Saturday, 23 December 2017

شدت پسند وہابی تحریک حجاز سے بر صغیر میں

شدت پسند وہابی تحریک حجاز سے بر صغیر میں

اسلام کو نقصان پہنچانے اور امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے کے لیے انگریزوں اور یہودیوں نے ہر حربے آزمائے، سیاسی، معاشی، فکری، نظریاتی، اعتقادی، تعلیمی، تمدنی، نسلی… اور داخلی و خارجی بھی۔ داخلی حملے یعنی مسلمانوں کے ذریعے سازش رچنا یہ زیادہ خطرناک طریقہ ہے۔ جس کی بہت سی مثالیں پوری دنیا میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

تحریک وہابیت : تاریخ پر نظر رکھنے والے افراد یہ جانتے ہیں کہ ماضی میں ایک صدی پیش تر مسلمانوں کی سب سے بڑی مملکت سلطنت عثمانیہ تھی جس کی سرحدیں نیل کے ساحل سے کاشغر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اور عثمانی سلاطین سنی صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سچی محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ حجاز مقدس حرمین میں انھیں کی خدمت تھی، تمام اسلامی یادگاریں اور نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والے آثار نہایت احترام سے محفوظ کر دیا تھا۔ ان کی دین داری مثالی تھی جو برطانیہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ انھیں ایسے شخص کی تلاش تھی جو بہ ظاہر مسلمان ہو اور برطانوی کاز کے لیے کام کرے۔ اس سلسلے میں حکومت برطانیہ نے اپنے جاسوس پورے خطۂ عرب میں پھیلا دیے۔ انھیں میں ایک جاسوس مسٹر ہمفرے تھا جس نے پوری تن دہی سے کام کیا اور ایسے شخص کو تیار کر لیا جو مسلمانوں میں ایک نئے فرقے ’’وہابی‘‘کی بنیاد کا سبب بنا۔ اس کا نام محمد ابن عبدالوہاب (ولادت ۱۷۰۳ء) تھا۔ اس نے نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و ادب کو ہی شرک قرار دیا۔ اس کے نزدیک پوری دنیا کے مسلمان مشرک تھے۔ ’’توحید‘‘ کے قرآنی احکام سے جدا مفہوم تراشے۔ دوسری طرف نسلی منافرت کے لیے لارنس آف عربیہ نے کام کیا اور ترک عرب قضیہ کھڑا کر کے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کروا ڈالے۔ ادھر ابن عبدالوہاب نے برطانوی تعاون سے وہابی تحریک کو ’’توحید‘‘ کے ٹائٹل سے متعارف کروایا۔

وہابیت کے نزدیک مسلمان مشرک : ان کی تحریک کا ایک ٹائٹل تھا شرک، وہ اپنے علاوہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو مشرک سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کے نزدیک حرمین کے مسلمان بھی مشرک تھے، سعودی نجدی مفتی عبدالعزیز بن باز لکھتے ہیں:

اہل حرمین اپنے سابقہ موقف مثلاً گنبدوں کی تعظیم، قبروں پر تعمیر، قبروں کے پاس شرک کا ارتکاب اور اہل قبر سے فریاد طلبی پر جمے رہے۔(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت، ص۴۹)

حرمین شریفین اور یمن میں شرک و بدعت… کا رواج جڑ پکڑ گیا تھا۔ (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۲۷)

وہابی عقیدے میں صحابی رسول حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کا آستانہ بھی شرک کا مرکز تھا، یہی نجدی صاحب اس بابت لکھتے ہیں:

اس قبہ نے لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیا ہے، عقیدے خراب کر دیے ہیں اور اس سے شرک کو رواج ملا، اس لیے اسے ڈھانا بہت ضروری ہے۔ (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۲۵۔۲۶)

تشدد کا آغاز : سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہابیت کا مفہوم کیا ہے، ابوالمکرم عبدالجلیل وہابی لکھتے ہیں: ’’وہابیت کا مطلب بغاوت سمجھا جاتا تھا‘‘ (ابن عبدالوہاب کی دعوت اور علماے اہل حدیث کی مساعی ص۳۲) ظاہر سی بات ہے جو تحریک بغاوت سے فیض یاب ہو گی وہ ’’امن‘‘ کے بجائے ’’تشدد‘‘ کا ہی راستہ اختیار کرے گی، اور اس کے بانی ابن عبدالوہاب نے ایسا کیا بھی۔ ایک مثال دیکھیں، وہابی مفتی عبدالعزیز بن باز ’’محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت‘‘ میںلکھتے ہیں:تن من دھن کی بازی لگا دی(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۳۰)… دعوت جاری رکھی اور پھر جہاد شروع کیا (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۳۷)… ۱۱۵۸ھ میں زبان و قلم اور دلیل و برہان کے ساتھ ہی جہاد بالسیف کا آغاز ہو گیا، اور پھر جہاد بالسیف سے دعوت کا کام بدستور جاری رہا۔(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۴۳)… تقریباً پچاس سال تک جہاد (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۴۶) (یعنی پچاس سال تک مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیلتے رہے۔)

قارئین غور کریں! حجاز مقدس میں یہ جہاد کن سے ہو رہا تھا، مسلمانوں سے، تلواریں کن پر برس رہی تھیںمسلمانوں پر، کیا مسلمانوں کو قتل کرنا جہاد کہلائے گا؟ معلوم ہوا کہ وہابی تحریک کا آغاز ہی تشدد کے ساتھ ہوا۔ اور یہی فکر ان کے ماننے والوں میں آگے بڑھی۔ وہابیت کی اشاعت کے لیے جو تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا اس کا اعتراف بھی مذکورہ کتاب میں موجود ہے: ’’اس عقیدے (وہابی) کو منوانے کے لیے جہاد کیا۔‘‘ (ص۵۳) وہابی تحریک کے بانی کے بارے میں دیوبندی مکتب فکر کے مولوی حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:’’وہ ایک ظالم و باغی خوں خوار فاسق شخص تھا، (الشہاب الثاقب،ص۵۴)… اس نے اہل سنت و جماعت سے قتل و قتال کیا ۔

ہند میں وہابیت : وہابی۱۲۱۸ھ میں مکہ پر قابض ہوئے، ۱۲۲۰ھ میں مدینہ منورہ پر آل سعود کی حکومت قایم ہوئی(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۵۰) باضابطہ سعودی حکومت کے قیام سے متعلق ان کی تحریر یہ ہے: ’’حرمین شریفین عرصۂ دراز تک سعودی حکومت سے الگ رہے پھر ۱۳۴۳ھ میں ان کی بازیابی عمل میں آئی۔‘‘ (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۵۷)

ادھر ہندوستان میں ۱۲۲۱ھ میں ہی وہابی رسالہ ’’ردالاشراک‘‘ پہنچایا گیا مولوی اسمٰعیل دہلوی جو ابن عبدالوہاب سے متاثر تھا اس نے جزوی تبدیلی کے ساتھ اس کا ترجمہ ’’تقویت الایمان‘‘ کے نام سے کیا اس طرح ہند میں اس کتاب کے ذریعے ہندوستان میں وہابیت کی بنیاد پڑی۔ اس میں مسلمانوں کو مشرک لکھا گیا، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا گیا: ’’میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں۔‘‘ (تقویت الایمان،طبع سعودی ص۱۰۳) اس کی اول اشاعت فورٹ ولیم کالج پریس کلکتہ سے انگریزوں نے کی اور مفت تقسیم ہوئی۔ وہابی عقائد کی اشاعت طاقت و قوت کے زور پر بھی کی گئی۔

ہند میں وہابی تشدد : حجاز میں وہابی ظلم و ستم اور جور و تشدد کے سبب ہندوستان میں ان کے مؤید اہل حدیث کے بارے میں مسلمانوں کا ذہن متنفر تھا، اعتراف ملاحظہ ہو’’ ابن عبدالوہاب کی دعوت اور علماے اہل حدیث کی مساعی‘‘ کا مصنف اس میں لکھتا ہے: ’’جماعت اہل حدیث کے بارے میں ہندوستان کی فضا انتہائی نازک اور مکدر تھی۔‘‘ (ص۵۰) ازیں قبل مولوی اسمٰعیل دہلوی اور ان کے احباب نے انگریزوں کی حمایت میں جہاد کیا اور بہ زور قوت سرحدی پٹھانوں کو انگریز کا وفادار بنانے چلے اور سرحد میں ہی ذلت و رسوائی کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہوئے۔

اسی فکر کے علما کو انگریز نے وظائف دیے، ان کے اداروں کو گرانٹ دی اور دوسری طرف صدیوں سے اسلاف کے طریقے پر قایم اہل سنت کے ان سیکڑوں مدارس جن کو مغل حکومت کی سرپرستی حاصل تھی انھیں ختم کر دیا۔ اسماعیل دہلوی نے دہلی میں تشدد کے ذریعے انارکی پھیلائی، لال قلعے میں مغل سلطنت دم ٹوڑ رہی تھی، ایسے حالات کا اس نے پورا پورا فائدہ انگریز کو پہنچایا، ہر دور میں وہابیت اپنے متشدد چہرے کے ساتھ سرگرم نظر آتی ہے، ان کی فکری بنیاد چوں کہ شدت پسندی پر رکھی گئی تھی، اس لیے طاقت کا غلط استعمال وہابیت کی فرت ثانیہ بن چکا ہے۔ جس کا مظاہرہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔

عراق و افغانستان کی تاراجی : عراق پر امریکی حملہ کے پس پشت سعودی ہاتھ کار فرما ہے، جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا، تو اس مسئلے کو عرب لیگ یا عربوں کے نمائندہ اجلاس میں حل کیا جا سکتا تھا، سعودی نے امریکہ کو عراق پر حملے کی دعوت دی، اپنی زمین، اپنی دولت امریکی فوج کو دی، انھیں اپنا ہوائی اڈہ دیا، ان کی مستقل خدمت کی اور کر رہے ہیں، اس طرح عراق تباہ ہوا… افغانستان میں طالبانی انقلاب وہابی فکر کے مدارس کے تربیت یافتہ طلبا کے نتیجے میں آیا، اسامہ بن لادن جو امریکہ کا منظور نظر تھاوہ ابن عبدالوہاب کی فکر سے فیض یاب تھا، لیکن امریکہ سے اس کے اختلاف کے سبب سعودی عرب سے کوچ کر جانا پڑا، انھیں کی امریکہ مخالف پالیسی نے افغانستان کو تباہی سے دوچار کیا، یہ تو جا چھپے لیکن عوام مسلسل ماری گئی اور انسانیت کا یہ قتل اب بھی جاری ہے۔

اہل حدیث اور وہابی ایک ہی ہیں : وہابی کاز کے فروغ لیے ہندوستان میں ان کے فکری حامی اہل حدیث کے ٹائٹل کے ساتھ سرگرم ہیں۔اب اگر اہل حدیث خود کو وہابیت سے الگ بتاتے ہیں تو ان میں فکری اشتراک کی دلیل بھی انھیں کے الفاظ میں دیکھیں : اہل حدیث عقیدہ و منہج کے اعتبار سے شیخ محمد بن عبدالوہاب کے حامی اور ان کی دعوت کے مؤید تھے، غیر مقلد اہلحدیث ابن وہاب نجدی خارجی کے حامی اور اسی کے عقائد کے پیروکار ہیں اور ابن وہاب نجدی ان کا امام ہے ۔ (امام محمد بن عبالوہاب اور علمائے اہلحدیث  صفحات 10 ، 11)

خود غیر مقلد اہلحدیث حضرات  کا اقرار اور ابن وہاب کو اپنا امام لکھا جو کہتے ہیں ہمارے امام صرف محمد الرّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہیں یہ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں حقیقت یہی ہے کہ ان کا امام ابن وہاب نجدی خارجی ہے اور یہ اسی کے عقائد و نظریات کے پیروکار ہیں اب بھی کسی کو شک ہے اور نہ مانوں کی رٹ ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔

عقیدہ و منہج میں ربط اور ہم آہنگی کا لازمی نتیجہ تھا کہ جماعت اہل حدیث نے ہر دور میں شیخ (وہابی) کی اصلاحی دعوت اور شاہ عبدالعزیز کی موحد حکومت کی تائید اور ان کے متعلق ہر غلط افواہ کی پر زور تردید کی۔ (ابن عبدالوہاب کی دعوت اور علماے اہل حدیث کی مساعی ص ۱۵) ۔ ظاہر ہے کہ جب یہ جماعت وہابیت کا بدلا ہوا چہرہ ہے تو اس کی فکر بھی ان میں نظر آئے گی، نتیجہ یہ ہوا کہ جو تشدد حجاز سے چلا تھا وہ ان میںبھی منتقل ہوا، ان کے نزدیک بھی مسلمان مشرک ٹھہرے، ان کے نزدیک بھی مزارات اولیا شرک کے اڈے قرار پائے، بانیِ وہابیت نے بہ زور طاقت مزارات صحابہ کو شہید کیا، ادھر بر صغیر میں وہابی فکر کی طالبانی تحریک نے پاکستان کے سرحدی علاقے میں اولیا کے مزارات پر تشدد کے ساتھ لوگوں کو روکنا شروع کیا، ان کو طاقت ملی تو کئی مزارات پر تالے بھی لگا دیے ۔ ابھی گزشتہ ماہ ممبئی میں اہل حدیث مولوی معراج ربانی نے خواجہ غریب نواز کی توہین کی، ماضی میں اجمیر شریف میں بم بلاسٹ ہوا ظاہر ہے جو مزارات صحابہ کو شرک کا اڈہ سمجھ کے توڑتے تھے وہ بھلا درِ خواجہ کو کب چھوڑتے؟ مزارات اولیا پر اس طرح بموں کے ذریعے حملہ کیااسی گروہ کا ہو سکتا ہے؟ جو تشدد پر یقین رکھتا ہے۔ یہ سوچنے اور غور کرنے والی بات ہے ۔ (ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comment:

  1. السلام علیکم!
    کیا یہ سب کتابیں پی ڈی ایف میں جائیں گی۔؟

    ReplyDelete

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...