صحابہ رضی اللہ عنہم کس کے مقلد تھے ؟ کا جواب
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحابہ و تابعین ہمہ دریک مرتبہ نہ بوند بلکہ بعضے ایشاں مجتہد بودند و بعضے مقلد قال اللہ تعالٰی لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم (قرۃ العینین ص ٢٥١)
یعنی صحابہ اور تابعین سارے ایک درجہ اور مرتبہ کے نہ تھے بلکہ ان میں سے بعض مجتہد تھے اور بعض مقلد جیسا کہ خود اللہ تعالٰی فرماتے ہیں البتہ جان لیں گے ان میں سے لوگ جو استنباط و اجتہاد کر سکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا وہاں بہت سے مسائل آپ اجتہاد سے بتاتے تھے اور پورے یمن والے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی کرتے تھے، کسی شخص کا نام بھی نہیں بتایا جا سکتا جو غیرمقلد ہو اور اس نے تقلید کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی فتویٰ دینے سے پہلے فرمایا کرتے تھے کہ یہ فتویٰ میں اجتہاد ورائے سے دے رہا ہوں (جامع بیان العلم ص ٥١ج ٢) لوگ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے ان اجتہادی فتاویٰ پر عمل کرتے تھے، اسی کو تقلید کہتے ہیں، اور دور صدیقی میں ایک بھی غیرمقلد کا نام پیش نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود اپنے اجتہاد و ائے سے فتویٰ دیتے (میزان للشعرانی ص ٤٩ ج٢)
اور اپنے قاضیوں کو بھی یہی حکم بھیجتے کہ اجتہاد سے فیصلے کرو (جامع بیان العلم ص ٥٦ ج٢)
اس دور میں بھی کسی ایک غیرمقلد کا نام نہیں پیش کیا جا سکتا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت ہی اس شرط پر کی گئی کہ آپ سنت العمرین کی تقلید کریں گے (شرح فقہ اکبر ص٧٩)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی فرمایا کرتے تھے اجتہاد براْیی میں اپنی رائے اور اجتہاد سے فتویٰ دیتا ہوں۔
چناچہ خلفائے راشدین کے کئی فتاویٰ مصنف ابن شیبہ میں موجود ہیں جن میں نہ ان حضرات نے مسلہ کے ساتھ دلیل بیان فرمائی نہ عمل کرنے والوں نے دلیل کا مطالبہ کیا اسی کا نام تقلید ہے اور جس طرح پورے ٢٣ سالہ دورِ نبوت میں کسی ایک غیرمقلد کا نام بھی نہیں ملتا اسی طرح پورے تیس سالہ دورِ خلافت راشدہ میں کسی ایک بھی غیرمقلد کا نام کسی حدیث یا تفسیر یا تاریخ کی کتاب میں نہیں ملتا۔
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں تقلید تو اجماع صحابہ سے ثابت ہے کیونکہ وہ عوام کو فتوے دیتے (جن میں دلائل کا ذکر نہیں کرتے تھے) اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ خود درجئہ اجتہاد تک پونچیں، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات کے ثابت ہے (المستصفیٰ ص٣٨٥ج٢)۔
ضروریات ایسی یقینی باتوں کو کہتے ہیں جن کو خاص عام سب جانتے ہیں جیسے نمازوں کی فرضیت، ایسے ہی رمضان کے روزوں کی فرضیت، ایسے ہی تواتر سے صحابہ کے دور میں تقلید کا ثبوت ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں ثم انھم تفر قوافی البلادو صار کل واحد مقتدی نا حیۃ من النوی الخ۔
یعنی “پھر صحابہ مختلف شہروں میں پھیل گئے اور ان میں سے ہر ایک، ایک علاقہ کا مقتد بن گیا، یعنی ایک ایک علاقے کے لوگ ایک ہی صحابی کی تقلید شخصی کیا کرتے تھے۔حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ وہ صحابہ اپنے علاقہ والوں کو استنباط اور رائے سے فتوے دیا کرتے تھے۔(الانصاف ص٣)
مکہ مکرمہ والے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی کرتے تھے اور آپ کا فتویٰ دینے کا معمول یہ تھا کہ کتاب و سنت کے بعد حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال پر فتویٰ دیتے۔ اگر ان کے اقوال سے بھی مسلہ نہ ملتا تو قال فیہ (دارمی ص٥٩ ج١) مستدرک وقال الحاکم والذھبی صحیح ص ٣٤ ج١) السنن الکبری لبیہقی ص١٥٥ج١، جامع بیان العلم ص ٥٧ ج ٢)۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ہزاروں فتاوی مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکور ہیں جن میں آپ نے دلیل ذکر کی نہ لوگوں نے دلیل پوچھی۔
مدینہ منورہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اک فتوی چلتا تھا اور اہل مدینہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے کہہ دیا تھا لا نا خذ بقولک وندع قول زید (بخاری ص٢٣٧ ج١) لا نتابعک یا ابن عباس وانت تخالف زیداََ (عمدۃ القاری ص٤٧٧ج٤، نحوہ فتح الباری ص٤٦٣ج٣) آپ جب فتویٰ دیتے تو فرماتے انعا اقول براْیی (جامع بیان العلم ص٥٨ج٢)
اس وقت سے لے کر آج تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تقلید شخصی پر ہی عمل درآمد ہے۔
بصرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ چلتا تھا ان کے کئی فتاوی مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابنِ ابی شیبہ میں مذکور ہیں جن کے ساتھ دلیل مذکور نہیں اور اہل بصرہ بلا مطالبہ دلیل ان فتاویٰ پر عمل کرتے تھے اور ان کی تقلید شخصی کرتے تھے۔
حافظ ابنِ عبدالبر فرماتے ہیں لا خلاف بین فقھاء الامصارو سائر اہلسنت وھم اھل فقہ والحدیث فی نفی القیاس فی التوحید و اثباتہ فی احکام الا داؤد بن علی (جامع بیان العلم ٧٤ج٢)
یعنی داؤد بن علی ظاہری سے پہلے تمام شہروں میں تمام اہل سنت فقہاء اور محدثین میں کبھی اس میں اختلاف نہیں ہوا کہ توحید (عقائد) میں قیاس جائز نہیں اور احکام میں جائز ہے اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین پورے خیر القرون میں ایک شخص بھی اس کا منکر نہ تھا اور ایسے مسائل جو مجتہد قیاسی شرعی سے ثابت کرے ان کو ماننے کا نام ہی تقلید ہے تو خیر القرون میں تقلید میں کوئی اختلاف نہ تھا۔
دارالعلم کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ چلتا تھا آپ ادلہ اربعہ سے فتویٰ دیتے تھے (نسائی ص٢٦٤) اور اکثر مسائل میں فرماتے تھے اقول فیہ برایی (جامع بیان العلم ص٥٨ج٢)
یعنی میں رائے سے یہ قول بیان کرتا ہوں۔ آپ کے بہت سے فتاویٰ کتب حدیث میں منقول ہیں آپ اپنے قول کے ساتھ دلیل بیان نہیں فرماتے تھے اور تمام اہل کوفہ بلا مطالبہ دلیل ان اقوال پر عمل کرتے تھے اسی کا نام تقلید شخصی ہے۔
علامہ احمدیؒ فرماتے ہیں اما الا جماع فھوانہ لم تزل العامۃ فی زمن الصحابۃ و التابعین قبل المخالفین یستفتون المجتھدین ویتبعونھم فی الاحکام الشرعیۃ والعلماء منھم یبادرون الی اجابۃ سالھم من غیرا شارۃ الی ذکر الدلیل ولا ینھونھم عن ذلک من غیر نکیر فکان اجماعاََ علی جواز اتباع العامی للمجتھد مطلقا (الاحکام ص١٧١ج٣)
مسلہ تقلید پر امت کے اجماع کی دلیل یہ ہے کہ زمانہ صحابہ و تابعین سے لے کر مخالفین (داؤد ظاہری ؤغیرہ) کے ظہور تک لوگ مجتہھدین سے مسائل پوچھتے اور احکام شرعیہ میں ان کی تقلید کرتے اور علماء جوابات میں دلیل کا اشارہ تک نہ کرتے اور علماء و عوام کے اس طرز عمل پر کوئی انکار انکار نہ کرتا نہ روکتا پس ثابت ہوا کہ عہد صحابہ تابعین سے ہی اس پر اجماع ہے کہ عامی مجتہد کی تقلید کرے۔
دمشق، حضرت ابوالدرد رضی اللہ عنہ دمشق میں رہتے تھے جب فتویٰ دیتے تو فرماتے یہ میری رائے ہے (جامع بیان العلم ص٥٨ج٢) ان کے جو فتاویٰ اور اقوال کتب حدیث میں ملتے ہیں ان کے ساتھ دلیل کا کوئی ذکر نہیں لوگ بلا مطالبہ دلیل ان اقوال پر عمل کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ عہد صحابہ و تابعین کے دور کا حال بھی بعض مندرجہ بالا عبارتوں میں آگیا ہے تاہم مختصراََ مزید پڑھ لیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں فعند ذلک صار لکل عالم من علماء التابعین مذھب علی حیالہ فانتصب فی کل بلد امام (انصاف ص٦)
تابعین میں سے ہر عالم کا ایک ایک مذہب امام قائم ہو گیا یعنی ہر شہر والے اس اپنے ہی امام کے مذہب پر عمل کرتے تھے اسی اکا نام تقلید شخصی ہے۔
حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں اذا اختلفت مذاھب الصحابۃ و التابعین فی مسئلۃ فالمختار عند کل عالم مذھب اھل بلدہ ص٧)
یعنی جب صحابہ اور تابعین کے مذہب میں اختلاف ہوتا تو ہر عالم کے نزدیک اس کے اپنے شہر کا مذہب مختار قرار پایا اور اسی کا نام تقلید شخصی ہے۔
دور تابعین میں ہزاروں لوگ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لاتے۔ خلیفہ وقت سرکاری طور پر منادی کرواتا کہ لا یفتی الناس الا احد ھذین الا مامین عطاء بن ابی رباح و مجاھد (شذرات الذھب لابن العماد ص١٤٨ج١)
حضرت عطاء اور حضرت مجاہد کے ہزاروں فتاویٰ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہیں ان اقوال کے ساتھ کائی دلیل مذکور نہیں سب تابعین اور تبع تابعین بلا مطالبہ دلیل ان اقوال پر عمل کرتے تھے، نہ کوئی خلیفہ پر اعتراض کرتا کہ ایسی منادی خلیفہ کی طرف سے کیوں ہر سال کرائی جاتی ہے نہ حضرت عطاء اور حضرت مجاہد پر کوئی اعتراض کرتا کہ تم اپنے اقوال کے ساتھ دلیل بیان کیوں نہیں کرتے اور نہ ہی ان ہزاروں لوگوں کو کوئی اعتراض کرتا کہ تم بلا مطالبہ دلیل ان اقوال پر عمل کیوں کرتے ہو۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں فھذا کیف ینکرہ احد مع ان الا ستفتاء بین المسلمین من عھد النبی ﷺ ولا فرق بین ان یستفتی ھذا دائماََ ویستقتی ھذا حیناََ بعد ان یکون مجمعاََ علی ماذکرناہ (عقدالجید ص٣٩)
یعنی اس تقلید کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے جب کہ فتویٰ لینا مسلمانوں میں عہد نبویﷺ سے آج تک رائج ہے (اور فتاویٰ میں دلیل کا التزام نہیں کیا جاتا) اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ سارے فتوے ہمیشہ ایک ہی سے لے (جو تقلید شخصی ہے) یاکسی دوسرے سے بھی فتویٰ لے اور یہ فتویٰ لینا اور ان پر عمل کرنا امت میں اجماعاََ ثابت ہے۔
خلیفہ عبدالملک نے عطاء اور زہری سے اپنے زمانے کے ہر شہر کے عالم کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ :
١۔مکہ معظمہ میں عطا بن ابی رباح
٢۔ مدینہ میں نافع مولٰی ابنِ عمر رضی اللہ عنہ
٣۔ بصرہ میں حسن بصری
٤۔ کوفہ میں ابرحیم نخعی
٥ یمن میں طاؤس
٦۔یمامہ میں یحیی بن ابی کثیر
٧۔ شام میں مکحول
٨۔ عراق میں میمون بن مہران
٩۔ خراسان میں ضحاک
یہ ان شہروں کے فقہاء تھے (مناقب موقف ص٧ج١، معرفت علوم الحدیث ص١٩٨)
دیکھئے پوری اسلامی سلطنت میں دور تابعین میں ہر شہر کے لوگ اپنے شہر کے ایک ایک فقیہ کی تقلید شخصی کرتے تھے ایک تو مناقب موفق میں ان ائمہ کوفقیہ کہا گیا ہے اور کسی کے فقہی اقوال کو تسلیم کر لینا ہی تقلید ہے ،
دوسرے ان سب کے اقوال مصنف عبدالرزاق مصنف ابن شیبہ، کتاب الآثار وغیرہ میں درج ہیں، ان اقول کے ساتھ دلائل مذکور نہیں جس سے صاف معلوم ہوا کہ یہ فقہاء بلا مطالبہ دلیل ان اقوال پر عمل کرتے تھے اسی کا نام تقلیدِ شخصی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محث دہلوی شیخ عزالدین بن عبدالسالم سے نقل کرتے ہیں لان الناس لم یزالوامن زمن الصحابۃ رضی اللہ عنہ الٰی ان ظھرت ھذہ المذاھب الا ربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر انکارہ ولو کان ذلک باطلاََ لا نکروہ (عقد المجید ص٣٦)
سب لوگ زمانہ صحابہ سے مذہب اربعہ کے ظہور تک تقلید کرتے رہے اور کسی قابل اعتبار شخص نے اس (تقلید) کا انکار نہ کیا۔ اگر یہ تقلید باطل ہوتی تو صحابہ تابعین اس پر ضرور انکار کرتے۔ یہ عبارت نص ہے کہ مذاہب اربعہ سے پہلے بھی تقلید رہی اور کوئی منکر تقلید موجود نہ تھا۔
امام مزنیؒ فرماتے ہیں الفقہاء من عصر رسول اللہ ﷺ الی یومنا ھذا وھلم جرا استعملو المقائیس فی الفقہ فی جمیع الا حکام فی امر دینھم قال و اجمعو ان نظیر الحق حق و نظیر الباطل باطل (جامع بیان العلم ص٦٦ج٢) “تمام فقہاء آنحضرتﷺ کے زمانہ سے آج تک تمام احکام دینیہ میں قیاس کرتے آئے ہیں اور ان کا اجماع ہے کہ حق کی نظیر حق ہے اور باطل کی نظیر باطل ہے”
اور فقہاء کے فقہی اقوال پر عمل کرنے کا ہی نام تقلید ہے۔
امام مزؒنی فرماتے ہیں سب سے پہلا منکر قیاس ابرحیم نظام ہے اور پھر اس کی تقلید میں بعض معتزلہ نے بھی قیاس کا انکار کیا حالانکہ صحابہ تابعین اور تمام شہروں کے فقہاء قیاس کرتے تھے (اور غیر فقہاء ان کی تقلید کرتے رہے)
(فتح الباری قسطلانی عینی بخآری حاشیہ ٨٨۔١٠)
علامہ تفتازاؒنی فرماتے ہیں صحابہ سے قیاس کرنا وقت نہ ہونے نص کے تواتر سے ثابت ہے (تکویح تو ضیح ص٣٦٧)
امام نوویؒ داؤد ظاہری کے ترجمہ میں فرماتے ہیں قال امام الحرمین الذی ذھب الیہ اھل التحقیق ان منکری القیاس لا یعدون من علماء الا مۃ و حملۃ الشریعۃ لانھم معاندون مباھتون فیما ثبت استفاضۃََ و تواتر اََ لان معظم الشریعۃ صادر-ۃ عن الا جتھاد و لا تفی النصوص بعشر معشارھا و ھؤ لاء ملتحقون بالعوام (تھذیب الاسماء)
امام الحرمین فرماتے ہیں محقیقین کی تحقیق یہ ہے کہ منکرین قیاس کا شمار نہ علماء امت میں ہے نہ حاملین شریعت میں کیونکہ وہ معاند لوگ ہیں اور بہتان باندھنے والے ہیں اور جو چیز (قیاس کا حجت شرعی ہونا) تواتر کے ساتھ ثابت ہے اس کے منکر ہیں حالانکہ شریعت کے اکثر مسائل اجتہاد سے حل کئے گے ہیں اور صریح نصوص میں دسواں حصہ مسائل بھی نہیں ہیں اور یہ لوگ عوام میں شامل ہیں ۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے تقلید فقہاء اور مجتہدین کی عوام زمانہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم سے کرتے رہے ہیں اس کا انکار تواتر کا انکار ہے لیکن جس طرح صحابہ و تابعین کی جمع کی ہوئی مکمل حدیث کی کوئی کتاب آج دنیا میں موجود نہیں ہے ہاں بعد کے جن محدثین نے کتابیں جمع فرمائیں ان کا حوالہ ہی آج دیا جاتا ہے مثلاََ رواہ البخاری، رواہ مسلم آج کہا جاتا ہے ورنہ صحاح ستہ والوں سے پہلے کبھی کسی نے رواہ البخاری وغیرہ نہیں کہا تھا اسی طرح صحابہ و تابعین کی مکمل فقہ جو متواتر ہو وہ آج موجود نہیں ہے ہاں ائمہ اربعہ نے ان فتاویٰ کو اپنی فقہ میں لے لیا۔ اس لئے اب حوالہ میں قال ابو حنیفۃ قال الشافعی کہا جاتا ہے۔
نوٹ:مسائل فروعی بعض ایسے ہیں جن پر صحابہ کا اتفاق تھا ان میں ائمہ اربعہ کا بھی اتفاق ہے، اور بعض مسائل ایسے ہیں جن میں صحابہ میں اختلاف تھا ان اختلافات میں ائمہ اربعہ نے ایک ایک پہلو کو اختیار کر لیا ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment