Monday, 11 December 2017

ستون حنانہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

ستون حنانہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی واقعہ کو اپنے پیار بھرے اشعار میں بیان کیا ہے ۔ محترم قارئین کی آپ دلچسپی کے لیئے مع ترجمہ حاضر ہیں :

استنِ حنانہ در ہجرِ رسول
نالہ میزد ہمچو اربابِ عقول

(رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں کھجور کا ستون انسانوں کی طرح رو دیا۔)

درمیانِ مجلسِ وعظ آنچناں
کزوے آگاہ گشت ہم پیر و جواں

(وہ اس مجلسِ وعظ میں اس طرح رویا کہ تمام اہلِ مجلس اس پر مطلع ہوگئے۔)

در تحیر ماند اصحابِ رسول
کز چہ مے نالد ستوں با عرض و طول

(تمام صحابہ حیران ہوئے کہ یہ ستون کس سبب سے سرتاپا محوِ گریہ ہے۔)

گفت پیغمبر چہ خواہی اے ستوں
گفت جانم از فراقت گشت خوں

(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ستون تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا : میری جان آپ کے فراق میں خون ہوگئی ہے۔)

مسندت من بودم از من تاختی
بر سرِ منبر تو مسند ساختی

(پہلے تو میں آپ کی مسند تھا، آپ نے مجھ سے کنارہ کش ہوکر منبر کو مسند بنالیا۔)

پس رسولش گفت کای نیکو درخت
اے شدہ باسر تو ہمراز بخت

گرہمے خواہی ترا نخلے کنند
شرقی و غربی ز تو میوہ چنند

(آپ نے فرمایا : اے وہ درخت جس کے باطن میں خوش بختی ہے، اگر تو چاہے تو تجھ کو پھر ہری بھری کھجور بنا دیں حتی کہ مشرق و مغرب کے لوگ تیرا پھل کھائیں۔)

یا دراں عالم حقت سروے کند
تا ترو تازہ بمانی تا ابد

(یا اللہ تعالیٰ تجھے اگلے جہاں بہشت کا سرو بنا دے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تروتازہ رہے۔)

گفت آن خواہم کہ دائم شد بقاش
بشنو اے غافل کم از چوبے مباش

(اس نے عرض کیا : میں وہ بننا چاہتا ہوں جو ہمیشہ رہے۔ اے غافل! تو بھی بیدار ہو اور ایک خشک لکڑی سے پیچھے نہ رہ جا (یعنی جب ایک لکڑی دار البقاء کی طلب گار ہے تو انسان کو تو بطریقِ اولیٰ اس کی خواہش اور آرزو کرنی چاہئیے۔)

آں ستون را دفن کرد اندر زمین
تاچو مردم حشر گردد یومِ دیں

(اس ستون کو زمین میں دفن کردیا گیا، تاکہ قیامت کے دن اسے انسانوں کی طرح اٹھایا جائے ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...