Thursday, 14 December 2017

نماز کے بعد ذکر بالجہر کرنا : ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی

نماز کے بعد ذکر بالجہر کرنا : ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی


ذکر آہستہ کیا جائے یا درمیانے درجے کی بلند آواز سے، یہ جائز بلکہ افضل ہے۔ اسلام کا ہر حکم معتدل ہوتا ہے۔ کھانا پینا جائز، بلکہ ضروری ہے لیکن اعتدال کے ساتھ۔ حد سے زیادہ جائز نہیں۔ نماز، روزہ، انفاق سی سبیل اﷲ، حج جہاد، خوشی و غمی کا اظہار، تمام احکام میں اعتدال و توسط کی راہ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ افراط و تفریط نہ عبادات میں جائز ہے اور نہ معاملات میں۔ اگر نماز باجماعت ہو رہی ہو یا پاس مریض لیٹا ہو یا کوئی آرام کر رہا ہو یا کوئی مصروف مطالعہ ہو تو اس کے پاس چیخ چیخ کر ذکر کرنے کو کون جائز قرار دے گا؟ اگر نماز باجماعت ہوچکی ہے اور مذکورہ عوارض بھی موجود نہیں اور لوگ اجتماعی طور پر درمیانی آواز سے ذکر بالجہر کریں تو یہ عین منشاء قرآن و حدیث ہے۔ اسی پر صحابہ کرام کا عمل رہا اور اسی کا ان کو حکم تھا۔ اس کی صراحت فقہائے کرام نے فرمائی اور یہی آج تک اہل سنت کا معمول رہا ہے۔
ذکر بالجہر کا ثبوت قرآن کی روشنی میں:فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا.
ترجمہ : اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدت شوق سے (اللہ کا) ذکر کیا کرو۔(البقره، 2 : 200)

دراصل کفار مکہ حج سے فراغت کے بعد مجالس میں اپنی قومی خوبیاں اور نسبی عظمتیں بیان کرتے تھے اس کو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور اس کی جگہ اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیا۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کا بلند آواز سے تذکرہ کرتے تھے، اس کو چھوڑ کر ان اجتماعات میں ذکر الٰہی کرنے کا حکم دیا گیا۔ پس یہ ذکر بالجہر کا حکم ہے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا. ترجمہ : اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے۔(البقره، 2 : 114)

اس آیت مبارکہ میں اس شخص کو سب سے بڑا ظالم گردانا گیا ہے جو مسجد میں اللہ کا ذکر کرنے والوں کو ذکر سے روکتا ہے اور مساجد کو ویران کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں بھی پوشیدہ طور پر ذکر بالجہر ہی مراد ہے کیونکہ اگر لوگ دل میں ذکر کریں تو ان کو کون روک سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بلند آواز سے ہی ذکر کیا جاتا ہے جسے سن کر ظالم لوگ منع کرتے ہیں اور مساجد کو ویران کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے درد ناک عذاب کی وعیدسنائی ہے۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ.ترجمہ : ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) لرز جاتے ہیں۔(الانفال، 8 : 2)

اہل علم و عقل جانتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے بھی ذکر بالجہر کا ثبوت ملتا ہے کہ جب کسی کے سامنے ذکر کیا جائے اور اس ذکر کا اثر اسی صورت قبول کر سکتا ہے جب ذکر بالجہر ہو، کیونکہ خفی ذکر تو وہ سن نہیں سکتا اور جو ذکر سنا جاتا ہے وہ ذکر بالجہر ہی ہے۔

احادیث سے ذکر بالجہر کا ثبوت

عن ابی سعيد الخدری رضی الله عنه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : أکثروا ذکر اﷲ تعالی حتی يقولوا مجنون .ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں ۔ (ابن حبان، الصحیح، 3 : 99، رقم : 817)

اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے پر لوگ تبھی دیوانہ کہیں گے جب لوگ سنیں گے اور سن اسی وقت سکتے ہیں جب ذکر بالجہر ہو گا۔

عن ابن عباس رضی الله عنه : قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أذکروا اﷲ ذکرا يقول المنافقون إنکم تراؤون. ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا ذکر اس قدر کرو کہ منافق تمہیں ریا کار کہیں ۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، 12 : 169، رقم : 12786)

اس حدیث پاک میں بھی واضح طور پر ذکر بالجہر ہی کی بات کی گئی ہے کہ جس پر منافق ریا کار کہیں۔

عن جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنهما أن رجلا کان يرفع صوته بالذکر فقال رجل لو أن هذا إخفض من صوته فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فإنه آواه قال فمات فرأی رجل نارا فی قبره فاتاه فاذا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فيه وهو يقول هلموا الی صاحبکم فاذا هو الرجل الذی کان يرفع صوته بالذکر. ترجمہ:حضرت جابر بن عبدا للہ رٰ اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی بلند آواز سے ذکر کیا کرتا تھا، ایک آدمی نے کہا : اگر یہ آدمی اپنی آواز پست رکھتا (تو بہتر ہوتا) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ مست ہے راوی کہتا ہے کہ وہ شخص انتقال کر گیا پس ایک شخص اس کی قبر میں روشنی دیکھ کر اس کے قریب آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں (پہلے سے) موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے اس ساتھی کی طرف آؤ جو بلند آواز سے ذکر کیا کرتا تھا۔(الحاکم، المستدرک، 1 : 522، رقم : 1361)

یعنی بلند آواز سے ذکر کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مروج تھا۔

نماز کے بعد ذکر بالجہر کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ افضل بھی ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ علیہ نے اپنی صحیحین میں باب الذکر بعد الصلاۃ (نماز کے بعد ذکر کرنے کا بیان) پر ابواب قائم کیے ہیں، اوریہ ثابت کیا ہے کہ نماز کے بعد ذکر کرنا نہ صرف جائز، مستحب اور مسنون ہے۔ انہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ نقل کی جا میں وہ فرماتے ہیں: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں فرض نماز کے بعد بآواز بلند ذکر معروف تھا۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (بچپن میں اپنے گھر میں) جب میں اِس ذکر کی آواز سنتا تو جان لیتا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب صفة الصلاة، باب الذکر بعد الصلاة، 1 : 288، رقم : 805) (مسلم، الصحيح، کتاب المساجد، باب الذکر بعد الصلاة، 1 : 410، رقم : 583)

اِسی طرح حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ رضی الله عنه يَقُوْلُ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ حِيْنَ يُسَلِّمُ : لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيئٍ قَدِيْرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاﷲِ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُوْنَ. وَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ کُلِّ صَلَاةٍ.
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہر نماز میں سلام پھیرنے کے بعد کہا کرتے تھے : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہی ہے، اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غالب آنے والا اور قوت رکھنے والا نہیں اور ہم سوائے اس کے کسی کی عبادت نہیں کرتے اس کے لئے تمام نعمتیں ہیں اور اسی کے لیے فضل اور تمام اچھی تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کا دین خالص ہے اگرچہ کافروں کو یہ ناگوار گزرے ۔
(مسلم، الصحيح، کتاب المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاة وبيان صفته، 1 : 415، رقم : 594)(أبو داود، السنن، کتاب الوتر، باب ما يقول الرجل إذا سلم، 2 : 82، رقم : 1506، 1507)(نسائي، السنن، کتاب السهو، باب عدد التهليل والذکر بعد التسليم، 3 : 70، رقم : 1340)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’المسند ( : 44، 45)‘‘ میں اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اِذَا سَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ يَقُوْلُ بِصَوْتِهِ الْاَعْلٰی : لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَه لَا شَرِيکَ لَه لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ.
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے پڑھتے : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہی ہے، اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غالب آنے والا اور قوت رکھنے والا نہیں اور ہم سوائے اس کے کسی کی عبادت نہیں کرتے اس کے لئے تمام نعمتیں ہیں اور اسی کے لیے فضل اور تمام اچھی تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کا دین خالص ہے اگرچہ کافروں کو یہ ناگوار گزرے۔

علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فرض نمازوں کے بعد ذکر بالجہر کرنا جائز ہے ۔ (طحطاوی، مراقی الفلاح : 174)

علاوہ ازیں اِجتماعی طور پر ذکر بالجہر کرنا بھی حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی تنہا اس کا ذکر (ذکر خفی) کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر (ذکر جلی) کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی : کل شیء هالک إلا وجهه، 6 : 2694، رقم : 6970)

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے ذکر بالجہر کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ ذکر بالجہر کی دو اقسام ہیں :

(1) ذکرِ مُتَوَسَّط
(2) ذکرِ مُفْرَط

ذکر متوسط سے مراد ایسی درمیانی درجہ کی آواز سے کیا گیا ذکر ہے جو دوسروں کے لیے باعثِ خلل نہ ہو۔جبکہ ذکر مفرط سے مراد بہت ہی بلند آواز سے ذکر کرنا جو کہ دوسروں کے لیے باعثِ تکلیف ہو ۔

فرض نماز کے بعد ذکرکرنا : نماز کے بعد ذکر کرنے کا حکم قرآن و حدیث اور اقوالِ فقہائے کرام سے ثابت ہے اس کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بڑی برکت ہے حیلے بہانوں سے اسے منع کرناقبیح بدعت اور گناہ ہے قرآنِ کریم میں ہے : فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ ترجمہ : پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(الجمعۃ، 62 : 10)

پھر ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔(الاحزاب، 33 : 41)

مانعینِ ذکر اور قرآن کریم

مسجدوں میں اﷲ کے ذکر سے منع کرنے والے کو قرآن نے ظالم کہا ہے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَـئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَآئِفِينَ لهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.
ترجمہ : اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔(البقرہ، 2 : 114)

معلوم ہوا کہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کے ذکر سے منع کرے۔ منع اسی وقت کرے گا جب آواز سنے گا اور آواز اسی وقت سنے گا جب بلند آواز سے ذکر کیا جائے گا جو دل میں ذکر کرے اس کی آواز تو اللہ ہی سنتا ہے کسی دوسرے کو کیا معلوم کہ یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جب دوسرے کو پتا ہی نہیں تو منع کیسے کرے گا؟ یہ قرآن کی آیت ہے اس پر بار بار غور کریں اور منع کرنے والے سے بھی سوال کریں ۔

ذکرِ الٰہی اطمنانِ قلب کا ذریعہ

أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ۔ ترجمہ : جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ (الرعد، 13 : 28)

إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ .
ترجمہ : شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آو گے ؟ (المائدۃ، 5 : 91)

مانعین ذکر تنگدل ہیں

وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ.
ترجمہ : اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، دل تنگ ہو جاتے ہیں ان کے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ۔ (الزمر، 39 : 45)

مانعین ذکر پر رزق کی تنگی

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى.
ترجمہ : اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے ۔ (طہ، 20 : 124)

اقوال صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین

عن ابن عباس رضی الله عنه قال کنت أعرف إنقضاء صلٰاة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بالتکبير . ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے فراغت اللہ اکبر کی آواز سن کر معلوم کرتا تھا ۔ (بخاری، الصحیح، 1 : 288، الرقم : 806)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ان رفع الصوت بالذکر حين ينصرف الناس من المکتوبة کان علی عهد نبی صلی الله عليه وآله وسلم وقال ابن عباس کنت أعلم إذا بذلک إذا سمعته.
ترجمہ : بلند آواز سے ذکر کرنا، جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہو جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھا اور ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں اس کی آواز سن کر معلوم کر لیتا تھا کہ نماز ہو گئی ہے ۔
(مسلم، الصحیح، 1 : 410، الرقم : 583)

اقوال فقہاء کرام علیہم الرّحمہ

ان الجهر أفضل لأنه اکثر عملاً ولتعدی فائدته، الی السامعين ويوقط قلب الذاکر فيجمع همه الی الفکر و يصرف سمعه و بطرد النوم ويزيد انشاط.
ترجمہ : بلند آواز سے ذکر افضل ہے کہ اس میں محنت زیادہ ہے اور اس کا فائدہ تمام سننے والوں تک پہنچتا ہے اور یہ ذکر کرنے والے کے دل کو بیدار کرتا ہے اور اس کے خیال کو جمع کرتا ہے اور کانوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہے اور نیند بھگاتا ہے اور چستی بڑھاتا ہے ۔ (شامی، ردالمختار، 1 : 660)

نماز کے بعد بلند آوز سے ذکر زمانہ رسالت سے جاری تھا ۔اس حدیث سے ثابت ہوا ذکر بالجہر بدعت نہیں ہے بعض لوگوں نے سمجھا۔(تیسیر الباری شرح بخاری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 526 ۔علامہ نواب وحید الزّمان غیر مقلد )

جب قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور کلام فقہاء سے نماز کے بعد ذکر بالجہر کا حکم ثابت ہو گیا تو تاویل اور بہانے بنانے سے باز رہنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ بہتر یہی ہے کہ نماز کے بعد ذکر بالجہر متوسط کرنا چاہیے اور اسی پر تمام علماء کرام کا اتفاق ہے۔ اِس لیے ذکر بالجہر متوسط جائز اور مستحب ہے تاکہ حدیث شریف پر بھی عمل ہو اور دوسروں کے لیے باعثِ زحمت بھی نہ ہو ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...