کے صفحہ نمبر 160, 161پر لکھتے ہیں کہ غوث اعظم علیہ الرحمہ کی اولاد و مشائخ عظام مقیم ہند (وپاک) گیارہویں شریف کو غوث اعظم علیہ الرحمہ کا عرس مناتے تھے ۔ (شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی کتاب اردو زبان میں ہے جوکہ دیوبندیوں کے ادارے دارالاشاعت کراچی سے شائع ہوئی)
مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں تو اُس کے بیٹے ھشام نے پچاس غلام آزاد کردئیے، اس کے دوسرے بیٹے عمروبن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ باقی پچاس غلام آزاد کردے ، وہ کہتے ہیں یہاں تک کہ میں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور ھشام نے پچاس غلام آزاد کر بھی دئیے ہیں اور باقی پچاس غلام رہتے ہیں، میں وہ آزاد کردوں ؟ تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انہ لوکان مسلم فاعتقتم عنہ ا وصد قتم عنہ او حججتم عنہ بلغہٗ ذالک ۔ رواہ ابوداؤد‘‘ (مشکوٰۃ باب الوصایا، مطبوعہ ملتان، ص۲۶۶)
اگر وہ مسلمان ہوتا تو پھر تم اُس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا اُس کی طرف سے کوئی صدقہ کرتے یا اُس کی طرف سے حج کرتے تو اُس کو ثواب(فائدہ) پہنچتا‘‘۔
دوسری حدیث جس کے راوی حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں، حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:کل معروفِِ صد قۃٌ رواہ امام احمد، امام ترمذی
(مشکوٰۃ باب فضل الصد قۃ ، ص۱۶۸)’’ہر کار خیر صدقہ ہے‘‘
فرض، واجب کا ثواب ایصال نہیں ہوسکتا، صدقات نافلہ کا ثواب ایصال ہوسکتا ہے ، اَب حدیث رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو سامنے رکھا جائے تو فوت شدگان کی دو قسمیں ہوگئیں ، ایک قسم تو کافروں اور نام نہاد مسلمانوں کی اور دوسری قسم صحیح العقیدہ مسلمانوں کی، پہلی قسم کو ایصال ثواب کرنا بے کار اور فضول خرچی ہے ا ور اُن کے ورثاء کو اس فضول خرچی سے واقع ہی گریز کرنا چاہئیے اور وہ گریز کرتے بھی ہیں ، جب کہ فوت شدگان کی دوسری قسم کو ہر قسم کے صدقات نافلہ کا ثواب پہنچ سکتا ہے اور اُن کے ورثاء بھی الحمد ﷲ اُن کو ایصال ثواب کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
راستے میں پڑے ہوئے پتھر یا کانٹوں کو لوگوں کے آرام کی غرض سے ہٹا دینا کہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو اور یہ نیت کرلینا کہ اے اﷲ کریم میرے اس عمل کا ثواب فلاں فوت شدہ کو پہنچے ، تو جائز ہے درست ہے، ایصال ثواب کے لئے کوئی ایک طریقہ مخصوص سمجھنا نادانی اور جہالت ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان ابتداء ہی سے مختلف انداز میں ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتے رہے، کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے، موجودہ دور میں ایصالِ ثواب کے پروگرام مختلف ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں، جن میں ایک نام’’گیارھویں‘‘ کا بھی آتا ہے ، حضور غوث اعظم سیّدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ (غوث اعظم اور رضی اﷲ عنہ کہنے کی وضاحت مضمون کے آخر میں کردی گئی ہے) سے عقیدت ومحبت کی وجہ سے ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو مسلمان آپ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں ، گیارہ تاریخ کو ایصال ثواب کرنے کی وجہ سے اس ایصال ثواب کانام’’گیارہویں‘‘ مشہور ہوگیا، اور مہینے کی گیارہ تاریخ کو مقرر کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنی سہولت کے لئے اور یہ کہ اس کا اہتمام یاد رہے ، اس کے علاوہ یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اس دن کے سوا ثواب پہنچتا ہی نہیں ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں حضور سیّدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے وصال کی تاریخ گیارہ ربیع الثانی مشہور ہے، اہل سنت ہر سال گیارہ ربیع الثانی کو آپ کے عرس یعنی یومِ وصال کے دن آپ کی روح کو ایصال ثواب کرتے ہیں ، بعض بزرگوں کے نزدیک آپ کے وصال کی تاریخ نو ربیع الثانی ہے، برّ صغیر پاک وہند میں ہر اسلامی مہینہ کی گیارہ تاریخ کو آپ کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے، یعنی ایصال ثواب میں کوئی بندش نہیں ہے، چاہے ہرسال ایصال ثواب کیا جائے، چاہے ہر مہینہ، چاہے ہر روز کیا جائے، اسلام میں سال کے سارے دنوں میں ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے ۔
فوت شدگان کے لئے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، نام بدلنے سے کوئی خرابی نہیں آتی، حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں تعلیم گاہ کانام’’صُفہ‘‘ تھا، اب اس کے کئی نام ہیں مثلاً مدرسہ، مکتب، اسکول وغیرہ، گیارھویں کا ایصال ثواب کے علاوہ کوئی اور مطلب ومفہوم نہیں، باقی ہر قسم کے اعتراضات، شکوک وشبہات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں ۔
مسلمانان اہل سنت اس ایصال ثواب کو فرض، واجب اور سنت نہیں سمجھتے، نہ ہی اہل سنت کے کسی معتبر ومستند عالم دین کی تحریر میں ایسا ملے گا، اہل سنت صرف اسے مستحسن یعنی ایک اچھا فعل سمجھتے ہیں ، کسی مسلمان کو ایصال ثواب کرنا اچھا فعل ہی ہے، بُرا کام نہیں ، باقی جھوٹے الزامات لگا کریا کسی جاہل کے فعل کو دیکھ کر مسلمانوں کے متعلق بدگمانی کرنا اچھا نہیں۔
حافظ صلاح الدین غیر مقلد، ایڈیٹر ہفت روزہ الاعتصام، لاہور، اپنی کتاب ’’قبر پرستی‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’گیارہویں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خوشنودی کے لئے کی جاتی ہے اور اس میں یہ عقیدہ کار فرماہوتا ہے کہ گیارہویں سے حضرت پیر صاحب خوش ہوں گے، جس سے ہمارے کاروبار میں ترقی ہوگی، ہماری حاجات پیر صاحب پوری فرمائیں گے اور اگر ہم نے گیارھویں میں کوتاہی کی تو پیر صاحب ناراض ہوں گے، جس سے ہمارا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا اور ہماری حاجات پوری ہونے سے رہ جائیں گی‘‘۔
( ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث، لاہور، شمارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۸۷ئ)
( صلاح الدین یوسف، قبر پرستی، مطبوعہ لاہور ۱۹۹۲ئ، ص۱۴۶)
حافظ صلاح الدین صاحب نے الزام لگاتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ اہل سنت کی فلاں کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے، یا فلاں مستند عالم دین یا مفتی نے یہ کہا ہے، بس یہ غیر مقلدین ایسے ہی بہتان لگا کر اور مفروضے قائم کرکے اہل سنت کے معمولات کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں ، تاکہ مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ بازی ختم نہ ہوسکے۔
قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رو سے مومن کے حق میں بد گمانی حرام ہے، قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یایھاالذ ین امنو اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۔ (سورہ الحجرات: ۱۲)
ترجمہ۔ اے ایمان والو اکثر گمانوں سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔
حدیث شریف میں ہے : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحد یث
(بخاری شریف، جلد۲، ص۸۹۶)
ترجمہ۔ بدگمانی سے دور رہو بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے ۔
دوسری حدیث میں ے : افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم اقالھا ام لا
(مسلم شریف، جلد۲، ص۳۲۶)
ترجمہ۔ تونے اس کے دل کو چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تجھے معلوم ہوجاتا کہ اس نے(دل سے کلمہ کہا ہے یا نہیں) ۔
گیارھویں صالحین کی نظر میں
حضرت محقق شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب’’ماثبت من السنۃ‘‘میں لکھتے ہیں کہ : میرے پیرومرشد شیخ عبدالوھاب متّقی مہاجر مکّی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نو ربیع الثانی کو حضرت غوث ِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا عرس کرتے تھے’’بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد ومشائخ میں متعارف ہے‘‘۔(ماثبت من السنۃ، (اُردو ترجمہ) مطبوعہ اعتقاد پبلشنگ ھائوس دہلی۱۹۸۸ء ، ص۱۶۷)
حضرت شیخ محقق عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنی دوسری تصنیف’’زاد المتقین فی سلوک طریق الیقین‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’حضرت غوث پاک کا عرس نویں ربیع الآخر کو کیا جاتا ہے، بہجۃ الاسرار کی روایت کے مطابق یہی صحیح تاریخ ہے، اگرچہ ہمارے دیار میں گیارھویں تاریخ مشہور ہے ۔ (زادالمتقین فی سلوک طریق الیقین، اُردوترجمہ، مطبوعہ الرحیم اکیڈمی لیاقت آباد کراچی۱۹۹۸ئ، ص۱۲۵)
گیارہ ربیع الثانی کو حضور غوث پاک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاعرس منانا بزرگوں کا معمول رہا ہے، چنانچہ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی مشہور تصنیف’’اخبارالاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ امان اﷲ پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ(متوفی۹۹۷ھ) گیارہ ربیع الثانی کو حضرت غوث پاک کاعرس کرتے تھے۔
(اخبار الاخیار(اُردو ترجمہ) ، مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی، ص۴۹۸)
شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمہ غیر مقلدین کی نظر میں : نواب صدیق حسن خاں بھوپالی(متوفی۱۳۰۷ھ/۱۸۹۰ئ) لکھتے ہیں : ’’ہندوستان میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد ہی سے علم حدیث معدوم تھا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اس سرزمین میں اپنا فضل واحسان کیا اور یہاں کے بعض علماء جیسے شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ وغیرہ کو اس علم سے نوازا، شیخ ہندوستان میں علمِ حدیث کو لانے اور اس کے باشندوں کو اس کا فیض عام کرنے والے پہلے شخص ہیں ۔ (دوروشن ستارے، از عبدالرشید عراقی، مطبوعہ لاہور۲۰۰۰ئ، ص۹۰، بحوالہ’’الحطہ فی ذکر صحاح التہ، از نواب صدیق حسن خاں، ص۷۰)
مسعود عالم ندوی (متوفی۱۳۷۴ھ) لکھتے ہیں: ’’ان(شیخ عبدالحق محدّث دہلوی) کی ذات سے شمالی ہند میں علم حدیث کی زندگی ملی اور سنت نبوی کا خزانہ ہر خاص وعام کے لئے عام ہوگیا… ہم آج ان کے شکر گزار ہیں اور علمی خدمات کا دل سے اعتراف کرتے ہیں‘‘۔(دوروشن ستارے، از عبدالرشید عراقی، مطبوعہ لاہور، بحوالہ الفرقان، لکھنؤ، شاہ ولی اﷲ نمبر، ص۳۷)
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(متوفی۱۹۵۶ئ) ، شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’مجھ عاجز کو آپ کے علم وفضل اور خدمتِ علم حدیث اور صاحبِ کمالات ظاہری وباطنی ہونے کی وجہ سے حُسنِ عقیدت ہے، آپ کی کئی تصانیف میرے پاس موجود ہیں جن سے میں بہت سے علمی فوائد حاصل کرتا رہتا ہوں‘‘۔(تاریخ اہل حدیث، مطبوعہ مکتبہ الرحمن سرگودھا(پنجاب)، ص۲۷۴)
شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ علماء دیوبند کی نظر میں
اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: ’’بعض اولیاء اﷲ ایسے بھی گزرے ہیں کہ خواب یا حالتِ غیبت میں روزمرہ ان کو دربار نبوی (ﷺ) میں حاضری کی دولت نصیب ہوتی تھی، ایسے حضرات صاحبِ حضوری کہلاتے ہیں، انہیں میں سے ایک حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ہیں کہ یہ بھی اس دولت سے مشرّف تھے اور صاحبِ حضوری تھے‘‘۔
(عبدالحلیم چشتی فاضل دارالعلوم دیوبند، فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ، مطبوعہنور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۱۳۸۳ھ/۱۹۶۴ئ، ص۲۲۱۔ بحوالہ الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ، اشرف المطابع، تھانہ بھون(ضلع مظفر نگر، یوپی، بھارت)۱۹۴۱ئ، ج۷، ص۶)
آیۃ اﷲ، حجۃ اﷲ، سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ گیارھویں کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ عنہ کے روضہ مبارکہ پر گیارھویں کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے، نماز عصر کے بعد مغرب تک کلام اﷲ کی تلاوت کرتے اور حضرت غوثِ اعظم کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے ارد گرد مریدین حلقہ بگوش بیٹھ کر ذکر جہر کرتے، اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی، اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی، تقسیم کی جاتی اور نماز عشاء پڑھ کر لوگ رخصت ہوجاتے ۔ (ملفوظاتِ عزیزی(فارسی) مطبوعہ میرٹھ، یوپی ۔بھارت، ص۶۲)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی علیہ الرحمہ علماء دیوبند وغیر مقلدین کی نظر میں
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی لکھتے ہیں :’’ شاہ عبدالعزیز بن شیخ اجل ولی اﷲ محدث دہلوی بن شیخ عبدالرحیم عمری رحمہم اﷲ، استاذ الاساتذہ، امام نقاد، بقیۃ السلف، حجۃ الخلف اور دیارِ ھند کے خاتم المفسرین ومحدثین اور اپنے وقت میں علماء ومشائخ کے مرجع تھے، تمام علومِ متداولہ اور غیر متداولہ میں خواہ فنونِ عقلیہ ہوں یا عقلیہ، ان کو جو دستگاہ حاصل تھی وہ بیان سے باہر ہے ۔ (اتحاف النبلائ، مطبوعہ کانپور ۱۲۷۸ھ، ص۲۹۶)
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں !’’ بڑے بڑے علماء آپ کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں اور فضلاء آپ کی تصنیف کردہ کتابوں پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں‘‘۔
(تاریخ اہل حدیث، مطبوعہ سرگودھا،سن طباعت ندارد، ص۲۸۸)
مولوی سرفراز خاں صفدر(گوجرانوالہ) لکھتے ہیں !’’بلا شبہ مسلک دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات شاہ عبدالعزیز صاحب کو اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، بلا شبہ دیوبندی حضرات کے لیے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ (اتمام البرھان، حصہ اوّل، مطبوعہ گوجرانوالہ۱۹۸۱ئ، ص۱۳۸)
حضرت شیخ عبدالوھاب متقی مکی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت شیخ امان اﷲ پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ، یہ تمام بزرگ دیںِ اسلام کے عالم وفاضل تھے اور ان کا شمار صالحین میں ہوتا ہے، ان بزرگوں نے گیارھویں شریف کا ذکر کرکے کسی قسم کا شرک وبدعت کا فتویٰ نہیں دیا۔
صلحاء کا طریقہ جائز ہوتا ہے غیر مقلد ین کا فتویٰ : اب ہم غیر مقلدین کے مشہور عالم مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے فتوے نقل کرتے ہیں جن میں انہوں نے صالحین کے طریقہ کار کو جائز اور درست لکھا ہے۔
مولوی ثناء اﷲ امرتسری سے سوال کیا گیا کہ چینی کی رکابیوں (پلیٹوں) پر جو لوگ عربی وغیرہ لکھ کر بیماروں کو پلاتے ہیں، یہ درست ہے یا نہیں ؟
مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ: ’’آیات قرآنی کو لکھ کر پلانا بعض صلحاء نے جائز لکھا ہے‘‘ (اخبار اہل حدیث، امرتسر ۲۲؍محرم ۱۳۶۲ھ)
(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۶۸)
مولوی صاحب سے ایک سوال کیا گیا کہ’’جو لوگ تعویذ وغیرہ لکھ کر باندھتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟ (میر عظمت اﷲ ، مدراس)
مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ: ’’تعویذ کا مضمون اگر قرآن وحدیث کے مطابق ہو یعنی شرکیہ نہ ہو تو بعض صلحاء بچوں کے گلے میں ڈالنا جائز کہتے ہیں‘‘۔ اﷲ اعلم(اہل حدیث، ۲۹؍ محرم ۱۳۶۲ھ)
(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۶۸)
الحمد ﷲ ان دونوں فتووؤں سے ثابت ہوا کہ جس کام کو صلحاء یعنی نیک لوگ جائز سمجھیں وہ کام جائز ہے، شرک وبدعت اور ناجائز نہیںہے، حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کی گیارھویں یعنی آپ کے لئے ایصال ثواب کو صالحین نے جائز سمجھا ہے، تو ان کے فیصلہ کو ماننا چاہئیے اور امت مسلمہ پر شرک وبدعت کے فتوے لگا کر تفرقہ بازی سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
ایصال ثواب سے متعلق مولوی ثناء اﷲ غیر مقلد سے ایک سوال کیا گیا کہ : ’’میّت کو ثواب رسانی کی غرض سے بہ ہیئت اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست ہے یا نہیں؟ ‘‘
مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ: ’’بہ نیت نیک جائز ہے اگرچہ ہیئت کذائی سنت سے ثابت نہیں، میّت کے حق میں سب سے مفید تر اور قطعی ثبوت کا طریق استغفار(بخشش مانگنا) ہے ۔ ( فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ششم کتاب الجنائز، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۵۱)
مولوی ثناء اﷲامرتسری غیر مقلد نے یہ لکھا کہ ’’ بہ نیت نیک جائز ہے اگرچہ ہیئت کذائی سنت سے ثابت نہیں‘‘ اہل سنت حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کے لئے جو ایصال ثواب کرتے ہیں وہ نیک نیت سے ہی قرآن خوانی اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں ، اور بقول مولوی ثناء اﷲاگرچہ ایصال ثواب کی یہ شکل سنت سے ثابت نہ ہو پھر بھی جائز ہے۔
ایصال ثواب کی نیت سے گیارھویں جائز ہے مولوی ثناء اﷲ امرتسری غیر مقلد کا فتویٰ
مولوی ثناء اﷲ امرتسری سے سوال کیا گیا کہ : ’’کل یہاں ایک جلسہ بنگلور کے مسلم لائبریری کا ہوا جس میں مولوی حاجی غلام محمد شملوی نے لیکچر دیا، دورانِ تقریر میں گیارھویں اور بارھویں میں برائے ایصالِ ثواب غرباء کو کھانا کھلانا جائز کہا ہے، آپ اس کے عدم ثبوت کے دلائل پیش کریں‘‘ ۔
مولوی ثناء اﷲ امرتسری غیر مقلد جواب میں کہتے ہیں کہ : ’’ گیارھویں بارھویں کی بابت فریقین میں اختلاف صرف اتنی بات میں ہے کہ مانعین اس کو لغیر اﷲ سمجھ کر مااھل لغیر اﷲ میں داخل کرتے ہیں، اور قائلین اس کو لغیر اﷲ میں نہیں جانتے، مولوی غلام محمد صاحب نے دونوں کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی ہوگی کہ گیارھویں بارھویں کا کھانا بغرض ایصال ثواب کیا جائے یعنی یہ نیت ہوکہ ان بزرگوں کی روح کو ثواب پہنچے نہ کہ یہ بزرگ خود اس کھانے کو قبول کریں، اس صورت میں واقعی اختلاف اُٹھ جاتا ہے، ہاں نام کا جھگڑا باقی رہ جاتا ہے کہ اس قسم کی دعوت کو گیارھویں بارھویں کہیں یا نذر اﷲ کہیں، اس میں شک نہیں کہ شرع شریف میں گیارھویں بارھویں کے ناموں کا ثبوت نہیں، اس لئے یہ نام نہیں چاہئیے، فقط دعوت ﷲ فی اﷲ کی نیت چاہئیے‘‘۔(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، ص۷۱، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنۃ ، لاہور)
الحمد ﷲ اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کی روح کو ایصال ثواب کیا جائے، منکرین اسے گیارھویں نہ کہیں، ایصال ثواب کہہ لیں، لیکن ایصال ثواب کریں تو سہی، یہ تو ایصال ثواب کرنے والوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں تاکہ فرقہ بندی اور انتشار ختم نہ ہواور پیٹ کا دھندہ چلتا رہے۔
ا یصال ثواب کی نیت سے گیا رھو یں جا ئز ہے مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی کا فتویٰ : مولوی رشید احمد گنگوھی سے سوال کیا گیا کہ :’’ایک شخص ہر مہینہ کی گیارہ تاریخ کو گیارہویں کرتا ہے نذر اﷲ اور کھانا پکا کر غرباء اور امراء سب کو کھلاتا ہے اور اپنے دل میں یہ سمجھتا ہے کہ جو چیز نذر لغیراﷲ ہو وہ حرام ہے اور میں جو گیارہویں کرتا ہوں یا توشہ کرتا ہوں کہ جو منسوب ہے بفعل حضرت بڑے پیر صاحب اور حضرت شاہ عبدالحق صاحب (ردولوی) کے، ہر گز ان حضرات کی نذر نہیں کرتا بلکہ محض نذر اﷲ کرتا ہوں صرف اس غرض سے کہ یہ حضرات کیا کرتے تھے، ان کے عمل کے موافق عمل کرنا موجب خیروبرکت ہے، اور جو شخص ان حضرات کی یا اور کسی کی نذر کرے گا سوائے اﷲ جل شانہ، وہ حرام ہے، کبھی حلال نہیں ، تو اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ ایسے عقیدے والے کو گیارہویں یا توشہ(شاہ عبدالحق ردولوی چشتی) کا کرنا جائز ہے یا نہیں اور موجب برکت بھی ہے یا نہیں اور اس کھانے کو مسلمان دین دار تناول فرمائیں یا نہیں؟ ‘‘
مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں : ’’ ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ کرنا درست ہے، مگر تعیّن یوم وتعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے، اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں جانتا مگر دیگر عوام کو موجب ضلالت ہوتا ہے، لہذا تبدیل یوم وطعام کیا کرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ‘‘۔(فتاویٰ رشیدیہ، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی، ص۱۶۴)
دیوبندی فرقہ کے امام مولوی رشید احمد گنگوہی نے یہ تسلیم کرلیا کہ ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کرنا درست ہے، رہا اعتراض تعیّن یوم اور تعین طعام کا، تو عرض ہے کہ اہلسنت تو سہولت کے پیشِ نظر دن مقرر کرتے ہیں ، اسے تعین عرفی کہتے ہیں، اس کے متعلق یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ ایصال ثواب صرف گیارہ تاریخ کو ہی کیا جائے، اس دن کے علاوہ نہ کیا جائے ، اور یہ اعتقاد بھی نہیں رکھتے کہ گیارہ تاریخ سے آگے پیچھے کسی اور تاریخ کو ثواب نہیں پہنچتا۔
تعیّن شرعی اور تعیّن عرفی : تعیّن شرعی اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص ایصال ثواب کے لئے دن مقرر کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس دن کے علاوہ ایصال ثواب نہیں ہوسکتا، یا جو ثواب اس وقت ہے وہ کسی اور وقت میں نہیں ہوسکتا، تو یہ تعین شرعی ہوگا، اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک نہیں، تعین شرعی شارع کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے، کسی شخص کو اپنے طور پر مقرر کرنے کا کوئی حق نہیں۔
تعیّن عرفی اسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بعض سہولتوں کے پیش نظر کوئی دن یا وقت ایصال ثواب کے لئے مقرر کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دوسرے اوقات میں بھی ایصال ثواب ہوسکتا ہے اور تمام اوقات میں ثواب یکساں پہنچتا ہے تو یہ تعین عرفی ہے، اسے ناجائز کہنا کسی طرح درست نہیں ۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اپنے وعظ کے لئے جمعرات کا دن مقرر فرمایا تھا، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ روزانہ وعظ فرمایا کیجئے ، فرمایا تم کو تنگی میں ڈالنا مجھ کو پسند نہیں۔ (مشکوٰۃ، باب العلم)
ہر دن ہر تاریخ کو ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے، گیارھویں یعنی ایصال ثواب چاہے دس تاریخ کو کریں،چاہے گیارہ کو، چاہے بارہ تاریخ کو، چاہے تیرہ تاریخ کو ، کسی بھی تاریخ کو کرلیں، کسی دن بھی منع نہیں، دراصل ان لوگوں کو لفظ’’گیارھویں‘‘ سے چڑ ہوگئی ہے اور کوئی بات نہیں، اور یہ خواہ مخواہ کی چڑ اور ضد ہے، اس بے عقلی کا کوئی علاج نہیں، اﷲ کریم ہی ہدایت فرمائے۔
رہا تعین طعام تو یہ بھی فضول اعتراض ہے، آپ جو مرضی ہو پکا لیں یا آپ کچھ نہ پکائیں، کسی کھانے کا اہتمام نہ کریں، صرف سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص یا جتنا بھی قرآن کریم پڑھ سکیں، اس کا ایصال ثواب کردیں، مگر سچ بات یہ ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے، صرف اعتراض ہی اعتراض ہے۔
کسی جائز کام کے لئے دن تاریخ مقرر کرنے کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ مقرر ہ دن یاد رہے، دن مقرر ہوگا تو سب لوگ جمع بھی ہوجائیں گے اورمل کر یہ کام کریں گے ، اگر کوئی وقت مقرر نہ ہو تو بخوبی یہ کام نہیں ہوتے ، کوئی کسی دن آئے گا اور دوسرا کسی اور دن آئے گا ، انتظامی امور کے لئے ایسا کام درست طریقہ سے سر انجام نہیں ہو پاتا اور اہتمام کرنے والا بھی پریشان ہوتا ہے، محض سہولت کے لئے ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کو ایصال ثواب کرنے کے لئے مقرر کی جاتی ہے، تاکہ دوست احباب کو ہر ماہ اطلاع نہ کرنی پڑے، تاریخ مقرر کرنے کا یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ اس تاریخ سے آگے یا پیچھے کسی تاریخ کو یااس کے علاوہ کسی اور دن کو ثواب نہیں پہنچتا، یہ عقیدہ نہیں ہوتا، سال کے سارے دن ثواب کے لئے جائز ہیں، اکثر جگہ گیارہ تاریخ کے بجائے دوسری تاریخوں میں ایصال ثواب کیا جاتا ہے ، مگر اس ایصال ثواب کو اس دن بھی گیارھویں ہی کہتے ہیں، مقصد تو ایصال ثواب ہے۔
تعیّن تاریخ اور علمائے د یوبند : علمائے دیوبند کے پیرومرشد حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : ’’ رہا تعین تاریخ ، یہ بات تجربے سے معلوم ہوتی ہے کہ جو امر کسی خاص وقت میں معمول ہو تو اس وقت وہ یاد آجاتا ہے اور ضرور ہو رہتا ہے، اور نہیں تو سالہا سال گزر جاتے ہیں کبھی کبھی خیال بھی نہیں ہوتا، اسی قسم کی مصلحتیں ہر امر میں ہیں جن کی تفصیل طویل ہے محض بطور نمونہ تھوڑا سا بیان کیا گیا ذہین آدمی غور کرکے سمجھ سکتا ہے اور قطع نظر مصالح مذکور کے ان میں بعض اسرار بھی ہیں، پس اگر یہی مصالح بنائے تخصیص ہوں تو کچھ مضائقہ نہیں‘‘۔
(فیصلہ ہفت مسئلہ، مطبوعہ مجتبائی کانپور، ص۶)
غیر مقلدین کا عقیدہ : تعیّن یوم کے بارے میں غیر مقلدین بھی یہ اعتراض کیا کرتے ہیںکہ اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ نے جس بات کا تعین کردیا وہی درست ہے ، اپنی طرف سے کسی کام کے لئے کوئی وقت، دن اور تعداد مقرر کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اہل سنت اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ تعین شرعی نہیں بلکہ یہ تعین عرفی ہے ، لیکن غیر مقلدین اس وضاحت کو بھی نہیں مانتے ، اﷲ کریم ہدایت دے، درج ذیل میں غیر مقلدین کے تحریر کردہ ایک عمل کے لئے عرفی طور پر وقت اوردنوں کی تعداد مقرر کرنے کے بارے میں ایک حوالہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔
مولانا محمد صادق سیالکوٹی نے اپنی مشہور کتاب’’صلوٰۃ الرسول‘‘ میںآیت کریمہ ’’لا اِلٰہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظالمین ‘‘کے تین عمل درج کئے ہیں، پہلے عمل کے متعلق لکھتے ہیں : ’’ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہر روز رات کو بعد نماز عشاء ایک ہزار بار پڑھیں، اوّل آخر تین تین بار درود شریف، بارہ روز تک پڑھیں(اگر کام نہ ہو تو) چالیس روز پڑھیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چالیس روز میں سوا لاکھ بار پڑھیں، ہر روز تین ہزار ایک سو پچیس بار پڑھیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ نماز عشاء کے بعد تاریک مکان میں بیٹھ کر ایک پانی کا پیالہ بھر کر آگے رکھ لیں اور دعا تین سو بار پڑھیں، ہر سو بار پڑھنے کے بعد ہاتھ پانی میں ڈال کر منہ اور بدن پر پھیرتے رہیں، جب پڑھ چکیں تو اکتالیس بار درود شریف پڑھیں، اسی طرح اکتا لیس روز تک یہ عمل کریں ‘‘۔
(صلوٰۃ الرسول، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ، حق سٹریٹ اُردو بازار، لاہور، ص ۴۵۰، ۴۵۱)
اب سوال یہ ہے کہ اس آیت کریمہ پڑھنے کے ان تین طریقوں میں وقت، تعداد اور دنوں کا جو تعیّن ہے ، یہ تعین شرعی ہے یا عرفی ہے؟ اور یہ تعین قرآن مجید کی کس آیت سے ثابت ہے؟ اگر قرآن میں نہیں تو حدیث کی کس کتاب میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ طریقہ منقول ہے؟ اور گیارھویں کے ساتھ لفظ’’شریف‘‘ کہنے پر اعتراض کرنے والوں سے یہ بھی سوال ہے کہ اس عمل میں لفظ دُرود کے ساتھ شریف کا لفظ کس حدیث سے ثابت ہے؟ ۔
ایک شُبہ کا ازالہ : گیارھویں کے متعلق کسی ذہن میں یہ شُبہ آسکتا ہے کہ جب کسی چیز پر غیر اﷲ کانام آجائے تو وہ حرام ہوجاتی ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے ’’ وما اھل بہٖ لغیراﷲ ‘‘ یعنی جس پر غیر اﷲ کانام پُکارا جائے وہ حرام ہے، تو جس صدقہ وخیرات کے متعلق یہ کہا جائے کہ حضور غوث پاک کے لئے ہے، وہ اس آیت کی رو سے حرام ہے۔
وما اھل بہٖ لغیر اﷲ‘‘ کی تفسیر بعض لوگ اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی ’’تفسیر عزیزی‘‘ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ ایصال ثواب کی خاطرجس جانور کی نسبت کسی بزرگ کی طرف کردی ہو وہ حرام ہے اگرچہ اسے ذبح کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کا ہی نام لیا جائے۔
اس مسئلہ کی وضاحت میں ضیغم اسلام علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہوی رحمتہ اﷲ علیہ نے تفسیر عزیزی اور فتاویٰ عزیزی کی داخلی شہادتوں سے ثابت کیا ہے کہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ کے نزدیک وہی جانور حرام ہے جس کے ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام لیا گیا ہو، محض کسی بزرگ کی نسبت کردینے سے جانور حرام نہیں ہوجاتا، ذیل میں علامہ کاظمی کے رسالہ مبارکہ’’ تصریح المقال فی حل امر الاہلال‘‘ سے اس بحث کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تفسیر عزیزی میں انواع شرک کے تحت مشرکین کے چند فرقے شمار کئے ہیں، ان میں چوتھا فرقہ پیر پرستوں کا ہے، اس کے متعلق محدث دہلوی نے فرمایا! چوتھا گروہ پیر پرست ہے، جب کوئی بزرگ کمال ریاضت اور مجاہدہ کی بنا پر اﷲ تعالیٰ کے ہاں مقبول دعائوں اور مقبول شفاعت والا ہوکر اس جہان سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کی روح کو بڑی قوت و وسعت حاصل ہو جاتی ہے، جو شخص اس کے تصور کو واسطہ فیض بنا لے یا اس کے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ یا اس کی قبر پر سجدہ اور تذلل تام کرے( اس جگہ اصل عبارت یہ ہے)
’’ یا در مکان نشست و برخاست او، یا بر گور او سجود و تذلل تام نماید‘‘
تو اس بزرگ کی روح وسعت اور اطلاق کے سبب خود بخود اس پر مطلع ہوجاتی ہے اور اس کے حق میں دنیا و آخرت میں شفاعت کرتی ہے۔
(شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، تفسیر عزیزی: دہلی ،لال کنواں ، س ن ، ص۱۲۷( سورۃ البقرہ)
یہ گروہ واقعی مشرک تھا جو قبروں پر تذلل تام کے ساتھ سجدہ کرتا تھا، علامہ ابن عابدین شامی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!’’العبادۃ عبارۃ عن الخضوع والتزلل‘‘(شامی ، ابن عابدین شامی، ردالمحتار[ج۲] : قاہرہ ، س ن ، ص۲۵۷)
ترجمہ۔ خضوع اور تذلل تام کو عبادت کہتے ہیں۔
آج کل کے خوارج کی ستم ظریفی ہے کہ وہ اولیاء اﷲ کے عقیدت مند اہل سنت و جماعت کو پیر پرست کہہ کر مشرک قرار دیتے ہیں، حالانکہ عامۃ المسلمین عبادت اور انتہائی تعظیم صرف اﷲ تعالیٰ کے مانتے ہیںکسی دوسرے کے لئے نہیں، حضرت شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ کا روئے سخن اُس گروہ مشرکین کی طرف ہے، ان کا طریقہ یہ تھا کہ جانور کی جان دینے کی نذر شیخ سدّو وغیرہ کے لئے مانتے اور اس کی تشہیر کرتے تھے، پھر اسی نیت کے تحت شیخ سدو وغیرہ کے لئے خون بہانے کی نیت سے اسے ذبح کرتے تھے، ظاہر ہے کہ یہ ذبح کسی طرح حلال نہیں ہو سکتا، کم فہم لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت شاہ صاحب نے محض کسی بزرگ کی طرف نسبت کرنے کی بنا پر ان جانوروں کو حرام قرار دیا ہے، حالانکہ یہ قطعاً باطل ہے اور شاہ صاحب پر بہتان صریح ہے۔
شاہ صاحب نے تفسیر عزیزی میں اپنے موقف کی وضاحت کے لئے تین دلیلیں پیش کی ہیں ! پہلی دلیل: یہ حدیث ہے ’’ ملعون من ذبح لغیراﷲ‘‘ ملعون ہے جس نے غیراﷲ کے لئے ذبح کیا، اس حدیث میں صراحتہً لفظ ذبح مذکور ہے۔
دوسری دلیل: عقلی ہے اس میں یہ تصریح ہے’’ وجان ایں جانور ازاں غیر قرار دادہ کشتہ اند‘‘ یعنی اس جانور کی جان غیر کی ملک قرار دے کر اس جانور کو ذبح کیا ہے، اس عبارت میں دو باتیں ہیں۔
۱۔جانور کی جان غیر کے لئے مملوک قرار دی۔
۲۔ اس کو ذبح کیا۔
صاف ظاہر ہے کہ اس جانور میں اس لئے خبث پیدا ہوا کہ اسے غیر کے لئے ذبح کیا گیا ہے۔
تیسری دلیل: تفسیر نیشا پوری کی ایک عبارت ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور ذبح کیا اور اس ذبح سے غیر اﷲ کا تقرب(بطور عبادت) مقصود ہو تو وہ مرتد ہو گیا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہے۔
اس عبارت میں بھی غیر اﷲ کے تقرب کی نیت سے ذبح کا ذکر ہے، ثابت ہوا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ محض کسی اﷲ تعالیٰ کے بندے کی نسبت کے مشہور کردینے کو حرمت کا سبب قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک غیر اﷲ کے لئے ذبح کرنے سے جانور حرام ہوتا ہے اور یہی تمام امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔
حضرت شاہ صاحب نے ’’اُھل‘‘ کا ترجمہ اگرچہ اصل لغت کے اعتبار سے یہ کیا کہ آواز دی گئی ہو اور شہرت دی گئی ہو، لیکن اس سے ان کی مراد وہی شہرت ہے جس پر ذبح واقع ہو، چنانچہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سورۂ بقرہ میں ’’وما اھل بہٖ لغیراﷲ‘‘میں ’’بہٖ‘‘ لغیر اﷲ سے پہلے ہے، جب کہ سوۂ مائدہ، سورہ ٔانعام اور سورہ ٔ نحل میں ’’لغیراﷲ‘‘ پہلے ہے اور ’’بہٖ‘‘ موخر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’بائ‘‘ فعل کو متعدی کرنے کے لئے ہے اور اصل یہ ہے کہ باء فعل کے ساتھ متصل ہو اور دوسرے متعلقات سے پہلے ہو، اس جگہ تو باء اپنے اصل کے مطابق لائی گئی ہے، دوسری جگہوں میں اس چیز کو پہلے لایا گیا ہے، جو جائے انکار ہے۔ ’’پس ذبح بقصد غیر اﷲ مقدم آمدہ‘‘ترجمہ ۔ لہذا غیراﷲ کے ارادے سے ذبح کرنے کا ذکر پہلے آیا ہے۔
(محدّث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز،تفسیر عزیزی: دہلی ،لال کنواں ، س ن ، ص ص۶۱۱)
اب اگر ’’اھل‘‘ سے مراد ذبح نہیں ہے تو یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کہ سورۂ بقرہ کے علاوہ باقی سورتوں میں غیراﷲ کے ارادے سے ذبح کرنے کا ذکر پہلے ہے حالانکہ باقی سورتوں میں بھی ذبح کا ذکر نہیںہے بلکہ ’’اُھِلَ‘‘ ہی کا ذکر ہے، ثابت ہوا کہ خود شاہ صاحب کے نزدیک لغیراﷲ کا مرادی معنی غیر اﷲ کے لئے ذبح کرنا ہی ہے۔
مزید تائید کے لئے شاہ صاحب کی ایک اور تحریر ملاحظہ ہو، سوال یہ ہے کہ حضرت سید احمد کبیر کے لئے نذر مانی ہوئی گائے حلال ہے یا حرام؟۔ اس کے جواب میں شاہ صاحب فرماتے ہیں!
’’ذبیحہ کی حلّت اور حرمت کا دارومدار ذبح کرنے والے کی نیت پر ہے اگر تقرب الی اﷲ کی نیت سے یا اپنے کھانے کے لئے یا تجارت اور دوسرے جائز کاموں کے لئے ذبح کرے تو حلال ہے ورنہ حرام‘‘۔
(محدث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی [ج۱] :دہلی ، مطبع مجتبائی ، ۱۳۲۲ھ، ص۲۱)
غور فرمائیں کہ حضرت سید احمد کبیر کے لئے نذر مانی ہوئی گائے کو انہوں نے حرام نہیں کہا، اگر محض تشہیر اور نذر لغیر اﷲ موجب حرمت ہوتی تو صاف کہہ دیتے کہ حرام ہے، یوں نہ کہتے کہ ذبح کرنے والے کی نیت اور قصد پر دارومدار ہے۔
شاہ صاحب اس جواب میں آگے چل کر فرماتے ہیں!
’’یعنی ان کی نیت تقرب الیٰ غیر اﷲ وقت ذبح تک دائم و مستمر رہتی ہے‘‘۔
(محدّث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی [ج۱] :دہلی ، مطبع مجتبائی ، ۱۳۲۲ھ، ص۲۴)
ثابت ہوا کہ صرف نیت تعظیم لغیراﷲ موجب حرمت نہیں، جب تک کہ وہ نیت وقت ذبح تک دائم وباقی رہے۔
اس مسئلہ میں یہی شاہ صاحب اسی فتاویٰ عزیزی میں فرماتے ہیں!’’جب خون بہانا تقرب الیٰ غیراﷲ کے لئے ہو تو ذبیحہ حرام ہو جائے گا، اور جب خون بہانا اﷲ کے لئے ہو اور تقرب الیٰ غیر کھانے اور نفع حاصل کرنے کے ساتھ مقصود ہو تو ذبیحہ حلال ہوجائے گا‘‘۔
(محدّ ث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی [ج۱] :دہلی ، مطبع مجتبائی ، ۱۳۲۲ھ، ص۴۷)
دیکھئے حلت وحرمت ذبیحہ میں کتنا روشن فیصلہ ہے، اس کے باوجود بھی اگر یہ کہا جائے کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ محض تشہیر لغیراﷲ کو جانور کے حرام ہونے کی علّت قرار دیتے ہیں، تو ایسا کہنا یقیناً شاہ صاحب پر افتراء عظیم ہوگا، ان کے نزدیک آیۂ کریمہ’’وما اھل بہ لغیراﷲ‘‘ کے مرادی معنی قطعاً یہی ہیں کہ جس جانور پر’’عندالذ بح اہلال لغیر اﷲ‘‘ کیا جائے۔
آخر میں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اولیاء کے لئے کوئی جانور نذر مانے ، ان سے کہا جائے کہ اس جانور کی بجائے گوشت لے کر اپنی نذر پوری کردو، اگر وہ راضی ہو جائیں تو وہ اپنے اس قول میں سچے ہیں کہ ہماری نیت غیراﷲ کے لئے خون بہانے کی نہ تھی، ورنہ سمجھ لینا چاہئیے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان کی نیت یہی ہے غیر اﷲ کی تعظیم کے لئے خون بہایا جائے، شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے اس فرمان کے مطابق اس زمانے میں بھی اسی معیار پر جواز و عدم جواز کا حکم لگانا چاہئیے۔
اس شبہ کا ازالہ یہی ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کا مقرر کردہ معیار مذکور ان لوگوں کے حق میں تو درست ہوسکتا ہے جو قبور کی عبادت کرتے تھے اور خودحضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے انہیں گروہ مشرکین میں شمار کیا ہے، جیسا کہ اس سے قبل تفسیر عزیزی جلد اول صفحہ ۱۲۷ کی عبارت ہم نقل کرچکے ہیں ،لیکن مسلمانوں کے حق میں یہ معیار کسی طرح درست نہیں ہوسکتا، نہ ہی حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے مومنین کے لئے یہ معیار بیان فرمایا ہے، اس لئے مومن از روئے قرآن شریف اس بات پر ایمان رکھتا ہیکہ’’لن تنالو البر حتیٰ تنفقون مما تحبون‘‘(تم ہر گز نیکی نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز اﷲ کی راہ میں خرچ نہ کرو) اور ظاہر ہے کہ پالے ہوئے جانور سے جو محبت ہوتی ہے، وہ خریدے ہوئے جانور یا گوشت سے نہیں ہوسکتی، اس لئے جو نیکی اور ثواب پالے ہوئے جانوروں کو ذبح کرکے ایصال ثواب کرنے سے حاصل ہوگا ، وہ اس کے علاوہ دوسری چیز سے نہیں ہوسکتا۔
علاوہ ازیں اس میں شک نہیں کہ ہر ذبیحہ خواہ وہ اپنے کھانے کے لئے ذبح کیا جائے یا بیچنے کے لئے یا قربانی کے لئے اس کے حلال اور پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر اس کا خون خالص اﷲ تعالیٰ کی تعظیم کے لئے بہایا جائے اور ظاہر کہ اﷲ کا ذکر اور اس کی تعظیم کے لئے جو کام کیا جائے وہ نیکی اور اطاعت ہے، لہذا ہر وہ فعل (جس سے تعظیم خداوندی مقصود ہو) نیکی قرار پائے گا، اور ہر مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی نیکی کا ثواب کسی مسلمان کو بخش دے، لہذا صرف گوشت میں محض گوشت کا ثواب اس بزرگ کی روح کو پہنچے گا اور جانور ذبح کرنے میںگوشت کے علاوہ فعلِ ذبح کا جو ثواب ذابح کو ملا وہ بھی اس بزرگ کی روح کو پہنچ سکتا ہے۔
پس اگر ان وجوہات کی بنا پر کوئی مسلمان جانور کے عوض گوشت لینے پر راضی نہ ہو، تو اس سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ یہ مامن معاذاﷲ ولی کی تعظیم و تقرب کے لئے جانور کا خون بہانے کی نیت رکھتا ہے، نیت فعل قلب ہے، جب باطن کا حال ہمیں معلوم نہیں تو ہم کس طرح مسلمان پر معصیت کا حکم لگا دیں، مومن کے حق میں بد گمانی کرنا حرام ہے‘‘ ۔
یہ خلاصہ ہے حضرت غزالئی زماں ضیغم اسلام علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہوی محدّث ملتانی قدس سرہٗ(متوفی۱۹۸۶ئ) کی تحقیق کا، یاد رہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہے جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ عبارت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی ہے اور اگر اس عبارت کو الحاقی قرار دیا جائے جیسے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کے شاگرد حضرت شاہ رئوف احمد رافت نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ نے فرمایا ، تو پھر اس گفتگو کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
حضرت شاہ رئوف احمد رافتؔ نقشبندی مجددی رحمۃ اﷲ علیہ ۱۴؍محرم ۱۲۰۱ھ/ ۱۷۸۶ء کو رام پور(یوپی۔بھارت) میں پیدا ہوئے،حدیث کی سند مولانا شاہ سراج احمد مجددی علیہ الرحمہ(متوفی ۱۲۳۰ھ/ ۱۸۱۵ئ) سے حاصل کی، بعض اعمال واوراد کی اجازت حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی سے حاصل کی، خرقہ خلافت شاہ غلام علی دہلوی نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ سے پایا، اُردو میں قرآن مجید کی تفسیر رئوفی لکھی، جس کا آغاز ۱۲۳۹ھ میں ہوا اور ۱۲۴۸ھ میں اختتام ہوا، حج کے لئے گئے تو یلملم(میقات) کے قریب ۱۲۴۹ھ/ ۴ ۱۸۳ء میں وصال ہوا، آپ شاہ ابو سعید مجددی دہلوی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۲۵۰ھ) کے خالہ زاد بھائی تھے اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی اولاد میں سے تھے۔
(تذکرہ کاملان رام پور، از حافظ احمد علی شوق(متوفی ۱۹۳۳ئ)، مطبوعہ خدا بخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ ، بھارت۱۹۸۶ئ، ص۱۴۳۔ اُردو نثر کے ارتقاء میں علماء کا حصہ، از ڈاکٹر محمد ایوب قادری، مطبوعہ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ۱۹۸۸ئ، ص۴۴۵)
آپ نے تفسیر عزیزی کی اس عبارت کو الحاقی قرار دیا، لکھتے ہیں : ’’ جاننا چاہئیے کہ تفسیر فتح العزیز میں کسی عدو نے الحاق کردیا ہے اور یوں لکھا کہ اگر کسی بکری کو غیر کے نام سے منسوب کیا ہو تو بسم اﷲ اﷲ اکبر کہہ کر ذبح کرنے سے وہ حلال نہیں ہوتی اور غیر کے نام کی تاثیر اس میں ایسی ہو گئی کہ اﷲ کے نام کا اثر ذبح کے وقت حلال کرنے کے واسطے بالکل نہیں ہوتا، سو یہ بات کسی نے ملادی ہے۔
خود مولانا ومرشدنا حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کبھی ایسا سب مفسرین کے خلاف نہ لکھیں گے اور ان کے مرشد اور استاد اور والد حضرت مولانا شاہ ولی اﷲ صاحب نے فوذ الکبیر فی اصول التفسیر میں مَا اُھِلَّ کا معنی مَاذ ُبِحَ لکھا ہے، یعنی ذبح کرتے وقت جس جانور پر بت کا نام لیوے سو حرام اور مردار کے جیسا ہے اور بسم اﷲ ، اﷲ اکبر کہہ کر ذبح کیا سو کیونکر حرام ہوتا ہے۔
بعضے نادان تو حضرت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مولد شریف کی نیاز، حضرت پیرانِ پیر کی نیاز اور ہر ایک شہداء اولیاء کی نیاز فاتحہ کے کھانے کو بھی حرام کہتے ہیں اور یہ آیت دلیل لاتے ہیں کہ غیر خدا کا نام جس پر لیا گیا سو حرام ہے، واہ واہ کیا عقل ہے ایسا کہتے ہیں اور پھر جاکر نیاز فاتحہ کا کھانا بھی کھاتے ہیں ‘‘۔
(شاہ رئوف احمد، تفسیر رئوفی، مطبوعہ بمبئی ۱۳۰۵ھ، جلد۱، ص۱۳۹)
شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی کی تالیفات میں تحریفات
بعض لوگوں نے آپ کی زندگی ہی میں آپ کی کتابوں میں تحریف کردی تھی، چنانچہ شاہ ولی اﷲ دہلوی خاندان پر تحقیق میں سند کا درجہ رکھنے والے مشہور اہل علم ، محقق ، حکیم محمود احمد برکاتی لکھتے ہیں! ’’شاہ عبدالعزیز نے ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کی تالیف ۱۲۰۴ھ/۱۷۹۰ء میں مکمل کی اور اس کی اشاعت ۱۲۱۵ھ/ ۱۷۹۹ء میں کلکتہ سے ہوئی تھی اور اس فوراً بعد تحفہ کی عبارات میں تحریف کے سلسلے کا آغاز ہوگیا، ایک معتقد نے لکھنؤ سے ایک ایسی محرفہ اور خلاف عقیدہ اہل سنت عبارت’’تحفہ‘‘ کے ایک نسخہ میں دیکھ کر شاہ صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھ کر خلش دور کرنے کی درخواست کی تو شاہ صاحب نے جواب میں تحریر فرمایا کہ!’’وتعریضات درباب معاویہ رضی اﷲ عنہ ازیں فقیر واقع نشدہ اگر نسخہ از تحفہ اثنا عشریہ یافتہ شد الحاق کسے خواہد بود کہ بنا بر فتنہ انگیزی وکید ومکر کہ بنا مذہب ایشاں یعنی گروہ رفضہ از قدیم برہمیں امور است ایں کار کردہ باشد چنانچہ بسمع فقیر رسیدہ کہ الحاق شروع کردہ اند اﷲ خیر حافظا وایں تعریضات در نسخ معتبرہ التبتہ یافتہ نخواہد شد‘‘۔
(برکاتی ،حکیم محمود احمد، شاہ ولی اﷲ اور ان کا خاندان:لاہور، مجلس اشاعت اسلام ،۱۹۷۶ئ، ص۵۷ بحوالہفضائل صحابہ واہل بیت مع مقدمہ پروفیسر محمد ایوب قادری طبع لاہور)
ترجمہ۔ اور حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ پر چوٹیں میں نے نہیں کیں، اگر تحفہ اثنا عشریہ کے کسی نسخے میں ایسی عبارتیں ہیں تو وہ کسی نے اپنی طرف سے بڑھا دی ہوں گی، کیونکہ روافض کے مذہب کے مذہب کی بنیاد ہی شروع ہی سے فتنہ انگیزی اور مکرو قید پر ہے، یہ کام بھی انہوں نے کیا ہوگا، چنانچہ میں نے سنا ہے کہ تحفہ میں بھی انہوں نے الحاق شروع کردیا ہے۔
قاری عبدالرحمن پانی پتی(متوفی ۱۳۱۴ھ/ ۱۸۹۶ئ) شاگرد رشید شاہ محمد اسحاق دہلوی(متوفی۱۲۶۲ھ/ ۱۸۴۵ئ) اپنی کتاب ’’کشف الحجاب‘‘ میں لکھتے ہیں !’’اور ایسا ہی ایک اور جعل( غیر مقلدین) کرتے ہیں کہ سوال کسی مسئلہ کا بنا کر اور اس کا جواب موافق اپنے مطلب کے لکھ کر علمائے سابقین کے نام سے چھپواتے ہیں، چنانچہ بعض مسئلے مولانا شاہ عبدالعزیز کے نام سے اور بعض مسئلے مولوی حیدر علی کے نام سے علی ہذا القیاس چھپواتے ہیں ‘‘۔
(پانی پتی ،قاری عبدالرحمن، کشف الحجاب: لکھنؤ ،۱۲۹۸ھ، ص۹ ، چند سال ہوئے اس رسالہ کو مرکزی جماعت القراء پاکستان، کراچی نے حکیم محمود احمد برکاتی کی تقدیم کے ساتھ شائع کردیا ہے)
علامہ ابوالحسن زید فاروقی دہلوی (متوفی۱۹۹۳ئ) کتاب ’’القول الجلی‘‘ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں ! ’’ افسوس مولوی اسماعیل کے پیروان اس کام میں بہت بڑھ گئے ہیں، حضرت شاہ ولی اﷲ، حضرت شاہ عبدالعزیز کی تحریرات ومکتوبات، حضرت شاہ عبدالقادر کا ترجمہ قرآن اور ان کی کتابیں، حضرت مجدد الف ثانی، ان کی اولاد، حضرت شاہ غلام علی، حضرت شاہ علم اﷲ رائے بریلوی اور دیگر اکابرین کے احوال میں بہت سی تحریفات کرکے محمد بن عبدالوہاب نجدی اور مولوی اسماعیل کا ہمنوا سب کو قرار دیا، اﷲ تعالیٰ اس کتاب’’القول الجلی‘‘ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھے اور یہ کتاب بلا کسی تصرف کے چھپے‘‘۔
(فاروقی ،شاہ ابوالحسن زید، مقدمہ القول الجلی: دہلی ، شاہ ابوالخیر اکادمی ،۱۹۸۶ئ،ص۵۵۲ )
شاہ ولی اﷲ دہلوی کے خاندان کے ایک فرد اور ان کی تصانیف کے مشہور ناشر ظہیر الدین سید احمدولی اللّٰہی ، نبیسۂ شاہ رفیع الدین دہلوی ، جنہوں نے شاہ ولی اﷲ دہلوی کی تصانیف کی بڑی تعداد طبع وشائع کرکے وقف عام کی ہے، انہوں نے سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ وہ شاہ ولی اﷲ صاحب کی ایک کتاب’’تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیائ‘‘ کے آخر میں لکھتے ہیں !’’بعد حمدوصلوٰۃکے بندہ محمد ظہیر الدین عرف سید احمد اوّل گذارشکرتا ہے بیچ خدمت شائقین تصانیف حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب ومولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ وغیرہ کا آجکل بعض لوگوں نے بعض تصانیف کو اس خاندان کی طرف منسوب کردیا ہے اور درحقیقت وہ تصانیف اس خاندان میں سے کسی کی نہیں، اور بعض لوگوں نے جو ان کی تصانیف میں اپنے عقیدے کے خلاف بات پائی تو اس پر حاشیہ جڑا اور موقعہ پایا تو عبارت کو تغیّر وتبدیل کردیا، تو میرے اس کہنے سے یہ عرض ہے کہ جو اب تصانیف ان کی چھپیں، اچھی طرح اطمینان کرلیا جائے جب خریدنی چاہیں‘‘۔
(قادری ، محمد ایوب، شاہ ولی اﷲ کی منسوب تصانیف: مشمولہ : الرحیم (ماہنامہ) : حیدرآباد ، شمارہ ،جون ۱۹۶۴ئ، ص۲۰۔بحوالہ ’’تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیائ‘‘ از شاہ ولی اﷲ دہلوی، مطبوعہ مطبع احمدی، کلاں محل متعلق مدرسہ عزیزی دہلی، باہتمام ظہیر الدین ولی اللَّہی،سن طباعت ندارد)
مشہور محقق حکیم محمود احمد برکاتی صاحب لکھتے ہیں! ’’مولوی سید احمد ولی اللّٰہی شاہ عبدالعزیز کے ملفوظات مطبوعہ میرٹھ کو جعلی بتایا ہے۔(انفاس العارفین مطبوعہ مطبع احمدی دہلی، صفحہ آخر) ہماری ناقص رائے میں مولوی سید احمد کی یہ رائے کلیتہً تو صحیح نہیں ہے، ملفوظات شاہ صاحب کے ہی ہیں، مگر ان میں الحاق ضرور ہوا ہے اور بعض فحش اشعار اور فحش واقعات درج کردئیے گئے ہیں‘‘۔
(برکاتی ،حکیم محمود احمد، شاہ ولی اﷲ دہلوی اور ان کا خاندان : لاہور،مرکز اشاعت اسلام،۱۹۷۶ئ، ص۵۷)
اہل سنت ، اولیاء کرام و بزرگانِ دین کے ساتھ محبت وعقیدت رکھتے ہیں، مگر انہیں اِلٰہ نہیں مانتے، کسی قسم کا استقلالِ ذاتی ان کے لئے ثابت نہیں کرتے، نہ انہیں مستحق عبادت جانتے ہیںاور نہ واجب الوجود، محض عباد اﷲ الصالحین سمجھتے ہیں اور جو جانور یا حصہ زراعت یا کوئی چیز از قسم نقد و جنس وغیرہ ان کے لئے مقرر کرتے ہیں، اس کو ان کا ہدیہ جانتے ہیں اور وصال یافتہ بزرگوں کے لئے ایصال ثواب کی نیت کرتے ہیں، اسی قصد ونیت کے ساتھ اگر وہ کسی جانور یا غیر جانور کو بزرگان دین کی طرف منسوب کرکے ان کے نام پر اسے مشہور بھی کردیں، تب بھی جائز ہے اور وہ چیز حلال اور طیّب ہے، اسے ما اھل بہٖ لغیراﷲ کے تحت لا کر حرام قرار دینا باطل محض اور گناہِ عظیم ہے۔
عہدِ رسالت میں صحابہ کرام، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں کھجوروں کے درخت اور دُودھ پینے کے جانور پیش کرتے تھے، جن کا ذکر احادیث صحیحہ میں مفصل موجود ہے، اسی طرح بعد از وفات بھی ایصال ثواب کے طور پر کسی چیز کا مقرر کرنا عہد رسالت میں پایا گیا ہے۔
’’عَنْ سَعْد بن عَبَادَۃ اَنَّہٗ قَالَ یَا رَسُوْ لَ اﷲِ ﷺ اِنَّ اُمِّ سَعْدِِ مَاتَتْ فَاَیُّ الْصَّدَقَۃِ افضلُ قَالَ الْمَائُ فَحفَرَا بَئرًاوَقَالَ ھٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْد‘‘
حضرت سعدبن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور عرض کیا: یارسول اﷲ( صلی اﷲ علیہ وسلم) اُمِ سعد (سعد کا ماں)کا انتقال ہوگیا،پس اُن کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی، پس سعد نے کنواں کھدوایا ، اورکہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے ۔
(سنن ابودائود، کتاب الزکوٰۃ ، ج۱، ص۲۳۶۔ مشکوٰۃ، ص۱۶۹)
اگر کسی وصال یافتہ بزرگ کے لئے کسی چیز کا نامزد کرنا موجب حرمت قرار دیا جائے تو معاذ اﷲ وہ کنواں جو اُم سعد رضی اﷲ عنہا کے نام سے مشہور ہوا، وہ حرام اور اس کا پانی نجس قرار پائے گا۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس صدقے کا ثواب کسی فوت شدہ کو پہنچانا مقصود ہو تو اس صدقہ کو اس شخصیت سے منسوب کرنا جائز ہے اور اہل علم پر یہ بات روشن ہے کہ اس نسبت سے مراد نسبتِ عبادت نہیں بلکہ ایصال ثواب کے حوالے سے نسبت کی جاتی ہے، حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے جو کنواں کھوایا اور لوگوں کے لئے بطور صدقہ وقف کیا تو یہ عبادت اﷲ کے لئے ہے اور اس کا ثواب ان کی والدہ کے لئے ہے۔
مولوی ثناء اﷲ امرتسری غیر مقلد کے فتاویٰ ثنائیہ میں بھی حدیث کے الفاظ’’ھذہ لام سعد‘‘ کا معنی یہی کیا گیا ہے کہ ’’ کنویں کا ثواب سعد کی ماں کے لئے‘‘۔
(فتاویٰ ثنائیہ، جلد اوّل،مطبوعہ ادارہ ترجمان السنۃ ،۷؍ ایبک روڈ لاہور، ص۱۰۸)
ایصال ثواب کی چیز پر لفظ نذرو نیاز کا اطلاق
بزرگوں کے نام پر جو جانور وغیرہ مشہور کئے جاتے ہیںاگر ان جانوروں پر اولیاء اﷲ کے لئے نذر شرعی مانی جائے جو حقیقتاً عبادت ہے تو ناذر یعنی نذر دینے والامرتد ہے، لیکن اس کے اس شرک کی وجہ سے وہ جانور حرام نہیں ہوگاجب تک کہ وہ اسے بقصد تقرب لغیر اﷲ ذبح نہ کرے، اور اگر اولیاء کی نذر محض نذر لغوی یا عرفی بمعنی ہدیہ ، تحفہ اور نذرانہ ہویا وصال یافتہ بزرگ کے لئے بقصد ایصال ثواب کوئی جانور وغیرہ نامزد کردیا اور نذر شرعی اﷲ تعالیٰ کے لئے ہو تو یہ فعل شرعاً جائز اور باعثِ خیروبرکت ہے۔
نذر لغیراﷲ کا مدار ناذر کی نیت پر ہے، اگر ناذر نے تقرب لغیراﷲ کا قصد کیا اور متصرف فی الامور اﷲ تعالیٰ کی بجائے کسی مخلوق کو مانا تو یہ نذر کفروشرک ہے، اور اگر اس کا ارادہ تقرب الی اﷲ ہے اور بزرگان دین کو ثواب پہنچانا مقصود ہے تو ایسی نذر اولیاء کے لئے قطعاً جائز ہے اور اس کا نذر ہونا مجازاً ہے، کیونکہ نذر حقیقی اﷲ کے لئے خاص ہے۔
جو لوگ نذر اولیاء کو شرک قرار دیتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ اس نذر سے مراد نذر شرعی نہیں بلکہ اسے بربنائے عرف نذر کہا جاتا ہے اور اس ایصال ثواب اور ہدیہ کو نذر کہنا شرعاً جائز ہے۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کا مسلک
حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب’’انفاس العارفین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ حضرت والد ماجد(شاہ عبدالرحیم) رحمۃ اﷲ علیہ قصبہ ڈاسنہ میں مخدوم اﷲ دیا کی زیارت کو گئے، رات کا وقت تھا، اس جگہ فرمایا کہ مخدوم ہماری ضیافت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کچھ کھا کر جانا، حضرت نے توقف فرمایا، یہاں تک کہ آدمیوں کا نشان منقطع ہوگیا، ساتھی اُکتا گئے، اس وقت ایک عورت اپنے سر پر چاول اور شیرینی کا طبق لئے ہوئے آئی اور کہا میں نے نذر مانی تھی کہ جس وقت میرا خاوند آئے گا اس وقت یہ کھانا پکا کر مخدوم اﷲ دیا رحمۃ اﷲ علیہ کے دربار میں بیٹھنے والوں کو پہنچائوں گی ، وہ اسی وقت آیا تو میں نے اپنی نذر پوری کی‘‘۔
(انفاس العارفین(فارسی)، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ کچہری روڈ ملتان۱۹۶۳ء ، ص۴۴)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا مسلک حضرت سیدنا علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نذر نیاز : حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں! ’’ حضرت امیر و ذریت ورا تمام امت بر مثال پیران و مرشدان می پرستند و امور تکوینیہ را بایشاں وابستہ می دانند وفاتحہ ودرود وصدقات ونذر ومنت بنام ایشاں…رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء اﷲ ہمیں معاملہ است‘‘۔
ترجمہ۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ان کی اولاد پاک کو تمام افراد امت پیروں اور مرشدوں کی طرح مانتے ہیں، امور تکوینیہ کو ان کے ساتھ وابستہ جانتے ہیں اور فاتحہ درودوصدقات اور نذر نیاز ان کے نام کی ہمیشہ کرتے ہیں جیسا کہ تمام اولیاء کا یہی طریقہ ومعمول ہے‘‘۔(محدث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز، تحفہ اثناء عشریہ : لاہور ، سہیل اکیڈمی ۱۳۹۵ھ/ ۱۹۷۵ئ،ص۲۱۴ )(مشہور دیوبندی ناشر نور محمد کارخانۂ تجارت کتب کراچی نے تحفہ اثناء عشریہ کا جو اردو ترجمہ شائع کیا ہے اس میں اس عبارت کا ترجمہ غائب کردیا ہے)۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے فتویٰ میں فرماتے ہیں ! ’’ نذر اولیاء کہ جس کا بغرض حاجت روائی معمول ہے اور اس کا رسم ودستور ہوگیا ہے، اکثر فقہاء نے اس کو جائز نہیں رکھا ہے، بلکہ ان فقہاء نے یہ خیال کیا کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ کو قادر مطلق جان کر اس کی نذر مانی جاتی ہے، اسی طرح عوام جہال ارواح کو قادر مطلق مثل خدا سمجھتے ہیں اور ان ارواح کی نذر مانتے ہیں، اس لحاظ سے ان فقہاء نے حکم دیا ہے کہ جو شخص ایسی نذر مانے وہ مرتد ہے، اور یہ کہا کہ اگر نذر بالاستقلال کسی ولی کے واسطے ہو تو باطل ہے۔
اور اگر نذر خدا کے واسطے ہو اور ولی کا ذکر صرف اس خیال سے ہو کہ مثلاً اس ولی کو ثواب رسانی کی جائے گی یا اس ولی کی قبر کے خدام کے مصرف میں اس نذر کا مال آئے گا، تو یہ نذر جائز ہے، اور حقیقت اس نذر کی یہ ہوگی کہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں کھانا کھلا دیا جائے یا مال بطور خیرات وغیرہ کے دیا جائے اور میت کی روح کو ثواب رسانی کی جائے اور یہ امر مسنون ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
مثلاً صحیحین میں جو حال اُم سعد وغیرہ کا مذکور ہے، اس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے اور ایسی نذر لازم ہوجاتی ہے تو حاصل اس نذر کا یہی ہے کہ یہ نیت کی جائے کہ مثلاً کھانا کھلایا جائے گا یا اس قدر خیرات دی جائے گی اور اس کا ثواب فلاں ولی کی روح کو پہنچایا جائے گا، تو ذکر ولی کا صرف اس غرض سے ہوگا کہ یہ متعین ہوجائے کہ ثواب رسانی فلاں ولی کی روح کو کی جائے گی، اور یہ نیت نہ ہو کہ خاص وہ چیز اس ولی کے مصرف میں آئے گی ، اور ایسا بھی لوگ کرلیتے ہیں کہ وہ نذر اس ولی کے متوسلین کے مصرف میں آئے گی، مچلاً اس ولی کے قرابت مند اور اس کی قبر کے خادم اور اس کے مریدین وغیرہ کے مصرف میں وہ مال آئے گا، اور بلا شُبہ نذر ماننے والوں کو مقصود اکثر ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسی نذر کے بارہ میں حکم ہے کہ یہ نذر صحیح ہے، اس کو پورا کرنا واجب ہے، اس واسطے کہ شرع میں یہ قربت معتبرہ ہے، البتہ اس ولی کو یہ سمجھے کہ یہ ولی بالاستقلال حل کنندہ مشکلات ہے، یا یہ عقیدہ رکھے کہ اس کی سفارش سے نعوذ باﷲ من ذالک ضرور اﷲ تعالیٰ مجبور ہوکر حاجت روائی فرمائے گا، تو ایسی نذر میں البتہ شرک وفساد لازم ہے، مگر یہ عقیدہ دوسری چیز ہے اور نذر دوسری چیز ہے، یعنی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً نذر منع ہوجائے، بلکہ جائز نذر کی جو صورت اوپر مذکور ہوئی ہے اس طور کی نذر بلا شبہ صحیح ہے اور اس کو پورا کرنا واجب ہے‘‘۔(فتاویٰ عزیزی، مطبوعہ ایچ۔ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی، ص۱۶۰)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جو کہ اہلسنت کے امام اور تمام غیر مقلدین اور دیوبندیوں کے استاذ الاساتذہ اور ان کے نزدیک حجت اور اتھارٹی ہیں، انصاف پسند کے لئے ان کا فتویٰ اور فیصلہ کافی ہے، مگر اُمت میں تفرقہ پیدا کرنے والے شاید ان کے روشن فیصلہ کو بھی نہ مانیں، کیونکہ یہ لوگ خدا پرستی کو چھوڑ کر اپنی انا، ضد اور خواہش پرستی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم توحید پرست ہیں، حالانکہ معاملہ اس کے اُلٹ ہے، جولوگ عقلِ سلیم رکھتے ہیں وہ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں، ان لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی صرف پیٹ پرستی اور فرقہ بندی کو قائم رکھنے کے لئے ہے، لیکن صحیح عقیدہ رکھنے والوں کو فرقہ باز ہونے کا الزام دیتے ہیں، آج تو یہ دھاندلی چل جائے گی مگر روزِ محشر تو جواب دہ ہوں گے جس دن کھوٹا کھرا الگ ہوجائے گا، یقیناً وہ انصاف کادن ہے۔
حضرت شاہ رفیع الدین محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کا فیصلہ : حضرت شاہ رفیع الدین محدّث دہلوی علیہ الرحمہ ایصال ثواب کی چیز پر نذر ونیاز کے اطلاق کے متعلق اپنے رسالہ’’نذورِ بزرگان‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’آنکہ لفظ نذر کہ آنجا مستعمل مے شود نہ بر معنی شرعی است کہ ایجاب غیر واجب است کہ آنچہ پیش بزرگان مے برندنذر ونیاز می گویند‘‘۔
ترجمہ۔ جو نذر کہ اس جگہ مستعمل ہوتی ہے وہ اپنے شرعی معنی پر نہیں بلکہ معنی عرفی پر ہے، اس لئے کہ جو کچھ بزرگوں کی بارگاہ میں لے جاتے ہیں اس کو نذر ونیاز کہتے ہیں۔(مجموعہ رسائل تسعہ، مطبوعہ مطبع احمدی دہلی۱۳۱۴ھ، ص۲۱)
شاہ محمد اسماعیل دہلوی کا عقیدہ : شاہ محمد اسماعیل دھلوی بھی فوت شدگان کے ایصال ثواب کی چیزوں پر نذرونیاز کا اطلاق جائز سمجھتے ہیں، وہ اپنی مشہور کتاب’’صراط مستقیم‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’پس در خوبی ایں قدر امر از امور مرسومہ فاتحہا واعراس ونذرونیاز اموات شک وشبہ نیست‘‘
ترجمہ۔ رسوم میں فاتحہ پڑھنے، عرس کرنے اور فوت شدگان کی نذر ونیاز کرنے کی رسموں کی خوبی میں شک وشبہ نہیں ‘‘۔(صراط مستقیم(فارسی)، مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ، شیش محل روڈ، لاہور، ص۵۵)
حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی علیہ الرحمہ کا عقیدہ : مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : ’’جب مثنوی(مولانا روم) ختم ہوگئی، بعد ختم حکم شربت بنانے کا دیا اور ارشاد ہوا کہ اس پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی، گیارہ گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا، آپ نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں، ایک عجز وبندگی اور سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائزوشرک ہے، دوسرے خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کوپہنچانا، یہ جائز ہے، لوگ انکار کرتے ہیں، اس میں کیا خرابی ہے‘‘۔(شمائم امدادیہ(ملفوظات حاجی امداداﷲ مہاجر مکی)، مطبوعہ کتب خانہ شرف الرشید، شاہ کوٹ، ضلع شیخوپورہ(پنجاب۔پاکستان)، ص۶۸)
معترضین کو جب یہ حوالے دکھائے جاتے ہیں تو دیکھا گیا ہے کہ بالکل خاموش ہوجاتے ہیں اور چپ سادھ لیتے ہیںاور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے پھنسائے ہوئے بھولے بھالے کم علم اہل سنت کو ان حوالوں کا علم نہ ہوجائے، اگر کوئی شخص یہ حوالے دکھا کر ان سے جواب پوچھے تو کہتے ہیں کہ جناب ان کتابوں کو چھوڑو، قرآن وحدیث کی بات کرو، ان کا یہ جواب صرف وقت ٹالنے کے لئے ہوتا ہے ورنہ حدیث اُم سعد سے تو اہل سنت کا عقیدہ ثابت ہے، جن علماء کے حوالے دئیے گئے ہیں ، کیا یہ قرآن وحدیث کے علم سے جاہل تھے؟ کبھی کہتے ہیں کہ جناب یہ کتابیں اپنی طرف سے جعلی بنا لی گئی ہیں، بے چارے بھولے بھالے لوگ ان کے دجل وفریب اور جھوٹی باتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ یہ مولوی صاحب ہیں، قاری صاحب ہیں، حافظ صاحب ہیں، مسجد کے خطیب ہیں، نمازی ہیں، حاجی ہیں، یہ کہاں جھوٹ بولتے ہوں گے، لیکن جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت نصب کرنی ہو اور ایمان بچانا ہو تو ان کی آنکھیں فوری کُھل جاتی ہیں اور وہ حیران بھی ہوتے ہیںکہ رہبری کے لباس میں رہزن بھی ہیں، حقیقت میں یہ لوگ اپنے پیٹ کی خدمت کررہے ہیں، دین اسلام کی خدمت نہیں کررہے۔
کبھی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ شاہ ولی اﷲ اور ان کے خاندان والوں کے شروع شروع میں یہ عقائد تھے، بعد میں انہوں نے اپنے عقائد درست کر لئے تھے ۔
(مولوی عبداﷲ روپڑی، عرس اور گیارھویں، مطبوعہ اسلامی اکادمی ، ۱۷؍ الفضل مارکیٹ اُردو بازار لاہور، ص۳۲)
یہ بھی بہت بڑا جھوٹ ہے، شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کے عقائد ومعمولات اور ملفوظات پر مشتمل نایاب کتاب’’القول الجلی فی ذکر آثار ولی‘‘ کا مخطوطہ بھارت کے شہر کاکوری ضلع لکھنٔو(یو۔پی) سے دستیاب ہوگیا ہے، اس کے مصنف شاہ محمد عاشق پھلتی علیہ الرحمہ، شاہ ولی اﷲ کے قریبی عزیز اور شاگرد ہیں اور یہ کتاب انہوں نے شاہ ولی اﷲ کی حیات ہی میں لکھ کر ان سے تصدیق کروائی، اس کتاب کاذکر پرانی کتابوں میں آتا رہا، لیکن دستاب نہیں تھی، اب اس کتاب کے مخطوطے کا عکس دہلی سے شائع ہوگیا ہے اور ۱۹۹۷ء میں کاکوری ضلع لکھنٔو سے اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے، پاکستان میں اس کا ترجمہ مسلم کتابوی دربار مارکیٹ ، لاہور نے شائع کردیا ہے، اس کتاب کے شائع ہونے سے حضرت شاہ ولی اﷲ کے عقائد کو غلط طور پر متعارف کرانے والوں کے جھوٹ کا بھانڈا عین چوراہے میں پھوٹ گیا ہے۔
آخرت سے بے خوف ان لوگوں نے حضرت شاہ ولی اﷲ اور ان کے خاندان کی کتابوں میں تحریف بھی کردی ہے اور جعلی کتابیں بھی ان کی طرف منسوب کردی ہیں مثلاً’’بلاغ المبین‘‘ اور ’’تحفۃ المواحدین‘‘ جیسی جعلی کتابیں لکھ کر حضرت شاہ ولی اﷲ کی طرف منسوب کردی ہیں، شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی کی کتابوں میں تحریف کی، شاہ عبدالقادر محدّث دہلوی کے ترجمہ میں تحریف کی ہے، لیکن محققین نے ان خیانتوں پردہ چاک کردیا، جس کی تفصیل شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی کی کتاب’’انفاس العارفین‘‘(اُردوترجمہ) ، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ، لاہور کے مقدمہ اور ’’القول الجلی‘‘ مطبوعہ لاہور کے مقدمہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
چند اعتراضات اور ان کے جوابات
شاید کسی کے ذہن میں یہ اعتراضات پیدا ہوں کہ جناب ایصال ثواب تو اسے کیا جاتا ہے جو حاجت مند ہو، غوث پاک تو متقی پرہیز گار تھے، لہذا ان کو ایصال ثواب کرنے کا کیا مطلب؟ اور ایصال ثواب کے لئے کھانے اہتمام کیوں کیا جاتا ہے اور کھانا سامنے کیوں رکھا جاتا ہے؟ کھانے سے پہلے بسم اﷲ پڑھنا تو ثابت ہے لیکن قرآنی آیات پڑھنا کہاںسے ثابت ہے؟
جوابات : حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کو ایصال ثواب کرنا آپ کی خدمت میں ہدیہ اور تحفہ کے طور پر ہوتا ہے، ایصال ثواب کرنے سے اﷲ تعالیٰ آپ کے درجات مزید بلند فرماتا ہے، اہل سنت حضور غوث پاک سے عقیدت ومحبت رکھتے ہیں، حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث شریف ہے کہ تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے، حضور غوث پاک کو خصوصی ایصال ثواب اس لئے کیا جاتا ہے کہ آپ تمام سلاسل اولیاء اﷲ کے سردار ہیں ، باقی تمام اولیاء اﷲ کو بھی ایصال ثواب کیا جاتا ہے ۔
کھانا کھلانا ثواب کا کام ہے، قرآن کریم میں بار بار خیرات وصدقہ کا ذکر آیا ہے، اس میں کوئی بُرائی نہیں، نفسِ خیرات کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’وممارزقنھم ینفقون‘‘ اور ہمارے دئیے ہوئے رزق سے میری راہ خرچ کرتے ہیں، رہا یہ اعتراض کہ کہ کھانا سامنے کیوں رکھا جاتا ہے؟ تو یہ ایک عجیب ہے، کھانا سامنے رکھنے کی چیز ہے، پسِ پُشت اس کا رکھنا کسی صاحب کو ثابت ہوا ہو تو وہ اس کی مخالفت کرسکتے ہیں، اور کھانا سامنے رکھنا ضروری بھی نہیں ہے ، سامنے نہ ہو تب بھی آپ اس کا ثواب پہنچا سکتے ہیں ، کھانے پر بسم اﷲ کے علاوہ قرآن پڑھنا درج ذیل حدیث سے ثابت ہے۔
واخرج ابوالحسن محمد بن احمد بن شمعون الواعظ فی امالیہ وابن نجار عن عائشۃ ان رجلاً اتی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فشکا الیہ ان ما فی بیتہ ممحوق من البرکۃ فقال این انت من آیت الکرسی ماتلیت علی طعام ولا دام الا انما اﷲ برکۃ ذالک الطعام ولادام‘‘۔
(تفسیر درمنثور، از امام جلال الدین سیوطی، طبع ایران، جلد۱، ص۳۲۳)
ترجمہ۔ ابوالحسن محمد بن احمد بن شمعون الواعظ نے امالی میں اور ابن نجار نے نقل کیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور وعرض کی کہ اس کے گھر میں بے برکتی ہے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تو آیت الکرسی سے غافل ہے، کیونکہ جس کھانے اور سالن پر آیت الکرسی پڑھی جائے، اﷲ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دیتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ کھانے پر تلاوت قرآن سے کھانا بابرکت ہوجاتا ہے ، حرام نہیں ہوتا، حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:’’جس کھانے کا ثواب حضرت امامین رضی اﷲ عنہم کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ وقل ودرود پڑھا جائے وہ کھانا تبرک ہوجاتا ہے، اس کا کھانا بہت خوب ہے‘‘۔
(فتاویٰ عزیزی، مطبوعہ ایچ۔ ایم سعید کمپنی، ادب منزل پاکستان چوک کراچی، ص۱۶۷)
( سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ کو غوثِ اعظم کہنا)
شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی تصنیف’’الانتباہ فی سلاسل اولیائ‘‘ مطبوعہ آرمی برقی پریس دہلی کے صفحہ۱۸ پر لکھا : ’’ غوث الفرد الجامع محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی‘‘ صفحہ ۱۹ پر لکھا : ’’ حضرت غوث‘‘ صفحہ ۲۵ پر لکھا : ’’ غوث الثقلین ‘‘)
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی دوسری تصنیف’’ ھمعات ‘‘ (فارسی) ، مطبوعہ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی حیدر آباد سندھ ۱۹۶۴ء کے صفحہ۶۲ پر لکھاہے :
’’حضرت غوث الاعظم‘‘
شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کی تصنیف’’انفاس العارفین‘‘ (فارسی) مطبوعہ ملتان کے صفحہ ۲۴ لکھا ہے: ’’ حضرت غوث الاعظم‘‘
صفحہ ۲۵ پر دو مرتبہ’’ حضرت غوث الاعظم‘‘ لکھا ہے ۔
صفحہ ۳۸ پر تین مرتبہ ’’حضرت غوث الاعظم‘‘ لکھاہے۔
صفحہ ۴۳ پر ایک مرتبہ’’حضرت غوث الاعظم‘‘ لکھا ہے۔
صفحہ۸۷ پر دو مرتبہ’’حضرت غوث الاعظم‘‘ لکھا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے’’ ملفوظات عزیزی ‘‘ مطبوعہ میرٹھ(یوپی، بھارت) کے صفحہ۶۲ پر ’’غوث الاعظم‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں۔
شاہ اسماعیل دہلوی کی کتاب’’صراط مستقیم‘‘(فارسی)، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور کے صفحہ ۱۳۲، ۱۴۷ پر’’ غوث الاعظم‘‘ اور صفحہ ۱۶۶ پر ’’غوث الثقلین‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ کو غوث اعظم کہنے کی مخالفت کرنے والوں کے نزدیک حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ اور اُن کے خاندان کا بڑا مقام ہے، اس لئے ہم نے زیادہ تر اسی خاندان کے حوالے دیئے ہیں ، جن باتوں کی بنا پر یہ یہ لوگ اہل سنت کو مشرک بدعتی کہتے ہیں وہی باتیں شاہ ولی اﷲ اور اُن کے خاندان سے ثابت ہیں، مگر مجال ہے کہ ان لوگوں نے کبھی ولی اﷲ خاندان کو مشرک بدعتی کہا ہو، کیا یہی انصاف ہے اور کیا یہی دین اسلام ہے؟
غیر صحابی کے لئے لفظ’’ رضی اﷲ عنہ‘‘ کا استعمال
یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کے الفاظ کسی غیر صحابی کے لئے نہیں کہنے چاہئیں، کیونکہ یہ الفاظ صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص ہیں۔
عرض ہے کہ غیر صحابی کے لئے ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا جائز ہیں، جیسا کہ فقہ کی مشہور کتاب’’درمختار مع شامی، جلد پنجم، ص۴۸۰ پر ہے (ترجمہ) یعنی صحابہ کے لئے’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کہنا مستحب ہے اور اس کا اُلٹ یعنی صحابہ کے لئے’’رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ اور تابعین وغیرہ علماء ومشائخ کے لئے راجح مذہب پر’’رضی اﷲ عنہ‘‘ بھی جائز ہے، اسی طرح علّامہ شہاب الدین خفا جی رحمۃ اﷲ علیہ نے’’نسیم الریاض شرح الشفاء قاضی عیاض‘‘جلد سوم، ص۵۰۹ پر تحریر فرمایاہے، (ترجمہ) یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ آئمہ وغیرہ علماء ومشائخ کو غفران ورضا سے یاد کیا جائے تو غفراﷲ تعالیٰ اور رضی اﷲ تعالیٰ کہا جائے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے’’اشعۃ اللمعات‘‘ جلد چہارم، ص۷۴۳ پر حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ لکھا ہے، حالانکہ وہ صحابی نہیں، علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اﷲ علیہ نے فتاویٰ شامی، جلد اوّل میں امام اعظم ابوحنیفہ کو چھ جگہ رضی اﷲ عنہ لکھا ہے، امام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ نے تفسیر کبیر، جلد ہشتم، ص۳۸۲ پر امام اعظم ابو حنیفہ کو رضی اﷲ عنہ لکھا ہے، حضرت ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ’’مرقاۃ شرح مشکوٰۃ‘‘ جلد اوّل، ص۳ پر امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی کو رضی اﷲ عنہ لکھاہے، مسلم شریف کے شارح امام محی الدین نووی رحمۃ اﷲ علیہ نے’’مقدمہ شرح مسلم‘‘ ص۱۱ پر امام مسلم کو رضی اﷲ عنہ لکھا ہے، مشکوٰۃ شریف کے مصنف شیخ ولی الدین تبریزی رحمۃ اﷲ علیہ نے مشکوٰۃ شریف کے مقدمہ ، ص۱۱ پر علامہ ابو محمد حسن بن مسعود فراء بغوی کو رضی اﷲ عنہ لکھا ہے، مولوی عاشق الٰہی میرٹھی نے بھی مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی قاسم نانوتوی کے لئے رضی اﷲ عنہ لکھا، دیکھئے(تذکرۃ الرشید، مطبوعہ ادارہ اسلامیات، انار کلی، لاہور، ص۲۸) ، غیر مقلدین نے بھی ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کو غیر صحابی کے لئے کہنا جائز لکھا، دیکھئے( ہفت روزہ الاعتصام، لاہور، شمارہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۹۸، ص۶) ۔
قرآن کریم سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ رضی اﷲ عنہ کے الفاظ صحابہ کرام کے ساتھ خاص نہیں، سورہ البینہ پارہ ۳۰ میں ہے یعنی’’رضی اﷲ عنہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈریں‘‘ مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھاہے، جیسا کہ امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں کہا کہ اس کی تفسیر دوسری آیات میں ہے کہ اﷲ کے بندے علماء ہی کو خشیت الٰہی حاصل ہوتی ہے، ’’انما یخشی اﷲ من عبادہ العلموا‘‘ ثابت ہوا کہ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ صرف باعمل علماء ومشائخ کے لئے ہے، مگر یہ الفاظ بڑے مؤقر ہیں، اس لئے بہت سے لوگ انہیں صحابہ کرام ہی کے لئے خاص سمجھتے ہیں، لہذا انہیں ہر ایک لئے استعمال نہ کیا جائے بلکہ انہیں بڑے بڑے علماء ومشائخ کے لئے ہی استعمال کیا جائے، جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے کیا ہے۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Masha allah
ReplyDeleteجزاک الله خیرا
ReplyDeleteعمدہ جی