بدعت حسنہ و بدعت سیئہ
ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاءِ اسلام علیہم الرّحمہ نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی روشنی میں خاص علمی نظم سے بدعت کی درجِ ذیل اقسام بیان کی ہیں : (1) بدعتِ حسنہ ۔ (2) بدعتِ سیئہ
لفظ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو، مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا۔ اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ’’بدعتِ سیئہ‘‘ ہو گی۔
ترجمہ : ثابت یہ ہوا کہ اگر بدعت شریعت میں کسی مُستحسن امر کے تحت داخل ہے تو وہ اچھی ہے اور اگر وہ شریعت کی نا پسندیدگی کے تحت آتی ہے تو وہ غیر پسندیدہ ہوگی ۔ (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253)( شوکانی، نيل الاوطار، 3 : 63)
اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے : مَنْ سَنَّ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّة حَسَنَةً، فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ. مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِيْ الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهِمْ شَيْئٌ ۔
ترجمہ : جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کرے اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتدا کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہو گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔
(مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، رقم : 1017)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)
اگر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں لفظِ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنّتِ لغوی ہے۔ اگر من سنَّ فی الاسلام سُنّۃً سے مراد شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے سُنّۃً حَسَنَۃ اور سُنَّۃً سَیِّئَۃً میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیشہ حسنہ ہی ہوتی ہے، اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے ۔
تقسیمِ بدعت کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ بعض اوقات ایک کام محض لُغوی اِعتبار سے بدعت ہوتا ہے شرعی اِعتبار سے نہیں۔ بعض لوگ بدعتِ لغوی کو ہی بدعتِ شرعی سمجھ کر حرام کہنے لگتے ہیں۔ لفظِ بدعت، چونکہ بَدَعَ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’نیا کام’’ کے ہیں۔ اس لئے لُغوی اعتبار سے ہر نئے کام کو خواہ اچھا ہو یا برا، صالح ہو یا فاسد، مقبول ہو یا نامقبول بدعت کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے اِس اِبہام سے بچنے کے لیے بدعت کی ایک اُصولی تقسیم یہ کی ہے کہ اسے بنیادی طور پر بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی، دو اقسام میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ کے بعد ایجاد ہوا یا رواج پذیر ہوا، مذموم، حرام اور باعث ضلالت قرار نہیں دیا بلکہ کسی نئے کام کو ’’بدعۃِ لغویہ’’ کے زمرے میں رکھا ہے اور کسی کو ’’بدعۃِ شرعیۃ’’ کے زمرے میں۔ اس طرح صرف بدعتِ شرعیہ کو ہی بدعتِ ضلالت قرار دیا ہے جبکہ بدعتِ لغویہ کو بالعموم بدعتِ حسنہ تصور کیا ہے۔
بدعتِ لُغوی (Literal Innovation)
بدعتِ لغوی سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو صراحتاً کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوں لیکن ان کی اَصل، مثال یا نظیر شریعت میں موجود ہو اور یہ شریعت کے مستحسنات کے ذیل میں آتے ہوں جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، قرآنی آیات پر اِعراب، دینی علوم کی تفہیم کے لئے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام وغیرہ۔ یہ سب اُمور بدعاتِ لغویہ میں شامل ہیں۔
علامہ اِبن تیمیہ (728ھ) اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ4 : 224’’ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذهِ کے ذیل میں بدعتِ لغوی کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : اِسے(یعنی باجماعت نمازِ تراویح کو) بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لُغوی ہے، بدعتِ شرعی نہیں ہے۔ بدعتِ شرعی وہ گم راہی ہوتی ہے جو دلیلِ شرعی کے بغیر سر اَنجام دی جائے۔’’
حافظ عماد الدين اسماعيل ابن کثير ’’تفسير القرآن العظيم (1 : 161) ميں بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسيم بيان کرتے ہوئے لکھتے ہيں : بدعت کی دو قسمیں ہیں : بعض اوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإنّ کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة’’ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے۔
مذکورہ بحث میں حافظ ابنِ کثیر نے بدعت کو بدعتِ شرعیہ اور بدعتِ لغویہ میں تقسیم کر دیا۔ اِس میں بدعتِ ضلالہ کو بدعتِ شرعیہ کا نام دیا ہے ان کے نزدیک ہر بدعت ضلالت و گمراہی نہیں بلکہ صرف ’’کل بدعة سيئة ضلالة’’ ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اُسے بدعت لغویہ کہتے ہیں۔ وہ اِس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه میں بدعت سے مراد بدعتِ لغوی ہے نہ کہ بدعت ضلالہ ۔
اَہم نکتہ : علامہ اِبن تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذه میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالانکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے۔ سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۔ (القرآن، ص، 38 : 30)
ترجمہ : (حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھا ۔
اس آیت میں لفظ نِعْمَ اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جسے نعم البدعۃ ھذہ کہا ہے لغت ہی کی رُو سے اِس کا معنی بدعت حسنہ بنتا ہے۔ یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے۔
بدعتِ شرعی (Legal Innovation)
بدعتِ شرعی سے مراد اَیسے نئے اُمور ہیں جو نہ صرف کتاب و سنت سے متخالف و متناقض ہوں اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کے بھی مخالف ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اَصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو، ’’بدعت شرعی’’ ہے۔ ذیل میں بدعتِ شرعی کی چند تعریفات ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ ابن تیمیہ (728ھ) بدعتِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے معروف فتاویٰ ’’مجموع الفتاویٰ (3 : 195)’’ میں لکھتے ہیں : بدعت سے مراد ایسا کام ہے جو اعتقادات و عبادات میں کتاب و سنت اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کی مخالفت کرے جیسے خوارج، روافض، قدریۃ اور جہمیۃ کے عقائد۔
شیخ ابن رجب حنبلی (المتوفی 795ھ) بدعت شرعی کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
ترجمہ : بدعت (شرعی) سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا ۔ (جامع العلوم والحکم، 1 : 252)
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هَذا مَا لَيْسَ مِنْه فَهُوَ رَدٌّکی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں : (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ) جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہوگی اور دین اس چیز سے بری ہوگا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718)(ابن ماجه، السنن،المقدمه، باب تعظيم حديث رسول اﷲ، 1 : 7، رقم : 14)(أحمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372)
اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالمِ دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس کے نتیجے میں کوئی سنت متروک ہو جائے۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔
اس تقسیم کو صراحتاً بیان کرنے والوں میں منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء اعلام کے ابنِ تیمیہ (728ھ)، ابنِ کثیر (774ھ)، ابنِ رجب حنبلی (795ھ)، علامہ شوکانی (1255ھ) اور علامہ بھوپالی(1307ھ) سے لے کر شیخ عبد العزیز بن باز (1421ھ) تک، ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض علماء اور محدّثین جو اپنے آپ کو ’’سلفی’’ کہتے ہیں، سوادِ اَعظم سے اپنے آپ کو جدا قرار دیتے ہیں اور کسی لحاظ سے بھی بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم جائز نہیں سمجھتے وہ بھی بدعت کو بدعتِ لُغوی اور بدعتِ شرعی میں تقسیم کرتے ہیں۔ جب کہ ہم بدعتِ حسنہ اور سیئہ کے ساتھ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم کو بھی مانتے ہیں کیوں کہ ہمارے نزدیک ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو وہ بدعتِ شرعی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ یا بدعتِ قبیحہ بھی کہتے ہیں اور جس کو وہ بدعتِ لُغوی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ حسنہ، بدعتِ صالحہ اور بدعتِ خیر سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی بھی نئے عمل کی حلت وحرمت کو جانچنے کے لئے اسے دلیلِ شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اگر وہ عمل موافقِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ حسنہ’’ کہلائے گا اور اگر مخالفِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ سیئہ’’ یا ’’بدعتِ مذمومہ۔
مختصراً یہ کہ بدعت کے در اصل دو اِطلاقات ہیں : ایک شرعی اور دوسرا لغوی۔ شرعی اِطلاق میں بدعت ’’محدثات الامور’’ کو شامل ہے اور یہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ہے۔ سو اس معنی میں ’’کل بدعة ضلالة’’ درست ہے، کیونکہ اس کا معنی و مراد ہی ’’کل بدعةٍ سيّئةٍ ضلالةٌ’’ ہے لیکن لغوی اِطلاق میں بدعت کی تقسیم ہوگی۔ وہ اِس طرح کہ اگر وہ مخالفِ دلیلِ شرعی یا منافی و ناسخِ سنّت ہو تو خود بخود ’’بدعت شرعی’’ ہو جائے گی اور وہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ’’بدعتِ مذمومہ’’ یا ’’بدعتِ ضلالہ’’ ہوگی لیکن اگر مخالفِ شریعت نہ ہو اور نہ ہی ناسخِ سنّت ہو تو وہ مباح اور جائز ہو گی۔
بدعتِ حسنہ کی اَہمیت و ضرورت اور افادیت و مصلحت کے اعتبار سے اس کی مزید درجہ بندی کی گئی ہے سو یا وہ فقط بدعتِ مباحہ ہوگی، یا بدعتِ مندوبہ (مستحبّہ) ہو گی یا بدعتِ واجبہ یعنی صورۃً وھیئۃً تو وہ کوئی نیا کام ہوگا مگر اصلًا و دلالتاً اَمرِ خیر اور اَمرِ صالح ہوگا جسے شریعتِ اِسلامیہ کے عمومی دلائل و اَحکام کی اُصولی تائید میسّر ہوگی۔ اِسی لئے تمام اَئمہ و محدّثین اور فقہاء و محققین نے ہر زمانے میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے۔
اگر ہر نیا کام محض اپنے نئے ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار پائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آ جائے گا۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کے لئے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام میں۔ انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اُصول، اِصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں لہٰذا بلا شک و شبہ یہ سب بدعتِ لُغوی کے زمرے میں آتے ہیں۔ مزید برآں اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تو دینی مدارس کی مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے طریق پر درس و تدریس نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا۔ یہ فقط قرآن و حدیث کے سماع و روایت پر مبنی تھا۔ لہٰذا قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لے کر حرمِ کعبہ اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی مجروح اور ساقط ہو جائے گا۔ اس ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ اِشکال دور کرنے کے لیے بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم ناگزیر ہے۔
بدعت کی دوسری تقسیم : (1) بدعتِ حسنہ ۔ (2) بدعتِ سیّئۃ
بدعتِ حسنہ (Commendable Innovation) بدعتِ حسنہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جس کی اَصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو اوروہ احکامِ شریعت سے متخالف و متناقض نہ ہو بلکہ شریعت کے مستحسنات کے تحت داخل ہو۔
اِمام اَبو زکریا محی الدین بن شرف نووی بدعت کو بنیادی طور پر حسنہ اور سیّئہ میں تقسیم کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات’’ میں فرماتے ہیں : بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد’’ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھہ اور مباحہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ’’ اور ’’بدعت ضلالہ’’ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : امام شافعی نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور آثارِ صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعة هذه’’ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل’’ میں روایت کیا ہے۔
(کتب ورسائل و فتاوی ابن تيمية فی الفقه، 20 : 16)
بدعتِ سیّئۃ (Condemned innovation) بدعتِ سیئہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو اور اس کی اصل مثال یا نظیر بھی کتاب و سنت میں نہ ہو دوسرے لفظوں میں بدعت سیئہ سے مراد وہ بدعت ہے جو کسی سنت کے ترک کا باعث بنے اور امرِ دین کو توڑے۔
علامہ اسماعیل حقی (1137ھ) بدعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت صرف اُس عمل کو کہا جائے گا جو سنتِ رسول یا عملِ صحابہ و تابعین کے خلاف ہو، فرماتے ہیں : بدعت اس فعل کو کہا جاتا ہے جو نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت کے خلاف گھڑا جائے ایسے ہی وہ عمل صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طریقے کے بھی مخالف ہو ۔ ( تفسير روح البيان، 9 : 24)
اِمام ملا علی قاری حدیث مبارکہ کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔’’ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی ۔
بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017)( مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216)
پس ثابت ہوا کہ بدعت کو لغوی اور شرعی میں تقسیم کرنے والوں کے نزدیک بھی بدعتِ حسنہ سے مراد بدعتِ لغوی ہے۔
بدعتِ سیّئۃ ہی بدعتِ شرعی ہے : بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کی بنیاد بعد کے ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاء اسلام نے ہرگز نہیں رکھی بلکہ اُنہوں نے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی ہی تشریح و توضیح کی ہے اور اسے خاص علمی نظم کے ساتھ بیان کر دیا ہے، لہٰذا امام نووی (676ھ) فرماتے ہیں کہ بنیادی طور پر بدعت کی دو اقسام ہیں : شریعت میں بدعت سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، اور یہ بدعت ‘‘حسنہ’’ اور ‘‘قبیحہ’’ میں تقسیم ہوتی ہے ۔
اسی طرح اِمام ابن اثیر جزری (606ھ) بھی بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة بدعتان : بدعة هدی وبدعة ضلال . بدعت کی دو قسمیں ہیں : بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ۔ (النهاية فی غريب الحديث والأثر، 1 : 106)
لفظِ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اِشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ‘‘بدعتِ سیئۃ’’ ہو گی لہٰذا فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُلُّ بِدعَة ضَلَالَةٌ خود بخود ‘‘کُلُّ بِدْعَةٍ سَيِّئةٍ ضَلَالَة ٌ’’ پر محمول ہو گا تاکہ بدعتِ حسنہ اس سے مستثنیٰ ہو سکے۔
کوئی معترض یہاں پر یہ اِعتراض وارد کر سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ‘‘کُلُّ بِدعَةٍ ضَلَالَةٌ’’ یعنی ہر بدعت کو ضلالت فرمایا ہے۔ پھر بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئۃ کی تقسیم کہاں سے نکل آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم نئی نہیں بلکہ شروع سے لے کر آج تک تمام اکابر ائمہ و محدِّثین نے حدیثِ نبوی کی روشنی میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے۔ تفصیلات کے لئے راقم کی کتاب ‘‘بدعت : ائمہ و محدّثین کی نظر میں‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جہاں سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم ماخوذ ہے وہیں سے بدعتِ حسنہ اور سیئہ نکلی ہیں۔ مثلاً حدیث ‘‘ نعم البدعة هذه’’ میں باجماعت نمازِ تراویح کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ بدعتِ حسنہ نہیں بلکہ بدعتِ لغوی ہے، پس جس حدیث سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی نکلی ہے اسی سے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اِصطلاح ماخوذ ہے۔
ایک اور اَہم بات یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں لغوی اور شرعی کی تقسیم کا ذکر نہیں ہے بلکہ حسنہ اور سیئہ کے الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں۔ جیسے حدیث نعم البدعة هذه(1)میں لفظِ ‘‘نعم’’ بدعتِ حسنہ کی طرف اور ‘‘من سنّ فی الاسلام سنة سيئة’’ (2) میں لفظِ ‘‘سیئۃ’’ بدعتِ سیئہ پر دال ہے۔ لہٰذا جس کو وہ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کہتے ہیں اسی کو جمہور ائمہ و محدّثین بدعتِ حسنہ اور بدعت ِسیئہ کہتے ہیں۔ پس اگر بدعتِ لغوی اور شرعی کی تقسیم جائز ہے تو حسنہ اور سیئہ کی تقسیم کیوں جائز نہیں اور اگر بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم جائز نہیں تو لغوی اور شرعی کی تقسیم بھی جائز نہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک ہر بدعت، بدعتِ ضلالہ ہے اگر اِن کی یہ بات مان لی جائے تو پھر لفظِ بدعت کے ساتھ لفظِ شرعی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ مزید برآں اگر بدعت کی بدعتِ لغوی اور شرعی میں ہی تقسیم کرنی ہے تو پھر حدیث میں لفظ ‘‘نعم’’ کہاں جائے گا؟ کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں ‘‘نعم البدعۃ’’ یعنی اچھی بدعت۔ ان دلائل و اِشارات سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم اَقرب الی متن الحدیث ہے۔ یعنی لفظِ ‘‘نعم’’ کو لفظ ِحسنہ کے مترادف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ (بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906)
بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی مزید تقسیم کی گئی ہے جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے
بدعتِ حسنہ کی مزید تین اقسام ہیں : (1) بدعتِ واجبہ (2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ) (3) بدعتِ مباحہ
(1) بدعتِ واجبہ (Compulsory Innovation) وہ کام جو اپنی ہیئت میں تو بدعت ہو لیکن اس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو جیسے قرآنی آیات پر اعراب، دینی علوم کی تفہیم کے لئے صرف و نحو کا درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصول حدیث، فقہ و اصولِ فقہ اور دیگر علوم عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اہتمام، دینی مدارس کا قیام، درسِ نظامی کے نصابات ،ان کی اِصطلاحات اور اس کے علاوہ فِرقِ باطلہ(قدریہ، جبریہ، مُرجیہ، جہمیہ اور مرزائی وغیرہ) کا ردّ سب ‘‘بدعاتِ واجبہ‘‘ ہیں۔
( شاطبی ،الاعتصام، 2 : 111)(آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 14 : 192()نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 22)
(2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ) (Recommendatory Innovation) جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب، بلکہ عام مسلمان اسے ثواب اور مستحسن اَمر سمجھ کر کریں بدعتِ مستحبہ کہلاتا ہے۔ اس کے نہ کرنے والا گنہگار نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے جیسے مسافر خانے، مدارس کی تعمیر اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا ، جیسے نماز تراویح کی جماعت، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان ، محافلِ میلاد، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اوران میں شرکت نہ کرنے والا گناہگار نہیں ہوتا۔ (نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 23)(نواب وحيد الزمان غیر مقلد وہابی ، هدية المهدی : 117)
اُمت کی بھاری اکثریت کی طرف سے کیے جانے والے ایسے اَعمالِ حسنہ کے بارے میں حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ما رأه المؤمن حسنا فهو عند اﷲ حسن وما رأه المؤمنون قبيحًا فهو عند اﷲ قبيح .
ترجمہ : جس عمل کو (بالعموم) مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مسلمان برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔
(بزار، المسند، 5 : 213، رقم : 1816)0أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600)(حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465)(طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583)
(3) بدعتِ مباحہ (Permissible Innovation) وہ نیا کام جو شریعت میںمنع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اختیار کرلیں بدعتِ مباحہ کہلاتا ہے۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ لذیذ کھانے اور مشروبات کے اِستعمال کو ‘‘بدعت مباحہ’’ سے تعبیر کیا ہے۔
بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں : (1) بدعتِ محرّمہ ۔ (2) بدعتِ مکروہہ
(1) بدعتِ محرّمہ (Forbidden Innovation) وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد، اختلاف اور انتشار واقع ہو یا وہ نئے اُمور جو اُصولِ دین سے متخالف و متناقض ہوں مثلاً نئے مذاہب، جیسے قدریہ، جبریہ، مرجیہ (اور آج کل مرزائی و قادیانی) وغیرہ کا وجود، جبکہ ان مذاہبِ باطلہ کی مخالفت ‘‘بدعتِ واجبہ’’ کا درجہ رکھتی ہے۔
(2) بدعتِ مکروہہ (Prohibited innovation) جن نئے کاموں سے سنت موکدہ یا غیر موکدہ چھوٹ جائے۔ اس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلا ضرورت اور فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے ۔ ( الفتاوی الحديثية : 130)
علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ‘‘فتح الباری شرح صحيح البخاری (4 : 253)’’ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے : بدعت سے مراد ایسے نئے اُمور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان اُمور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہو گا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔
اگر لفظِ ‘‘بدعت’’ اور ‘‘اِحداث’’ کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ ہوتی اور اِن کا معنی ہی ضلالت و گمراہی ہوتا تو اِن اَلفاظ کی نسبت کبھی بھی اَعمالِ حسنہ اور اَفعالِ خیر کی طرف نہ کی جاتی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے استعمال کرتے۔
تقسیمِ بدعت پر اِستدلال کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درج ذیل فرمان نہایت اہم ہے جسے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اُون کے کپڑے پہنے ہوئے کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بدحالی اور ان کی ضرورت کو دیکھا تو لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے کچھ دیر کی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے، پھر ایک انصاری درہموں کی تھیلی لے کر حاضر ہوا، پھر دوسرا آیا اور پھر لانے والوں کا تانتا بندھ گیا، حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے، تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ.
ترجمہ : جس شخص نے مسلمانوں میں کسی ‘‘نیک طریقہ ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017)(نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554)(ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359)(دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514)(ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803)(بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531)
جس طرح بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی، اسی طرح سنت کی بھی دو قسمیں ہیں، سنتِ شرعی اور سنتِ لغوی۔ سنتِ شرعی سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنتِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ہے اور جو سنت شرعی نہیں صاف ظاہر ہے وہ سنت لغوی ہو گی۔ سنتِ لغوی سے مراد نیا کام، نیا عمل، کوئی نیا طریقہ اور نیا راستہ ہے۔ ائمہ اور محدثین نئے کام اور نئے عمل کو بدعت بھی کہتے ہیں اِس طرح آپ سنتِ لغوی کو بدعتِ لغوی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ جو کام سنت نہیں صاف ظاہر ہے پھر وہ بدعت ہی ہو گا اور اسی بدعت کو مصطلحین نے حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کیا ہے۔
بدعتِ حسنہ کی اصل ‘‘سنۃ حسنۃ‘‘ہے : مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :‘‘منْ سنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً’’ یعنی جس کسی نے اسلام میں کسی ‘‘نیک طریقہ‘‘ کی ابتداء کی۔ اب یہاں مطابقت پیدا کرنے اور نفسِ مسئلہ کو سمجھنے کیلئے صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث ‘‘مَنْ اَحْدَثَ فی اَمْرِنَا هَذَا’’ کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ہر اِحداث ممنوع و مردود نہیں بلکہ صرف وہ اِحداث ممنوع ہو گا جس کی کوئی اصل یا نظیر دین میں نہ ہو۔
زیرِ بحث حدیثِ مبارکہ میں اس نئے راستے کو ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کہا گیا ہے یعنی وہ راستہ تھا تو نیا مگر اپنے نئے پن کے باوجود اچھا تھا، بھلائی اور خیر کا راستہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نئے راستے کو جسے سنۃ حسنۃکے ساتھ ساتھ دیگر اَحادیث مبارکہ میں سنۃ صالحۃ،(1) سنۃ خیر،(2) سنۃِ ہدیٰ،(3) نعم البدعۃ(4) اور بدعۃ ھدی(5) وغیرہ بھی کہا گیا ہے۔ شریعت اس نئے راستے یا طریقے کو اپنانے کے بارے میں کیا راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس حوالے سے اسی حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا : ‘‘فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ’’ (اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہء اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی۔) اب اس حدیث کی رو سے اچھا نیا راستہ نکالنا بدعتِ حسنہ ہو گیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ بدعتِ حسنہ کی اصل سنتِ حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعتِ حسنہ اپنی اپنی اصل میں سنت ہے۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ جس نے مسلمانوں میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا جس نے وہ برا طریقہ ایجاد کیا۔ امام مسلم کے مذہب، اس حدیث کے باب اور متنِ حدیث سے ثابت ہو گیا کہ سنتِ حسنہ سے مراد بدعتِ حسنہ ہے اور سنتِ سیئہ سے مراد بدعتِ سیئہ ہے۔
(1) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673)(2) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675)(3) ابن عبد البر، التمهيد،24 : 327)(4) بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906)(5) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674)
ان اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کے ساتھ ساتھ دوسری اصطلاحات ‘‘سنۃ صالحۃ’’ اور ‘‘سنۃ ھدی’’ بھی استعمال فرمائی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اَحادیث میں مختلف اِصطلاحات اس لیے استعمال فرمائی ہیں تاکہ یہ تصور واضح ہو جائے کہ لفظِ سنت ہر جگہ اپنے معروف اور متداول معنی میں نہیں بلکہ اس کے حسنہ اور سيِّئہ ہونے کا اِنحصار اُس ‘‘نئے کام’’ پر ہے جس کی طرف اِس کی نسبت کی جا رہی ہے۔
اس حدیث اور اس سے قبل بیان کی گئی دیگر اَحادیثِ مبارکہ میں ایک قدرِ مشترک ہے اور ان میں باقاعدہ ایک منطقی ربط ہے وہ یہ کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز میں جوڑا جوڑا ہوتا ہے اِسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطلاحات کے بھی متقابل جوڑے بیان فرمائے ہیں یعنی اگر اللہ کے نظامِ تخلیق اور نظامِ قدرت میں متقابل جوڑے مثلاً بیٹا بیٹی، عورت مرد، بھائی بہن، نر مادہ، اسی طرح اچھا برا، اونچا نیچا، امیر غریب، مشرق و مغرب، زمین و آسمان، ظاہر و باطن وغیرہ ہو سکتے ہیں تو پھر وہی جوڑا جوڑا بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ میں کیوں نہیں ہو سکتا ؟۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز کو دُہرا دُہرا جوڑا اور دو دو کر کے بیان فرمایا ہے تو پھر بدعت کی تقسیم میں یہ جھگڑا کیوں کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی، حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر اَحادیثِ مبارکہ میں اصطلاحات کے متقابل جوڑے بیان کیے ہیں مثلاً تقسیمِ بدعت کے حوالے سے اِصطلاحات کے درج ذیل متقابل جوڑوں کو اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے : نعم البدعۃ (1) بدعت ضلالۃ (2) دعوتِ ھُدًی (3) دعوتِ ضلالۃ (4) سنۃ حسنۃ (5) سنۃ سیئۃ (6) سنۃ ھدیً (7) سنۃ ضلا لۃ (8) سنۃ صالحۃ (9) سنۃ ضلا لۃ (10) سنۃ خیر (11) سنۃ شر (12)
(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673)
ان ساری تفصیلات سے ثابت ہوا کہ جوڑوں کے اس فطری نظام کو نہ ماننا اصل میں اللہ کے نظامِ تخلیق، نظامِ قدرت، نظامِ شریعت، نظامِ احکام اور نظامِ اجر و ثواب کا انکار کرنا ہے۔
معروف اہلِ حدیث عالم مولانا صدیق حسن خان بھو پالی (1307ھ) بھی واضح طور پر لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔ شیخ وحید الزماں (1327ھ) اپنی کتاب ‘‘ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں : البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔
گویا بھوپالی صاحب نے ہر اُس نئے عمل کو بدعت ماننے سے اِنکار کر دیا ہے جس کے مدّمقابل کوئی خاص سنت ترک نہ ہو. اُنکے نزدیک ایسا ہر نیا عمل اپنی اصل میں مباح اور جائز ہے۔
اس حوالے سے ایک بہت اہم دلیل یہ ہے کہ وہ نیا کام جسے اُمت کی اکثریت اچھا سمجھ کر کر رہی ہو اور ان کرنے والوں میں صرف ان پڑھ دیہاتی لوگ اور عوام الناس ہی نہ ہوں بلکہ اُمت کے اکابر علماء، فقہاء، محققین اور مجتہدین بھی شامل ہوں تو وہ کام کبھی برا یعنی بدعتِ ضلالہ نہیں ہو سکتا لہٰذا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہور اُمت کا کسی کام کو کثرت کے ساتھ کرنا دلیل شرعی بنا دیا یعنی جمہور امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔
اِمام طبرانی(360ھ) المعجم الکبیر میں اس روایت کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں : مَارَاٰهُ المُؤْمِنُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَ مَارَاٰهُ المُوْمِنُوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ.
ترجمہ : جس کام کو مومنین اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کام کو مومنین برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔
(طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600)(حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465)(بيهقی، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114)(طيالسی، المسند، 1 : 33، الحديث رقم : 246)
اب یہاں پر قرآن و حدیث کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ایک نئی دلیل دی جا رہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت کبھی قبیح کام پر متفق نہیں ہو سکتی۔ اس لئے فرمایا مسلمان جسے عام طور پر اچھا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہے اور مسلمان جسے برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا کسی چیز کو بالعموم اچھا جاننا شرعًا دلیل ہے۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاص عمل جو اپنی ہیئت کذائیہ میں نیا ہے۔ کتاب و سنت کی نصوص، عہدِ رسالتمآب اور عہدِ صحابہ میں ثابت نہیں مگر اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اس کو اچھا جانتی ہے تو یہ بھی حسنہ ہے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ یہ کیسے حسنہ ہو گیا تو اس کا جواب مذکورہ روایت میں ہے کہ جس کو مسلمان اچھا جانیں وہ حسنہ ہے۔ لہٰذا اگر اس کی ہئیت کذائیہ ثابت نہیں تو مذکورہ دلیل کی بنا پر اس کی اصل اور دلیل ثابت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعتِ سیّئہ نہ رہی۔ اَب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا اس میں ذکر و اَذکار، صلوۃ و سلام، نعت خوانی ان تمام اَعمالِ حسنہ کی اصل مذکورہ روایت ہے۔.
اس حدیثِ مبارکہ میں بہت ہی اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ ہر وہ نیا کام جو مصلحتِ دینی پر مبنی ہو اور اسے کوئی مردِ مؤمن جو متقی، عالم، فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ مجتہدانہ بصیرت کا حامل بھی ہو، وہ اسے اچھاجانے تو وہ مباح اور جائز ہے۔ یعنی دلائلِ شرعیہ پر نظر رکھنے والا مردِ مو من کبھی بھی غیر شرعی اُمور کو جائز نہیں کہتا۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا کہ کسی عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نئے کام کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟ یا پھر وہ کام اس لئے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب وغیرہ پر اثر پڑتا ہے یا اس کا ان کے ساتھ اختلاف یا تعارض رونما ہوتا ہے۔
اگر کسی عمل کی اصل قرآنِ حکیم یا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ وغیرہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع جائز ہے ہاں صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابل مذمت ٹھہرے گی جب قرآن و سنت پر پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کی فلاں نص کے خلاف ہے یا شریعت کے فلاں حکم کی مخالفت میں ہے۔
بدعت کا معنی و مفہوم واضح کرتے ہوئے اِس پر بار بار زور دیا جا چکا ہے کہ کوئی بھی نیا کام اس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعتِ اسلامیہ کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو اور اسے ضروریاتِ دین سمجھ کر قابلِ تقلید ٹھہرا لیا جائے یا پھر اسے ضروریاتِ دین شمار کرتے ہوئے اس کے نہ کرنے والے کو گناہگار اور کرنے والے کو ہی مسلمان سمجھاجائے، تو اس صورت میں بلاشبہ جائز اور مباح بدعت بھی ناجائز اور قبیح بن جاتی ہے اور اگر جائز اور مستحسن بدعت میں ناجائز امور کو شامل کر دیا جائے جن کی رو سے روحِ اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہو تو بلاشبہ وہ بدعت بھی قابلِ مذمت ہو گی اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے ہدفِ تنقیدو تنقیص بنانے کا کوئی جواز نہیں ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment