نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطاء اور امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ شفایاب ہوئے ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی خلیفہ مجاز پاکپتن شریف حال مقیم لاہور
صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جنکی بناء پر امراء اور سلاطینِ وقت ان کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے۔ ایک روز جارہے تھے کہ سر راہ اللہ کے ایک نیک بندے سے آپ کی ملاقات ہو گئی، انہوں نے آپ سے پوچھا : بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ اس کا آپ نے نفی میں جواب دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں مستغرق رہتے اور اسی دوران کچھ نعتیہ اشعار بھی کہے۔
پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہو گیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضے میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لا دوا کے لئے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام سے اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور پورے بدن پر اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور آپ فوراً شفایاب ہوگئے۔ اگلے دن صبح صبح آپ اپنے گھر سے نکلے اور سب سے پہلے جس سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے مجھے بھی سنا دیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کونسا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔
أمن تذکر جيران بذی سلم
مزجت دمعا جری من مقلة بدم
’’کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون سے ملا دیا ہے؟‘‘
آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ جس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زد خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔
( علامہ خرپوتی رحمۃ اللہ علیہ ، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة : 3)(نشر الطيب فی ذکر النبی الحبيب، صفحہ 345 زم زم پبلشر کراچی۔ علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی (نشرالطیب صفحہ 282 مشتاق بک کارنر))
قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی تھی اور پھر اپنا دست شفاء بھی پھیرا تھا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوئے لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔
برکاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی جاری و ساری ہیں اور جس نے اس قصیدہ کو درمان طلبی کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا اللہ رب العزت نے اسے بامراد کیا۔ اس کی برکت سے بہت سوں کو فالج سے صحت یابی اور آشوب چشم کی شدت سے نجات ملی اس طرح بہت سے دیگر پریشان حال لوگوں کے دنیوی و دنیاوی امور آسان ہوئے۔
قصیدہ بردہ شریف کی وجہ تالیف
قصیدہ بردہ شریف کی تالیف کا سبب ذکر کرتے ہوئے محققین کا کہنا ہے کہ صاحب بردہ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو فالج ہوگیا جس کی وجہ سے آپ کا نصف جسم مبارک بے حس و حرکت ہوکر رہ گیا۔ اس مصیبت و ابتلاء کی کیفیت میں امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ میرے ضمیر نے مجھے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں ایک بڑا قصیدہ تالیف کیا جائے اور اسی کے ذریعے اس باب الشفاء سے اپنے لئے بیماری سے شفاء طلب کی جائے ۔
چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی حالت میں اس مبارک قصیدہ کو لکھا جب سویا تو خواب میں دونوں جہاں کے والی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس عالم خواب میں، میں نے یہ قصیدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پڑھا۔ پڑھنے سے فراغت کے بعد حضور مکی مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے مفلوج حصہ پر نوری ہاتھوں کو پھیرا اور اپنی کملی (چادر مبارک) مجھے عطا فرمائی۔ جب آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو بالکل صحت یاب پایا اور وہ چادر بھی میرے پاس موجود تھی۔ اس خوشی کے عالم میں میں صبح سویرے گھر سے نکلا تو راستے میں شیخ ابوالرجاء سے ملاقات ہوئی جو اپنے وقت کے قطب الاقطاب تھے۔ فرمانے لگے اے بوصیری! وہ قصیدہ سنا جو تونے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت میں تالیف کیا ہے۔ امام بوصیری فرماتے ہیں کہ چونکہ اس قصیدے کا علم میری ذات کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا۔ اس وجہ سے میں نے ان سے عرض کیا : آپ کی مراد کون سا قصیدہ ہے؟ میں نے تو کئی قصائد مدحت نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھے ہیں۔ شیخ ابوالرجاء فرمانے لگے میری مراد وہ قصیدہ ہے جس کا مطلع کچھ اس طرح ہے :
اَمِنْ تَذَکُّرِ جِيْرَانٍم بِذِيْ سَلَم
مَزَجْتَ دَمْعًا جَرٰی مِنْ مُّقْلَةٍ بِدَم
’’کیا تو نے مقام ذی سلم کے ہمسایوں کی یاد میں آنسوؤں کو جو تیری آنکھ سے جاری ہیں خون سے ملا دیا ہے‘‘؟۔
میں نے حیرت میں ڈوب کر عرض کی اے شیخ ابوالرجاء!
مِنْ اَيْنَ حَفِظْتَهَا.
’’یہ قصیدہ آپ نے کہاں سے یاد کیا ہے‘‘؟
شیخ صاحب نے بتایا میں نے یہ قصیدہ رات اس وقت سنا جب تم دربار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پڑھ رہے تھے اور سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سن کر اظہار پسندیدگی کے لئے پھلوں سے بھری ہوئی ڈالی کی طرح حرکت فرمارہے تھے جو کہ ریاح کی حرکت کی وجہ سے ہلنے لگتی ہے۔
امام بوصیری کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر علی الفور قصیدہ ان کی خدمت عالیہ میں پیش کردیا اس کے بعد شہر بھر میں یہ خبر مشہور ہوگئی۔
حضرت امام بوصیری کے ساتھ اس قصیدہ کی برکت سے جو معجزہ پیش آیا اس کی وجہ سے یہ قصیدہ بہت مقدس اور متبرک سمجھا گیا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مثنوی چہ باید کرد میں اس کا ذکر کیا ہے۔
کار ایں بیمار نتواں بردپیش
من چو طفلاں نالم از دروے خویش
تلخی اورا فریبم از شکر
خندہ بادرلب بدوزد چارہ گر
چوں بصیری از تومی خواہم کشود
تابمن باز آید آن روزے کہ بود
مہر تو بر عاصیاں افزوں تراست
در خطا بخشی چو مہرِ مادراست
ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند بڑے ثناء خوانوں میں ایک منفرد اور ممتاز نام جناب امام شرف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا آتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ 7 مارچ 1213ء کو مصر میں پیدا ہوئے لیکن ’’بوصیر‘‘ میں سکونت اختیار کرنے کی وجہ سے بوصیری کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ نے 13 برس کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کرلی تھی، بعد ازاں دیگر متداول اسلامی علوم کی تحصیل کرکے تھوڑے ہی عرصہ میں مجالسِ علم و فن میں کافی شہرت پائی تھی۔
آپ کا مجموعہ کلام ’’دیوان بوصیری‘‘ کے نام سے کئی مرتبہ مصر میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے۔ آپ کے مجموعہ کلام میں جن تلمیحات و اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے ان سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کو علم حدیث، سند، مغازی اور علم کلام جیسے بلند پایاں علوم فنون پر پوری دسترس حاصل تھی جبکہ ان کا علم بیان، بدیع اور نحو کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ ان کے دیوان کے انگریزی، فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی اور ترکی ترجمے ہوچکے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے اہل علم آپ کے شاعرانہ کمالات اور ادبی مہارت کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ اس بڑی فہرست میں عالم الدھر امام جلال الدین سیوطی، ابن العمار حنبلی، ابن شاکر کتبی کے علاوہ مستشرقین کے نکلسن اور آربری بھی آپ کے مداح ہیں۔
قصیدہ بردہ شریف
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت میں کئی قصائد مرتب کئے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک شمائل و محامد کو واضح کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور مدحیہ قصائد میں ایک ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ ہے جس کی مثال عربی زبان میں لکھے جانے والے قصائد میں ناپید ہے۔
اسی قصیدے میں امام بوصیری نے مذکورہ مسئلے کے حوالے سے ان کے نظریہ کو باطل قرار دیتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کو نصاریٰ کی مدحت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم سے منزہ و مبرا ثابت کیا۔ چنانچہ قصیدہ بردہ میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
دَعْ مَا پادَّعَتْهُ النَّصَارٰی فِيْ نَبِيِّهِم
وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحًا فِيْهِ وَاحْتَکِم
’’جو کچھ نصاریٰ نے اپنے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ادعا کیا (یعنی انہیں خدا کا بیٹا کہا) اس کو چھوڑ دے باقی جو تیرا جی چاہے بحالت مدح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی فضیلتوں کو بیان کر اور اچھی طرح بیان کر‘‘۔
فَإِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اﷲِ لَيْسَ لَهُ
حَدٌّ فَيُعْرِبَ عَنْهُ نَاطِقٌ بِفَم
’’کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزرگی کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے جس کو بولنے والا بیان کرسکے‘‘۔
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
يَاحَبِيْبًا وَشَفِيْعًا مَطَاعًا
حَسْبُنَا اَنَّه اِلَيْکَ الْاِ يَابَا
’’اے حبیب و شفیع قابل اتباع ذات گرامی! آپ کی بارگاہ اقدس میں حاضری ہی ہمارے لئے کافی ہے‘‘۔
لَمْ نَقُلْ فِيْکَ مَقَالَ النَّصَارٰی
اِذْ اَضَلُّوْا فِيْ الْمَسِيْحِ الصَّوَابَا
’’ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے نصاریٰ جیسی باتیں نہیں کریں گے کیونکہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق راہ صواب سے بھٹک گئے تھے‘‘۔
اِنَّمَا اَنْتَ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْکَ الْکِتَابَ
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو واضح ڈر سنانے والے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروردگار نے قرآن حکیم نازل فرمایا‘‘۔
گویا امام بوصیری نے اس مدحت سے ڈرایا جو عیسائی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی کیا کرتے تھے وہ کہتے تھے۔
اِنَّه اِبْن اللّٰهِ اَوْثَالِثُ ثَلَاثَةٍ.
’’یعنی آپ تو اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں یا پھر وہ لوگ تثلیث کا عقیدہ رکھتے تھے کہ تین خداؤں میں ایک خدا عیسیٰ بن مریم ہیں‘‘۔ (معاذاللہ)
لیکن اس کے ساتھ ساتھ امام بوصیری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دائرہ بشریت سے خارج نہیں کیا اور ثابت بھی کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوق سے افضل ہیں۔
فَمَبْلَغُ الْعِلْمِ فِيهِ أَنَّهُ بَشَرٌ
وَ أَنَّهُ خَيْرُ خَلْقِ اﷲِ کُلِّهِم
’’پس ہمارے علم کا منتہیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت کی نسبت صرف یہی کافی ہے کہ آپ انسان ہیں اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں‘‘۔
ایک اور جگہ پر اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَاقَ النَّبِيِّيْنَ فِيْ خَلْقٍ وَّ فِيْ خُلُقٍ
وَلَمْ يُدَانُوْهُ فِيْ عِلْمٍ وَّلَا کَرَم
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن صورت اور حسن سیرت میں سب پیغمبروں پر سبقت لے گئے اور کوئی پیغمبر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رتبہ معرفت اور سخاوت تک نہیں پہنچا‘‘۔
کسی شاعر نے صنعت ملمّع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کا حق ادا کردیا ہے :
يَاصَاحِبَ الْجَمَالِ وَيَا سَیِّدَ الْبَشَرِ
مِنْ وَّجْهِکَ الْمُنِيْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرُ
’’اے خوبصورتی کے پیکر اور تمام مخلوق کے سردار! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور سے ہی چاند نے اپنی چاندنی حاصل کی ہے‘‘۔
لَايُمْکِنْ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُّه
بعد از خدا بزرگ توئی قصه مختصر
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری مدحت و ثناء کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مسئلے کو مختصر کرتے ہوئے کہا جائے آپ تو اللہ بزرگ و برتر کے بعد عظیم ہستی ہیں‘‘۔
جبکہ ثناء خوان بارگاہ نبوی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اس سے پہلے حقیقت بیان کرچکے ہیں۔
وَاَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَيْنِيْ
وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
’’آپ سے زیادہ حسین بندہ میری آنکھوں نے کبھی آج تک نہیں دیکھا ہے اور آپ سے زیادہ خوبصورت آج تک کسی ماں نے جنا ہی نہیں ہے‘‘۔
خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِّنْ کُلِّ عَيْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
’’آپ تمام عیوب و نقائص سے پاک پیدا ہوئے ہیں گویا آپ کی جیسی خواہش تھی اسی طرح آپ مولود ہوئے‘‘۔
اسی طرح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الْکَوْنَيْنِ وَ الثَّقَلَيْنِ
وَ الْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّ مِنْ عَجَم
’’اوصافِ مذکورہ بالا کے مصداق جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو دین اور دنیا، جن و بشر اور دونوں فریق عرب و عجم کے سردار ہیں‘‘۔
اپنے عقیدے کی مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں :
هُوَ الْحَبِيْبُ الَّذِيْ تُرْجٰی شَفَاعَتُهُ
لِکُلِّ هَوْلٍ مِّنَ الْاَهْوَالِ مُقْتَحِمِ
’’آپ خدائے تعالیٰ کے وہ محبوب ہیں کہ مصیبتوں میں ہر ایک سخت مصیبت میں آپ کی شفاعت کی توقع کی جاتی ہے‘‘۔
يَا أَکْرَمَ الْخَلْقِ مَالِی مَنْ أَلُوذُ بِه
سِوَاکَ عِندَ حُلُولِ الْحَادِثِ الْعَمِم
’’اے اشرف المخلوقات! سوائے آپ کے بوقت نزول حادثات عامہ کوئی ایسا نہیں ہے جس کے پاس جاکر میں پناہ لوں‘‘۔
کیونکہ
فَإنَّ مِنْ جُودِکَ الدُّنْيَا وَ ضَرَّتَهَا
وَ مِنْ عُلُومِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَم
’’آپ ہی کی بخشش سے دنیا اور اس سوت (آخرت) معرض وجود میں آئیں یارسول اللہ! اور لوح و قلم کا علم آپ کے علم کا ایک جزو ہے‘‘۔
وَ مُنْذُ أَلْذَمْتُ أَفْکَارِيْ مَدَائِحَه
وَ جَدْتُهُ لِخَلَاصِی خَيْرَ مُلْتَزِم
’’میں نے جب سے اپنے افکار کو حضور علیہ السلام کی نعمت کے لئے لازم یا وقف کردیا ہے تب سے میں نے حضور علیہ السلام کو اپنی نجات کا بہترین معاون پایا‘‘۔
آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات تو ایسی ہے :
حاَشَاهُ أَنْ يَحْرِمَ الرَّاجِی مَکَارِمَه
أَوْ يَرْجِعَ الْجَارُ مِنْهُ غَيْرَ مُحْتَرَم
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے یہ بعید ہے کہ آپ کے الطاف و کرم امیدوار کو محروم کریں یا آپ کے الطاف سے وہ محروم کیا جائے اور آپ کی پناہ گزیں آپ کی درگاہ سے بلااحترام واپس ہو‘‘۔
اسی طرح باقی قصیدہ کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو رقم کیا۔ یہ محنت اور خلوص ومحبت کا ہی نتیجہ ہے کہ کوئی قصیدہ اس جیسا ہو۔ یقیناً اس کی نظیر نہ ماضی میں تھی اور نہ مستقبل میں ممکن ہے۔ لاتعداد قصائد بعد میں اس کی طرز اور اسلوب پر لکھے گئے جن کی طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے لیکن کوئی بھی قصیدہ بردہ کے مقام کو ذرہ برابر بھی نہ چھو سکا حتی کہ امیرالشعراء احمد شوقی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا جب وہ اپنا مشہور مدحیہ قصیدہ ’’ولد الھدٰی‘‘ رقم کررہا تھا۔
اَلْمَارِحُوْنَ وَاَرْبَابُ الْهَوٰی تَبَعٌ
لِصَاحِبِ الْبَرْدَةِ وَالْضَيْحَاءِ ذِيْ الْقِدَمِ
’’جملہ ثناء خوان مصطفیٰ اور اہل محبت عظیم قصیدہ بردہ کے ناظم کی اتباع کرتے ہیں جس کی اولیت قطعی ہے‘‘۔
مَدِيْحُه فِيْکَ حُبٌّ خَالِصٌ وَهَوًی
وَصَادِقُ الْحُبِّ عَلٰی صَادِقِ الْکَلِمِ
’’بوصیری کی نعت سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سے سراپا محبت اور نیاز ہے محبت میں سچے انسان کے سچے کلمات ہیں‘‘۔
هَذَا مَقَامٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ مُقْتَبِسٌ
تَرٰی مَهًابَتَه سُحْبَانُ بِالْبُکُمْ
’’یہ عظیم مقام و مرتبہ یقیناً اللہ کی مہربان ذات کا عطا کردہ ہے۔ جس کی ہیبت کا اندازہ ایک گونگا بھی بخوبی لگاسکتا ہے‘‘۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment