معنیٰ ختم نبوت اور اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا جواب
از افادات استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
نانوتوی صاحب کی تاویلات باطلہ : تحذیر الناس کے تینوں جملوں کو سیاق و سباق کے ساتھ نقل کرنے سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَالنَّبِیِّیْنَ کے معنیٰ میں تاویلات باطلہ کا اصل منشا کیا ہے؟ تو گزارش ہے کہ صاحب تحذیر نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ایک اثر کو پیشِ نظر رکھ کر آیت کریمہ کے معنیٰ میں غلط توجیہات کی ہیں وہ اثر حسب ذیل ہے۔
’’ان اللّٰہ خلق سبع ارضین فی کل ارض اٰدم کادمکم و نوح کنو حکم و ابراہیم کابراہیمکم وعیسٰی کعیسٰکم ونبی کنبیکم ۔
اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پر کلام : نانوتوی صاحب نے اس اثر کو صحیح مان کر ختم نبوۃ کے معنیٰ میں غلط تاویلات کیں حالانکہ اس کی صحت میں محدثین کا اختلاف ہے یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگرچہ بعض محدثین نے اس اثر کو صحیح الاسناد کہا ہے کما فی المستدرک للحاکم وغیرہ لیکن کسی روایت کا صحیح الاسناد ہونا اس کے صحیح ہونے کو مستلزم نہیں۔ دیکھئے تدریب الراوی شرح تقریب النواوی ص ۹۱ بلکہ خود مولانا عبد الحیٔ لکھنوی نے اپنی کتاب الرفع والتکمیل میں یہی بات کہی کہ صحیح الاسناد کے لئے صحیح ہونا ضروری نہیں اور محشی نے اس کی مثال دیتے ہوئے اسی اثر عبداللہ بن عباس کو پیش کیا۔ بعض محدثین نے اس کے کذب اور وضع کا بھی قول کیا ۔
صاحب تفسیر روح البیان لکھتے ہیں ۔ قال السخاوی فی المقاصد الحسنۃ حدیث الارضون سبع فی کل ارض من الخلق مثل مافی ہذہٖ حتی آدم کآدمکم وابراہیم کابراہیمکم ہو مجہول ان صح نقلہ عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما علٰی انہ اخذہ عن الاسرائیلیات ای اقاویل بنی اسرائیل مما ذکر فی التورات او اخذہٗ من علمائہم ومشائخہم کما فی شرح النخبۃ وذلک وامثالہ اذالم یخبربہ ویصح سندہ الٰی معصوم فہو مردود علٰی قائلہ: انتہی کلام المقاصد مع تفسیر الاسرائیلیات۔ روح البیان جلد ۱۰ صفحہ ۲۴ تا ۲۸ ۔
اور ملّا علی قاری تحریر کرتے ہیں ۔ قال ابن کثیر بعد عزوہٖ لابن جریر وہو مجہول ان صح نقلہ ای عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما انہ اخذہ عن الاسرائیلیات وذلک وامثالہ اذالم یصح سندہ الٰی معصوم فہو مردود علٰی قائلہ موضوعات کبیر ص ۱۹ ۔
اور علامہ الوسی صاحب تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں ۔ وذکر ابوحیان فی البحر نحوہ عن الحبر وقال ہذا حدیث لاشک فی وضعہ وہو من روایۃ الواقدی الکذاب (روح المعانی پ ۲۸ ص ۲۵ تا ۲۸)
اگر علامہ حافظ ابن کثیر کی نقل پر آپ کو بہت ناز ہے تو لیجئے اس کی حقیقت خود علامہ ابن کثیر کی تحریر سے ان کی کتاب ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں ملاحظہ فرمالیجئے۔ علامہ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں فرماتے ہیں ۔ وہٰکذا الاثر المروی عن ابن عباس انہ قال فی کل ارض من الخلق مثل مافی ہذہ حتّٰی اٰدم کا اٰدمکم وابراہیم کابراہیکم فہذا ذکرہٗ ابن جریر مختصرا و استقصاہ البیہقی فی الاسماء والصفات وہو مجہول ان صح نقلہ عنہ علی انہ اخذہ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما من الاسرائیلیات واللّٰہ اعلم(البدایہ والنہایہ ص ۲۱ جلد ۱)
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں بدگوئی : علامہ سخاوی کو آپ نے معاذ اللّٰہ بُرا بھلا کہا ہے محض اس لئے کہ انہوں نے نانوتوی صاحب کی بیخ کنی کی ہے، مگر ہم نے ثابت کردیا ہے کہ اس بیخ کنی میں امام سخاوی تنہا نہیں۔ صاحب روح البیان، صاحب روح المعانی، امام ابوحیان، حافظ ابن کثیر سب شامل ہیں۔ پھر ان سب کے حق میں وہی الفاظ استعمال کیجئے جو امام سخاوی کے حق میں استعمال کئے ہیں۔ امام بیہقی کی تصحیح کو تحذیر الناس کے پرستاران نے اصل بنیاد قرار دیا ہے لیکن آپ نے البدایہ والنہایہ میں علامہ ابن کثیر کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائی جس میں انہو ں نے واستقصاہ البیہقی فی الأسماء والصفات فرمانے کے باوجود فرمایا وہو مجہول اور بر تقدیر صحت ان صح نقلہ عنہ علٰی انہ اخذہ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما عن الاسرائیلیات واللّٰہ اعلم (البدایہ والنہایہ صفحہ ۲۱ جلد اوّل)
علامہ ابن کثیر کی اس تصریح کے بعد بیہقی کی تصحیح کی بنیاد بھی منہدم ہوگئی۔ وللّٰہ الحمد: اور ساتھ ہی صاحب تحذیر کا یہ دعویٰ بھی باطل ہوگیا کہ اثر ابن عباس حکماً مرفوع ہے اس لئے کہ وہ ایسی بات رسول اللہ ﷺ سے سنے بغیر اپنی عقل سے نہیں کہہ سکتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بغیر سنے ایسی بات عقل سے نہیں کہی جاسکتی لیکن یہ سننا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے علماء سے سننا پایۂ ثبوت تک پہنچ گیا جیسا کہ روح البیان علامہ سخاوی، ملا علی قاری، صاحب تفسیر روح المعانی، امام ابوحیان اور ابن کثیر کے حوالہ جات ہم نقل کرچکے ہیں۔ برتقدیر صحت نقل حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ اثر اسرائیلیات سے لے کر اس کی تائید و توثیق نہیں فرمائی نہ اس کو کسی اسلامی عقیدے کی بنیاد قرار دیا، ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ قیامت تک کوئی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ روایت رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔ نہ کوئی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ علماء بنی اسرائیل سے یہ روایت سن کر انہوں نے اس کی تائید و توثیق فرمائی ہو۔ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن کا جواب ان شاء اللہ قیامت تک نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں صاحب تحذیر یا کسی اور کا یہ دعویٰ کردینا کہ اثر حکماً مرفوع ہے۔ قطعاً باطل اور عبارات مذکورہ کی روشنی میں دروغ بے فروغ ہے۔
تحذیر الناس میں اثر ابن عباس کی تاویل باطل محض ہے ۔ اگر بفرض محال ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ واقعی اس روایت کا حکماً مرفوع ہونا ثابت ہے تو اس کی یہ تاویل کہ چھ خاتم چھ زمینوں میں پائے جاتے ہیں باطل محض ہے اس کی صحیح تاویل وہی ہے جسے ہم فیض الباری سے التبشیرمیں نقل کرچکے ہیں۔ دیکھئے فیض الباری میں انور شاہ صاحب کشمیری اس اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے تحت فرماتے ہیں۔
وقد ثبت عند الشرع وجود ات للشئ قبل وجودہٖ فی ہذا العالم وحینئذ یمکن لک ان تلتزم کون الشیٔ الواحد فی عوالم مختلفۃ بدون محذور ۔(فیض الباری جلد ۳ ص ۲۳۴)
یعنی شرع سے ثابت ہے کہ اس عالم میں آنے سے پہلے عوالم مختلفہ میں ایک شیٔ کے متعدد وجود ہیں جو ان عوالم مختلفہ میں پائے جاتے ہیں ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک ہی نبی کو مختلف جہانوں میں بغیر کسی محذور کے تسلیم کرلیا جائے ۔
برتقدیر تسلیم اثر مذکور کی صحیح تاویل : یعنی برتقدیر تسلیم اثر مذکور کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ تمہارے آدم و موسیٰ اور عیسیٰ اور ابراہیم اور محمد علیہم الصلوٰۃ والسلام ہی ان کے آدم و موسیٰ و عیسیٰ و ابراہیم و محمد علیہم الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں ۔ اس صورت میں کاف تشبیہ زائدہ ہوگا جیسے لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْئٌَ میں بعض نحاۃ نے کاف کو زائدہ قرار دیا ہے ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment