Wednesday, 27 December 2017

اے انسان اپنے معاشرے کی تعمیر کر

اے انسان اپنے معاشرے کی تعمیر کر

اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہے ،اس کی تخلیق بہت ہی حسین، انوکھی اور بے مثال ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا فرمایا، پھر اس دنیا کو دلکش اور قدرت کا انمول شاہکار بنانے کی غرض سے رنگ برنگی چیزوں سے سجایا اور سنوارا ، جیسے یہ اونچے اونچے پہاڑ، گہرے اور ٹھاٹھیں مارتا سمندر، یہ نیلگوں آسمان ، یہ چمکتے دمکتے چاند و سورج اور ٹمٹماتے ستارے، پھر ان کا گردش کرنا اپنے اپنے مقررہ دائرے میں اور متعین وقت پر اور موسم کا بدلنا وغیرہ ۔ ان آفاقی نظام اور معجزاتی امور کو دیکھتے ہی ہر عقلمند رب ذو الجلال کی وحدانیت، مالکیت اور عظمت پر ایمان لے آتا ہے۔
انسان کی تخلیق اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کے تعلق سے درجنوں مقامات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے چند آیات ہی قلم بند کرتا ہوں۔
’’وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَائِ بَشَراً ۔‘‘ ( سورۂ فرقان،آیت: ۵۴)
یعنی اللہ نے پانی سے آدمی کو بنایا۔
’’یٰاَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّن ذَکَرٍ وَّ أُنْثٰی ۔‘‘(سورۂ حجرات ،آیت:۱۳)
یعنی اے لوگو! ہم نے تمھیںایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔
’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔‘‘(سورۂ تین ،آیت:۴)
یعنی بے شک ہم نے انسان کو اچھی صورت پر پیدا کیا۔
پھر رب کائنات نے ایک حیاتیاتی توازن (Biological Balance)اور قدرتی نظام کو برابر رکھنے کی غرض سے سارے حیوانات کو جوڑے کی شکل میں پیدا فرمایا، تاکہ صنفی کشش(Sexual attraction)جس کو اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے ہر جانور میں رکھ دی ہے وہ بحسن و خوبی ہر ایک میں بحال رہے اور اس میں کوئی صنفی انتشار (Sexual anarchy)نہ ہو، اسی حیاتیاتی نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :
’’وَمِن کُلِّ شَیْْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْْنِ ۔‘‘ (سورۂ ذریات،آیت:۴۹)
ترجمہ: اور ہم نے ہرچیز جوڑا پیدا کیا۔
’’ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً وَّمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجاً یَذْرَؤُکُمْ فِیْہِ۔‘‘(سورۂ شوری،آیت:۱۱)
یعنی اللہ نے تمھارے لیے تمھیں میں سے جوڑے بنائے اور جانوروں میں سے بھی جوڑے بنائے۔ اس سے تمھاری نسل پھیلاتا ہے۔

معاشرے کی تعمیر : انسانی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے اور مرد کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نوع انسان ہی میں سے ایک خوش رو،نازنین صفت اورباعث تسکین یعنی عورت کی تخلیق فرمائی،جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیاہے :
’’وَمِنْ آیَاتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً ۔‘‘(سورۂ روم، آیت:۲۱)
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
گویا اللہ تعالیٰ نے ایک معمولی قطرے پر اپنی رحمت کی برسات کی اور اسے مختلف مراحل سے گذار کر لعل و گوہر کی شکل دی، پھر اُسے مکمل وجود بخشا تب جا کر اس قطرے کو انسان جیسامعزز نام عطاہوا، جسے جنت کے عصفور(Sparrow of Heaven)بھی کہا جاتا ہے اورخالق کائنات نے اُسے اشرف المخلوقات کااعجاز بھی بخشا ،جیساکہ وہ فرماتاہے:
’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ۔‘‘(بنی اسرائیل،آیت :۷۰)
ترجمہ: بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی۔
اس طرح انسان کو رب ذو الجلال نے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا، اسے اپنی خلافت و نیابت بخشی، حکمت و دانائی عطا کی، فہم و ادراک سے مشرف کیا،ذہانت وذکاوت سے آراستہ کیااور حصول علم و فن کی صلاحیت بھی عطا کی، تاکہ مشاہدات و تجربات سے ہم جیسے انسان اپنی زندگی کو کامیاب و کامراں بنا سکیں،خالق کائنات کی حمد و ثنا کے ساتھ اس دنیا کو اور بھی خوبصورت، پر کشش اور حسین بنا سکیں ، خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال کر کے اپنی دینی و ملی اور سماجی و اخلاقی زندگی کو بھی بہترین و کامیاب بنا سکیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکیں اوراپنے سماج و معاشرے کی صحیح تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت بھی کر سکیں۔
یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے ایک ہاتھ میں حکمت و فلسفہ اور دوسرے ہاتھ میں سائنس و ٹکنالوجی ہونے کے ساتھ، ہمارے سروں پر دین اسلام کا تاج زریں ہوگا ،پھر ہم دنیا و آخرت دونوں کو سدھار سکتے ہیں اوراس طرح ہمیں اس دنیا میں بھی کامیابی اور عزت حاصل ہو گی اور آخرت میں بھی ،ان شاء اللہ الرحمن ۔
کیونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے اور جیسا عمل کریں گے ویسا ہی نتیجہ اور پھل ملے گا ۔ اگر ہم دنیا میں بھلا کریں گے اورنیک نیت کے ساتھ اچھے اعمال کریں گے توآخرت میں یقینا ہمارے ساتھ بھی بھلا ہوگا اور اگر ہم یہاں برا عمل کریں گے تو مرنے کے بعد بھی ہمارے ساتھ برا ہی ہوگا ۔
اس لیے آئیے ہم آج سے بلکہ ابھی سے یہ وعدہ کریں کہ ہم اپنے لیئے بھی اچھا اور بھلا کریں گے اور اپنے سماج ومعاشرے کے لیئے بھی اچھا اور بھلا کریں گے، اپنے دوستوں اور احباب کو نیک اعمال کرنے کی تلقین و تبلیغ کریں گے اورغیروں کو بھی نیکی و خیر خواہی اور بھلائی پر ابھاریں گے۔
اس لیئے کہ نیکی پر ابھارنے والے کو بھی نیک عمل کرنے والے کے برابر ہی ثواب ملتا ہے اوربھلائی کرنے والے کا اجربھی کبھی برباد نہیں ہوتا،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ۔‘‘(سورہ توبہ، آیت:۱۲۰)یعنی بے شک اللہ نیک اور بھلا کرنے والے کے اجر و ثواب کو ضائع نہیں فرماتا۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...