نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز (یعنی پیشاب پاخانہ) کا پاک ہیں
صحابہ و تابعین حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے موئے مبارک تبرک کے طور پر رکھتے تھے۔اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے تمام فضلات مبارکہ پاک تھے۔(تیسیرُالباری جلد 1 صفحہ 179 غیر مقلد اہلحدیث عالم علامہ نواب وحید الزّمان)
اب احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں
وروی ان رجلًا قال رایت النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم أبعد فی المذھب فلما خرج نظرت فلم أر شیئاً ورایت فی ذلک الموضع ثلاثۃ الاحجار اللا تی استنجی بھن فأخذ تھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسک فکنت اذا جئت یوم الجمعۃ المسجد اخذ تھن فی کمی فتغلب رائحتھن
روائح من تطیب وتعطر۔
(صحابہ کرام میں سے) ایک مرد سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ضرورت رفع فرمانے کے لئے بہت دُور تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو میں نے اس جگہ نظر کی کچھ نہ پایا البتہ تین ڈھیلے پڑے تھے جن سے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے استنجا فرمایا تھا میں نے انہیں اُٹھا لیا، ان ڈھیلوں سے مشک کی خوشبوئیں مہک رہی تھیں، جمعہ کے دن جب مسجد میں آتا تو وہ ڈھیلے آستین میں ڈال کر لاتا ان کی خوشبو ایسی مہکتی کہ وہ تمام عطر اور خوشبو لگانے والوں کی خوشبو پرغالب آجاتی ۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ زُبَيْرٍ رضی الله عنه، أَنَّه أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ يَحْتَجِمُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: يَا عَبْدَ اﷲِ، اِذْْهَبْ بِهٰذَا الدَّمِ فَأَهْرِقْه حَيْثُ لَا يَرَاکَ أَحَدٌ، فَلَمَّا بَرَزْتُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَمَدْتُ إِلَی الدَّمِ فَحَسَوْتُه، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: مَا صَنَعْتَ يَا عَبْدَ اﷲِ؟ قَالَ: جَعَلْتُه فِي مَکَانٍ ظَنَنْتُ أَنَّه خَافَ عَلَی النَّاسِ، قَالَ: فَلَعَلَّکَ شَرِبْتَه؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ أَمَرَکَ أَنْ تَشْرَبَ الدَّمَ؟ وَيْلٌ لَکَ مِنَ النَّاسِ وَوَيْلٌ لِلنَّاسِ مِنْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.( أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /638، الرقم: 6343،)
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پاس آئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پچھنے لگوا رہے تھے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: اے عبد اللہ! اس خون کو لے جاؤ اور اسے کسی ایسی جگہ بہا دو جہاں تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔ پس جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی (ظاہری) نگاہوں سے پوشیدہ ہوا تو خون مبارک پینے کا ارادہ کیا اور اُسے پی لیا (اور جب واپس پلٹے) تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے عبد اللہ! تم نے اس خون کا کیا کیا؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے ایسی خفیہ جگہ پر رکھا ہے کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ (ہمیشہ) لوگوں سے مخفی رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم نے شاید اُسے پی لیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس نے خون پینے کو کہا تھا؟ (آج کے بعد) تو لوگوں (کو تکلیف دینے) سے محفوظ ہوگیا اور لوگ تجھ سے (تکلیف پانے سے) محفوظ ہو گئے ۔ اِس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ حَکِيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ عَنْ أُمِّهَا رضي اﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَبُوْلُ فِي قَدَحِ عِيْدَانٍ، ثُمَّ يُوْضَعُ تَحْتَ سَرِيْرِه، فَبَالَ فِيْهِ ثُمَّ جَاءَ فَأَرَادَه فَإِذَا الْقَدَحُ لَيْسَ فِيْهِ شَيئٌ فَقَالَ لِامْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بَرَکَةُ کَانَتْ تَخْدِمُ أُمَّ حَبِيْبَةَ رضي اﷲ عنها جَائَتْ بِهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ: أَيْنَ الْبَوْلُ الَّذِي کَانَ فِي الْقَدَحِ؟ قَالَتْ: شَرِبْتُه فَقَالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ . (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 /189، )
ترجمہ : حضرت حکیمہ بنت اُمیمہ رضی اﷲ عنہا اپنی والدہ سے بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (بیماری کے عالم میں رات کے وقت) لکڑی کے پیالے میں پیشاب کیا کرتے تھے، پھر اُسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ عمل فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم دوبارہ تشریف لائے اور اس برتن کو دیکھا (تاکہ گرا دیں) تو اس میں کوئی چیز نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ برکہ سے، جو کہ حبشہ سے ان کے ساتھ آئیں تھیں، اس بارے میں استفسار فرمایا کہ اس برتن کا پیشاب کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے پی لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو نے خود کو جہنم کی آگ سے بچا لیا ہے ۔ اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
آپ نے وہ واقعات یقینن سنے ہوں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
(1) حضرت امام حسین کو اپنی زبان چوسنے کے لیے دی ۔
(2) کنوے میں لعاب دہن ڈالا
(3) ایک صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو تھوک سے جوڑا
(4) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آنکھوں میں تھوک مبارک لگایا۔
(5)۔صحابہ وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دیتے تھے۔
(6) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک زمیں پرنہ گرنے دیتے۔(حجۃ اللہ علی العالمین ، مدارج النبوت،الخصائص البریٰ)
آپ کے جسم مبارک سے نکلنے والی ہر چیز پاکیزہ ہے ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
السلام علیکم
ReplyDeleteسب سے پہلی روایت جس میں آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے استنجاء والے ڈھیلوں کی خوشبو کا ذکر ہے اس کا حوالہ بتا دیں
مہربانی
اقدس، پسینہ مبارک اور خون مبارک کا خوشبو دار ہونا
ReplyDeleteحضور ﷺ کے جسم اقدس کا مادی کثافتوں سے پاک ہونا ان احادیث شریفہ سے بھی روز روشن کی طرح واضح ہے جن میں وارد ہوا کہ حضور کی خوشبو کا مقابلہ دنیا کی کوئی خوشبو نہ کرسکتی تھی، حضرت انس فرماتے ہیں:
(۱) ماشممت عنبرا قط ولا مسکا ولا شیئا اطیب من ریح رسول ﷲ ﷺ۔ (مسلم شریف، جلد ۲، ص۳۵۷)
میں نے کوئی مشک وعنبر یا کوئی شئے حضور ﷺ کی خوشبو مبارک جیسی نہیں سونگھی147۔148
(۲) اور حضرت انس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب حضور ﷺ مدینہ کی راہوں میں سے کسی راہ سے گزرتے تو اہل مدینہ ان راہوں میں مہکتی ہوئی خوشبو پاتے تھے اور کہتے تھے کہ اس راستے سے رسول ﷲ ﷺ گزرے ہیں، اس حدیث کو ابو یعلی اور بزار نے صحیح سند سے روایت کیا ۔ (مواہب اللدنیہ، جلد ۱، ص۲۸۲)
(۳) حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ان کے رخسار کو چھوا تو انہوں نے حضور کے دست اقدس کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی تیز خوشبو پائی گویا کہ حضور ﷺ نے عطر فروش کے عطر کے کپے سے اپنے مبارک ہاتھ کو نکالا ہے اور ان کے غیر نے کہا کہ حضور ﷺ خوشبو لگائیں یا نہ لگائیں بہر صورت حضور سے مصافحہ کرنے والا اپنے ہاتھ میں تمام دن حضور ﷺ کے دست مبارک کی خوشبو پاتا تھا اور حضور ﷺ کسی بچے کے سر پر اپنا دست مبارک رکھ دیتے تھے تو حضور ﷺ کی خوشبو کی وجہ سے دوسرے بچوں میں پہچان لیا جاتا تھا۔ (مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۳)
(۴) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اور دوپہر کو آرام فرمایا، سوتے میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو پسینہ آرہا تھا، میری والدہ ایک شیشی لے آئیں اور اس میں حضور ﷺ کے پسینہ مبارک کو جمع کیا، حضور ﷺ بیدار ہوگئے اور فرمایا کہ اے اُم سلیم یہ کیا کررہی ہو؟ میری والدہ نے عرض کیا حضور ! یہ آپ کا پسینہ ہے ہم اسے اپنی خوشبو بنا رہے ہیں اور یہ سب خوشبوؤں سے اعلیٰ درجہ کی خوشبو ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا۔
(مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۳)
(۵) امام قسطلانی شارح بخاری مواہب اللدنیہ میں فرماتے ہیں:
واما طیب ریحہ ﷺ وعرقہ وفضلاتہ فقد کانت الرائحۃ الطیبۃ صفتہ ﷺ وان لم یمس طیبا۔
(مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۳)
ترجمہ۔ بہر نوع حضور ﷺ کی ریح مبارک، پسینہ مقدس اور حضور کے فضلات شریفہ کی مہکتی ہوئی خوشبوئیں سب حضور کی ذات مقدسہ کی صفات تھیں، خواہ حضور خوشبو لگائیں یا نہ لگائیں۔
(۶) ابویعلی اور طبرانی نے ایک شخص کا قصہ روایت کیا کہ اس کے پاس کچھ نہ تھا اور اسے اپنی بیٹی کی شادی کرنا تھی، اُس نے حضور ﷺ سے استعانت کی، حضور نے اس سے ایک شیشی منگائی اور اس میں اپنا مبارک پسینہ بھر کر اُسے دے دیا اور فرمایا اپنی لڑکی سے کہو کہ وہ اپنے بدن پر میرے پسینہ کو بطور خوشبو استعمال کرے، جب وہ لڑکی حضور کے مبارک پسینہ کو بطور خوشبو استعمال کرتی تو تمام اہل مدینہ اس کی خوشبو سے معطر ہوجاتے تھے اس لئے لوگوں نے اس گھر کا نام بیت المطیبین خوشبو والوں کا گھر رکھ دیا۔ (مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۳)
(۷) وروی انہ کان یتبرک ببولہ ودمہ ﷺ۔
روایت ہے کہ حضور ﷺ کے پیشاب اور خون مبارک سے برکت حاصل کی جاتی تھی۔ (مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۴)
(۸) وفی کتاب الجوھر المکنون فی ذکر القبائل والبطون: أنہ لما شرب، ای عبد ﷲ ابن الزبیر، دمہ تضوع فمہ مسکًا، وبقیت رائحتہ موجودۃ فی فمہ الی أن صلب رضی ﷲ عنہ۔ (مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۴) ۱
کتاب جوہر مکنون میں ہے کہ جب عبداﷲ بن زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے (حضور ﷺ کے بدن سے پچھنوں کے ذریعہ نکالا ہوا) خون پیا تو ان کے دہن مبارک سے مشک کی خوشبو مہکی اور وہ خوشبو ان کے منہ سے ہمیشہ مہکتی رہی یہاں تک کہ ان کو سولی دی گئی(رضی اﷲ عنہ)